جمعرات، 24 دسمبر، 2020

' پنجرے'

" اَک پرِ خیال "
' پنجرے'
،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کتنے خوبصورت پنجرے ہیں ، لائن سے دھرے ،،، کوئی ہلکے نیلے ، کوئی لیمن رنگ کے ،، ذیادہ سفید رنگ میں ڈھلے ،،، کچھ زنگال رنگ کے بھی ہیں ،، کچھ کے باہر ہلکا سبز رنگ عجب بہار دے رہا ہے ،،،، ان سب پنجروں کے سائز کچھ چھوٹے کچھ بڑے ہیں ۔ اور ان کے داخلی در کچھ چھوٹے ، کچھ کے اونچے بھی ہیں !
اندرکی رہائشی مخلوق میں کچھ پُرسکون ،، کچھ بےچین ہے ، نہ جانے کیوں ،،، کچھ کے انداز میں بےحسّی ہے ،، اور کچھ بےبسی میں ڈوب چلے ہیں ۔۔ نہ جانے کیوں ،،،،!
کبھی کسی پنجرے سے آہ وفغاں کی لہریں اُٹھتی ہیں کہ جیسے کسی کی جدائی کا نوحہ پڑھا جا رہا ہو !!!
اور کبھی کسی پنجرے سے بےآواز آنسو ،،، دلوں پر گر رہے ہوتے ہیں ،،کیسے عجیب پنجرے ہیں ، خوبصورت ، خوش کن ، آسودہ ، آرائشی ،، لیکن ہر پنجرے کے گِرد عجیب سی سیاہی کا ہالہ ہے ،،، یہ کیسا ہالہ ہے کہ چاہے چھوٹے سے چھوٹا پنجرہ ہے یا بڑے سے بڑا ،،، سبھی ایسے سیاہ ہیولے میں ملفوف نظر آ رہے ہیں ۔۔ اور ان کے اندر کی مخلوق کو ہولا رہے ہیں!!،،،، اور جب بھی کسی پنجرے سے کوئی " پنجر " ،،، اپنا پنجرہ چھوڑ کر اُڑ جاتا ہے ، تو باقی ساتھ رہنے والے کیسے اجنبی ہو ، ہو جاتے ہیں ۔۔۔ آہ یہ خوبصورت پنجرے ،،، آہ کتنے ذوق و شوق سے بنائے ، خوب آرائش و آسائش لیۓ پنجرے ،،، کیسے خودساختہ ، خود قبولیت کے قید خانوں میں بدل گۓ ہیں ۔ یہ اکیسویں صدی نے زمین کے مکین کو کیسے اِک نیا ، لیکن تکلیف دہ طرزِ رہن سہن سکھایا ہے ۔
آہ ،، خوب بڑے پنجروں کے مکین ہاتھوں میں مال ودولت پکڑے ڈھونڈتے پھرتے ہیں ،، وہ خطۂ زمین جہاں ان کو آزاد فضائیں مل جائیں ، آزادانہ ملنا ملانا ہو ،، جہاں چہرے دیکھے بھالے ہوں ، کہ یہ میرے ہی جیسا ہے ،، یا کوئی اور مخلوق ،،،،، جہاں کا خطہ خوف و وہشت سے آذاد ہو !!! پنجر اپنے اپنے حصوں کی خود ہی تجویزکردہ قید کے شیڈول میں قید ہیں ،،، ہم پرندوں اور جانوروں کی ،،، اور ،،، انسانی قید کا احساس اب تو ہو گیا ہو گا ۔ شاید یہ آزمائش " احساسات " کے مرتے لیول میں جان ڈالنے کے لیۓ ہی بھیجی گئی ہو ، شاید یہ ان خوبصورت پنجروں کی محبت سے آزادی کا کوئی گُر ہو ۔ شاید ،،، شاید ،، شاید !!!

( منیرہ قریشی 24 دسمبر 2020ء واہ کینٹ )( کورونا وباء کے تناظر میں لکھی تحریر ۔) 

جمعہ، 27 نومبر، 2020

' معیارِ محبت'

اِک پرِ خیال

' معیارِ محبت'

۔" ماں کی گود سے قریباً دس بارہ سال کی عمر تک،والدین ، بہن بھائی پسندیدہ ترین لوگ،چند کھلونے اور ایک دو " لباس" پسندیدہ ترین چیزیں رہتی ہیں ۔ اور اسی دوران خوف اور بےہمتی کی لمبی لِسٹ بنتی بگڑتی رہتی ہے ۔ اور نہایت آہستگی سے وہ طولانی ، طوفانی دور شروع ہو جاتا ہے جو پندرہ تا پینتیس کی عمر تک ضرور چلتا چلا جاتا ہے ،،یہی دور خود سے محبت کا عجب جوار بھاٹا لیۓ ہوتا ہے ۔ صبح سویرے سے رات گئے تک ایک ہی " سُر " نکلتا ہے ،،،، " میَں ، میَں ، اور بس میَں" ۔ اور اس کے ساتھ ہی باقی محبتیں کمزور پڑ نے لگتی ہیں ، جبکہ چند نفر تیں یا تو شدید ہو جاتی ہیں یا ،، معدوم !!! اور یہی دو جذبے نمایاں طور پر ارد گرد گھومتے چلے جاتے ہیں۔

یکدم نئے رشتے جب مکمل توجہ کے کڑے حصار میں لے آتے ہیں تو کتنے ہی سال انہی محبتوں ، کی خوبصورت دمکتی ہتھکڑیاں کیسے خوشی سے پہنے پہنے سب کے سامنے جاتے ہیں ،، دکھاتے ہیں کہ لو بھئ ہم ہیں کامیاب لوگ ۔ تب ایسے میں یکدم واٹر کلر سے لکھے لفظ " محبت " پر ایک ہی بےاعتنائی کا قطرہ گرتا ہے ، اور لفظ محبت عجیب بےہیت روپ اختیار کر جاتا ہے ،،، وہ لفظ ، محبت اور میَں سے بدل کر " تُو ، تُم اور صرف وہ " ،،،، کی تکرار میں بدل جاتا ہے ۔ اور " وہی " اپنی تخلیق کو کچھ نئے نکتے سُجھاتا چلا جاتا ہے کہ نفی کرلو ، اور اثبات کی چادر اوڑھ لو ۔ کہ یہی اصل حلیہ ہے۔

اور پھر ہمت کی دیوار اونچی سے اونچی ہوتی چلی جاتی ہے ، نفرتیں معدوم اور خوف محدود ہوتا چلا جاتا ہے ۔ نہ جانے پُلوں تلے کتنا پانی گزر گیا ہوتا ہے کہ ،،، نمکین پانی والی دوات سے پلکوں کے قلم نئی تحریریں لکھتے چلے جاتے ہیں ، تب محبتیں ، نفرتیں ، ہمتیں ،، اور خوف نئے روپ دھار لیتے ہیں ، تفکرات بےمعنی ہو جاتے ہیں اور بےنیازی کا دریا،دعوتِ تیراکی دیتا ہے،،معیارِمحبت،،کتنی محبت سے بدلایا جاتا ہے،،،!شکریہ اے مالک۔


منگل، 20 اکتوبر، 2020

" تھکن "

" اک پَرِ خیال"
" تھکن "
بچہ ابھی پنگھوڑے میں ہی ہوتا ہے کہ اس کی تھکن اور صحت کے خیال سے مائیں اس کی مالش کرتی ہیں ۔ بتدریج بڑا ہونے تک یہ ہی سلسلہ جاری رہتا ہے ۔جیسے جیسے بچے کی مصروفیات بڑھتی جاتی ہیں ،، اس کی جسمانی اور ذہنی قلابازیاں اسے فرق قسم کی' تھکن ' کے احساس سے دوچار کرتی چلی جاتی ہیں ۔یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا ہے ،،،اور بچہ اب سکول یا کالج ، یا یونیورسٹی کا وہ جوان بن چکا ہوتا ہے ،، جس میں توانائی ، جرآت ، اور ہمت کا جواربھاٹا موجود ہوتا ہے ،، زندگی کے سبھی راستے 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طے کیۓ جا رہے ہوتے ہیں ،،، لیکن اِس دور میں بھی تھکن کا احساس غیرمحسوس انداز سے اعصاب کو متاثر کرتا چلا جاتا ہے ۔ جسے جوانی کا جوشیلا خون کوئی اہمیت نہیں دیتا ،،،، تب پھر غمِ جاناں اور غمِ روزگار کا انوکھا راؤنڈ شروع ہوتا ہے ،،، زندگی کی آرزوئیں ، مطالبات اور مختلف ٹارگٹ ،، 100 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑاتے ہوئے ، ریٹائرمنٹ کی عمر تک پہنچا کر دم لیتے ہیں ۔ اور آخر میں آرم چیئر پر بیٹھ کر چاۓ پیتے ہوۓ ، اخبار پر نظریں جماۓ پُرسکون ، بےفکر بڑھاپا ،، کسی کسی کی " پِچ " پر میچ کو جتاتا ہے ،اور انھیں تھکن کا احساس بھی خوشگوار لگتا ہے ،،،، زیادہ تر لوگ زندگی کے اس میچ میں اپنی آخری اننگ بغیر ہار جیت حاصل کیۓ ، چلے جاتے ہیں اور بہت سے جیت بھی جائیں تو تب تک اتنے تھک چکے ہوتے ہیں کہ جیت کا لطف لینا تو کُجا ،،، انھیں پھر یاد ہی نہیں آتا کہ " ہم کیا کھیل رہے تھے ، اور کھیلے تھے تو کس کے ساتھ "،،،،،،، وہ بس چہرے پر جھریاں سجائے ،، ہونٹوں کے کونے ڈھلکائے ،، پپوٹے آنکھوں پر جھکائے ،، ایک بےتائثر چہرہ لیۓ زندگی کے آخری ' اوور' کو گزار رہے ہوتے ہیں ،، تھکن نے انھیں وہ تھکن دے دی ہوتی ہے کہ وہ اس جملے کی تصویر بن جاتے ہیں "بس میں بہت تھک چکا / چکی ہوں!
شاید تھکن کو روح کی پیدائش کے ساتھ ہی تخلیق کر لیا گیا تھا ، اسی لیۓ روح نکلتی ہے تو تھکن بھی اسی کے ساتھ روانہ ہو تی ہے ۔ وَاللہُ العلم !!

( منیرہ قریشی 20 اکتوبر 2020ء واہ کینٹ ) 

پیر، 28 ستمبر، 2020

" اِکتارا"

" اِک پَرِ خیال "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
" اِکتارا"
سُر اور سوز ، ہمیشہ انسانی روح کے لیۓ " ٹھٹک" جانے کا سبب بنتے رہتے ہیں ۔ لیلُ و نہار کڑی محنت سے گزارنے والا ہے ،،،یا ،،عیش کے خُمار میں ڈوبا شخص ، اگر ہوا کے دوش پر کوئی پُرسوز سُریلی آواز کان سے ٹکرائی ،،، تو لمحے بھر کے لیے یا چند منٹ کے لیۓ وہ سراپا کان بن جاتا ہے ،،، دل کی دھڑکنیں کچھ دیر کے لیے مست انداز سے چلتی ہیں ،،، اور بس ،، !!!
دراصل اس لمحے انسان کی روح اُسے " قانونِ فطرت " کی وہ شِق یاد دلاتی ہے ،،کہ ،،،،،" پُرسوز سُر میں ڈھلی آواز گلے میں محفوظ کرنے والی ایک ذات ہے اُس کا قُرب حاصل تو کر کے دیکھو،، مزید ہزار ہا لہروں کے ترنگ ، و رنگ سے آگاہی پا لو گے"
شاید 30 سال قبل ، حضرت بہاؤالدین ذکریاؒ کے مزار پر جانا ہوا ،، بڑے سے، داخلی حصے سے داخل ہوئی تو کچھ منگتے آس پاس بیٹھے تھے لیکن ایک سائڈ میں گہرا سانولا ، دُبلا، مفلوک الحال سا اٹھائیس ، انتیس سالہ
نوجوان آگے رکھے ہارمونیم کی ہلکی آواز سے اپنی بلند ، لیکن پُرسوز آواز میں سرائیکی زبان میں صوفیانہ کلام گا رہا تھا ،، اندر داخلے سے پہلے ہی ٹھٹک گئی ، اور چند لمحے اسے دیکھا ، سُنا ،،، چند روپے اس کے ہارمونیم پر رکھے ،،، اس کی آنکھیں بند تھیں یا کسی لمحے نیم وا ہوتی ہیں ،، پھر جیسے اپنی ہی آواز کے سُر اور لَے میں ڈوبا ،، آنکھیں بند کر کے مست ہو کر گا رہا تھا ،،، مزار میں داخل ہو کر فاتحہ پڑھ کر واپس پھر قدم اس کی آواز کے ردھم نے روک لیۓ ،، وہ اسی مستی کے ساتھ سُر اور سوز میں ڈوب اور اُبھر رہا تھا ،، بے اختیار چند روپے پھر اس کے ہارمونیم پر رکھ دیۓ۔
ابھی اس نے پہلے کے روپے بھی نہیں اُٹھائے تھے ۔ بند آنکھوں سے ہی اس کی ہلکی سی مسکراہٹ محسوس ہوئی ، ،، اور میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔
30 سال کا وقفہ ہوا ،، لندن کے ٹیوب سٹیشن سے ٹرین پکڑنا تھی ، سٹیشن میں داخل ہوتے ہی ایک پِلر سے ٹیک لگائے ، 28/ 29 سالہ جوان ، قدرِ سانولا ، اور کچھ نیگرو خدوخال ، موٹے شیشوں کی عینک ، لمبے بالوں جینز شرٹ اور جینز کی کوٹی پہنے ،،، آنکھیں بند کیۓ ایسا بلند آہنگ کا پُر سوز سُر بکھیر رہا تھا کہ سارا سٹیشن ، بغیر مائک کے ہی گونج رہا تھا ،،، لیکن یہ گونج سوز کے تال سے اس سُر سے مل رہی تھی،،کہ میرے قدم رُک گۓ، اس نے اپنے گٹار کی آواز کو بہت مدھم رکھا ہوا تھا ،،، یہاں غیر ملکی زبان گائی جا رہی تھی ،، جس سے میَں ناواقف تھی ۔ گائک اتنے مست انداز سے گا رہا تھا ،، جیسے اپنے ہی ردھم سے لطف اندوز ہو رہا ہو ،، اس کی آنکھیں بند تھیں ، وہ بھی ملتان کے مست گلو کار کی طرح زمین پر بیٹھا اپنی ذات کے ردھم میں جھولے لیتا محسوس ہوا ۔ لندن کے اس گائک کے سامنے پڑے ہیٹ میں ایک پونڈ ڈالا ،، مزید چند منٹ کھڑی رہی ،،، اس نے نیم وا انکھوں سے شکریہ کی ہلکی سی مسکراہٹ دی ۔ اور پھر آنکھیں بند کر لیں ، اور میری آنکھیں نم ہو گئیں ۔،،
کائنات میں سُر شاید اس کی پیدائش سے ہی رواں دواں ہیں ۔ سوزِ سُر جب بھی کوئی بکھیرتا ہے ،، فاصلے ، سمتیں ، زبانیں ، جگہیں ،، بے معنی ہو جاتی ہیں ۔ سُر کی یہ لہریں کس قدر پُر اثر ہوتی ہیں ،، کہ " دل کے تار ،، " اِکتارا" بن کر سُر بکھیرتے ہیں تو پاؤں پکڑ لیتے ہیں ،،، اور اس کی لَے پر مست ہو کر ناچنے کو دل چاہتا ہے ۔ اب سمجھ آیا شمسِ تبریؒز نے رومیؒ کو رقصِ درویش کی طرف کیوں متوجہ کیا۔

( منیرہ قریشی 28 ستمبر 2020ء واہ کینٹ ) 

جمعہ، 14 اگست، 2020

"اے میرے وطنِ خاص"

۔" 14 اگست 2020ء"۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اے میرے وطنِ خاص
تیرے لیے ہجرت کرتے نفُوس
تیری راہ میں شہادت کے پھول چُنتے نفُوس
خونِ غیرت سےتیری راکھی کرتے ،،،،۔
سرحدوں پرپرچمِ پاک کا نشاں لگاتے نفُوس
ہم آج اُن کی بھی یاد منا رہے ہیں !!۔
آنسوؤں سے سجے تشکر کے پھُول
ہماری طرف سے ہوں قبول !!!۔
(۔14 اگست 2020ء کے یومِ آزادی پر )
( منیرہ قریشی ، واہ کینٹ )

منگل، 7 جولائی، 2020

" ہائیکو ۔۔۔۔ رات "

٭۔۔۔ جب" رات " کو
میَں نے کھڑکی سے جھانکا
تو اندھیرے نے مجھے ڈرا دیا !!۔
٭٭٭٭٭٭
٭۔۔۔رات میں
درخت یوں سہمے کھڑے ہیں
جیسے اندھیرے سے ڈر رہے ہوں
٭٭٭٭٭٭
٭۔۔۔رات نے
چُپکے سے آکر میری آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے
اور اٹکے آنسوؤں سے اسکے ہاتھ بھیگ گئے!۔
٭٭٭٭٭٭
( منیرہ قریشی 7 جولائی 2020ء واہ کینٹ )

پیر، 6 جولائی، 2020

" لمحۂ خیال "

۔" لمحۂ خیال ( 1)۔
٭جب زندگی میں آپ کبھی برائی  یا رویوں  کی گراوٹ کا شکار ہو جائیں،اور اس کھائی میں لڑھکتے چلے جا رہے ہوں،،، کوئی منع کرنے والا نہیں،کوئی روکنے والا نہیں۔۔۔بس اتنا کریں کہ لمحے بھر کو رُک جائیں،،جہاں ہیں وہیں بیٹھ جائیں،،اب اِس جگہ ، اس گھڑی سےمزید " سطحی اخلاق " کے رویےپر جم نہ جائیں ،،،مزیدکوئی  جملہ کہہ کر جوابی وار نہ کریں ،، رُک جائیں۔ایسا نہ ہوکہ لڑھکتے چلےجائیں اور ابھی تو ڈھلان کی طرف لڑھکتے ہوئے،،،کچھ تو بیٹھنے، سانس لینے کی جگہ ہے ،،، لیکن اگر یہاں اس وقت نہ رُکے،،، تو پھر آگے کھائی ہے اور وہاں کہے گئے گھٹیا جملوں کی کھائی میں ، ہم خود چُورا چُور پڑے ہوں گے!!! کیوں کہ جواباً کچھ کہنا آسان ہے ،،، لیکن کچھ نہ کہنا معراج ہے ۔
پسِ تحریر۔۔۔
 یہ دانشمندی کی باتیں شاید نہ ہوں ،، البتہ زندگی کے وہ تجربات  ضرور ہیں  جو ہم ایسے ہی جملوں سے ترتیب دے ڈالتے ہیں ،،اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نتیجہ بھی سامنے آتا ہے تو ہم " ٹھاکر " بنتے چلے جاتے ہیں !! کہ شاید کوئی ہماری تجویز سے فائدہ اُٹھا لے ۔ ایک فریق وہ ہوتا ہے ، جو ٹھوکر کھا کر جلد  ہی سمجھ   اور سنبھل جاتا ہے جبکہ وہیں دوسرا فریق ہوتا ہے جو " مجھ سے کچھ غلط نہیں ہوسکتا" کا رویہ اپناۓ رکھنے میں زندگی گزار دیتا ہے ۔ اللہ ہمیں فراست سے بہرہ مند فرماتا رہے۔آمین !۔
( منیرہ قریشی ،، 5 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال" (2)۔
٭"جب بھی کسی سے اختلافِ راۓ ہو ، اور اُسے جوابی جملے بہ آسانی سناۓ جا سکتے ہوں ،،، تو لمحے بھر کو رُک کر یہ ضرور سوچ لیں کہ اگلے پانچ یا دس سال بعد یہی جملے آپ کو خود کوئی اور سُنا رہا ہو گا ،،، تو دل کی کیا کیفیت ہو گی ؟؟؟؟کیوں کہ جس طرح محبت کے بدلے محبت مل ہی جاتی ہے تو دل آزار جملوں کی بھی کبھی نہ کبھی باری آ ہی جاتی ہے "۔
( منیرہ قریشی 6 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال " (3)۔
امیر خُسروؒ نے مُرشدؒ کی نعلین 7 لاکھ چیتل ( اُس وقت کا سِکّہ) میں خرید لی تھی ، اللہ کی محبت تک لے جانے والے "رہنما"سے شاندار اظہارِ عقیدت ،،،،،۔
لیکن عام عوام بھی خوش قسمت ہیں کہ جیب خالی ہی سہی ،زبان اور دل، اُس کے وِرد سے اظہارِمحبت کر تے رہتے ہیں! (باعثِ اطمینان ، باعثِ اطمینان )۔
( منیرہ قریشی ، 8 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال" (4)۔
کئی دفعہ دل کا برتن سکون اور شکرگزاری سے اتنا لبالب بھرا ہوا ہوتا ہے کہ اب ایک قطرے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی ،،،،، لیکن پھر پتہ نہیں کیسے ،، اس میں سے بےچینی اور بےسکونی چھلکنے لگتی ہے ۔ اور لبریز برتن دیکھتے ہی دیکھتے آدھا ہو جاتا ہے ،، نہ جانے کیوں ؟! شاید فطرتِ انسانی !! شاید تلاشِ اَصل !!!!۔
( منیرہ قریشی 9 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔
۔"لمحۂ خیال" (5)۔
۔'' زندگی میں کچھ لوگ ہمارے لیۓ ہمارا ٹسٹ ہوتے ہیں ،،،، لیکن !لمحے بھر کے لیۓ سوچیئے ،،،،،کہیں ہم اُن کے لیۓ            تو "   ٹسٹ" نہیں بن رہے !!۔
( منیرہ قریشی 11 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال ( 6)۔
۔" عجمی سے عربی کی الہامی آیات و الفاظ کی ادائیگی میں کچھ کمزوری ہو بھی جاۓ ،،،تب بھی اخلاص و محبت کے گراف سےپاسنگ مارکس لے ہی لے گا " ( ان شا اللہ )۔
( منیرہ قریشی 12 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔
۔" لمحۂ  خیال" (7 
۔" متکبر لوگ کتنے ' قابلِ رحم '      ہوتے ہیں ۔ اپنی سزا خود اپنے کاندھوں پر اُٹھاۓ پھرتے ہیں ،، وہ سزا ،، نخوت کی رسی ہوتی ہے ۔جو روزانہ انہیں جکڑتی چلی جاتی ہے "۔
( منیرہ قریشی15 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال " (8).۔
۔" میرے خالق ! میرے آنسو تیرے سامنے ، تیری محبت میں بہتے ہیں ،،یا ،، تیرے خوف سے ،، یا ،، تیری شکرگزاری میں!!! درجہ بندی کرنے والی بس تیری ذات پاک ہے ۔
( منیرہ قریشی 16 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال" ( 9)۔
۔" اگر کسی کا راز رکھنے کا ظرف نہیں ہے ،،تو نہ اگلے کو " کُریدیں " ،،، نہ کچھ سننے کی کوشش کریں ! ایسے موقعوں پر " بہرا " بن جانا ،اعمال کو وزن دار کر سکتا ہے " !۔
( منیرہ قریشی 17 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال" (10)۔
۔" اچھی سوچ " خیر" ہے ،،،، اب اسےنرم ریشم اور احترام کے "الفاظ " کا لباس پہنا دو ۔
۔" بُری سوچ " شَر"ہے ،،، اسے طنز و تنقید کے" الفاظ کا لباس " پہناؤ گے ،،، تو خود ہی ننگے ہو سکتے ہو !!۔
( منیرہ قریشی، 19 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال (11)۔
۔'' یہ اولیاء اللہ بھی خالق کی کیا شاندار اور بےمثال تخلیق ہیں ۔ اپنے نفس کو نکال کر اُسے چوکیدار کی وردی پہنا ، ہاتھ میں ڈنڈا پکڑا ،، دروازے پر کھڑا کر دیتے ہیں ۔ خود پچھلے دروازے سے دنیا پِھر آتے ہیں جہاں ضرورت ہو وہاں مدد پہنچا کر ،،، پچھلے دروازے سے ہی داخل ہو کر ،،،، چوکیدار سے پو چھتے ہیں ،،، " کوئی آیا ، گیا؟؟؟ ""!۔
( منیرہ قریشی ، 20 جولائی 2020ء واہ کینٹ)
۔۔۔۔۔
لمحۂ خیال" (12)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔'' میَں دعاؤں میں بہت سے لوگوں کو شامل     رکھتی ہوں ، اس اُمید پر ، کہ اب بہت سے لوگ مجھے بھی اپنی دعاؤں میں شامل کر رہے ہوں گے۔سوچتی ہوں دعاؤں کے اتنے پارسلز کی "وصولیاں " کیسے نظر انداز ہو سکتی ہیں ۔ تو پھِر رحمت ، مغفرت ، اور تحفظ پر یقین تو بنتا ہے مولا !!
 ( بھلے یہ لین دین ہی سہی ) !۔
( منیرہ قریشی 23 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال" ( 13)۔
کسی نظارہ کرتی متفکر آنکھ کے لیۓ "دُم دار ستارہ "بن جاؤ ! ( دُمدار ستارے کی جو بھی توجیح   ہو) وہ لمحے بھر کے لیۓ ،،، وارفتگی ، استعجاب ، اُمید ، اور مسکراہٹ کا باعث بنتا ہے اوردنیا خوبصورت لگنے لگتی ہے۔
پسِ تحریر۔۔
دعا کے   عنصر  کا کیا کہنا،،، کہ جب مانگو ،، کچھ فوری ملے نہ ملے ،،، تسلی اور سکون ضرور مل جاتا ہے ،، جو کسی بھی بازار سے نہیں مل سکتا ! اور یوں اپنے ' اصل ' کے ساتھ کبھی مضبوط ، اور کبھی کمزور تعلق قائم رہتا ہے ،، اپنی باری پر پارسل کھلتے چلے جاتے ہیں ،الحمدُ للہ !۔
( منیرہ قریشی ، 25 جولائی 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔
۔" لمحۂ خیال" ( 14)۔
۔"جب آپ کسی محفل میں صرف دوسروں کی سُنیں اور کسی کے لیۓ کاندھا بنے رہیں ۔اور خود کو منوانے ، سنانے کی کوئی کوشش نہ کریں ،،، تودراصل آپ نے " سلمانی ٹوپی " پہنی ہوتی ہے " ۔
( منیرہ قریشی ، یکم اگست 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔
۔" لمحۂ  خیال" (15)۔
۔ کبھی کبھی بولے جانے والے الفاظ ہی بندے کی اوقات  ،،، اور تعارف بن جاتے ہیں۔اور ، کبھی کبھی بولے گئے الفاظ ، بولنے والے کے خلاف گواہی بن جاتے ہیں ،،، اور سزا پر سزا سناتے چلے جاتے ہیں۔
آہ ! بندہ کب ، کہاں اور کیا بولے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
( منیرہ قریشی 12 اگست 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔
۔"لمحۂ خیال" (16)۔
۔" اگر بندے کی ذات اور صفات کو ایک پلڑے میں رکھا جاۓ ،دوسرے پلڑے میں اس کے رویے اور احساسِ ذمہ داری کو ! تب باآسانی ستھرے یا گندے جینز" کا تعین ہو سکتا ہے۔(ورنہ بزعم خود بہت بلند باگ دعویٰ داری چلائی جاتی ہے)۔"
( منیرہ قریشی 18 اگست 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔
لمحۂ خٰیال"( 17)۔"
۔" کچھ لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ،، دنیا سے جانے کے بعد بھی "دلوں اور باتوں" میں روزانہ کی بنیاد پر خوشبو کی طرح موجود رہتے ہیں ، میرے خیال میں " شہادت " کا یہ بھی ایک درجہ ہوتا ہے۔
( منیرہ قریشی، 19 اگست 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔۔
لمحۂ خیال "(18)۔"
( الذّٰ رِ یٰت ، 28/29 )
۔" کہنے لگے فرشتے ، " نہ تم ڈرو " اور خوشخبری دے دی اُس کو ایک لڑکے کی ، تو اُس کی بیوی حیرت میں آ گئی اور چہرے پر ہاتھ مار کر کہنے لگی "میَں بڑھیا ، بانجھ "،؟! کہنے لگے فرشتے " اِسی طرح ہو گا "،، گویا   "اللہ  ذاتِ باکمال  "بندوں کو "خوشگوار حیرت" دے کر خوش کرتا ہے۔
دنیا میں بھی بعض دفعہ غیرمتوقع نعمتوں کا ِمل جانا  ہوتا ہے ،، امیدِ واثق ہے ، دوسری دنیا کاٹکٹ دائیں ہاتھ کی 'خوشگوار حیرانی' سے ہو گا ۔ ( اِن شا اللہ )۔
( منیرہ قریشی 24 اگست 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔۔
لمحۂ خیال " (19)۔"
۔" سواۓ تیری رحمت کے ، میرے پاس کوئی ' ہتھیار ' نہیں ۔اُمیدِ واثق ہے یہ ہتھیار کُند نہیں ہو گا ،،کہ زنگ سے بچانے کے لیۓ اسے نمکین پانی ملتا رہتا ہے"۔
( منیرہ قریشی ،27 اگست 2020ء واہ کینٹ )
۔۔۔۔ لمحۂ خیال ( 20)۔
" اگر مچھلیوں کے تیزی سے رقص کرنے سے سمندر کے پانی میں بُو پیدا نہیں ہوتی ،،،،، اگر زمین کے اندر کے کیڑے اپنی جگہوں کو تبدیل کرتے اور کھودتے ہیں اور ،،، یوں زمین بار آور ہونے کے عمل سے گزرتی رہتی ہے ۔ تو انسان جب تمام فرائض سے عہدہ برا ہو چکا ہوتا ہے ،،اور کرنے کو کوئی خاص کام نہیں رہتا ،،، تب اُسے تبدیلی آب و ہوا اور جگہ ،، اور ،، نئے مناظر کی اشد ضرورت ہوتی ہے ! تاکہ وہ بھی بقایا زندگی ، میں مچھلی یا چیونٹی کی طرح کوئی کام کر تا جاۓ ،، خود کے آخری دَور کو بدمزاجی اور نظراندازی کے صحرا کے حوالے نہ کر دے ! بھلا کیوں کرے ؟؟؟؟؟؟؟
( منیرہ قریشی ، 12 ستمبر 2020ء واہ کینٹ )