منگل، 17 جولائی، 2018

سفرِانگلستان(24)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
 سفرِِ ولایت، یوکے  (24)۔
ہم " کوئین وکٹوریہ اور البرٹ" میوزیم کی طرف چل پڑیں ،، کہ وہ بہت دور نہیں تھا ۔ اس میوزیم کو یہاں "وی اینڈ اے"  بھی کہا جاتا ہے ، لندن کی آبادی 2011ء کے مطابق 80 لاکھ تھی ۔ اور صرف لندن میں 23 میوزیمز ہیں ، جن کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے ، کچھ سائنس ، کچھ ہسٹوریکل ، کچھ کو " نیچرل ہسٹری میوزیم " کا نام دیا گیا ہے ، وغیرہ ،، ان میں کچھ بڑے ، کچھ چھوٹے میوزیم ہیں ، اور "وکٹوریہ اور البرٹ " میوزیم کو لندن کاتیسرا بڑا میوزیم مانا جاتا ہے ،، یہاں داخلے کا کوئ ٹکٹ نہیں ۔ اندر داخل ہوتے ہی ،میوزیم کے سجانے ، سنوارنے ، یا یہاں مختلف تہذیبوں کو الگ الگ نمایاں کرنے کا نہایت اعلیٰ انتظام کیا گیا تھا ،، خوب اونچی چھتوں نے اور سفید دیواروں نے دسعت کا انوکھا احساس   دیاہواتھا،،،،،کبھی انگلینڈ نے "برِ اعظموں" پر حکومت کی تھی ،، جوں جوں ، حاکموں کی حکومتی سرحدیں سکڑتی گئیں ،، ان کے اپنے " ذاتی " ( انگلینڈ) گھر کے فراوانی اور آسانی میں کمی کے اندیشے بڑھتے گۓ ،،، ان کے ذہین اذہان نے ہوا کا رُخ دیکھا اور آنے والے وقت کا اندازہ لگا لیا ، اس کےساتھ ہی اپنی پالیسیوں کو بدلایا ۔ ان کے نزدیک تعلیم عام اور آسان کرنا پہلا مقصدتھا جسے انھوں نے " حدف " قرار دیا ۔ اور اس کے ساتھ تحقیقی ، تدریس کے میدان کو بھی فتح کا ٹارگٹ بنایا ،، اس کے لیۓ لائیبریریوں ، میوزیمز ، اور لیبارٹریز کی سہولتوں کو اتنا وافر کیا کہ ، بیرونی ممالک کے طلباء کی توجہ ان کی طرف ہوئی،، اور اس ملک کے لیۓ آج بھی آمدن کا خاصا بڑا ذریعہ ان غیر ملکی طلباء کی آمد ورفت بن گیا ہے ،، لیکن یہاں کے بہت سے میوزیمز میں برٹش ایمپائر" نے اپنی پرانی کالونیوں سے قیمتی اور نہایت تاریخی نوادرات لا کر دھڑلے سے یہاں سجا لیۓ ہیں ۔ یہی حال یہاں کی لائیبریریوں میں موجود قیمتی ، اور نہایت پرانی اور تاریخی کتب کا ہے ،، اور یہی تحقیقی ماحول دیکھ کر طلباء جوق در جوق یہاں کی یونیورسٹیز میں آتے ہیں ، اور کوئ شک نہیں کہ شاد کام ہوتے ہیں ! لیکن ان ہی قیمتی خزانوں کو دیکھ کر حضرتِ علامہؒ نے فر مایا تھا ۔۔۔
ؔ مگر و علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا ء کی
جو دیکھیں اِن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا 
اور ہمارے لیۓ آج بھی صورتِ حال کچھ بہت ذیادہ تبدیل نہیں ہوئی ،، کیوں کہ ،
 ؔ خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
جب ہم اس زبردست میوزیم میں داخل ہوئیں ، تو دوپہر کے تین بجے تھے ، اور عین اس وقت نکلیں ، جب پانچ بج گۓ اور میوزیم کے بند ہونے کا اشارہ ملا ،، اور اس وقت تک ہم ہندوستان ، کوریا ، اور یونان کے حصے کو دیکھ پائیں ،،، جبکہ چین کی اور مصر کی قدیم ، اور شاندار تاریخی نمونے دیکھنے کی ابتدا ہی کی تھی ، کہ میوزیم بند کیا جانے لگا اورہم حسرت لے کر واپس آگئیں ،، ایک ایک ملک کو الگ سے ، آرام سے دیکھیں تب ہی اس ملک سے متعلق بہت سی معلومات ، آسانی اور دلچسپی ،،
سےسمجھ آتی ہیں ،، میَں اپنا تاثر بیان کر رہی ہوں کہ جب بھی کسی میوزیم میں جاتی تھی ،، اور ،، ہوں ، آنکھیں اس دور کی اشیاء دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن بہ باطن اسی دور میں گم ہو جاتی ہوں ، ،، اور یہاں مجھے خود پر اس وقت کافی قابو پانا پڑا ، جب ہندوستانی کارنر میں ٹیپو سلطان کے لباس ، تلوار ، اور اس کی تصویر کے پاس کچھ وقت گزارنا پڑا ،،، میَں ہرگز یہ جملے لفاظی کے طور پرنہیں لکھ رہی ،، میں واقعی شدید جذباتی ہو گئ تھی ،، لیکن ،،، یہاں کچھ وقت گزار کر اس کے ساتھ ہی ، کوریا کی قدیم تہذیب کے نمونے ہیں ،، جس نے ہمارادھیان بہ خوبی اپنی جانب متوجہ کیا ، اسی کے ساتھ یونان سے لاۓ گۓ آرٹ کے اعلیٰ ترین نمونے سامنے آۓ ، اور روح کا بھٹکنا تو قدرتی ہوا ،، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی ، اس ساری تہذیبی مناظر کو کہاں کہاں سے دیکھوں ، ، ، ایمن ثمن ہم دونوں کو گھسیٹ کرچین اور مصر کے کارنرز کی طرف لے کر گئیں ،، کہ وقت کم رہ گیا تھا،، جبکہ ہمیں یونانی دیو مالائ تہذیب نے جکڑا ہوا تھا ،، کوئ شک نہیں مصر اور چین کی تہذیبوں کا جادو چلا ،،،تو اب ہم یہاں جا براجمان ہوئیں ۔ اگر ایمن ثمن نہ ہوتیں ، تو ہم دونوں نے رات میوزیم میں ہی گزارنا تھی ،،، اور شاید " دی میوزیم " جیسی فلم کے واقعات ہم پر بھی پیش آجاتے ،، 😝🙂، میَں جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں ، وہ دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے ، یعنی " ٹکسا شلا " ( اصل تلفظ،، معنی، پتھروں کا شہر )جسے بعد میں " ٹیکسلا " کہا جانے لگا ،، یہاں قدیم تہذیب ، چپے چپے پر بکھری ہوئی ہے ،اس کی دریافت کا سہرا ، ایک برٹش " سَر الیگزنڈر کنگین ہیم " 
کے سر ہے ،، جس نے انیسویں صدی میں ٹیکسلا کے کھنڈرات کو دریافت کیا ،، اور آج اسی کی اَن تھک محنت نے صدیوں پرانی تہذیب ، دنیا کے سامنے رکھی ہے ،، یہاں سے نکلنے والے دفینوں کو ٹیکسلا میوزیم کی صورت میں محفوظ کیا گیا ،، یہاں سے دریافت شدہ بدھا کے بڑے چھوٹے مجسمے اور گندھارا تمدن میں استعمال ہونے والی بہت سی اشیاء کچھ تو میوزیم میں سج گئیں ، اور کچھ " نہایت بے علمی ، بے حسی ، اور بد دیانتی " کے احساس کے تحت ، انہی غیر ملکی میوزیمز کو غیر قانونی طور پر بیچ دی گئیں ،، لینے والوں نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیۓ ، اور چند سکوں کے لالچی تو خوش تھے ہی ۔ اور کچھ ہمارے لاعلم حکمران طبقہ بھی لے اُڑا ، کہ یہ بھی فیشن میں داخل ہے ، کہ اپنے گھر کے باہری بر آمدے کو بدھا کے 25000 سال پرانے مجسمے سے آراستہ کیا جاۓ ،،، میری خوبصورت وادی ٹیکسلا کی تاریخی اہمیت تو ہے ہی لیکن خوبصورتی کا بھی جواب نہیں ،، لیکن یہاں ایسا کوئ انتظام نہیں کہ ایک تحقیقی یونیورسٹی ہوتی ،اور ہمارے ملک میں جگہ جگہ بکھری تاریخ کے نودرات کو بے قدر لوگوں کے ہاتھوں میں دیۓ جانے سے روکا جا سکے ،، میَں اپنے بچپن سے ٹیکسلا میوزیم جا رہی ہوں ،، ہر دفعہ اسکے شو کیس میں، کچھ چیزوں کی کمی دیکھتی ہوں ، حالانکہ یہاں مہاتما بُدھ کے عقیدت مند ، دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں ،،اور یہ پاکستانی حکومت کے لیۓ آمدن کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ، یہاں کے کھنڈرات ، تیزی سے نابود ہوتے جا رہے ہیں ،، یہاں موجود عملہ اورگائیڈ بہت کم پڑھے لکھے ہیں ، جو چند رٹی رٹائی باتوں کو ، بغیر کسی علمی حوالے کے سیاحوں کے سامنے دہرا دیتے ہیں  اور ایسا بےعلمی کا مظاہرہ ، تقریباً ہمارے ملک کے سبھی کھنڈرات میں نظر آتا ہے ۔ مجھے دوسرے ممالک کے میوزیم اور لائیبریرز دیکھ کر ہمیشہ " ڈیپریشن " ہونے لگتا ہے ،،،،،،،!۔
( منیرہ قریشی 17 جولائی 2018ء واہ کینٹ ( ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں