پیر، 3 مئی، 2021

" سب کا خدا بادشاہ" ۔۔" میَں آ جاؤں " ( حصہ دوم)

" سب کا خدا بادشاہ"
" میَں آ جاؤں "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،( حصہ دوم)
" جیسے ہی شہزادی نے یہ جملہ کہا ،، یکدم چھت سے ایک کافی بڑا کچے گوشت کا ٹکڑا ،،، جس کے اندر ایک چھُرا گھونپا ہوا تھا،،، شہزادی کے پلنگ کے پاس آ کر گرا ،، فوری طور پر تو شہزادی چکرا گئی لیکن ،،،، اس کی دانا آیا نے اسے جس "ذہنی پختگی" سے پالا تھا ،، وہی تربیت کام آئی اور چند منٹ میں اس نے اللہ کا نام لیا اور چھُرے والا گوشت کا ٹکڑاکمرے سے ملحقہ چھوٹے لان میں پھینکنے چل پڑی ،،،، یہی وقت تھا کہ سامنے سے اس کا دُلہا شہزادہ کمرے تک پہنچ چکا تھا ،،، اس نے حیرت اور خوف سے یہ منظر دیکھا کہ ایک حسین و جمیل دلہن خون آلود گوشت کا ٹکڑا ہاتھوں میں لیۓ باہر نکل رہی ہے ،،، شہزادی نے بھی اسے دیکھا ،،، لیکن صورتِ حال اتنی عجیب تھی کہ چند لمحے بعد ہی شہزادہ واپس پلٹا ،، اور اپنے خاندان اور دوستوں کی طرف چلا گیا،،، اور کچھ اس انداز سے ضد کی کہ ابھی واپس اپنے وطن واپس چلیں ،،، حتیٰ کہ بہت پوچھنے پر بھی کچھ نہ بتایا ،،، اور صبح کاذب ہوتے ہی شاہی قافلہ بغیر دلہن کے واپس روانہ ہو گۓ ،،، دلہن کےگھر والے ، سہیلیاں اور بادشاہ یہ سمجھے کہ ان میں یہ بھی کوئی رسم ہے ، کہ ابھی دلہن ساتھ نہیں جاۓ گی ،،،، لیکن جب تک آیا ماں ،،، شہزادی کے کمرے میں آئی وہ گوشت پھینک کر خون آلود ہاتھوں کی دھلائی کی منتظر تھی ، اور چونکہ صرف اسی آیا ماں کو اس کے کمرے کی اجازت تھی وہی فورا" پہنچی ، چند لمحے نے اسے بہت کچھ سُجھا دیا ۔ اس نے شہزادی کے ہاتھ دھلاۓ اور اس سے سارا قصہ سنا ،،، اور آہ بھر کر چُپ ہو گئی ۔ شہزادی غم سے نڈھال تھی ،، آیا ماں ، نے اسے صرف اتنا کیا " خود کو سنبھالو ،،، اور سونے کی کوشش کرو ،،، کہ نیند اعصاب کو سکون دیتی اور ،، کسی نتیجے تک پہنچا ہی دیتی ہے " ،، صبح کا ہونا ،، اور بارات کا اچانک چلے جانا ،، سبھی درباریوں کے لیۓ افسردگی کا باعث تو تھا ہی ،،، لیکن بادشاہ اس غم میں بستر سے لگ گیا ، شہزادی کے لیۓ بھی دن میں چین ، نہ رات میں قرار ! اس نے اپنی آیا ماں سے پوچھا ، " یہ سب کیا تھا ، اور کیوں " ؟ آیا ماں نے جواب دیا " جب تم نے مجھے بتایا کہ چند دن سے ایک آواز تم سے آنے کی اجازت طلب کر رہی ہے تو ، پہلے یہ ہی سمجھی کہ تمہارا وہم ہو گا ،، پھر بھی آواز آتی رہی ،، تو مجھے اندازہ ہو گیا ،، تمہاری قسمت کا لکھا چکر ، آ کر رہنا ہے ،، بجاۓ اگلے گھر سے ، اور ملک سے نکالی جاتیں ،،، میں نے فیصلہ کیا ،جو ہونا ہے ابھی ہو جاۓ " اور یوں ایک ان ہونی ،، ہو کر رہی" ،،،، !
ادھر بادشاہ کی بیماری نے آس پاس کے دشمنوں کو موقع دے دیا کہ اب ریاست کمزور پڑ گئی ہے ،، یہ ہی موقع اچھا ہے اور ایک طاقتوردشمن حملہ آور ہوا ،،، اسی بھگ دھڑ میں شہزادی اور آیا ماں خفیہ راستے سے بھاگ نکلیں ۔ ساتھ دینے والے محافظین راستے میں ایک جنگل میں کھسک گۓ ،، یہ شہزادی کے لیۓ غم و دکھ کا طوفان تھا ،، لیکن پھر وہی اچھی اور برداشت والی تربیت کام آ رہی تھی ۔ لیکن چند دن مزید جنگل کے خوفناک سفر نے بوڑھی آیا ماں کو آخری دموں تک پہنچا دیا ۔ اور اس نے آخری سانس لیتے ہوۓ شہزادی سے کہا ،،، " تم ضرور سوچتی ہو گی ،، آیا ماں نے میری سہاگ رات کا بیڑہ غرق کر دیا ۔۔ لیکن بیٹی مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ تمہاری قسمت کا رولا آنا ہی آنا ہے ،،، میں نے سوچا ابھی یہ جوان اور طاقتور ہے ،، ہمت اور برداشت ہے ،، ہر غم انسان جوانی کے زور پر جھیل جاتا ہے ، اب دیکھو تمہیں ذہنی دکھ کے علاوہ ، جسمانی دکھ اور مشقت بھی سہنی پڑ گئی ،،، لیکن ایک بات یاد رکھنا ،،، بڑھاپے میں تکلیف اور غم سے پناہ مانگنا ،، یہ وقت گزر جاۓ گا ،، کیوں کہ ہر رات کی صبح ضرور ہوتی ہے ۔ میرا آخری وقت آ چکا ہے ،، تم جس نئی جگہ پہنچو گی ،، وہاں اپنی شناخت فی الحال چھپاۓ رکھنا ،، کیوں کہ تم اس وقت بغیر زمین کے ہو چھت ( وطن ) بھی نہیں ،۔ ایسا انسان اگر کچھ خود کو بڑا بتاۓ بھی ، تو اس پر کوئی یقین نہیں کرتا ۔ ،، مجھے دفنانے کے بجاۓ پتوں سے ہی ڈھانپ کر اپنی جان بچاؤ '' اور یہ وصیت کر کے آیا ماں آخری سانس لیا
۔ شہزادی کچھ دیر آنسو بہا کر اسے پتوں سے چھپا کر چل دی ،،، آخر کار چند دن مزید چلنے کے بعد آبادی کے آثار نظر آۓ ۔۔۔ لیکن اس وقت تک شہزادی کا رنگ روپ پھیکا پڑ چکا تھا ،، کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے ،، وہ بہ مشکل لوگون کے درمیان کچھ کھلی شاہراہوں کو پار کرتی چلی گئی ۔ چند راتیں مزید گلیوں اور غرباء کے محلے میں گزاریں ،، منہ مسلسل چھپاۓ ،، ایک دن بھوک سے نڈھال ،، ایک عورت سے کچھ کھانے کو مانگا ،، اس نے کہا ابھی تو میں یہ روٹی تمہیں دے رہی ہوں لیکن میِن جہاں کام کرنے جاتی ہوں میرے ساتھ چلو ، شاید کوئی کام مل جاۓ کیون کہ ہم بھی غریب لوگ ہیں ،، کسی کو فالتو کب تک کھلائیں گے ! " ،، شہزادی نے سوچا چلو کہیں سے عزت کی روٹی مل جاۓ ۔ اور یوں وہ ایک عالی شان گھر میں داخل ہوئیں ،،، اور وہ عورت اسے سیدھی مالکن کے پاس لے گئی ،،، کہ یہ کوئی کام ڈھونڈ رہی ہے میَں اسے آپ کے پاس لے آئی ہوں ،،، مالکن نے ایک نگاہء غلط ڈالی ،، برا حال اور کمزور سی لڑکی کو دیکھ کر کہا " اس وقت تو میرے ہاں سبھی کاموں کی ملازمائیں ہیں ،،، ہاں البتہ چھت پر کوّے بہت آتے ہیں ،، اسے کوّے اڑانے کی نوکری پر رکھ لو " ،،،، اور یوں شہزادی دو وقت کے کھانے پر کوّے اڑانے کے کام پر نوکر بن گئی ۔
اور ،،،، بارہ برس بیت گۓ ،، ایک دن اس چھوٹے سے محل کی منتظمہ خاتون نے اسے بلایا ۔۔۔ اور ماکن کی خدمت میں پیش کیا ۔۔۔ مالکن نے ایک نظر اس پر ڈالی ،، ایک سیاہ رنگت والی ، کمزور صحت والی لڑکی ،، جو کم ترین حال میں تھی ،،، کو دیکھ کر کہا ،،، " تیار کرو اسے بھی ،، دیکھتے ہیں ،، کہ میرے غصے کو شاید سمجھ جاۓ " ،
منتظمہ نے اسے اچھا لباس دیا ،اور کہا "، جاؤ نہا دھو کر اسے پہن کر آؤ ، پھر سارا قصہ بتائیں گے " ۔

( جاری)(3 مئی 2021ء ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں