پیر، 1 اکتوبر، 2018

اِک پرِخیال(12)۔

" نوحۂ عیدِ"
۔" یہ کیسی عید آئی " آج ہمارے ملک میں چاند رات ہے ،،، اور چار پانچ دنوں میں کوئٹہ ، پارہ چنار میں خود کش بم دھماکوں نے 100 کے قریب لوگوں کو شہادت کے رتبے پر پہنچا دیا ، اور اب آج 135 لوگ شرقپور میں ٹینکر کا لیکیج آئل بالٹیوں ، اور شاپرز میں بھرتے ہوۓ یکدم آگ کی لپیٹ میں آۓ اور بھسم ہوگۓ ، زخمیوں کی تعداد کا کچھ پتہ نہیں !! 
انسان کیا چیز ہے کہ پھر بھی کھا پی رہا ہے ، ہنس بول رہا ہے ،تھوڑی دیر کے لیے اجنبی لوگ افسوس کرتے ہیں ، پھر " ان کی ایسے ہی لکھی تھی " کہہ کر روز مرہ میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔
لیکن ان چلے جانے والے وجود سے وابستہ لوگ سوچ رہے ہیں کیا ہم زندہ ہیں ؟ کیا ہمیں زندہ رہنا چاہیئے ؟؟ کیا ہم صرف رو ، دھو کر صبر کر لیں گے ؟ کیا ہمیں صبر آجا ۓ گا ؟؟ آہ ان چیتھڑے ہوۓ لوگوں اور اُن خاک شدہ لوگوں ،،،پر رونے والی آنکھوں کے آنسو خشک ہو سکیں گے ! کبھی نہیں ! لیکن پھر وقت کا مرحم اپنا کام دکھاتا چلا جاتا ہے !! اور لوگ کھاتے پیتے ، ہنستے بولتے ، اُس رب کی رضا پر راضی ہونے لگتے ہیں ! لیکن عید کا چاند جب، جب نکلے گا ،لوگوں میں خوشیوں کی پُھلجھڑیاں بانٹے گا ،،، لیکن اِن ریزہ ریزہ اور اُن راکھ ھو جانے والوں کے لواحقین میں آنسوؤں کی برسات بانٹے گا ،،،،بچھڑنے والوں کا غم پھر نئے کپڑے پہن کر ان کے گلے لگے گا !۔
بازاروں میں اپنوں کے لیےخوشیاں ، خریدنے والے جب گھروں کو چیتھڑوں کی صورت لوٹاۓ گۓ ہوں گے ،تو یہ غم نسلوں تک بُھلایا نہ جا سکے گا !!۔
مجھے اُن سادہ ، اور چند روپوں کی بچت کرنے والے خاک شدہ لوگوں نے اتنا اداس کر دیا کہ اپنے احساسات کو چند جملوں میں پہنچانے کی کوشش کی ھے ،، کاش ہماری قوم ،بدامنی ،، لاعلمی ، اور غلط فہمیوں کے چُنگل سے نکل جاۓ۔کاش ہم ایک باشعور قوم بن جائیں ،،،۔
(منیرہ قریشی 25 جون 2017ءواہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں