جمعرات، 12 جولائی، 2018

سفرِانگلستان (23)۔

سلسلہ ہاۓ سفر" 
سفرِ ولایت ، یو کے ( 23)۔
گرین ایچ یونیورسٹی ،، اور اسکے ٹاؤن میں کچھ گھنٹے گزارنابہت ہی خوبصورت تجربہ رہا۔ اور پھر واپس اسی ٹنل سے آنا ، ہمیشہ یاد گار رہے گا ۔ ایمن ثمن نے اگلے دن کا پروگرام " وہی  روایتی سیاحوں والا بنا کر پیش کیا ، کہ کل ہم مادام تساؤ کے میوزیم اور " وکٹوریہ اور ایلبرٹ "میوزیم بھی وہیں ہے ، اس لیۓ کہ یہ سب قریب قریب ہیں ،،، اس لیۓ ایکدن ہی یہاں جانا ہو گا ۔ 
اب پھر صبح جلد تیاری پکڑی اور، پہلے نزدیکی ( صرف تین چار منٹ دور) بس سٹاپ تھا ، جہاں سے " کنیری وورف" کے ایریا تک پہنچیں ، اور پہلی مرتبہ" ٹیوب " کا تجربہ ہوا،، بس اسٹاپ سے اتر کر ٹیوب سٹیشن تک پہنچنے اور بےشمار سیڑھیاں اُتر کر سٹیشن پہنچیں ،، اور ایک وسیع لاؤنج ،، جہاں صفائی کا معیار نظر آرہاتھا ،، اور اس لاؤنج کے اکثر پلرز کے ساتھ کوئی نا کوئی " معزز بھکاری " ایک ہیٹ رکھے ، یا تو اپنے گلے کے سُر بکھیر رہا ہوتا ،، یا کسی کے ہاتھ میں گٹار بھی ہوتا ،،، اور وہ اس کے ساتھ اپنی آؤاز کا جادو جگا رہا ہوتا ،، لاؤنج میں داخل ہوتے ہی نظر کی عینک لگاۓ ، لمبے بالوں ، جیکٹ اور جینز میں ملبوس ، ایک 35،36 کی عمر کا بھکاری ،، جس کی آواز پورے لاؤنج میں بغیر مائیک کے گونج رہی تھی ،، اس کی آواز میں اتنا سوز اور ردھم تھا کہ مجھے اسے کچھ دیر کھڑے ہو کر سننا اچھا لگا ، اور ایک پونڈ بھی اس کے ہیٹ میں ڈالا ،،، ایمن نے بتایا ، اسے اپنی یونیورسٹی ( لندن سکول آف اکنامکس ) جانے کے لیۓ کبھی بس اور کبھی ٹیوب سے جانا پڑتا ہے ، ، اور مجھے بھی اس " بھکاری فنکار" کی آواز اچھی لگتی ہے ، ، ذرا آگے بڑھیں تو مزید کاریڈورز اور پھر ایک لمبی انتظار گاہ میں کھڑی ہو گئیں ،، ایک بچی جاکر ٹکٹ لے آئی ،، ہم جہاں کھڑی تھیں ، اسی جگہ ٹیوب ٹرین نے آکر کھڑا ہونا تھا ،، اور جب ٹرین آئی، اور بغیر افراتفری ، کے آٹومیٹک دروازے کھلے ، پہلے لوگ اترے پھر سٹیشن پر کھڑے لوگ اندر داخل ہوۓ ،، یہ وقت بہت رش کا نہ تھا سب آرام سے بیٹھ گۓ ، دنیا کے ہر ملک کے لوگ یہاں نظر آرہے تھے ،،،، یہاں لڑکیاں ،اور خواتین ، گھر سے نکلنے سے پہلے خوب میک اَپ کر لیتی ہیں ،، یہ جملہ اس لیۓ لکھ رہی ہوں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس طرح تیار ہوتی ہیں ،، جیسے ہمارے ہاں کی لڑکیاں کسی فنگشن کے لیۓ کبھی کبھار تیار ہوتی ہیں ۔ ایسا شاید یہاں کے ٹھنڈے موسم سے بچنے کے لیۓ کیا جاتا ہوگا ،،، لیکن پرانی ایشین النسل خواتین ،، اپنے پرانے خیال کے مطابق سواۓ کریم لگانے یا لپ سٹک کے کچھ نہیں لگاتیں ،، اور ان کی سکن اُن لڑکیوں سے کہیں بہتر تھی ، جو بہت لیپا پوتی کرتی ہیں ، اور اسی لیپا پوتی کے قبیلے میں ہماری ٹونزوں کا نام بھی شامل تھا ،،، اسی لیۓ میَں انھیں " پیسٹری " کہتی ہوں ،،، لیکن وہ بالکل برا مناۓ بغیر اپنے اس کام کو یکسوئی سے کرتی ہیں ،،، حالانکہ اللہ نے انہیں رنگ ، روپ سے خوب نوازا ہوا ہے ،، بات چل نکلی تو کہاں پہنچ گئی ،، کہ اب ٹیوب میں بیٹھی خواتین اور لڑکیاں ،، اسی لیپا پوتی میں پیک ہونے کے باوجود ، چند ایک نے اپنے بیگز سے مرر نکالے اور لپ سٹک یا مسکارا ٹھیک کرنے لگیں ،، گویا مزید " پیسٹری " بن رہی تھیں ۔ یہ نظارہ اکثر نظر آتا رہا ،،! صرف 20 منٹ کی رائیڈ کے بعد جس ایریا پہنچیں ،، وہاں سے مادام تساؤ کا مشہورِ زمانہ میوزیم بالکل قریب تھا ،، ایمن ثمن پہلے آچکی تھیں ، یہاں "مقامی طلباء" کو ان کے" پاس " کی وجہ سے اتنی آسانیاں مہیا ہیں کہ رشک آتا ہے ،، اب اس میوزیم کا ٹکٹ 30 پونڈ فی ٹورسٹ تھا ، لیکن ایمن سمن نے صرف دو ، دو پونڈ دیۓ ، اسی طرح سفر میں کم ریٹ کے ٹکٹ، بیرونی سفر میں ایک فائدہ تو برطانوی شہری ہونے کا ، اور دوسرا فائدہ مقامی سٹوڈنٹ ہونے کا ،، اتنے فائدے ، بیرونی طلباء سوچ بھی نہیں سکتے ۔"میوزیم " کے باہر پرانے زمانے کا لباس پہنے گارڈ سب کو خوش مزاجی سے چند ویلکمنگ جملے بول کر خوش کر رہا تھا ۔ وہ لباس سے شیکسپئر کے کسی ڈرامے کا کردار لگ رہا تھا ،، ٹکٹ لے کر اور چند سیڑھیاں اُتر کر پہلے لاؤنج پہنچیں تو ، سامنے مشہور کریکٹر " شرگ" کا خوب براڈ مسکراہٹ کے ساتھ بہت ہی بڑا مجسمہ کھڑا تھا ، چونکہ اس کی فلم دیکھ رکھی تھی ، اس لیۓ پہلی تصویر اس کے ساتھ لی گئ ،، اور جب مختلف سٹپس پر مشتمل چھوٹے ہالز ، میں پھرنا ہوا ، تو ،،،، ( یہاں میَں صرف اپنا خیال ظاہر کر رہی ہوں )،،،، مجھے لگا کہ میَں نے 30 پونڈ ضائع کیۓ ۔
مختلف ملکوں کے مشہور ومعروف ادیبوں ، سائنسدانوں ، ایکٹرز اور شاہی خاندان کے افراد کی مختلف پوزز اور لباس میں مجسمے الگ الگ کھڑے ،، اور کہیں کسی کے ساتھ کھڑے تھے ،، اور مجھے تو ان مجسموں نے بہت ذیادہ متاثر نہیں کیا ، ،، لیکن اپنے پسندیدہ کرداروں کے ساتھ میں نے بھی تصاویر بنوائیں ،، مثلا" چارلس ڈکنز ، سٹیفن ہاکنگ ، اور چارلی چپلن ، لیکن انڈین ایکٹر سلمان خان کے ساتھ صرف اپنے پوتے " سلمان " کی وجہ سے تصویر لی ،، چند کردار ایسے بھی تھی جن کے بارے میں میَں لاعلم تھی کہ یہ کون ہیں ، اور ان کا کیا نام ہے ؟ یہاں نہ قائدِ اعظمؒ کا نہ علامہ اقبالؒ کا نہ ہی کسی اور پاکستانی نامور شخصیت کا کوئی مجسمہ نہیں تھا ،، جبکہ انڈیا کے سیاست دان نہرو ،، اور چند ایک اور انڈین کردار موجود تھے ،جب ہمیں اندر لاؤنج میں " شَرگ " کا مجسمہ نظر آیا ، تو اسکے ساتھ ہی گائیڈ نے اس 30یا35 سیاحوں کے گروپ کے لیۓ اعلان کیا کہ، پہلے ایک تعارفی فلم دکھائی جاۓ گی ، یہ ایک چھوٹا سا سینما ہال تھا ،، جہاں آنکھوں کے لوازمات کے ساتھ 20/25 منٹ کی فلم تھی جو 4 ڈی تھی اور یہ اب تک بناۓ گۓ چند معروف کارٹون کرداروں کے بارے میں تھی،، مجھے تو بہت مزا آیا ،، (کہ ہر ہر بوڑھے کے اندر ایک بچہ موجود ہوتا ہے ، اور ایسی فلم بچوں ، بوڑھوں سب کے لیۓ تھی)۔
اس فلم کے بعد ہی ہم نے مختلف مجسموں کو دیکھا ، کوئی شک نہیں کہ یہ ایک منفرد آرٹ تھا ، جسے پہلی جنگِ عظیم کے بعد مقبولیت حاصل ہوئی   اور مادام تساؤ اور ان کے خاندان نے آج تک اسے زندہ رکھا ۔ مجسموں کو دیکھنے کے بعد پھر اعلان ہوا ،  ّہارر گیلری" کی طرف آئیں ، جس عمر میں ہوں ، خود اپنے آپ سے ڈر لگ سکتا ہے ، ایک تنگ گیلری میں جہاں اندھیرا تھا ،،سے لائن سے گزرتے ہوۓ ، سائڈز سے سیاہ کپڑے پہنے ، چہروں پر ماسک لگاۓ یا پینٹ کیۓ کچھ خواتین و حضرات یکدم آتے اور " ہاؤ ہو"کی آوازیں نکالتے ، سیاحوں میں سے بھی چند ایک کی ڈری آوازیں آئیں،،، اور بس ! یہ سنسناہٹ پیدا کرنے کی ایک پھسپھسی کوشش تھی !لیکن شکر صرف 5 منٹ اس سے گزر کر ایک ایسی جگہ آئ ، جیسے کوئلا کی کان میں اندر جانے کے لیۓ چھوٹی سی پٹڑی بچھی ہوئ ہے ،، ایسے ہی یہاں ایک چھوٹی زگ زیگ کرتی پٹڑی بچھی تھی ،، پتہ چلا ، اس جگہ ہم بہت چھوٹے چھوٹے ایسے کیبن میں بیٹھیں گے ، جس میں صرف دو بندے بیٹھ سکتے ہیں ، اور یہ " کیبل کار " کی طرح ہوا میں رسے سے چلنے کے بجاۓ پٹری پر چلے گی ،، اسے یہ لوگ " ٹیکسی رائیڈ " کہتے ہیں !یہ جہاں جہاں سے گزر رہی تھی ، آس پاس انگلینڈ کی پرانی تاریخ کے مناظر کچھ گھروں ، کچھ مجسموں ، کچھ دوسرے ماڈلز سے واضح کی گئی تھی ،، یہیں مادام تساؤ کا مجسمہ بھی رکھا گیا تھا ،، جو اس دور کا تھا جب وہ کافی بزرگ ہو چکی تھی ۔ 
یہاں آکر آخری سٹاپ تھا ،، اور جب باہر آئیں ، تو دوپہر کے 3 بج چکے تھے ،،، مادام تساؤ میوزیم اتنے چھوٹے ایریا میں ہے اور انگریز نے کیا کیا تفریح کے سامان سجا لیۓ تھے ، کہ تین گھنٹے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ ابھی دن کافی لمبے چل رہے تھے،، اس لیۓ " البرٹ اور وکٹوریہ " میوزیم دیکھنے کا ارادہ کیا ، ،،لیکن اس سے پہلے چاۓ اور سینڈوچ کھاۓ گۓ ،، اور پتہ چلا ،، ذرا یہاں سے فارغ ہوں جائیں ، تو بس صرف نظر ڈالنے کچھ چیزیں دکھانی ہیں آپ کو بقول ایمن ثمن ، اور میں تو آئی ہی اس لیۓ تھی کہ ،،، اس تاریخی شہرِ کی ہر گلی دیکھ لوں ، جبکہ ایسا ممکن نہ تھی ،، لیکن ایمن ثمن بلاناغہ کچھ نا کچھ دکھا رہیں تھیں ، تاکہ ہمارا کوئ دن ضائع نہ ہو جاۓ اور میرا یہ عالم کہ " یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جاۓ والا حساب ہو رہا تھا ۔،لیکن سیاح کی عمر اور پسند ، نا پسند ، ذوق و شوق کا اس سیر سپاٹے میں بہت عمل دخل ہوتا ہے ۔ بعض مہمان ایک شاپنگ مال سے نکل کو ایک ریسٹورنٹ میں گھس جاتے ہیں اور ریسٹورنٹ سے پھر شاپنگ مال ،، اُن کی تسلی اسی طرح ہو جاتی ہے ۔ اور اب ہم " البرٹ اور وکٹوریہ " میوزیم کی طرف جا رہیں تھیں ۔ 
( منیرہ قریشی 12 جولائی 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں