جمعہ، 26 اکتوبر، 2018

اِک پرِ خیال (18)۔

" اِک پرِ خیال "
' کچھ گھنٹے ، کچھ دن ' ( 18)۔
کبھی کبھی جذبوں اور خیالوں کی زمین بے آب و گیا ،، ہوتی چلی جاتی ہے 
کبھی کبھی زندگی کی گاڑی چہل پہل کے باوجود ،، ویرانے میں جا کھڑی ہوتی ہے ۔ 
کبھی کبھی ہجوم کے باوجود ، یہ وجود اکلاپے کی سُن کر دینے والی سردی میں ٹھٹھر رہا ہوتا ہے ،،، اور کبھی کبھی سُنی آوازیں ، پہچانے لہجے ،،، اجنبی لگتے ہیں ، کہ کسی کا جواب دینا ضروری نہیں لگتا ۔
کبھی کبھی "احساس " ،، ببول کا درخت بن جاتا ہے ،،،کوئی پھول نہیں ، کوئی پتی نہیں ۔
اور جب بھی بےحسی کے اس دور سے کوئی آپ کےقریب سےگزرے ، تو اسکے ہاتھ کو پکڑلیں ،، اپنے ہاتھ سے اسکے ہاتھ کو کچھ دیر تک پکڑے رکھیں ۔ اپنے ہاتھ کی گرمائش سے اسے ،، اسکی اہمیت کا احساس دلائیں۔
اس کی مہمل ، بےرنگ ، اور غیر دلچسپ گفتگو کو کچھ " گھنٹوں " کے لیۓ سُن لیں ( بلکہ برداشت کر لیں ) ۔ اُسے کوئی امپریشن نہ دیں کہ مجھے تمہارے حالات کا علم ہے ، اس لیۓ میں ہمدردی کر رہا ہوں / کر رہی ہوں ۔ اب ہم اسے نئی اور توانا سوچ نہیں دے سکتے ۔صرف اتنا کر لیں کہ اس کے حصے میں آۓ ، ٹیڑھے ، بےرنگ ، اور دھول سے اَٹے راستے سے کچھ " گھنٹوں یا کچھ دنوں " کے لیۓ رنگین پوسٹرز سے سجے راستوں کے قریب سے گزار دیں ،،،، شاید اُس کی دنیا میں پیٹ کے علاوہ بھی کوئی چیز قابلِ توجہ ہو جاۓ !!!!۔
ایسے ہی کچھ لوگ کبھی کبھی امتحان بن کر سامنے آ جاتے ہیں ، اور کچھ گھنٹوں ، یا ، کچھ دنوں کے بعد زندگی کے کسی اور چکر ، یا گھن چکر میں جا شامل ہوتے ہیں ۔ صرف چند دن یا چند گھنٹے،،،، ہم اپنی خوشیوں کی زکاۃ " خوشیوں " کی صورت میں بانٹ سکتے ہیں ۔
کبھی کبھی ،،، زندگی میں ایک بار ، یا ، دو بار !!ہر سال کا حج ، اور عمرہ ، گھر بیٹھے بھی ہو جاتا ہے۔
" کہ رب دلاں وچ رہندا "
اشفاق صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں " صوفی وہ ہے جس کے ہاتھ گندے ( خدمتِ خلق سے) اور دل صاف ہوتا ہے !۔
( منیرہ قریشی 26 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

اتوار، 21 اکتوبر، 2018

"اِک پرِ خیال" (17)۔


"اِک پرِ خیال"
'بند روزن ' (17)۔
اپنی ذات کے بند روزن کھولیۓ ، ورنہ اندر کی گھُٹی فضا ، متعفن اور بےزار رویہ بندے کو جیتے جی قبر میں اتار ڈالتا ہے ،، دوسرے کو بھی اور خود کو بھی ۔ اپنی زندگی کا سنہری دور اسی کُڑھن ،، جلن ، میں نہ گزاریۓ ،، ابھی اسی وقت سوچ بدل ڈالیۓ ،، کیوں کہ آپ کی ہر ایک سے نفرت اور صرف اپنی ذات سے محبت اور صرف چند لوگوں سے اُلفت آپ کو محدود کر رہا ہے ۔ ابھی کے ابھی اپنا جائزہ لیجۓ ، باہر کھڑا ، بہاریہ پیغام دینے والا قاصد آوازیں لگا رہا ہے ، اس نے آپ کو مسکراہٹ کا خط پہنچانا ہے ، اونچا قہقہہ لگانے کا نسخہ دینا ہے ، جسے آپ بھول چکے ہیں آپ کے منہ میں مصری کی ڈلیاں بھرنے کے لیۓ بھری تھیلی اُٹھا رکھی ہے ،، باہر جائیں تو سہی !! اپنی ذات کے سب غیر ضروری روزن ، "ہمت" کے سیمنٹ سے بند کر دیں ،،، اور اُن دروازوں ، کھڑکیوں ، اور روزن کو کھول دیں ، جو سورج کی نرم روشنی اور نرم گرمائش کے مکسچر میں گھُلی " رنگ روغن" کرنے کے والا آپ کے باہر آنے کا منتظر ہے۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ، جو کرنا ہے ، کر ڈالیۓ ،،،جو کہنا ہے کہہ دیجیۓ ،،،، کہ پھر سفید سَر کے ساتھ ، یہ کہتے ہوۓ آخری دور گزرے ، " کسی نے کچھ پو چھا ہی نہیں مجھ سے ،،،۔میرا تو دل تھا ، یہ قدم اُٹھانے کا ، لیکن ،،،مجھے تو لگا کہ ، مجھ میں یہ گُن ہی نہیں تھا ،،، آہ مگر اب کیا فائدہ ،،،،،،،،،،،،،، وغیرہ 
تَو گویا آپ نے زندگی ، کسی گاۓ ، بکری جیسی کھونٹے کے گرد پھرتے گزارنی ہے ، تَؤ گویا آپ نے زندگی خود اپنی پُوجا کرتے گزارنی ہے ،،،۔
تَو گویا ، آپ نے سوچنے اور سیڑھی پر چڑھنے کے عمل کو نہیں ،، صرف اُترنے کے عمل کو اپنانا ہے ،،،،،۔
۔"" قسمت ایک بار نہیں" بار بار بھی " دستک دیتی ہے، آپ نے بڑھ کر ابھی   دروازہ نہ کھولا ، تو قدرت بھی پوچھیت کے سخت عذاب سے گزار سکتی ہے ،کہ میَں نے تجھے کئی مواقع دیۓ تھے ،لیکن تم اپنے خالق پر بھروسے کی صفت سے عاری رہۓ ، متقی پرہیزگار نہ سہی ، شکرگزار ہی بن جاؤ ، کہ جو جسمانی ، ذہنی ، مالی صلاحتیں ملی ہیں ، انہی کی شکرگزاری سے اللہ منفی سوچوں کو ہٹا دیتا ہے ""۔
( منیرہ قریشی 21 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

منگل، 16 اکتوبر، 2018

"اک پرِ خیال(16) "

 اِک پرِ خیال "
' بارش ' (16)۔
بارش کا خیال آتے ہی ، گرج چمک کے ساتھ پانی کی بوچھار ذہن میں در آتی ہے ،، یا پانی کی پھوار ، یا ، پانی کی بوندوں کی رِم جھِم ،،،،، جو خیال بھی آۓ ، وہ پانی کی تیزی یا نرمی کے مطابق واٖضح ہوتا جاتاہے ۔ 
بارش کا تعلق کسی مخصوص موسم سے نہیں جوڑنا چاہیۓ ، اسے آنا ہے تو سخت گرمی میں ، سردی میں ، خزاں یا بہار کسی بھی وقت اپنے رب کے حکم سے آتی ہے ، برستی ہے ،، اور پھر پیچھے کچھ دن کے اثرات چھوڑ جاتی ہے ۔ برسات کے موسم کو بارشوں کی تسلسل سے آمد کی وجہ جوڑتے ہیں ، ورنہ وہ جب چاہۓ ،آۓ ،، جب چاہے نہ آۓ ، لیکن گرمی میں آۓ تو ، ہَوا کی تپش میں کمی کی وجہ بنتی اور لوگوں کی مزاجوں میں ٹھنڈک ڈال کرچلی جاتی ہے ، سردی میں اس کے آنے سے گرم کمروں ، سرد موسم کے  پھل، ، چاۓ کے لوازمات کا اہتمام کا جی چاہتا ہے ،،، اور خزاں ، بہار کے تو اپنے ہی رنگ ، اور مطالبے ہوتے ہیں ۔ ،،، لیکن یہ سب اہتمام ،،، انسانوں کی جیب اور مزاج کے مطابق وقوع پزیر ہوتے ہیں ۔ 
اگر کبھی بارش کی جھڑی لمبا وقت لے گئی تو ، غریب اپنے گھر کی چھت کو بار بار تولتا ہے ، اگلے دن کے خدشات ، اس سے 'باران ' کا لطف چھین لیتے ہیں ،،، لیکن یہی قانونِ قدرت ہے کہ ،، ایک ہی جگہ برستی جھڑیکچھ کے لیۓ دلوں کو گدگدانے کا ،، پکوان کے اہتمام کا باعث ،، اور اسی جگہ کچھ کے لیۓ تفکرات کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ 
لیکن یہ طے ہے کہ 90 فیصد بارش روئیدگی ، اور نمو کا باعث بنتا ہے ،، اس کاپانی " مقطر " اور باعث، شفا بھی ہوتا ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔
اور ایک" نمکین " بارش بھی برستی ہے ،، جو دو چشموں سے ایسے برستی ہے کہ بندے کو خود بھی نہیں پتا چلتا ، کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ کیوں کہ اس بارش کا سورس ( ذریعہ ) ، متکبر اور متنفر رویوں کے سیاہ بادل ، ہوتے ہیں ، جن کے اندر چبھتے ، نوکیلے لفظوں کی بجلیاں لہرا لہرا جاتی ہیں ، اور نتیجاً دو چشمے پانی سے یوں لبالب بھر جاتے ہیں کہ ،، یہ نمکین بارش ، بندے کے جسم اور روح کی خالی دراڑوں کو بھرتی چلی جاتی ہے ، پانی کی اس کمک سے آتا طوفان ٹل جاتا ہے ،،،، اور کچھ عرصہ کے لیۓ ہی سہی ،،، زندگی اچھی لگنے لگتی ہے ،،، ۔
" آج پھر کبھی کبھار کی طرح 
مجھے احساس ہوا ،،،،
روکھی سوکھی مٹی ہوں ، اُڑا چاہتی ہوں 
کوئ بکھرنے سے روکے اسے 
میری فریاد پر ،،،
اِن آنکھوں نے لبیک کہا !
اور چھِڑکاؤ کے بعد ،،،، 
یہ نم آلود مٹی ، اگلی فصل کے لیۓ تیار تھی !!
تو گویا ،، برستا پانی مقطر ہے ، تو ، باعثِ شفا ہے ہی ، لیکن نمکین بھی باعثِ تقویت بن جاتا ہے۔ 
لیکن ایک اَور بارش ، شفاف ، اور میٹھے پانی سے معمور ، برستی ہے ،، جب خلوت ہویا جلوت ،،، خالق اور تخلیق آمنے سامنے آ بیٹھتے ہیں ،،، محبت پاش جذبوں کے بادل ،، دل کی دھڑکن کی دھمک سے گرج چمک کرتے چلے جاتے ہیں ، اور چشمے ، "میٹھے پانی" سے ایسا جَل تھَل کر ڈالتے ہیں کہ ، خاکی ، ہَوا میں اڑتا چلا جاتا ہے ،،،، ! خالق کے قُرب کے لیۓ ، مخلوق کے پاس یہ بہترین ہتھیار ہوتا ہے ،، اسے بھی تو یہ برستے موتی متوجہ کرتے اور عزیز تر ہو جاتے ہیں !! ۔
؎ تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، یہ آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیزتر ہے، نگاہء آئینہ ساز میں ! 
اور سکون و اطمینان کی" بارش" میں بندہ کتنا ہلکا پھُلکا ہو جاتا ہے۔
" اے نفسِ مطمئنہ ! واپس چلو اپنے رَب کی طرف 
راضی اور خوشی کے ساتھ داخل ہو جاؤ ، میرے بندوں 
میں ،،، اور داخل ہو جاؤ میری جنت میں ۔ 
( سورۃ فجر ، آخری آیات )
( منیرہ قریشی 16 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

"اک پرِ خیال(15)"

" اِک پرِ خیال" 
' متکبر اور مستقبل ' (15)۔
انسان کی تخلیق میں ہوا ، پانی ، مٹی اور آگ کے مکسچر نے اس کی فطرت میں بھی حیران کن پہلو سمو دیۓ ہیں ، اور اسی لیۓ اکثر دانا لوگ ، کسی غصیلے بندے کو دیکھ کر تبصرہ کر ڈالتے ہیں ، " بھئ بہت آتشی مزاج پایا ہے " ،، اور جب بہت دھیمے اور 
اور صابر شخص سے واسطہ پڑے تو کہا جاتا ہے " کیا عاجزی ہے کتنا ٹھنڈا مزاج پایا ہے ' وغیرہ ،،، کبھی کبھی ایسے مزاج والوں پر کیۓ گۓ تبصروں کو سنتے سنتے ،، کچھ لوگ اپنی فطرت کو انہی الفاظ کے دائرے کا غلام بھی بنا ڈالتے ہیں ،،، گویا " بس جی ہم تو ہیں ہی ایسے " !!۔
انسان ،،بھی کیا عجیب شے ہے جو نہ تو ماضی سے سبق حاصل کرتا ہے نہ ، حال کے تجربات کو درخورِ اعتنا سمجھتا ہے ،،، اور یوں زمانہء مستقبل کا سٹیج اپنے ہاتھوں سے تیار کرتا چلا جاتا ہے،، جس کی نوک پلک ،،، دوسروں کی بھی مدد سے بہتر ہو سکتی ہے ، لیکن ،، نہیں ، انسان اپنے اندر کے خمیر میں کبھی کبھی آگ کی ملاوٹ ، سے خود پرست اور انا کا ایسا غلام بن جاتا ہے ، کہ " صرف میَں " کا ہی راگ ہر محفل میں اس کی ذات کا حصہ ہوتی ہے ،،، اور انہی عناصر کا مکسچر ایسے بھی ہوتے ہیں ، جن پر کسی آندھی طوفان ، یا سنگ باری کا کوئ اثر نہیں ہوتا ۔ وہ خاموشی سے ، صبر کی ٹہنی پکڑے لہراتے رہتے ہیں ، اور شاد رہتے ہیں ۔ 
لیکن یہ بات کافی حد تک ثابت ہوتی نظر آتی ہے ، کہ 90 فیصد انسان ، اپنی زندگی کا آغاز بہرصورت صفر سے کرتے ہیں ، بھَلے ان کے ارد گرد اچھے اذہان ،، مخلص دل ،،، اور پُر خلوص ہاتھ کیوں نہ ہوں ۔ کریں گے وہ اپنا سٹارٹ زیرو سے ۔ 
تو گویا ،، " میَں " کا کڑوا بیج بو دیا گیا ہے ۔ چاہے اسے کچھ تجربات کے بعد واپس ، اسی سٹارٹنگ پوائنٹ پر پھر آنا پڑے ۔ دیکھا جاۓ تو یہ ہم انسانوں کی امیچورٹی کی نشانی بھی ہے ،، اگر شروع میں کچھ مشاورت ہو جاۓ ، تو غلطیوں کا مارجن کم ہو سکتا ہے ۔۔ یا پھر پچھتاوں کا گٹھڑ ذیادہ بڑا نہیں ہو پاتا ، جسے سَر پر رکھے باقی زندگی گزارنا ، اچھا خاصا عذاب و امتحان ہے ،، 
اس " عقلِ کُل " والی فطرت کے اظہار کو مثبت رویۓ میں بدلنا ، یا ، ایسے کو بار بار اللہ کے احکامات کی یاد دہانی کراتے رہنا ،، اسکے گرد کے رشتوں کا فرض بھی ہے اور حق بھی ۔ کیوں کہ نا سمجھی کی عمر میں اس " میَں " کے پودے کا بیج بہت جلد تناور درخت بن جاتا ہے ، یہ آس پاس کے رشتوں کی ٹوکا ٹاکی ، سمجھانا ، اور روکنا ،، اس " انا " کے خاکی وجود کے لیۓ بہت ضروری ہے ،،، اپنی خوبصورتی ، اعلیٰ خاندان کا پس منظر ، اونچا عہدہ ، ذاتی صلاحیتیں ،، بہت انوکھی پسند ، مالی آسودگی مل جُل کر سامنے وہ بندہ تیا رکر دیتی ہیں ، جو بغیر بولے اپنے متکبرانہ رویۓ سے ہی کہہ رہا ہوتا ہے " ہم سا ہو تو سامنے آۓ " ،،، ایسے ہی لوگوں کے منہ پھٹ انداز سے گھبرا کر ارد گرد کے رشتے منہ بند کر لیتے ہیں ۔ کہ یہ تو سمجھنے ، سمجھانے کی لائن پار کر چکا ، اب اللہ ہی اسے سمجھا سکتا ہے ۔اور چاہے دنیا کے کسی خطے سے تعلق ہو یا کسی مذہب سے ، لیکن اس کی خود سری ، اور تکبر اسے لے ڈوبتی ہے ، ہمارے لیۓ تو پیغمبرِ انسانیتﷺ نے دوٹوک انداز سے واضح کر دیا (حدیثِ قُدسی ) " اللہ فرماتا ہے،تکبر میری چادر ہے ، اور عظمت میرا آذار ،،، جو ان پر ہاتھ ڈالے گا یا جو کوئ مجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے گا، میَں اسے آگ میں پھینک دوں گا "جب اتنا واضح سبق اپنے انجام سمیت بتا دیا گیا ہو ،،، تو پھر اسےگردن اکڑا کر نظرانداز کرنا ، دراصل خوداپنی سزا کو فکس کر لینا ہوا ۔۔۔ اب یہ اس غفار اور قہار کی مرضی کہ وہ دنیا میں یہ پکڑ کر لے ، یا ، آخرت میں ،، اور چاہے تو دونوں میں !یہ خوش نصیب لوگ ، اپنی خوش نصیبی کو اپنا حق سمجھتے ہیں ، انھیں لگتا ہے کہ ان کی کامیابی ان کی صلاحیتوں ، ترکیبوں کی وجہ سے ممکن ہو رہی ہے ۔ بزعمِ خود، بھلا مجھ سے یہ نعمتیں کیوں کر چھِن سکتی ہیں ؟ ؟ یہ ہی زعم ، تکبر کی سیڑھی کا پہلا قدم ہوتا ہے ، ہر کسی کو اپنی مرضی کی عینک سے دیکھنا ، اور پھر کسی قابل سمجھنا ، کسی کو اس کی حیثیت سے پرکھنا ، صرف انہی کو ملنا جس سے فائدہ پہنچتا ہو ،، جب کوئی اپنے لیول کا نہیں ، تو کیوں مِلوں ،،، یا اس کی میرے آگے کیا حیثیت ہے ؟؟ اسے میَں رگید سکتا ہوں / سکتی ہوں ۔۔۔۔ اکثر منتظر اور نیچی نظروں کی ضرورت کو نظر انداز کرنا ،، کہ ان جیسوں کے ہاتھ تو پھیلے ہی رہتے ہیں ،،، اور دکھی دلوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر جو منہ میں آۓ ،، بول بک دینا ،،، " بھلا یہ میرا کیا بگاڑ لے گا ! کیا بگاڑ سکتا ہے !! ،،، وہ کانوں میں ڈالے گۓ مرچیلے الفاظ کو سن کر چُپ ہو کر رہ جاتا ہے ،،، تو اِس کے بے آواز آنسوؤں کی " آواز " کو اس کا خالق تو سُن لیتا ہے ،، کیا وہ اپنے بندے کی تذلیل پر کبھی کوئ آرڈر پاس نہیں کرے گا ؟؟؟ نہیں ، وہ دل کی دھڑکن کے ہر اُتار چڑھاؤ کا مکمل ریکارڈ رکھنے والا ، لطیف و خبیر و عزیز ہے ،،، !تکبر کی سیڑھی پر رکھا پہلا قدم ، دراصل ناکامی کا پہلا قدم بھی ہو جاتا ہے ۔ظاہری سکون ہنسی مخول ، طنز ، اور یہ سرگوشیاں ،،یہ سب لوازمات " تکبر کی سخت سطح " کو جمانے کا باعث بنتے چلے جاتے ہیں ،،اور جب سطحء تکبر کو " کریک " کرنے کا وقت آن پہنچتا ہے تو یہ ہی "عقلِ کُل " غلطیوں پر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے ۔ سیدھا کام ، اُلٹ نتیجہ دینے لگتا ہے ۔ اب اپنے بوۓ کڑوے بیجوں کے پھل پک کر تیار ہو گۓ ہیں ، بھوک مال وزر کی ، بھوک خوش آمد کی ، بھوک محفلِ جاں بننے کی ، بھوک تمام تر کامیابیاں سمیٹنے کی ،،،، لیکن اب یہ بھُوک مٹانے کے لیۓ صرف کڑوے الفاظ ہیں ، کڑوے رویۓ ہیں ، اور ترس کھاتی نظریں ہیں ، جن میں ہمدردی کا ایک بھی آنسو نہیں !!اگر تربیت کے ابتدائ دور میں ہی اس ' انا' ، زعم اور تکبر کو اللہ کے خوف سے پنجروں میں بند کر دیا جاۓ تو نہ اسے اپنی حسین صورت ، پر نہ فہم و فراست پر ، نہ اعلیٰ نسبی کے خوب صورت پرندے کواپنے کندھے پر بٹھانے کی عادت ہوتی نہ تکبر میں " خمیر " اُٹھتا ۔ کہ 
؎ اَنا و ضد کے چھڑکاؤ سے 
بے ضمیری کا آغاز ہوا
خمیر اُٹھا ہے تکبر کا 
انجامِ فرعونیت پھر نظر انداز ہوا ،
( منیرہ قریشی 13 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

پیر، 8 اکتوبر، 2018

اِک پَرِ خیال (14)۔

" اِک پَرِ خیال "
صفات(14)۔
اللہ پاک ، ہی خالق و مالک ، رحیم و کریم ہے ۔ اسی رب کی تخلیق یہ حیران کن کائنات ہے جسے دیکھیں تو حیرت اور غور کریں تو دنگ ہو کر رہ جاتے ہیں ،، اور انسان بےاختیار اس پالن ہار کی ذات ٰ و اُولیٰ کے آگے جھک جاتا ہے ، اسی رب کی صفات کا ذکر کر کے انسان نہ صرف اس کی خوشنودی چاہتا ہے بلکہ ، اسی ذکر میں دلوں کو اطمینان ملتا ہے ۔ 
اور جب اس کی صفات پر غور کریں ، اور گننے لگیں تو انسان کہاں یہ ہمت رکھتا کہ وہ " حقِ محبت " ادا کر پاتا ۔اس اللہ سُبحان تعالیٰ نے تو خود ہی کس قدر مکمل الفاظ سے بندے کے رہنمائی فرما دی۔،
" کہہ دو ( اے نبی ﷺ) کہ اگرسمندر میرے رب کی باتوںکے لکھنے کے لیۓ سیاہی ہوتا،تو قبل اس کے کہ میرے رب کی باتیں تمام ہوں ، سمندر ختم ہو جاۓ ، اگرچہ ہم ویسا ہی اور اُس کی مدد کو لائیں " ( سورۃ کہف آخری رکوع)۔
لیکن عُلما نے عام لوگوں کی سہولت کے لیۓ قُرآن مجید میں سے اور اپنے فہم سے بھی مزید اللہ کی صفات کو یکجا کر کے سجا دیا ، تاکہ اپنی استطاعت کے مطابق اُس کے بندے اسے اسکی صفات سے پکاریں اور اپنی محبت کا اظہار کرتے رہیں ۔
قدرت اُللہ شہاب ایک جگہ لکھتے ہیں ، اللہ کی صفات میں لاتعداد صفات کا عکس ، انسانوں میں بھی نظر آتا ہے ،،، لیکن صرف ایک صفت " عاجزی"
ہے ، جو اللہ کی نہیں ،، صرف بندے کی صفت ہے ،، اور اسی صفت کی اللہ رحیم و کریم کو بھی قدر ہے ۔ اگر ہم ایسی صفت رکھنے والوں کی طرف غور کریں ،، تو ان کی ذات دن کے اُجالے کی طرح ہوتی ہے ، ،، 
روشن ، چمکدار ، اور واضع ! جس طرح دن میں ہر منظر واضع اور دور تلک دکھتا ہے ،، تو انسان شانت ہو کر ہر قدم اُٹھاتا ہے ،، وہ فیصلوں ، اور فاصلوں کے خوف سے نکل جاتا ہے ، گویا " عاجزی " بندے کو اپنے رب کے نزدیک تو کر ہی دیتی ہے ،، اس کی یہ صفت دنیاوی " شَر " سے بھی محفوظ کر دیتی ہے ،، یا وہ خود سراپا توکل اور خیر ہو چکا ہوتا ہے ، اس لیۓ " دن کی طرح "ظاہر و باطن سے اُجلا بن چکا ہوتا ہے ۔ دوسروں کو بھی روشن کرنے والا بن چکا ہوتا ہے۔ 
اور جس طرح ہر چیز کا ایک اُلٹ پہلو بھی ہوتا ہے جیسے دن اور رات ، موت و زندگی ۔ اسی طرح عاجزی کا الٹ تکبر بنتا ہے ،،، اور جب یہ صفت کچھ لوگوں کے اندر سرایت کر جاۓ ، تو وہ اندھری رات کی طرح ہوتے ہیں ،، ایسی رات جو خوفزدہ کر دینے والی ، اندیشوں ، الجھنوں ، میں مبتلا کر دینے والی ہو ۔ متکبر لوگ اپنی کانٹوں بھری سوچ ، زہریلے الفاظ ،
اور تیزاب کا چھڑکاؤ کرتے رویۓ اپنا کر ،، ذرا نہیں سوچتے ، اِس وقت ہم وقت کے فرعون بن کر ،، اپنے آئندہ کے راستے کو خود کانٹے دار اور بد بو دار بنا رہے ہیں ، وہ ہر فکر سے آزاد ہو کر اپنی " میَں َ " کے تکبر کا جھنڈا لہرا لہرا کر اعلان فتح کر رہے ہوتے ہیں ۔ 
بھلا کن کے آگے یہ اعلانِ فتح ہے ؟ اپنے چند رشتوں کے آگے ،، اپنے گِرد کے لوگوں کے آگے ، جن سے ملے بغیر اس کے کام پورے نہیں ہو سکتے ۔یہ متکبر اندھیرے پھیلا ہی نہیں رہۓ ، اندھیرا بن چکے ہوتے ہیں ،یہ "تاریک صفت " لوگ خود اپنے دشمن ہوتے ہیں ،، لیکن سمجھنے ،سمجھا نے کے احساس والے دروازے کھڑکیاں بند کر چکے ہوتے ہیں ، اور جب اس صفتِ تکبر پر پچھتاوے یا آزمائش کا جھکڑ چلتا ہے تو ، ، تب اللہ ، کا سچا وعدہ سامنے آچکا ہوتا ہے ! " کہ " ہر تنگی کے بعد آسانی ہے ،،،" تو گویا ہر رات کے بعد صبح ہے ،،، تب یہ لوگ کہاں جائیں گے ، کہ اندھیرا آگے آگےبھاگا پھرے گا ، اور
صبح ، خیر اوراطمینان بن کر اُمیدیں بانٹتی جلوہ گر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اور یہ طے ہے کہ ،" عاجزی ، اس رب کی محبت کی نظر کا دوسرا روپ ہے " !
( منیرہ قریشی 8 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

جمعرات، 4 اکتوبر، 2018

اِک پرِ خیال (13)۔

"اِک پرِ خیال"
' سیڑھی' (13)۔
ایک محاورہ اکثر سننے میں آتا ہے ' ہر عورت کی کامیابی کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے " یا ،،، " ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے " ،،، وغیرہ اس محاورے میں ضرور سچائی ہو گی ،، کہ دنیا بنانے والے نے دنیا کو زینہ بہ زینہ ترقی دینے کے لیۓ ، مرد اور عورت دونوں کا حصہ رکھ دیا ، تاکہ کوئی ایک یہ نہ کہہ سکے " صرف میَں ، صرف میَں " !!محض آج کی بھاگتی دوڑتی دنیا کو دیکھ کر خیال آیا ،، کہ کیا اس محاورے کے تحت ہر عورت کے پیچھے مرد اور یا پھر ہر مرد کے پیچھے ،،،عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے !!؟
لیکن جب مشرقی معاشرے پرنظر ڈالی ،، تو احساس ہوا ،، اس محاورے کا معنی کافی حدتک ہمارے ہاں ذرا فرق ہے ۔ اگر کوئی مرد دنیاوی ترقی کے دریا ، کامیابی سے عبور کرتا چلا جاتا ہے ، تو ضروری نہیں اس کامیابی کا سہرا ، وہ اپنی ماں ، بہن ، بیوی یا بیٹی کے سر سجا دے ،، اور برملا اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ، اِن میں سے کسی رشتے کا نام لے لے !! ایسا بیان آٹے میں نمک کے برابر ہی نظر آۓ گا ۔ ہاں ، مشرقی مرد اپنی کامیابی میں اپنے والد ، چچا ، ماموں یا دوست کا نام لے کر اس کی اہمیت کا اعتراف کر لے گا ،،،،۔ 
اور اگر ہم گھر سے باہر کام کرتی مشرقی عورت کو دیکھیں ، تو 80 فیصد عورت اپنی کامیابی کو اپنے شوہر ، باپ ، بھائی کے نام موسوم کرنے میں  ذرا   دیر نہیں کرتی ،، حالانکہ اس کی عملی ، یا گھر سے باہر کی کامیابیوں میں ،، اس کی ، ماں ، بہن ، یا کسی بھابھی ، اور نانی ، دادی، ساس کا بھی بھر پور حصہ ہوتا ہے ،،،، اور اِن سب کے علاوہ ،،، ایک عدد وفادار ملازمہ کی خدمات کا حصہ قبولنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
جب ہم مشترکہ خاندانی نظام میں رہ رہۓ ہوتے ہیں ،، یا مضبوط محلہ سسٹم میں ،،، یا ،، ایک عدد وفادار ملازمہ کی دوسراہٹ میں ، یہ طے ہے کہ عورت ، عورت کا ساتھ اچھے سے ہی دیتی ہے ۔ جب وہ دفتر سے تھکی ہاری آۓ ، اور آگے ہنڈیا ،روٹی بنی ہو ، بچوں کے یونیفارم بدلے ہوں ، اور بچوں کی نانی ، دادی اپنی نگرانی میں ان کا ہوم ورک کروا رہی ہو ،، تو اطمینان کا ایک عجب پُرکیف احساس طاری ہو جاتاہے کہ صبح 9 سے 5 تک کی ڈیوٹی دے کر آنے والی کی آدھی تھکن اسی وقت رفع ہو جاتی ہے ،، گھر کے بوڑھے وجود تو ویسے بھی اپنے بچوں کی فکر مندی میں ہلکان ہوۓ رہتے ہیں ۔ ،، لیکن اگر یہ ذمہ داری ایک وفادار ملازمہ ادا کر رہی ہو ،، تو اس کی خدمات کا بھی کھلے دل سے اعتراف کر لینا چاہیۓ ،، کہ یہ اس محنت کی چکی میں چکراتی عورت کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے دنوں میں ، ایسے سہاروں کے درمیان ہے ، جس نے اسے ذہنی طور پر بےفکر کر رکھا ہے ، یہ ملازمہ جو چند روپوں میں ، دلی خدمت کر رہی ہے یا ، بچوں کی نانی ، دادی ، جو ( اگر کبھی ) اَن پڑھ ہونے کے باوجود اپنی اولاد کے بچوں کو کتابوں اور بستے کی اہمیت سے آگاہ کراۓ رکھتی ہے ، ،، تو اُس کامیاب عورت کی ترقی میں "یہ انسانی سیڑھیاں " کسی صورت نہ بُھلائی جائیں ۔ اپنی دنیاو ی کامیابی کا سہرا دراصل ایسی عورتوں کے سر بھی لگنا چاہیۓ ،، جو پسِ پردہ رہ کر بھی بھاری ذمہ داری ادا کر رہی ہوتی ہیں ، اور اس بارے " کسی ستائش ، کسی صلے کی لالچ نہیں رکھتیں ۔ بلکہ اُن ذمہ داریوں کووہ " اپنی ذمہ داری " سمجھتی ہیں ۔ انہی سیڑھیوں نے مل جُل کر " ایک عورت " کو وکٹری سٹینڈ پر لا کھڑا کیا ہوتا ہے ،، اور انھیں علم ہی ہوتا کہ وہ کتنی قیمتی ، کتنی اہم ہیں ۔ 
اپنے آس پاس دیکھیں ، کیا پتہ ہم ایسی ہی سیڑھیوں پر کھڑے ہیں ، لیکن کہیں صرف " روندنے " کے لیۓ تونہیں کھڑے ،،،، !!
( منیرہ قریشی 4 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

پیر، 1 اکتوبر، 2018

اِک پرِخیال(12)۔

" نوحۂ عیدِ"
۔" یہ کیسی عید آئی " آج ہمارے ملک میں چاند رات ہے ،،، اور چار پانچ دنوں میں کوئٹہ ، پارہ چنار میں خود کش بم دھماکوں نے 100 کے قریب لوگوں کو شہادت کے رتبے پر پہنچا دیا ، اور اب آج 135 لوگ شرقپور میں ٹینکر کا لیکیج آئل بالٹیوں ، اور شاپرز میں بھرتے ہوۓ یکدم آگ کی لپیٹ میں آۓ اور بھسم ہوگۓ ، زخمیوں کی تعداد کا کچھ پتہ نہیں !! 
انسان کیا چیز ہے کہ پھر بھی کھا پی رہا ہے ، ہنس بول رہا ہے ،تھوڑی دیر کے لیے اجنبی لوگ افسوس کرتے ہیں ، پھر " ان کی ایسے ہی لکھی تھی " کہہ کر روز مرہ میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔
لیکن ان چلے جانے والے وجود سے وابستہ لوگ سوچ رہے ہیں کیا ہم زندہ ہیں ؟ کیا ہمیں زندہ رہنا چاہیئے ؟؟ کیا ہم صرف رو ، دھو کر صبر کر لیں گے ؟ کیا ہمیں صبر آجا ۓ گا ؟؟ آہ ان چیتھڑے ہوۓ لوگوں اور اُن خاک شدہ لوگوں ،،،پر رونے والی آنکھوں کے آنسو خشک ہو سکیں گے ! کبھی نہیں ! لیکن پھر وقت کا مرحم اپنا کام دکھاتا چلا جاتا ہے !! اور لوگ کھاتے پیتے ، ہنستے بولتے ، اُس رب کی رضا پر راضی ہونے لگتے ہیں ! لیکن عید کا چاند جب، جب نکلے گا ،لوگوں میں خوشیوں کی پُھلجھڑیاں بانٹے گا ،،، لیکن اِن ریزہ ریزہ اور اُن راکھ ھو جانے والوں کے لواحقین میں آنسوؤں کی برسات بانٹے گا ،،،،بچھڑنے والوں کا غم پھر نئے کپڑے پہن کر ان کے گلے لگے گا !۔
بازاروں میں اپنوں کے لیےخوشیاں ، خریدنے والے جب گھروں کو چیتھڑوں کی صورت لوٹاۓ گۓ ہوں گے ،تو یہ غم نسلوں تک بُھلایا نہ جا سکے گا !!۔
مجھے اُن سادہ ، اور چند روپوں کی بچت کرنے والے خاک شدہ لوگوں نے اتنا اداس کر دیا کہ اپنے احساسات کو چند جملوں میں پہنچانے کی کوشش کی ھے ،، کاش ہماری قوم ،بدامنی ،، لاعلمی ، اور غلط فہمیوں کے چُنگل سے نکل جاۓ۔کاش ہم ایک باشعور قوم بن جائیں ،،،۔
(منیرہ قریشی 25 جون 2017ءواہ کینٹ )