منگل، 4 مئی، 2021

" سب کا اللہ بادشاہ "

" سب کا اللہ بادشاہ "
اپنے بچپن میں ہم نے اپنی والدہ سے جنھیں ہم " اماں جی " کہتی تھیں ،، سے روزانہ ایک کہانی سنتیں ۔ ہم تین بہنیں اور ایک بھائی تھے،ہمارے والد نے کہانیاں نہیں سنائیں ،، لیکن کتابوں کی لائن لگی رہی ، جس نے ہم بہن بھائی کا رحجان کتب بینی کی طرف لگا دیا ،،، البتہ والدہ ،، سے ایک کہانی سننا اور وہ بھی با معنی کہانیاں سنتے بچپن گزرا ،، لیکن سب سے بڑی بہن ، کی جب شادی ہوئی ، میں پانچ سال اور چھوٹی جوجی چار سال کی تھی ،، اور بھائی اس وقت تک کیڈٹ کالج حسن ابدال جا چکے تھے ،، اب یاد نہیں ، وہ دونوں بھی اسی شوق سے کہانیاں سنتے رہے تھے یا نہیں ،، ہم دونوں بہنیں ،، اپنی ماں کے دائیں ، بائیں لیٹتیں ، اور، کہانی سنائیں کی فرمائش ہوتی ،، کبھی کبھی کوئی نئی کہانی ہوتی لیکن ،،، زیادہ دفعہ دہرائی گئی کہانیاں مجھے یاد رہ گئیں ،،یہ بہت پرانی کہانیاں ، پرانے ہی انداز سے شروع ہوتی تھیں ،،،،
" ایک تھا بادشاہ ،،لیکن ہمارا ،تمہارا خدا بادشاہ "
ایک تھا بڑھئی ، ہم سب کا خدا بادشاہ "
گویا کہانی کے شروع میں ہی اللہ کا تصور اولینِ اول بن کر کانوں میں ڈالا جاتا ،،،، اور بچہ اس تصور کی پختگی کو دل میں سموتا رہتا ۔ ایک دفعہ اماں جی سے پوچھا آپ نے یہ کہانیاں پڑھی تھیں یا سنی تھیں ؟ کپنے لگیں ان کی دادی نے اسی طرح راتوں کو سونے سے پہلے کے وقت میں ہمیں کہانیاں سنائیں ، ہو سکتا ہے ان کی ماں یا دادی نے انھیں سنائی ہوں ، گویا سینہ با سینہ کہانیاں گردش میں رہتی ہیں ۔۔ پھر میَں نے اپنے بچوں ،،کو سنائیں ، اور اپنی اس عمر میں جب دادی ، نانی بن چکی ہوں ،، تو اپنے پوتے ، پوتی، نواسی ، نواسے کو سنائیں ۔۔۔ لیکن میں نے محسوس کیا ہے،،
1) کہانی اگر کہنے کا ذوق ہوتا ہے تو کہانی " سننے " کا بھی شوق ہوتا ہے ، اگر یہ شوق نہ ہو تو اول تو کہانی بھول جاتی ہے ،، یا ،، یہ محض ایک ہلکی سی یاد رہ جاتی ہے ،،
2) کہانیاں جو ہماری اماں جی نے سنائیں ،، وہ انھوں نے اپنے بڑوں سے نارمل انداز سے سنی ہوں گی ،،، لیکن اماں جی نے اپنی ذہانت کی وجہ سے ان کہانیوں میں ایک پیغام اور تربیت کا رنگ دے دیا ،، جو اپنی پختگی کی عمر میں محسوس ہوا ۔۔۔ تو ، مجھے بھی کچھ کہانیوں میں رنگ آمیزی کر کے اپنے بچوں کو سنانا اچھا لگا ،
3) کہانی انسانی محسوسات ، کی عکاسی کرتی بلکہ " بولتی " نظر آتی ہے ،،، یعنی کون سافرد کس قسم کی کہانیاں سنانا ،،، پسند کرتا ہے ،وہ ماحول کو کس حد تک بیان کرسکتا ہے کہ سننے والا ڈوب جاۓ ، کھو جاۓ ،، کہ اگر جنگل کی تفصیل تو اس کی ہیبت سے دل ڈرنے لگے ، اور اگر محل تو اس کی تفصیل سحر زدہ کر ڈالے ،،، تو ،،، میرا خیال ہے ایسی کہانیاں، یاد بھی رہ جاتی ہیں ، اور سننے والے کے اندر بھی تخلیقی مادہ نمو پانے لگتا ہے ۔
4) مجھے احساس ہے کہ اس کہانی میں کچھ ایسا بھی سسپینس نہیں تھا ، جسے لمبا کھینچا جاتا ،،، لیکن مجھے یہ بھی لگا کہ کبھی کبھی " بڑے " بھی ،،،،اور پھر،،،" بوڑھے " بھی ایسی بادشاہ ، ملکہ والی کہانیوں کو پسند کرتے ہیں ۔
(منیرہ قریشی ،4 مئی 2021ء واہ کینٹ)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں