اتوار، 22 جولائی، 2018

سفرِانگلستان (25)۔

"سلسلہ ہاۓ سفر "
' سفرِِ ولایت ، یو کے ' ( 25)۔
اور دل میں میوزیم ، کے باقی حصوں کو دیکھنے کی حسرت لیۓ واپسی اختیار کی ۔ اگلے دن ایمن ثمن نے پھر ہمارے لیۓ ، وہی لندن کے ان گوشوں کو دکھانے کا فیصلہ کیا ،، جو اُن کے مطابق ہر سیاح کو دیکھنا ضروری ہے ، ورنہ لندن ہی نہ دیکھا ،،، جی ہاں وہی " لندن آئی ،، 10 ڈاؤننگ سٹریٹ ،اور کچھ مشہورشاپنگ سینٹر ہیریلڈ اور نواز شریف کے فلیٹس والی سٹریٹس ،، اور کچھ اہم اور پیارے لوگوں سے ملنا بھی ضروری تھا ،، اس لیۓ اب دو دن تھے اور ہمیں مصروف ہی رہنا تھا ،،، اگلے دن ، کی سیر خاصی لمبی پیدل کی جانے والی سیر تھی ،، کیوں کہ جگہیں ایسی تھیں کہ بار بار بس کا سفر کرنا پڑنا تھا ، ، بہر حال اسی میں ایڈونچر تھا ( ہمارے لحاظ سے ) ۔ اور اگلے دن کی سیر کے لیۓ ایک مرتبہ پھر " ٹیوب سٹیشن " پہنچیں ، اور کانوں نے ایک دفعہ پھر اس انگریز بھکاری کی پُرسوز آواز سنی ۔ وہ واقعی ایک خوبصورت آوازتھی ، اور اسے قسمت کہتے ہیں کہ اب تک کسی موسیقار کی توجہ اس کی طرف نہیں گئی تھی کہ ،، ریشماں جیسی قسمت بھی کوئی کوئی لے کر آتا ہے ۔ ایمن ثمن ہمیں سیدھے " ملکہ " کے سلام کے لیۓ لے گئیں ،، یہ ایک خوب وسیع ، پرانے طرزِ تعمیر کی عمارت جس کے باہر خوب چوڑی ڈرائیو وے اور پھر اونچا گیٹ تھا ، اور دیوار !! جس کے باہر " ہم عوام " اسی شہزادے ، شہزادیوں ، کی محبت کی میٹھی 
نشہ آورگولیاں چوستے ہوۓ ،، عمارت کو شوق سے دیکھ رہے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں انسانوں کے ہمیشہ سےتین طبقے نمایاں رہے ہیں ،ایک طبقہء امراء ،، جن کا رہن سہن ایسا شاہانہ ہوتا ، جو عام عوام سوچ بھی نہیں سکتے ، اور کوئی انکے اس شاہانہ طرز کو نہ چیلنج کر سکتا تھا ،، نہ آج تک کیا جاتا ہے !! ( کہ اس بات کوغداری سمجھا جاتا ہے )۔
کہ اپنا ذریعہء آمدن بتاؤبھئ !؟؟ اور یہ ہی مختصر طبقہ حکمران ہوتا ہے ، ملک کے جاندار اور بےجان اشیاء کے مالک و مختار بھی ہوتے ہیں وغیرہ دوسرا طبقہ ، اسی طبقہء امرا و حکما کو مدد دیتا کہ ،، ذہنی قابلیت رکھنے والے یا تھنک ٹینک ، اسی " دوسرے طبقے" سے فراہم ہوتے تھے اور آج بھی ہیں۔ ،،، اور تیسرا طبقہ حکمران کے تالی بجانے پر" کیا حکم ہے میرے آقا !! " والا ہوتا ہے ،،،اور دیکھا جاۓ تو شاہی خاندان تو اب چند ملکوں میں رہ گۓ ہیں ،، تاریخ نے بار ہا، ان بےچارے شاہی خاندانوں کو تخت سے تختے یا فٹ پاتھوں تک پہنچایا ،،، لیکن عبرت کسی نے حاصل نہ کی " شاید ، یہ ہی اگاڑ پچھاڑ لوح محفوظ " میں لکھ دی گئ ہے ، ، ، اور اب جہاں جمہوریت کی کونین والی گولی معہ میٹھی کوٹنگ کے کھلائی جاتی ہے ،، وہاں بھی ایسے ہی تین طبقے ہیں ، وہی " طریقہء حکمرانی ، وہی طریقہء واردات ،، وہی تاریخ کے صفحوں پر کالے ٹھپے ،، " یعنی مدت پوری ، اب نا اہل " ،، وہی تھنک ٹینک کی بادشاہ گری اور وہی ہم عام عوام '' کیا حکم ہے میرے آقا "" ! اور آج ہم بھی عام عوام بنے نہایت آرام سکون سے گیٹ سے ،باہر مختلف تصاویر اتروا رہے تھے ،، کہ شاید اس دوران "ملکہ " کی آمد کا غلغلہ اُٹھے ،، اور رعایا احمقوں اور خوش آمدیوں کی طرح تالیاں بجاۓ ،،، اور بعد میں دیر تک اُن چند لمحوں کو یاد کی جاتا رہے،،، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا ، اور ، عام عوام نےصرف خوبصورت بنے پارک میں کچھ دیر تصاویرلیں ،، اور اگلا " ٹِک مارک " 10 ڈاؤننگ کے سامنے لمحہ بھر رک کر لگایا ، ذرا آگے بڑھیں۔
تو ایک " احاطہ " نظر آیا جو ملکہ کے گرد روایتی لباس والے پولیس کا ٹریننگ سینٹر تھا ،، وہاں بھی وہی روایتی اونچی سیاہ ٹوپی ، اور سرخ کوٹ ، اور سیاہ پینٹ میں ملبوس چند معصوم شکل پولیس کے سپاہی اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے ، ایک بچونگڑے سے سپاہی کو جوجی نے پوچھا " کتنے گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے؟ اور کیا تم لوگوں نے اسی طرح ساکت رہنا ہوتا ہے ؟ ،، جواب میں مکمل خاموشی ،،، بلکہ اس نے نظریں ٹیڑھی کر کے بھی ہمیں نہیں دیکھا اور ناک کی سیدھ میں دیکھتا رہا،،،خیر اس بچارے کے ساتھ ہم نے تصاویر لیں ، اور آگے چل پڑیں ،، ٹونزوں کو ہماری ہر " فری ہو جانے والی حرکت " بہت دیسی لگتی تھی ، ، لیکن جیسا میں نے پہلے کسی قسط میں لکھا تھا کہ ہم ایک کان سے سُنتیں اور دوسرے سے نکال دیتیں ،، انھوں نے بتایا یہ بغیر اپنے آفیسرکی اجازت کے جواب بھی نہیں دے سکتے ۔ ،، کچھ دیر اس احاطے میں ٹریننگ لیتے پولیس ٹرینیز کو گھوڑوں کی ہلکی چال سے ٹریننگ لیتے دیکھا،، اور سیدھے پہنچیں "لندن آئی "،، اور بگ بین کے مشہورِ زمانہ چوک پر یہ دونوں آمنے سامنے تھے ، صرف آنکھوں دیکھا حال والا قصہ کیا ،، اور پندرہ بیس منٹ گزار کر اُس بس میں بیٹھیں ، جو سینٹرل لندن کی طرف جا رہی تھی ۔ ایمن نے اپنی تعلیمی درسگاہ یہ کہہ کر وزٹ کروانے سے انکار کر دیا تھا کہ آپ کیمبریج جیسی شاندار اور گرین ایچ جیسی ستھری ، وسیع لان والی یونیورسٹیز کو دیکھ آئی ہیں ،، اب یہ " لندن سکول آف اکنامکس " محض معیار کی وجہ سے بلند ہے ورنہ بلڈنگ وہی جدید طرز کی ، اوپر تلے کی منزلیں ہیں ، ہم نے بھی اصرار نہیں کیا ، کہ تھکن بھی ہم پر سوار تھی ،،لیکن اس کے قریب سے گزریں  تو قریب ہی " ایک اور قدیم اور خاص پس منظر رکھنے والی عمارت نظر آئی ،، جسے دیکھ کر جماعت دہم میں پڑھی ، نظمیں اور مضمون بھی یاد آگۓ ، "ویسٹ منسٹر ایبے"،، جو یہاں کے شاہی خاندان یا اہم خاندانوں کا مشہور چرچ ہے ، جو آج ایک ہزار سال کا ہونے والا ہے لیکن مناسب دیکھ بھال نے اسے قابلِ دید بنا رکھا ہے،، اور ہم نے اگرچہ برٹش حکمرانی کا دور نہیں دیکھا ،، لیکن ہمارے بچپن تک تادیر ، برٹش شخصیات ، عمارات ، اور ڈیفوڈلز کا ذکر ہماری درسی کتب میں رہا ، ، ہمیں ان مشہور جگہوں ، اور شخصیات سے متعلق پڑھنا ، برا نہیں لگتا تھا ، لیکن تصورات میں یہ امیج کسی طرح صحیح بیٹھتا بھی نہ تھا ، اور انتہائی مشکل سے حاصل کیۓ گۓ وطن کی کم اور سابقہ حاکم کے ملک کی ذیادہ معلومات ہوتیں۔ 
لندن کے آخری دن کو ہم نے " بشیر بھائی اور شاہدہ " کے لیۓ وقف رکھا ہوا تھا ،، " محمد بشیر بھائی " واہ فیکٹری کے ان انجینئرز میں سے تھے ، جنھوں نے دیانت داری سے کام کو اپنا " موٹو " بناۓ رکھا ، میرے والد ، کے لیۓ ان کے ذہن میں ہمیشہ بہت اچھا امیج رہا ،، کہ اباجی چیف سیکیورٹی آفیسر ہونے کے ناطے ، نئے افسران ،کی تمام تر تحقیق کی رپورٹ دینے کے پابند تھے ، اور بشیر بھائی اس بات کو بہت  فخر سے بیان کرتے کہ " میجر صاحب " کے  دستخط  سے ہمارے پیپرز فائنل ہوۓ ، یہ کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ وہ اپنی ڈیوٹی دیتے تھے ،، لیکن بشیر بھائی کے دل میں وہ اچھا امیج آج بھی قائم ہے ،، اتفاق سے ان کی اکلوتی بیٹی " مہوش بشیر " میری بیٹی نشل اور بھانجی ماہرہ کی کلاس فیلو رہی ، کانووینٹ میں پڑھتی یہ تین ، اور ایک دو اور بچیاں صائمہ ناز ، ( جو اب انگلینڈ میں ہی ڈاکٹر ہے ) اور ماہم شاہد ،، کا گروپ ایسا تھا ، جو اگر چند دن گزارنے کا پروگرام ترتیب دیتیں تو سبھی بچیوں کے والدین " مہوش " کے گھر رہنے کی اجازت بخوشی دے دیتے ۔ اور وہاں بشیر بھائی اور شاہدہ دلی محبت اور کیئرنگ سے انھیں گھر میں رکھتے ،، یوں لگتا کہ وہ سب وہاں پکنک منانے پہنچی ہیں ۔ بچپن سے لے کر آج تک ان کی دوستی بہت خوبصورتی سے چل رہی ہے ، نشل پاکستان میں ، ماہرہ انگلینڈ میں اور مہوش امریکا میں رہتی ہیں ، ، لیکن یہ فاصلے ان کے آپس کی پیاری دوستی کو مدھم نہیں کر سکے ۔ دعا ہے کہ یہ سب بوڑھی ہو کر بھی ملتی رہیں ، اور اپنے بچپن کے گزارے بےفکری کے دنوں کی کہانیاں اگلی نسل کو سناتی رہیں آمین !۔
بشیر بھائی فیکٹری سے ایم ، ڈی کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوۓ ، اور اکلوتے بیٹے کی محبت میں انگلینڈ کی شہریت لے کر لندن شفٹ ہو گۓ ، یہاں سیٹل ہوۓ قریباً 10 یا 12 سال ہو چکے ہیں ،، لیکن پاکستان سے محبت کا یہ حال ہے کہ صبح کا آغاز اگر نماز سے ہوتا ہے ، تو دوسرا کام وطن کی خبر لینے کے لیۓ خبروں کا ہوتا ہے ، ، ، وہ میرے اس پیج کے بھی مستقل قاری ہیں ، شاہدہ ایک سگھڑ اور با ذوق وہ خاتون ِ خانہ ہے ، جس کی زندگی صرف شوہر اور ان دو بچوں بیٹا اور بیٹی کے گرد گھومتی تھی اور گھوم رہی ہے ،،، اس نے واہ فیکٹری میں ملے خوب بڑے گھر کو نہایت سیلقے اور ذوق سے سجایا ہوا تھا ،،، اور اب جب انگلینڈ کے اس چھوٹے گھر میں گئیں تو ،، یہاں اس کے ذوق اور سگھڑاپے کا الگ روپ نظر آیا ، جو کم گھروں میں ہی نظر آتا ہے ، ، دونوں نے بہت اپنائیت سے استقبال کیا ، گھر میں بنی کھانے کی مزیدار اشیاء شاہدہ کی محبت کا اظہار کر رہیں تھیں ، حالانکہ اب وہ صحت کے لحاظ سے بہت فٹ نہیں رہتی ، لیکن گھر داری ، اس کی" تھیریپی " ہے ، ، میَں تو اس کے سلیقے سے پہلے ہی متاثر تھی ، انگلینڈ کے گھروں کو سجانا اور وہ بھی بغیر ملازمین کے ،، یہ اچھی خاتونِ خانہ کا اظہار تھا ۔ بشیر بھائ نے بھی اپنی مصروفیات فکس کر رکھی ہیں ، لیکن پاکستان کی محبت اور اس کی فکر میں گھُلے نظر آۓ ،، جو ایک محبِ وطن پاکستانی کی خاص صفت ہے ۔ ( مجھے یاد نہیں کہ ان کا علاقہ کون تھا ، وہ اس قسط کو پڑھ کر مجھے یاد دلا دیں ) لیکن جب ہم اس علاقے کی ایک سڑک پر مڑیں ، تو اس سٹریٹ پر بہت سے یہودی خواتین و حضرات ، نظر آۓ ، جو اس وقت سکول سے چھٹی ہونے پر بچوں کو لینے آۓ ہوۓ تھے نیزشام کی آفسسز کی چھٹی ہونے پر گھر جاتے نظر آۓ ،، مجھے مانچسٹر میں بھی یہودی افراد نظر آۓ تھے لیکن یہاں یہ خاصی تعداد میں تھے ، مرد حضرات نے سیاہ کوٹ پینٹ ، ہیٹ ، اور ہمارے مولانا حضرات جیسی لمبی داڑھیاں رکھی ہوئیں تھیں ، لیکن دونوں کانوں کے پاس کے لمبے بالوں کی مینڈھیاں کر کے داڑھی جتنی لمبی چھوڑی ہوئ تھیں ، ان کے بچوں کے سروں پر وہ گول ٹوپی چپکی ہوئ تھی جو بہ مشکل ایک چھوٹی سی "پرچ " جتنی ہوتی ہے ،اور ایسے میٹریل کی تھی جو چِپکی رہتی ہے ، یہودی اپنے بچوں کی گُھٹی میں اپنے عقائد ، اور روایات کو ایسا گھول کر پلا دیتے ہیں کہ ، صدیوں پہلے بھی اور آج بھی ، وہ خود کو خالص اور دوسروں کو " نا خالص " سمجھتے ہیں ، ایسا زعم صرف براۓ زعم نہیں چلا ۔ بلکہ اپنی عرب سر زمین سے لی گئ ذہانت کے بل بوتے پر ، خود کو ہر طرح ان تھک محنت اور ا"پنی قوم "سے وفاداری سے دنیا میں کی گئی" ایجادات" کا لوہا منوا لیا ہے ۔ یہ اور بات کہ ان میں " محبت اور جنگ میں سب جائز ہے " والا فارمولا بہت عمل پیرا رہتا ہے ،، خود کواللہ کی چنیدہ قوم کا زعم ،انھیں متکبر کر دیا ہے ، یہ تکبربِل آخر انھیں کس انجام سے دوچار کرے گا ، یہ تاریخ رقم ہو کر رہۓ گی ، ان شا اللہ !۔
بشیر بھائی اور شاہدہ کی محبت بھری میزبانی کا لطف اُٹھاتے ،، لندن کا یہ علاقہ دیکھتے ، انھیں اللہ حافظ کہا ، اور گھر آکر ٹونزوں نے ہمارے ہینڈ کیری جیسے دو بیگز ، اور ایک عجیب و غریب شکل کا تھیلا تیار کیا ، جو ہم دونوں سے اُٹھایا جانا ممکن ہی نہ تھا ،، ہم دونوں تو بیگم صاحب بن کر اپنے اپنے ہینڈ کیریز کے ساتھ آگے چل پڑیں اور ایمن ثمن نے وہ عجیب سا تھیلا خود اُٹھاۓ رکھا، ریلوے سٹیشن پہنچیں ، یہ ٹیوب سٹیشن نہیں تھا بلکہ نارمل ٹرین تھی ، ٹکٹ چند دن پہلے لے لیۓ گۓ تھے ،، اور اپنی پیاری ، نہایت مہمان نواز اور میری ہر بات اور حرکت کو محبت و احترام سے برداشت کرنے والی ٹونزوں سے رخصت ہوئی ،، تو دل بہت اداس تھا حالانکہ انھوں نے چند دن بعد مانچسٹر آکر ہمیں ائر پورٹ سے رخصت کرنا تھا ،، لیکن مَیں نے واضح کر دیا کہ مجھے لندن سے جدائی کا کوئی افسوس نہیں ،، جس پر انھوں نے لمبا سا کہا " خالاآآآآآا " ، کیؤنکہ وہ لندن 4 سال سے رہ رہی تھیں ، اور اب اس کے پانی اور نمک نے انھیں اپنا اثیر کر لیا تھا ،، سڑک سے مانچسٹر اور لندن کا فاصلہ 4 گھنٹے کا اور ٹرین سے لندن سے مانچسٹر تک کا سفر صرف دو گھنٹے کا تھا ۔ انتہائ آرام دہ سفر ،، بہت صاف ، ستھری سیٹس ، ، میَں نے حسبِ عادت کھڑکی والی سیٹ سنبھالی ،، کہ نئے ملک کے نظارے کھڑکی سے نظارت دیتے چلے جائیں تو اس خوشی کا نہ پوچھیۓ ،، دو گھنٹے کا سفر یوں گزرا کہ دل نے کہا یہ " کیوں۔ گزرا " ۔
(منیرہ قریشی 22 جولائی 201ء واہ کینٹ  ( جاری

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں