پیر، 30 جولائی، 2018

سفرانگلستان(26)۔

 سفرِ ولایت ، یو کے " (26آخری قسط)۔
لندن میں ٹھہرنے کا ارادہ آٹھ ، نو دن کا ہی تھا اور جن اہم جگہوں کی سیر ممکن تھی ، وہ ہو چکی ،میری دلچسپی تو جیسے ختم ہو گئی،،، مجھے مانچسٹر کے اس خاموش ، ہرے بھرے ، گاؤں کی یاد ایسے ستانے لگی جیسے میَں مدتوں سے وہاں رہ رہی ہوں ۔ اور مجھے " اپنے گھر " جلدی واپس جانا ہو گا ،،، اور یہ احساس صرف اس لیۓ تھا کہ انسان " ارکانِ فطرت " کا حصہ ہوتا ،،، تھا ،،اور ،ہے ! جب وہ ان ارکان فطرت سے دوری پر رہتا ہے ، تو اس کے اندر بےسکونی اور بےچینی کا لیول آہستہ آہستہ اونچا ہونے لگتاہے ، لیکن انسان اپنے اندر کی اس سیلابی کیفیت سے بےخبر رہتا ہے ،، یہ ہی بےخبری اس کے مزاج کو غیرمحسوس طور سے چڑ چڑا بناتی چلی جاتی ہے ،،، اگر ایسے میں ، جنگل ، وادی ، خاموشی ، اور پرندوں کی آوازوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملے تو،،،، انسان کے اندر کے بے سکونی کے چڑھتے دریا کا لیول نیچے ہونے لگتا ہے ۔ اور چڑچڑا پن ، اُڑن چھُو ہو جاتا ہے ،،،( یہ ایسا آزمودہ نسخہ ہے ، کہ تجربہ کر کے دیکھۓ ، سچا ثابت نہ ہوتو پیسے واپس) 😍😃۔۔لندن سے میری دلچسپی جلد ختم ہو گئی ،، لیکن ایک دن مزید رکنا پڑا کہ ٹرین کا ٹکٹ اگلے دن کا تھا ،، اس ایک دن کو پھر " مَڈ شوٹ پارک " اور قریب ہی ایک واکنگ ٹریک کے لیۓ مختص کیا ، میَں نےاور جوجی نے آدھا دن انہی دونوں جگہ گزارا ۔ یہ واکنگ ٹریک ، ایمن ثمن کے گھر سے پانچ منٹ کی پیدل دوری پر تھا اور یہ دریاۓ ٹیمز کے کنارے پر تھا ،، یہاں خوش مزاج ، بوڑھے اور جوان خواتین و حضرات ، ہلکی سی مسکراہٹ دے کراپنا پیدل چلنے کا سٹیمنا بنا رہے تھے ،، اور حسبِ معمول میَں اپنے ملک کی سہولیات ، اور لوگوں کے متفکر، چہروں کا موازنہ اِن سے کرتی جا رہی تھی ،،، ہم تیسری دنیا کے لوگ واک کرتے وقت بھی ، کسی گھریلو مسئلے، یا ، نوکری کے مسائل کو کسی کونے میں پھینک کر نہیں آتے ، بلکہ انھیں بھی " واک " کروانے ساتھ لے آتے ہیں ، یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے چہرے " متفکرخدو خال " کے ٹھپے سمیت ہوتے ہیں ،،، لیکن یہاں کے متفکر یا بےحسی لیۓ چہرے ، صرف اپنی غرض کی دنیا میں گُم نظر آۓٹھنڈک ہو گی ، اور لوگ گھروں میں بند ہو جائیں گے،یہ دن ہم مشکل سے گزارتے ہیں "!! شاید یہ لوگ قریبی رشتوں سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ان " اداس  ،، ہمیں مانچسٹر کے ایک بازار میں پچھتر ، چھہتر سالہ ایک خوش مزاج برٹش خاتون نے ہمیں مسکرا کر ہیلو کہا ، تو حیرت ہوئی کہ یہ تو خود سے وقت دے رہی ہے ،، میَں نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر کہا " آپ کا یہ گاؤں بہت خوبصورت ہے ، یہاں بہت سکون ہے ،، اس نے اداس لہجے میں کہا " لیکن تنہائی کے چھے مہینے آنے والے ہیں ، اور ہر طرف دھند اور دنوں " کو پہلے ہی سوچ سوچ کر اداس ہو رہے ہوتے ہیں۔ 
شاید اسی امپریشن کے تحت ایک نظم لکھی تھی اگریہیں پڑھ لیں تو بہتر ہو گا ۔۔۔
" یہ گوری قومیں "
جانی انجانی اجنبی دنیائیں 
یہاں عجب نسل بَس رہی ہے
اِن کے ہاتھوں کی ٹھنڈک
اور لبوں کا سکوت ،،،
ایسا، کہ کچھ بھی نہ کہا اور سب کہہ بھی گۓ 
آسیب ذدہ گھروں کے مکیں
چہرے پہ چہرہ سجاۓ 
بے نیازی کی بُکل اوڑھے
قریب سے گزرتی یہ مشینیں
جیسے وقت کے کوڑے کے غلام !!!۔
بہرحال ہم یہاں واکنگ ٹریک اور پارکوں میں جب بھی بیٹھتیں، سامنے گزرتے چہروں کے " صفحے " پڑھتیں ، اندازے لگاتیں ،اور اپنے تئیں بہت عقلمند سمجھتیں ۔ انکے لیۓ دیۓ رویوں پر حیرت ہوتی کہ اپنے والدین کی غلطیوں کو نئی نسل بہ خوشی قبول کر کے " پرائیویسی "کے چکر میں تنہائی خرید رہی ہے ،، لیکن ساتھ رہنے کی " سمجھوتہ گاڑی " نہیں چلانی ۔ جو آسان حل ہو سکتا ہے۔
اگلا دن لندن سے رخصتی کا تھا ،، عام ریلوے سٹیشن پہنچے ، جو ہمارے ملک کےمیں ابھی تک نہیں بنا ، بہت صاف ، اور ٹرین بھی بہت صاف ستھری ، ۔ ہمارا یہ سفر دو گھنٹے اور چند منٹ کا تھا ،، سارا وقت ،اے سی چلتا رہا ، کھڑکی سے باہر کے دو گھنٹے مسلسل کھیتوں ، فیکٹریوں کے شیڈ گزرتے رہے ، غربت کا تصور یہاں کچھ اور ہے ،،، اور ہمارے ہاں کچھ اور ،،، حال یہ ہے کہ ہم جب ٹرین میں سفر کرتے ہیں ، تو کسی شہر کے قریب آنے ، یا شہر کے نکلنے کے منظر شدید گندگی اور بد رنگی سے بھرے ہوۓ ہوتے ہیں ۔ بس درمیان کا کھیتوں کا نظارہ کچھ طراوت بخشتا ہے ۔ ،،، اور اگر کوئی گاؤں ٹرین کی کھڑکی سے نظر آجاتا ہے ، تو سادہ گھروں کے ساتھ، ان کی مفلوک الحالی ، صاف نظرآجاتی ہے ، ایک تو ہمارے سخت گرم موسم ، کہ جس میں بارش بھی نہ ہو، سارا ماحول مٹیالہ نظر آتا ہے ،، اور یہاں میرا یہ حال کہ اس دو گھنٹے میَں کھڑکی سے چپکی بیٹھی رہی اور لمحے بھر کے لیۓ نہ اُکتائی ،، اور یہ بھی کہ ٹرین ایسی سموتھ چلی کہ ، مانچسٹر سٹیشن آیا تو، دل چاہا ، کہ ایک گھنٹہ اوریہ سفر رہتا۔ 
سٹیشن پر مائرہ مسکراتی شکل سے نظرآئی۔ اور کچھ سیڑھیاں اتر ، کچھ چڑھ کر ہم کار تک پہنچیں۔ کیوں کہ اب ہم نیم پہاڑی علاقے میں پہنچی تھیں ۔ اس لیۓ یہاں کچھ ایسی حالت نظر آجاتی ہے۔ اسی دوران مائرہ ہمیں ایک مال میں لے گئی کہ اب آپ صرف شاپنگ کریں ،، جواب تک کافی کم کی گئی تھی ۔ 
سویٹروں کی شاپنگ کے بعد اسی مال کے ایک خوبصورت "لبنانی ریسٹورنٹ ، پو پو " سے ہلکا پھلکا کھانا کھایا ۔ اور اسکے برآمدے میں آکر قہوہ سے لطف اندوز ہونے لگیں ، یہ ریسٹورنٹ دوسری منزل پر تھا ۔ ہم نیچے کے ہال کو دیکھ رہیں تھیں ، اتنے میں آرکسٹرا کی بھرپور آواز نےہمیں متوجہ کیا ،، ایک لڑکے نے اناؤنسمنٹ کی اور مائیک پرچند "جوڑوں" کا نام پکارا ۔۔ اور فلور پر چند بزرگ جوڑے ، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ، آرکسٹرا کے ردھم پر ڈانس کرنے لگے ،، ،۔تب مائرہ نے معلومات لے کربتایا ،، یہ یہاں اس شاپنگ مال کی طرف سے منگل اور بُدھ کو بزرگ جوڑوں کے لیۓ شام6 بجے سے آٹھ بجے تک " مفت تفریح" مہیا کی جاتی ہے ۔ ڈانس سے پہلے اور بعد میں انھیں قہوہ یا چاۓ بھی مفت پیش کی جاتی ہے ۔ اور بزرگوں کے احساسات اور ان کی مصروفیات کا خیال کن معاشروں میں کیا جاتا ہے ،، صرف اسلامی معاشرے میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جی ہاں ، ان احساسات کا خیال رکھنا تو اسی دین نے سکھایا لیکن اسے اپنایا ، ان قوموں نے جن پر یہ احکامات نہیں اترے ،،، لیکن آج ان کی ویلفیر سٹیٹ کے بہت سے بنیادی احکامات اِسی دین سے حاصل کیۓ گۓ ہیں ، بزرگ طبقہ سواۓ تنہائی کے کسی ایسے ویسےخدشات کا شکار نہیں ۔ ہم تو اپنے بچوں کے لیۓ پہلے جوانی کی محنت سے کماۓ پیسے کو دانتوں سے پکڑ پکڑکرجمع کرتے اور ایک گھر بناتے ہیں ، پھر اس گھر میں بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں ، اگر بیمار ہوۓ تو ہر حال میں اپنے علاج خود کریں ۔ اور کبھی کبھی ایسی بیماری ، جو لمبی ہو جاۓ تو وہی گھر بکنے پر آجاتا ہے ۔ گویا پینشن والا بزرگ بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے ، کہ وہ چند پیسوں سے ابھی بھی گھرکو مدد دے رہا ہوتا ہے،،، بس یہ توقع کی جاتی ہے کہ بزرگ حضرت ، یا خاتون ،، اپنے تمام اخراجات بھی کم کر لیں ، ہو سکے تو دوائیاں بھی نہ خریدیں ، اور کسی صحت مند غذا کی فرمائشیں نہ کریں ،، اور کہیں جانے کا تو نہ ہی بولیں ،،، بات تو لمبی ہو جاۓ گی ،، لیکن یہ طے ہے کہ بڑھاپے میں سواۓ اللہ اللہ کرنے کے کسی تفریح کا سوچنا بھی گناہ ہو جاتا ہے ،، اور یہ باتیں اگرچہ اب بہت حد تک کم ہو گئی ہیں ، لیکن 50 فیصد آج بھی ایسے خیالات لیۓ زندگی گزار رہے ہیں ،، ۔
مزید تین دن " بےکپ " رہنے کے بعد آج 2 نومبر کی شام ہے ایمن ثمن بھی کل پہنچ چکی ہیں ، بچیوں نے ہمارا سامان نہایت محنت سے پیک کیا ،، اور سات بجے شام ہم ایئر پورٹ پہنچیں ،، لائن میں لگے آدھ گھنٹہ گزرا ،، تو جلدی کرو کا شور بلند ہوا ۔ اور جب ہمارا سامان کا وزن کیا گیا وہ کچھ زیادہ تھا ، ایمن ثمن نے فورا بیلنس کیا ، اور کچھ سامان واپس گاڑی میں لے گئیں ۔ اب خداحافظ کہا گیا ، لائن میں ہم قدرِِ پیچھے چلتی رہیں ، اور جہاں چیکنگ کا وقت آیا ، مائرہ کی طرف سے میری درد کی ٹیوبز آخری وقت پر ملیں جسے میں نے اپنے پرس میں رکھ لیا ، ان کی چیکنگ ہوئی مجھے کلیئر کر دیا ،، لیکن جوجی کے ہاتھ میں پکڑے قرآن اور اس کے لیپ ٹاپ نے اسے لمبی چیکنگ سے گزرنا پڑا ، اور اس دوران اس کا ہینڈ کیری ، اپنا بڑا پرس ، اور ہاتھ میں پکڑے بورڈنگ کارڈ وغیرہ نے مجھے تھکا دیا ،، اور سب سے تکلیف دہ بات وہاں کھڑے پی آئی اے کے پاکستانی اہلکار کہتے رہے ،، " جلدی کریں ، ورنہ ہم جہاز چلوا رہۓ ہیں ، ، ، ایک تو ان جاہل پاکستانیوں نے بےتحاشا شاپنگ ضرور کرنا ہوتی ہے ،،، ایک تو اِن لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کی کیا لے کر جانا ہے ، کیا نہیں ،،"" ،،، سوچیۓ ان غیر اخلاقی ، بےحوصلہ کرنے والے جملوں نے میری کیا حالت کردی کہ، اپنی تمام تر بولڈ نیس کے باوجود میں ٹینشن میں آگئی۔ لیکن بس اتنا کہا " بے شک جہاز چلوا دو ، ، وہ منہ ہی منہ میں بُڑبڑانے لگا ،، اتنے میں جوجی فارغ ہو کر آگئ،، اب ہم نے تمام ہمت جمع کر کے دوڑنا شروع کیا ،، وہ آدمی ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ، اور کچھ نا کچھ کہتا جا رہا تھا ، اور اس دوران ایکسیلیٹر سے مجھے سامان سنبھالنا عذاب لگا ، کہ اچانک میرے ہاتھ سے ہینڈ کیری ایک جوان انگریز ( یا کوئ نیشنل) نے پکڑا اور مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ، میں لیپ ٹاپ اور اپنے بیگ کے ساتھ پوری ہمت سے بھاگتی ہوئ ، جہاز کے دروازے میں داخل ہوئی ،لیکن میرے دل کی دھڑکن اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی ، جو ایئر ہوسٹس دروازے پر کھڑی تھی ، میں سامان اس کے آگے پھینکا ، اور اسی نے اشارے سے بتایا سب سے پیچھے چلی جائیں ، میَں آخری سیٹ تک کتنی مشکل سے پہنچی ، اور اسکے بعد مجھے جو کھانسی شروع ہوئی ،، تو میری حا لت دیکھ کرایئر ہوسٹس گلاس پانی کا لے آئی ، چند گھونٹ پیۓ ، جہاز چلا ، بتیاں روشن ہوئیں ،، لیکن کھانسی دو گھنٹے تک رُکی ،، اس کے بعد صبح 9 بجے پنڈی ایئر پورٹ تک کا دورانیہ جو گزرا ، میں ایک جملہ نہ بول سکی کہ ہمت بالکل ختم تھی ،،،نقاہت سے ہلنا مشکل تھا ،،تو گویا ، اتنے زبردست خوشیِ پُرلطف اور بہت بےفکری کے سفر کے آخر میں ، جس اذیت ، اور ناگوار صورتِ حال سے گزرنا پڑا ،، وہ ساری رات اور اپنے پاکستانی عملے کا تعاون سے عاری رویہ ، مجھے یاد آتا ہے تو دل اداس ہو جاتا ہے ، وہ دیکھ رہاتھا کہ میَں مشکل سے چل پا رہی تھی بجاۓ مدد کرنے کے طنزیہ باتیں کرتا جا رہا تھا ، اورغیر ملکی نا معلوم مسافر کا شکریہ جس نے بغیر میرے کہے میرا بیگ لے کر پہنچایا ،، گھر آکر اپنے بچوں کو سنایا ، تو وہ بہت خفا ہوۓ کہ آپ نے اسی وقت اس کی شکایت کرنا تھی ،،، وہ کسی صورت جہاز چلانے کے مجاز نہیں تھے ،، اور جب مائرہ کو پتہ چلا ، تو اس نے ہمیں صرف اس کا حلیہ بتانے پر اصرار کیا کہ اس دن اتنے سے اتنے بجے جن کی ڈیوٹی تھے ، میں یہاں سے پتہ کروالیتی ہوں ،، میں نبٹ لوں گی وغیرہ ،وغیرہ ،،، لیکن جب تک ہمارے لوگ سیاسی بھرتیوں سے نااہل اور نان پروفیشنل لوگ ان عہدوں پر آئیں گے، ہمیں ایسے ہی " حراساں " کیا جاتا رہۓ گا ،، جس چیز کی ہمیں سب سے ذیادہ ضرورت ہے وہ " خوش اخلاقی ، اور بھرپور تعاون کی شخصیت بننا ہے ،، ۔
میَں آج اس سفرِِ ولایت کا اختتام کرتی ہوں ، یہ اور پہلے لکھے گۓ سفرنامے ،، میَں نے اپنے شوق ، اور یاداشتوں کو اکٹھا کر لینے کےلیے ، اور خود کی سیٹس فیکشن کے لیۓ لکھے ہیں ، درخواست ہے ، ان سفرناموں سے کسی "معیار" کو نہ ڈھونڈا جاۓ ، نہ ادبی نہ تکنیکی ، نہ کسی قسم کے نثر پارے کے طور پر ،،، یہ اپنی پیاری یادوں کو اپنے پیارے احباب سے شیئر کرنا تھا ،اور بس،،چوں کہ ہر تحریر جب لکھی جاتی ہے اور کسی کے سامنے آ ہی جاتی ہے تو وہ اپنے " قاری " کی منتظر بھی ہو جاتی ہے ،،، ۔
دعاؤں کے ساتھ ! ۔
( منیرہ قریشی 30 جولائی 2018ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں