" اِک پرِ خیال "
' کچھ گھنٹے ، کچھ دن ' ( 18)۔
کبھی کبھی جذبوں اور خیالوں کی زمین بے آب و گیا ،، ہوتی چلی جاتی ہے
کبھی کبھی زندگی کی گاڑی چہل پہل کے باوجود ،، ویرانے میں جا کھڑی ہوتی ہے ۔
کبھی کبھی ہجوم کے باوجود ، یہ وجود اکلاپے کی سُن کر دینے والی سردی میں ٹھٹھر رہا ہوتا ہے ،،، اور کبھی کبھی سُنی آوازیں ، پہچانے لہجے ،،، اجنبی لگتے ہیں ، کہ کسی کا جواب دینا ضروری نہیں لگتا ۔
کبھی کبھی "احساس " ،، ببول کا درخت بن جاتا ہے ،،،کوئی پھول نہیں ، کوئی پتی نہیں ۔
اور جب بھی بےحسی کے اس دور سے کوئی آپ کےقریب سےگزرے ، تو اسکے ہاتھ کو پکڑلیں ،، اپنے ہاتھ سے اسکے ہاتھ کو کچھ دیر تک پکڑے رکھیں ۔ اپنے ہاتھ کی گرمائش سے اسے ،، اسکی اہمیت کا احساس دلائیں۔
اس کی مہمل ، بےرنگ ، اور غیر دلچسپ گفتگو کو کچھ " گھنٹوں " کے لیۓ سُن لیں ( بلکہ برداشت کر لیں ) ۔ اُسے کوئی امپریشن نہ دیں کہ مجھے تمہارے حالات کا علم ہے ، اس لیۓ میں ہمدردی کر رہا ہوں / کر رہی ہوں ۔ اب ہم اسے نئی اور توانا سوچ نہیں دے سکتے ۔صرف اتنا کر لیں کہ اس کے حصے میں آۓ ، ٹیڑھے ، بےرنگ ، اور دھول سے اَٹے راستے سے کچھ " گھنٹوں یا کچھ دنوں " کے لیۓ رنگین پوسٹرز سے سجے راستوں کے قریب سے گزار دیں ،،،، شاید اُس کی دنیا میں پیٹ کے علاوہ بھی کوئی چیز قابلِ توجہ ہو جاۓ !!!!۔
ایسے ہی کچھ لوگ کبھی کبھی امتحان بن کر سامنے آ جاتے ہیں ، اور کچھ گھنٹوں ، یا ، کچھ دنوں کے بعد زندگی کے کسی اور چکر ، یا گھن چکر میں جا شامل ہوتے ہیں ۔ صرف چند دن یا چند گھنٹے،،،، ہم اپنی خوشیوں کی زکاۃ " خوشیوں " کی صورت میں بانٹ سکتے ہیں ۔
کبھی کبھی ،،، زندگی میں ایک بار ، یا ، دو بار !!ہر سال کا حج ، اور عمرہ ، گھر بیٹھے بھی ہو جاتا ہے۔
" کہ رب دلاں وچ رہندا "
اشفاق صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں " صوفی وہ ہے جس کے ہاتھ گندے ( خدمتِ خلق سے) اور دل صاف ہوتا ہے !۔
( منیرہ قریشی 26 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )
' کچھ گھنٹے ، کچھ دن ' ( 18)۔
کبھی کبھی جذبوں اور خیالوں کی زمین بے آب و گیا ،، ہوتی چلی جاتی ہے
کبھی کبھی زندگی کی گاڑی چہل پہل کے باوجود ،، ویرانے میں جا کھڑی ہوتی ہے ۔
کبھی کبھی ہجوم کے باوجود ، یہ وجود اکلاپے کی سُن کر دینے والی سردی میں ٹھٹھر رہا ہوتا ہے ،،، اور کبھی کبھی سُنی آوازیں ، پہچانے لہجے ،،، اجنبی لگتے ہیں ، کہ کسی کا جواب دینا ضروری نہیں لگتا ۔
کبھی کبھی "احساس " ،، ببول کا درخت بن جاتا ہے ،،،کوئی پھول نہیں ، کوئی پتی نہیں ۔
اور جب بھی بےحسی کے اس دور سے کوئی آپ کےقریب سےگزرے ، تو اسکے ہاتھ کو پکڑلیں ،، اپنے ہاتھ سے اسکے ہاتھ کو کچھ دیر تک پکڑے رکھیں ۔ اپنے ہاتھ کی گرمائش سے اسے ،، اسکی اہمیت کا احساس دلائیں۔
اس کی مہمل ، بےرنگ ، اور غیر دلچسپ گفتگو کو کچھ " گھنٹوں " کے لیۓ سُن لیں ( بلکہ برداشت کر لیں ) ۔ اُسے کوئی امپریشن نہ دیں کہ مجھے تمہارے حالات کا علم ہے ، اس لیۓ میں ہمدردی کر رہا ہوں / کر رہی ہوں ۔ اب ہم اسے نئی اور توانا سوچ نہیں دے سکتے ۔صرف اتنا کر لیں کہ اس کے حصے میں آۓ ، ٹیڑھے ، بےرنگ ، اور دھول سے اَٹے راستے سے کچھ " گھنٹوں یا کچھ دنوں " کے لیۓ رنگین پوسٹرز سے سجے راستوں کے قریب سے گزار دیں ،،،، شاید اُس کی دنیا میں پیٹ کے علاوہ بھی کوئی چیز قابلِ توجہ ہو جاۓ !!!!۔
ایسے ہی کچھ لوگ کبھی کبھی امتحان بن کر سامنے آ جاتے ہیں ، اور کچھ گھنٹوں ، یا ، کچھ دنوں کے بعد زندگی کے کسی اور چکر ، یا گھن چکر میں جا شامل ہوتے ہیں ۔ صرف چند دن یا چند گھنٹے،،،، ہم اپنی خوشیوں کی زکاۃ " خوشیوں " کی صورت میں بانٹ سکتے ہیں ۔
کبھی کبھی ،،، زندگی میں ایک بار ، یا ، دو بار !!ہر سال کا حج ، اور عمرہ ، گھر بیٹھے بھی ہو جاتا ہے۔
" کہ رب دلاں وچ رہندا "
اشفاق صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں " صوفی وہ ہے جس کے ہاتھ گندے ( خدمتِ خلق سے) اور دل صاف ہوتا ہے !۔
( منیرہ قریشی 26 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )