اتوار، 24 مئی، 2020

" صبر کا سُرمہ "

" صبر کا سُرمہ "
( دعا ،،، اُن کے لیۓ جن کی آنکھیں اس عید سے اور آئندہ عیدوں میں بھی نمناک رہیں گی )
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
کوئی لفظ نہیں ،۔
کوئی جملہ نہیں ،۔
کہ بعض دفعہ الفاظ بے معنی ہو جاتے ہیں
کہ بعض دفعہ بھر پور جملے حقِ ادائیگی کھو دیتے ہیں !۔
خاموش آنسو زمانوں تک خود ہی مداوا بنتے رہیں گے !۔
دعا ہے ، اُن آنکھوں میں صبر کا سُرمہ بہہ نہ پاۓ
صبر کی صَف سے وہ کہیں نکل نہ جائیں !۔
کہ صبر اور محبتِ الہیٰ ،،، شرطِ حق ہےٹھہرا !!۔
اِنّ اللہَ مَعَ الصَابریِن ( اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے )۔
( منیرہ قریشی ، 24 مئی 2020ء واہ کینٹ )

 

منگل، 19 مئی، 2020

" اِک پر خیال(43)"

" اِک پر خیال"
تاریخ ہی تاریخ (حصہ دوم)۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مؤرخینِ تاریخ ، چاہے کسی بھی خطے سے متعلق ہوں ،، ذیادہ تر اُن میں وہ ہیں ،جنھوں نے لکھتے وقت انصاف سے کام لینے کی کوشش کی ہوتی ہے ،، ظاہر ہے تھوڑا بہت تعصب اگر آ بھی جاۓ ،،، تو یہ انسانی فطرت ہے ۔ کہیں عقیدہ ، کہیں معاشرتی لیول ، کہیں قبیلہ یا کہیں میلانِ طبیعت آڑے آ ہی جاتا ہے،،، لیکن مؤرخ ہمیں گزرے وقت میں چلائی جانے والی سازشوں ، خودغرضیوں ، ہیروز کی ان تھک محنتوں ، محبتوں ، اور اُن کی راہوں میں رکاوٹیں ڈالنے والوں شطرنج کی بساط بچھاۓ مہرے چلانے والوں کی کمینگیوں کو بےنقاب کرتا چلا جاتا ہے ،، اور اسی دوران عام عوام پر اِن چالوں سے ہونے والے اثرات کو ساتھ ساتھ واضح کرتا چلا جاتا ہے ۔ مؤرخِ تاریخ کا شکریہ ،،، جوہمارے لیۓ ایسے صحیفے چھوڑ جاتا ہے جو دراصل " ہمارا اپنا نوشتہ ہوتا ہے "۔
ہم جو آج زمانۂ حال میں ہیں ،،، ہم جو آج تاریخی کُتب پڑھ رہے ہیں ،، ہم جو آج کل، ماضی کے ہیروز اور غداروں سے متعلق جان رہے ہیں،،،، اس سب کا کیا فائدہ ؟ زمانۂ حال ہے لیکن کردار وہی ہیں ،، وہی انا کا مسئلہ ،، وہی لالچ  وخودغرضی کی ہوس،،وہی عارضی زندگی کے لیۓ عیاشیاں، اپنی اگلی نسلوں کا محفوظ مستقبلکرنے کے جوڑ توڑ، وہی مخلص اور اہل شخصیات کی راہ میں رکاوٹیں ،،،،، آہ ،،، یہ سب کچھ ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ،، یا اِن پر بنے ڈرامے دیکھتے ہیں ،،،،، اور اگر ہم اشرافیہ میں سے ہیں ،، یا اُمراء کے طبقے میں سے ہیں ،، یا انقلابی سوچ رکھنے والے ہیں تو آج ،،،، اور ،، ابھی ہم انہی تاریخ کے صفحات میں سے اپنا کردار چُن کر اس پر ' ٹک مارک ' لگا سکتے ہیں ! کیوں کہ ابھی ہم نے کتاب کا اگلا صفحہ پلٹنا ہے اور آگے بھی ہم موجود ہیں ،، لیکن یہ سوچ لیں ، تاریخ ہمیں ایک چھُپی آنکھ سے دیکھ رہی ہے ، یہ ہی وقت ہے کہ ہم چُن لیں کہ ہمیں کس کردار کے لیۓ یاد رکھا جاۓ گا ۔ غدار یا جانباز !! یہ ہی وقت ہے کہ ہماری نسلوں کو شرمندگی نہ ہو ، ۔ ایسا نہ ہو کہ عدالت کے باہر مِیرصادق اور میرجعفر کی اولادیں جب پہلی نسل کے بعد ہی جائیدادوں کے جھگڑے لیۓ پہنچیں تو عدالتی اہلکار جج کے سامنے حاضر ہونے کے لیۓ آواز لگاتا " میر صادق غدار کی اولاد حاضر ہو """۔
" گویا تاریخ ہی اپنی تاریخ پڑھ رہی ہے ، لیکن عبرت کے بغیر "
" اللہُ اکبر ، اللہُ اکبر "
پسِِ تحریر۔۔۔
تاریخی کتب پڑھنا یا ڈرامے یا فلمیں دیکھنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ، ان دنوں ڈرامہ " ارتغل غازی " دیکھا ،،، تو سوچ یہاں اَٹکی کہ آج بھی ہیروز کا جہان اور اس کے ارادے فرق اور آس پاس کے ولن تمام تر چالوں کے باوجود ناکام و نامراد ،،، لیکن تاریخ انھیں کن الفاظ سے یاد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی " ! طاقتور کی سوچ بدلنا بےحد ضروری ہے"۔
جس محنت سے ترکیہ کے عظیم ہیرو ارتغل سے متعلق مصنف نے لکھا ، ڈائریکٹرز نے اور اداکاروں نے فلمایا ،،،، جہاں جہاں اسے دیکھا گیا ، لوگوں کی کثیر تعداد کو  تاریخ سے دلچسپی ہوئی ہے ، اور یہ ایک محبِ وطن کی اپنے ملک کے ہیروز کو خراجِ تحسین کا بہترین طریقہ ہے۔
( منیرہ قریشی 19 مئی 2020ء واہ کینٹ )

پیر، 18 مئی، 2020

" اِک پرِ خیال(42) "

" اِک پرِ خیال "
' تاریخ ہی تاریخ ' ( حصہ اوّل )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ہم جب بھی کسی تاریخی کتاب کو پڑھتے ہیں ،، اور جدید دور میں بنائی تاریخی واقعات پر مبنی فلمیں یا ڈرامے دیکھتے ہیں ،،،، تو تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ اسے اپنے تصور کی آنکھ سے بھی جانچتے چلے جاتے ہیں ۔
ایک تاریخی کتاب پڑھنے والے کو اُس وقت یہ کتاب محویت کے عالم میں لے جاتی ہے کہ ،،، قاری خود کو اُسی دور کے گلی کوچوں میں پھرتا ، اسی دور کے لوگوں کے قریب سے گزرتا محسوس کرنے لگتا ہے ،،، ایک اچھے مؤرخ کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ تاریخی واقعات اور مکالمے اس انداز سے لکھے کہ کرداروں کے ہونٹ ہلتے ، اُن کےکپڑوں کی سرسراہٹ ،، اُن کے گرد گزرتے گھوڑے یا گھر کے صحن میں کھنکتے برتنوں یا قہقہوں کی آوازیں بھی سنائی دینے لگتی ہیں ،،،،،یہ اچھے مؤرخ کے الفاظ اور تصورات کا وہ جادو ہوتا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے ۔ ہر وہ تاریخی کتاب جسے مصنف مکمل ریسرچ اور روحانی درجے کے ساتھ لکھے ضرور اس کی زبان ، ماحول معاشرت ، یا سچائی کی بنا پر تا دیر زندہ رہتی ہے ،،، بلکہ اُس اہم تاریخی واقع اور اسکے اہم کرداروں کو زندہ رکھتی ہے ۔
اور جب سے فلم کا دور آیا ،، کچھ باہمت پروڈیوسرز ، ڈائریکٹرز نے تاریخ جیسے مشکل موضوعات پر ہاتھ ڈالا ،،، اور پھر شدید محنت سے ایسے شاہ کار دنیا کو دکھا ڈالے کہ شاید جب وہ خود بھی اُس فلم کو دیکھتے ہوں گے تو سوچتے ہوں گے ،،، کیا واقعی یہ میں نے تاریخ کو " ریورس " نہیں کر دیا !!! اَن مٹ نقوش چھوڑ جانے والی یہ تاریخی فلمیں احساسات کو نئی دنیا میں لے جاتی ہیں !! حتیٰ کہ اِن تاریخی فلموں میں کردار ادا کرنے والے فنکار ،، اپنی عام زندگی میں اُسی کردار کی وہ چلتی پھرتی تصویر اور پہچان بن جاتے ہیں کہ دیر تک وہ خود بھی اُس کردار سے نہیں نکل پاتے ! شاید یہ اُس تاریخی شخصیت کے مضبوط ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔
ہم کتاب پڑھتے یا تاریخی فلم دیکھتے خود کو بھی اُنہی حویلیوں ، قلعوں ،،، یا خیموں میں موجود پاتے ہیں ،،،، کبھی کسی قلعے کی راہداریوں میں سازشیں کرتے کردار ،، کبھی حویلیوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب ،، اور کبھی پُر امن رہتے لوگوں کے جلاۓ جانے والے خیموں کو دیکھتے ہوۓ ، کہنا چاہتے ہیں ،،،،، چند لمحوں بعد یہ قیامت  آیا  چاہتی ہے ،، یہ سازشیں نہ کرو ،،، اس کا انجام بُرا ہی بُرا ہے ،،، یہ بےانصافیاں نہ کرو ! کہ صرف چند سال ، یا چند سو سال بعد لکھی گئی تاریخ میں تم نفرین زدہ کردار بنو گے،،،، مت ایسا قدم اُٹھاؤ کہ عارضی دولت ، شہرت کی خاطر لمحوں کی غلطیاں اور انا کے تکبر سے پوری قوم صدیوں عذاب جھیلے گی،، اس کچھ دیر کی دنیا کے بدلے ہمیشگی کی زندگی کا سودا نہ کرو !! اور پچھتاوے کا طوق گلے میں مت 

ڈالو ،، کہ یہ دنیا تو کسی کی نہیں ہوئی ، چاہے وہ تاریخ کا ہیرو تھا یا ولن !!۔
پسِِ تحریر۔۔۔
تاریخی کتب پڑھنا یا ڈرامے یا فلمیں دیکھنا مجھے ہمیشہ سے پسند رہا ، ان دنوں ڈرامہ " ارتغل غازی " دیکھا ،،، تو سوچ یہاں اَٹکی کہ آج بھی ہیروز کا جہان اور اس کے ارادے فرق اور آس پاس کے ولن تمام تر چالوں کے باوجود ناکام و نامراد ،،، لیکن تاریخ انھیں کن الفاظ سے یاد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی " ! طاقتور کی سوچ بدلنا بےحد ضروری ہے"۔
جس محنت سے ترکیہ کے عظیم ہیرو ارتغل سے متعلق مصنف نے لکھا ، ڈائریکٹرز نے اور اداکاروں نے فلمایا ،،،، جہاں جہاں اسے دیکھا گیا ، لوگوں کی کثیر تعداد کو  تاریخ سے دلچسپی ہوئی ہے ، اور یہ ایک محبِ وطن کی اپنے ملک کے ہیروز کو خراجِ تحسین کا بہترین طریقہ ہے۔
( منیرہ قریشی 18 مئی 2020ء واہ کینٹ )

جمعہ، 1 مئی، 2020

" اِک پرِ خیال " (41)

" اِک پرِ خیال "
' نیا اعلان ' ( کرونا ، لاک ڈاؤن کے تناظر میں )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سال 2019ء نے دنیا سے رخصت ہونے کے لیۓ پَر جھاڑے ،،، اور اِن پروں سے، کچھ نئی مثبت سوچیں نازل ہوئیں ، کچھ نئے تجربات کے آئیڈیاز کا نزول ہوا ،،، کچھ نئے چنڈالوں نے دنیا کو ایک نیا ریوَڑ بنانے کا ٹھیکہ لیا ،،، کچھ بےچین لوگوں پر منفی خیالوں کا چھڑکاؤ ہوا ،،،،، اور کچھ ایسے ہی وائرس گِرے ،، جس نے دنیا کے گلوب کو پہلے حیرانی کی کیفیت میں ششدر کیا،،، اور پھر شدتِ پریشانی نے اِسے گھُما کر رکھ دیا ۔ تحقیق ہوئی اور دنیا کے فطین اذہان کی طرف سے چارٹر جاری ہوا ،، کوئی آپس میں نہ ملے ، کوئی کاربار نہ چلے ، کوئی اس وائرس کے شکار کے قریب مکمل حفاظتی لباس کے بغیر نہ جاۓ ،،،،،، اور ہر دفعہ ہاتھ بیس سیکنڈ تک دھوئیں وغیرہ،،،،،! تو جہاں پینے کو پانی نہیں ،،، جہاں پہلے ہی غربت کا گہرا سایہ سالہا سال سے ڈیرے ڈالےہو ،، گلوب میں موجود کچھ ممالک میں ایک کمرے میں آٹھ بندوں کا رہنا ازبس ضروری ہو ،،،،،جہاں کے گلی محلے میں بدبوؤں کا مقابلہ ہو رہا ہو ،،،کچھ ممالک کی ستر فی صد آبادی صحت کے اُصولوں سے نا واقف ہو کیوں کہ انھیں صحت کیا اور اُس کے اُصول کیا ،، انھیں خبر ہی نہ ہو ،،،، تو انھیں اِس اَن دیکھے ، وائرس سے کیا ڈرانا ۔ کیوں کی ابھی وہ پیٹ کی بھوک کے وائرس سے کُشتی جیتنے کی کوشش میں ہیں ۔
ہاں البتہ جدید دنیا کی جدید ترین ایک نئی ایجاد کے " لاک ڈاؤن " سے ضرور ڈرایا جا سکتا ہے ۔ کیوں کہ غربت ،سے جہالت جنم لیتی ہے اور غریب کے پاس روٹی بےشک نہ ہو موبائل اس کی زندگی کی اولین ضرورت بن چکا ہے۔
جی ہاں ،، اگر یہ " اعلان " سامنے آ گیا کہ ایک نئی تحقیق کے مطابق آپ کے ہاتھوں میں پکڑے موبائل سے ایسی " ریز " نکل سکتی ہے جو دماغ کو فوراً سُن کر سکتی ہے ، اور بندے کو لمحوں میں ختم کر سکتی ہے ، میڈیا چیخنے لگے ،،، موبائل ہاتھوں سے گِرا دیں ۔ ورنہ ہلاکت یقینی ہے،، اور اگر ایسا کوئی " نیا اعلان " آ گیا تو اے آج کے انسان! تیرا کیا بنے گا ،،؟ آج کی دنیا کے90 فیصد لوگ صبح آنکھ کھُلتے ہی تکیۓ تلے ہاتھ پھیرتے اور اپنے اِس اہم ساتھی پر ایک نظر ڈالتے ہیں ،، کس نے کیا ، اور کیوں پیغام بھیجے ہیں ، ذرا دیکھوں ،، اور اِسی ذرا دیکھنے میں سارا دِن گزر جاتا ہے ، نظریں نہ رشتوں کی ذمہ داریوں سے نہ آدابِ اقدار سے آگاہ رہیں ،، نہ پائیدار علم کی کوشش کی خواہش رہی ۔ طبیعتوں کا ٹھہراؤ کہیں گُم ہو گیا ہے،، علوم انگلی کے پَور   پر منحصر اور منتقل ہو چکے ہیں ،،،، بس لمحاتی علم ہے ، انگلی پھری تو بھول گئے کہ ابھی ایک لمحہ پہلے کیا پڑھا تھا !! تو اگر موبائل کا " لاک ڈاؤن " ہو گیا تو سوچیں ہماری مصروفیات کیا ہوں گی ؟؟؟ تب بندہ تو " بندۂ بےحال " بن سکتا ہے !۔
( منیرہ قریشی یکم مئی 2020ء واہ کینٹ )

منگل، 28 اپریل، 2020

" اِک پَرِ خیال "(40)

" اِک پَرِ خیال "
" تعزیت " ( کرونا لاک ڈاؤن کے دوران )
،،،،،،،،،،،،،
آج دنیا کرونا وائرس کی وجہ سے تقریباً پانچویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے ، کوئی ملک ایسا نہیں بچا جہاں اس " اَن دیکھے وائرس " نے اپنے متحرک ہونے کا ثبوت نہ دیا ہو ۔ " دنیا کی تاریخ " میں ایسی وباؤں کے پھوٹنے اور ان سے ہونی والی ہلاکتوں کی تفصیل موجود ہے ، اگرچہ ایسا کڑا وقت چند بار ہی آیا لیکن لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ تہہِ خاک ہو گئے۔
یہ وہ دور تھا ،، جب دنیا بہت امیر ،،، یا ،، بہت غریب کے خانوں میں نہیں بٹی  ہوئی تھی ،،، شاید ہم دنیا کو " اچھے خوشحال اور کم خوشحال " کے دو درجوں میں دیکھ سکتے ہیں ،،،، بہت کم ٹیکنالوجی کی وجہ سے ایک دوسرے تک بربادی یا بچ نکلنے کی خبروں سے آگاہی نہ ہو پاتی تھی ،،،،،،لیکن آج کی اکیسویں صدی میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے ، وہ امیر ممالک جو دنیا کی قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں لاکھوں میل دور بیٹھے ہمارے کمروں میں رسائی حاصل کر چکے ہیں !!اور یوں " ہر ملک ، ملکِ ما است " کے خیال کو نیا معنی مِل گیا  یا پہنا دیا گیا ہے ۔
لیکن یہ کیا ہوا کہ ایک " اَن دیکھے ، ایک عام زکام زدہ " جرثومے نے اِس جدید ترین ٹیکنالوجی سے لَیس دنیا کا کیا حال کر دیا ،،، تمام سُپر پاورز اپنے تمام تر عادلانہ اور ظالمانہ نظام سمیت چند ہفتوں میں گھٹنوں کے بَل جھک گئیں،،،اُن کی معیشت کا دیو اندھیرے کونے میں جا کھڑا ہوا ہے ۔ نہ جانے روشنی آنے تک وہ کتنا چھوٹا یا بونا ہو چکا ہو ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا ،،، مجھے تو بس اِس سارے دورانیے  میں " امریکا " سے بہت ہمدردی ہو رہی ہے ۔ وہ سکندرِ اعظم اور مغلِ اعظم سے بھی بڑا " چنگیزِِ اعظم " بن کر کئی عشروں سے دنیا پر ایسا راج کر رہا تھا کہ جب فرعونیت سے سرشار تالی بجاتا اور حکُم جاری ہو جاتا ۔۔۔ اُس فلاں ملک کی یہ جرات کہ ہمیں آنکھیں دکھاۓ ، ہمیں اپنے ملک کی تلاشی دینے سے انکار کرے ،، ہمارے مطلوبہ لوگ ہمارے حوالے نہ کرے ،، ہم سے مشورہ لیے  بغیر پالیسیاں بناۓ،،، تباہ کر دیا جاۓ !!! یہ چھوٹے چھوٹے ملک سانس بھی ہم سے پوچھ کر لیں !! اور یوں چند صدیوں میں بناۓ گئے  ملک،، چند عشروں میں " تورا بورا " کر کے رکھ دیے گئے،،،،، پھر نہ جانے قدرت نے کون سی آہ سنی کہ آج دوسروں کو چُٹکی میں مسلنے والے ایک " اَن دیکھے " سے چو مُکھی لڑائی لڑ رہے ہیں ،،، مجھے امریکا اور اس کے حورایوں سے ہمدردی ہے اور ہمارا اُن سے تعزیت کرنا بنتا ہے،" کہ اتنے ہفتوں سے تالی نہیں بجی ،، کسی اگلی سرزمین کو ملیا میٹ کرنے کا حکم جاری نہیں کیا جا سکا ،، لاکھوں مسلمانوں کے جسموں کو قیمہ نہیں بنایا جا سکا،، آہ بے چارہ دنیا کا " جگا بدمعاش " ،،،،، سوچوں کے بھنور میں ہے !!شطرنج کی بساط نئے  کھلاڑیوں کی منتظر ہے ، قدرتِ الہیٰ کی طرف سے نیا ورڈ آرڈر جاری ہو گا ان شا اللہ !۔
مشہور یہودی نام نہاد دانشور ہنری کیسنجر نے دنیا کو تجویز پیش کی ہے کہ ' وقت آگیا ہے کہ نیو ورلڈ آڈر تیار کیا جاۓ ، اور دنیا ایک مشترکہ کرنسی کے ساتھ چلے " وغیرہ ،، بالکل صحیح لیکن اِ س نئے ورلڈ آرڈر کی سربراہی اب مشرق کرے گا ،،، اور اس کی سربراہی " پاکستان ، اور ، ترکی کو سونپی جاۓ ،، کہ مغرب نے یہ لیڈر شِپ بہت کر لی ۔
" اور اللہ ہی بہترین جاننے والا اور قدرت رکھنے والا ہے "
( منیرہ قریشی 28 اپریل 2020ء واہ کینٹ )

جمعہ، 27 مارچ، 2020

"اِک پَرِ خیال(39) "

" اِک پَرِ خیال "
" جائزہ تو لیں " ( عالمی وباء کرونا کے تناظر میں )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
٭بندہ کئی دفعہ مسائل سے گھبرا کر تنہائی کا شکار ہو کر ، خوب روتا ہے ، اور اس کے منہ سے یہ جملے بےاختیار نکلتے ہیں ' میرے مولا ، میَں تنہا ہوں ، میرا کوئی نہیں جو میرے دکھ کو سمجھے " ،،، اُس کی فریادیں سُن کر خالقِ حقیقی مسکراتا ہے ، تُو غور کر میرے بندے میَں تو تیری شہ رگ سے بھی قریب تر ہوں ، تُو جو سوچتا ہے میَں اس سے پہلے ہی جان جاتا ہوں، تُجھے خود ہی پریشان ہونے کا شوق ہے، تو میَں کیسے تیرے دل کو اطمینان دوں ،،میَں تو ہر لمحہ تیرے ساتھ ہوں ،لیکن میَں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا " میَں آزماؤں گا ، مال سے ، اولاد سے، نفس سے " !!۔
٭ ،،مجھے اپنے بچوں سے عشق ہے ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں ۔ میری محبوبہ اگر مجھے نہ ملی تو میں مَر جاؤں گا ، خود کُشی کر لوں گا۔ اپنے والدین سے میری محبت دنیا کی تمام محبتوں پر حاوی ہے ،،،،،،لیکن یہ کیسی وباء ، اور ہوا چلی کہ ہر محبت کو تین فٹ دور کر دیا ، ذرا سا بھی دوسرے کی چھینک ، یا کھانسی ہمارے فیلرز ( محسوسات) کو عام دنوں سے دُگنا کر چکی ہے ،،، کہیں ایسا نہ ہو جاۓ ،کہیں ویسا نہ ہو جاۓ،،، حالانکہ ہم پر واضع کیا جا چکا ہے " روزِ محشر نہ اولاد والدین کو دیکھے گی ، نہ والدین اولاد کو،کہیں مجھ سے نیکی کی مدد نہ مانگ بیٹھیں " !!۔
٭ اس زندگی کی حددرجہ چہل پہل کے دوران ، وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں " اکثر" جا کراُن کی غمی خوشی میں شریک ہوں ،، لیکن قدرت نے بتا دیا ، میَں تمہیں اسی چہل پہل سے بےنیاز کر دوں گا ۔ پھر تمہیں بھُولے رشتے یاد آ ئیں گے ،، لیکن اب ملنا ممکن نہیں ، اس لیے ابھی یہاں کی شرمندگی کا ازالہ کر لو !!۔
٭ یو کے ،، اور یو ایس تو جنت ہے ،، سیر کے لیۓ بھی ، اور جب بیمار ہو تو علاج کے لیۓ بھی ،،، واہ !وہاں کے علاج کا کیا کہنا ،،، ان ممالک کا ویزہ لگنے پر " الحمدُ للہ" کہا جاتا ہے ۔ لیکن اب ،، ایک اَن دیکھے جر ثومے نے یو کے اور یوایس کی حیثیت کھوٹے سِکے جیسی کر کے رکھ دی ہے ۔ یہ تیسری دنیا جیسی بھی ہے ، ٹھیک ہے ! قدر و منزلت کے معیار کیسے بدل گئے۔
٭ مدتوں بعد گنجان آباد شہروں کے باسیوں نے "خاموش کرونے کے ذریعے خاموشی کی آواز سنی ،، !!۔
٭ جدید ٹیکنالوجی کو کم فہم لوگوں نے صرف اپنی ذات کا غلام بنا لیا تھا ،،، موبائل ہے تو گھنٹوں ، گوسپ چل رہی ہے ، میری ساس ، میری بہو ، میری دیورانی ، میرا شوہر ، میرا نمک حرام نوکر،، کون سے رشتے نہ تھے جو زبان کی غلاظتوں سے آلودہ نہ کیۓ جاتے ہوں ،،، کوئی ڈر نہیں کوئی خوف نہیں کہ کاتبین کو لکھنے کے لیے کیا کیا مواد دیا جا رہا ہے ، آہ اور واہ کے پروگرام کی حدیں نہ رہیں تھیں ۔ ننّھے سے جر ثومے نے ایسی لمبی چھٹیاں کروا دیں کہ " بوریت " جا ہی نہیں پا رہی ۔ جنھوں نے سبق نہیں لینا ، وہ اس دورِ فتن میں بھی آلودہ ہیں ، حالانکہ صرف ہاتھ ہی نہیں دھونے لازم ،،، بلکہ اخلاق بھی دھونے کا موقع مل گیا ہے ، !!۔
٭ یہ وباء انسانی سازش کا نتیجہ ہے ، یا نہیں !! اللہ اپنے بندوں کو جھنجھوڑنے کے لیۓ ، کبھی بخت نصر کو بھیجتا ہے، کبھی چنگیز خان کو ،، بھی تیمور لنگ کی صورت میں انسان کی عقل کو گُھما کر رکھ دیتا ہے ۔اور انسان ؟؟؟؟ " بےشک انسان بڑا جلدباز ، جھگڑالو ، اورمتکبر ہے ،، وہ اگرسوچے تو وہ دنیا و آخرت کے خسارے میں ناک و ناک ڈوبا ہوا ہے ۔ اور یہ ہی غفلت شیطان اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے !!۔
( منیرہ قریشی 27 مارچ 2020ء واہ کینٹ)

ہفتہ، 21 مارچ، 2020

" اِک پَرِ خیال(38) "

" اِک پَرِ خیال "
" ٹھہراؤ "
،،،،،،،،،،،،،،،
پچھلے پندرہ ، بیس دن سے ٹی وی کا کون سا چینل ہے ، جو صرف"کرونا وائرس " کی خبریں نہیں دے رہا ،، چینل چاہے ملکی ہے یا غیر ملکی ۔۔ چاہے مشہور چینل ہے یا بہت کم دیکھا جانے والا ۔ بس ایک ہی موضوع کی خبریں سنائی اور دکھائی دے رہی ہیں ، ، شروع میں تو اس وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا ، لیکن چینی حکومت نے اپنے پر گزری خوفناک حقیقت عیاں کی تو ، دنیا پہلے تو دنگ ہوئی ،، پھر جس طرح طوفان آنے سے پہلے خوب جھکڑ چلتے ہیں اور فہم والے اپنی پیشگی تیاری پکڑ کر ،، کبھی گھر کے باہر کی وہ اشیاء جو اُڑ جانے کا خطرہ ہوں ، انھیں سمیٹتے ہیں ، گھر کی کھڑکیوں دروازوں کے لاک خوب اچھی طرح بند کرتے ہیں ، گھر کے افراد کو محفوظ کمروں میں سمیٹ لیتے ہیں ، اور ذیادہ دور اندیش ،، گھر میں خوراک کا ذخیرہ بھی کر رکھتے ہیں ،، بالکل ایسے ہی ،، حکومتوں نے اپنی لیبارٹریز ، میں تحقیقی کام وسیع کر لیا ،، " یہ کیسا اَن دیکھا جرثومہ ہے جو دنیا کے ہر ملک کی سرحدوں کو پامال کرتا ، آنِ واحد میں ایسے حملہ آور ہوا ہے کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ۔ گویا ایسا سونامی ، جس نے نہ آواز نکالی ، نہ کوئی آثار دکھاۓ ،، اور ہر گھر کے دروازے پر آن پہنچا ۔
اور پھر چند ہفتوں میں ، ساری دنیا تحفظ کی ایک چھتری تلے اکھٹی ہو گئی ہے ۔ نہ موبائل کے نئے ڈیزائن کے بدلاؤ کی جلدی ، نہ نئی ایجادات کا رعب ،، نہ کپڑوں کے گرما یا سرما کے تعارف ،،، نہ ڈالر اور پونڈ کے اتار چڑھاؤ کی پروا،،، نہ اسٹاک ایکسچینج،،، پر لگی متفکر نظروں کی فکریں ۔۔۔ نہ ہی کسی مذہب کی کوئی اہمیت رہی نہ مذہبی رہنماؤں کا دبدبہ ،،، نہ موسموں کے بدلے جانے پر کوئی امید ہے ،، نہ ہی اُمراء یا غرباء کے تفریحی شیڈول کا اتا پتا ،، نہ کڑوے رشتوں سے متنفر ، نہ محبت کی چالوں کی فکر، نہ انفرادی سوچ کی منصوبہ بندی،نہ اجتماعی فیصلوں کی کوئی شدت !!! دنیا پہلے صرف ایک گلوب ایک کُرّےمیں سمائی ہوئی تھی اور ہے ،، لیکن اب ایک لفظ " ہمدردی اور انسانیت " کے اندر سما گئی ہے ، ہر ملک ، بِنا کسی مذہب ، بِنا کسی زبان و ماضی و حال کے حالات کے ،،،،، بِنا کسی دوستی و دشمنی کے ،،، صرف "ہمدردی " کے جذبے سے آشنا ہو چکا ہے ۔ یہ وقت ہے جب پرانی دشمنیاں ،،، پاؤں تلے روند دی جائیں ۔ کہ اب ،،،،،،،، خالق و مالکِ حقیقی دیکھ رہا ہے ،،، " اے انسان ، اب کیسی تیزیاں ؟ ، کیسی گھاتیں ؟،، کیسی منصوبے بندیاں ؟ ،، کیسی جلد بازیاں ؟؟ِِِ
اللہ واحد لا شریک نے واضح کر دیا ہے" ایک تیری سوچیں ہیں اور تیری چالبازیاں ہیں ، ایک میری چال ہے ، اور یہ ہی بات اوّل و آخر کی ہے کہ انسان اپنی بےپناہ دنیاوی ترقی کے زعم میں ،،، ایک اَن دیکھے جرثومے " سے مات کھا کر حیران ہے کہ " کیسے ،کیونکر، کس طرح " بچ رہوں کہ اس ان دیکھے سے تو مجھے وہی " اَن دیکھا خالق "ہی بچا سکتا ہے ، جس پر آدھی دنیا اسی بحث میں مبتلا تھی کہ " وہ ہے بھی یا نہیں " ! اور آج کی تمام سُپر پاورز ، سب کچھ ہوتے ہوۓ بھی سُپر نہیں رہیں ،،، آج صرف ایک ہی " سُپریم پاور " ہے جس نے یہ سب تخلیق کیا ہے۔
اور کائنات اپنے" قدرتی ٹھہراؤ " سکون کے راستے سے مدت بعد " آشنا " ہوئی ہے ، دعا ہے یہ ٹھہراؤ عافیت کے کنارے سے ہمکنار ہو جاۓ آمین !۔
( منیرہ قریشی ،، 21 مارچ 2020ء واہ کینٹ )