اتوار، 2 مئی، 2021

" سب کا خدا بادشاہ " ۔۔" میں آ جاؤں " ( حصہ اول )

" سب کا خدا بادشاہ "
" میں آ جاؤں "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، ( حصہ اول )
ایک دفعہ کا ذکر ہے ،، ایک بادشاہ تھا ، اپنی ملکہ اور ایک بیٹی کے ساتھ خوش خرم زندگی گزار رہا تھا ، سلطنت مضبوط ، اور رعایا خوشحال تھی ،،، بادشاہ کے کوئی بڑے تفکرات نہ تھے کہ جو اسے فکرمند کرتے ،،، کہ اچانک ملکہ کو کچھ ایسی بیماری چمٹی کہ آناًفاناًموت کے منہ میں چلی گئی۔
اور بادشاہ پیاری ملکہ کی جدائی سے غم و الم کے سمندر میں ڈوب گیا ،، کچھ وقت بعد سنبھلا، اور خود کو معمولاتِ زندگی میں اتنا محو کر لیا ،، کہ جیسے ملکہ کے غم کو بھلانے کا یہ ہی طریقہ ہو شہزادی ابھی بچپن کے معصوم دور سے گزر رہی تھی ،، اسے ماں باپ کے پیار اور تربیت کی ضرورت تھی ،،، اور جیسا ہر بادشاہ کے محل میں روایت رہی ہے کہ ہر شہزادے ، شہزادی کے لیۓ الگ الگ ایسے استاد یا دانا " آیا " رکھے جاتے ،جو ان کے آدابِ زندگی اور معمولاتِ زندگی اور تربیتِ خاص کا خیال رکھتے ۔ یہاں بھی شہزادی کے لیۓ ایک دانا ، اور فہیم " آیا " کو مقرر کیا ہوا تھا ،،، لہٰذا بادشاہ بیٹی کی طرف سے بھی بے نیاز رہنے لگا،،، عقلمند اور پختہ عمر آیا نے اپنی فراست کے مطابق ، شہزادی کو دینی ، دنیاوی اور کچھ روحانی تعلیم و تربیت دینے کا اہتمام کیۓ رکھا ،،، اور یوں ،،، شہزادی کی نوجوانی کی اُٹھان تک پہنچتے پہنچتے اس کی خوبصورتی اور خوب سیرتی کی شہرت ایسی پھیلی کہ آس پاس کی مملکتوں کے بہادر شہزادے ، اسے زندگی کا ساتھی بنانے کے لیۓ پیش پیش ہونے لگے ،،، بادشاہ جو خود کو ملک کے کاموں کے علاوہ ، باقی وقت اللہ کی یاد میں بسر کرتا ،،، کو ایک شہزادے میں وہ گن نظر آۓ ،جو اس کی بیٹی کے لیۓ بہتر تھا ،، اور یوں شہزادی کی شادی وہاں طے پا گئی ۔
جیسا کہ اس دور میں عام رواج تھا ،،، کہ بارات کو ایک رات یا چند راتوں تک ٹھہرایا جاتا ،،، خوب خاطر ، مدارات کی جاتی ،، تب دُلہن کی رخصتی ہوتی ،، یہاں بھی ایسا ہی ہوا ۔ شہزادی کی آیا ،، اب عمر رسیدہ ہو چکی تھی ، لیکن بہت مطمئن ، کہ اس نے فرض شناسی اور کامل فراست سے اپنا فرض نبھایا ہے ، اور یقینا" شہزادی بھی اُسی تحمل اور فراست سے اگلی زندگی کا آغاز کرے گی ۔ شادی کی تمام رسومات شاہانہ انداز سے ہو رہی تھیں۔ ابھی اس کی مہندی وغیرہ کی رسم ختم ہوئی ،،، جب رات کو " آیا " اپنی لاڈلی شہزادی کے کمرے میں ، شب بخیر کہنے آئی تو شہزادی نے اپنی ماں جیسی آیا کا ہاتھ پکڑ کر کہا " کل رات جب میں اکیلی اپنے کمرے میں تھی تو مجھے آواز آئی " میَں آؤں ؟ " ،،،، تو میں نے کہا ،، " میں پوچھ کر بتاؤں گی "!،،،،، اب اگر آج بھی وہ آواز آئی تو ؟؟ اور یہ کیا آواز ہے ، ؟؟ شہزادی پریشان تھی ،،، آیا نے تسلی دی ،، بیٹی تمہارا وہم بھی ہو سکتا ہے ،، ماں باپ کے گھر کو چھوڑنے والی ہو ،،، کوئی خواب نہ دیکھا ہو" ۔۔۔ وغیرہ ، اور یوں شہزادی چُپ ہو گئی ،،،،
اگلی رات شادی کی مزید رسومات کے بعد جب آیا شہزادی کو شب بخیر کہنے آئی ،،، تو شہزادی نے آیا کو آگاہ کیا کہ ، گذشتہ رات کے پہلے پہر مجھے وہی آواز آئی تھی " میَں آؤں " ،،،،، میں نے یہی جواب دیا ، " ابھی نہیں کل بتاؤں گی " ،،،،، اور دانا، بینا آیا سمجھ گئی اور کہنے لگی ،،، " اب آواز آئی تو کہنا " اللہ کے حکم سے آتی ہو تو آجاؤ " !!!! اور اب یہ رات شہزادی کے دلہن بن کر رخصتی کی رات تھی ،، جو محل کے ہی ایک کمرے کو شایانِ شان سجا کر تیار کیا گیا تھا،،،، شہزادہ بھی دوستوں ، رشتہ داروں میں مصروف تھا ،، لیکن رات کا پہلا پہر آچکا تھا ،،، شہزادی ، اپنے دولہا کی منتظر تھی ،،، کہ آواز آئی " میَں آ جاؤں ؟؟" ،،، شہزادی نے آیا کے کہنے کے مطابق جواب دیا " اللہ کے حکم سے آئی ہو تو آ جاؤ "،،،

( جاری ) ( 2 مئی 2021ء ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں