پیر، 8 اکتوبر، 2018

اِک پَرِ خیال (14)۔

" اِک پَرِ خیال "
صفات(14)۔
اللہ پاک ، ہی خالق و مالک ، رحیم و کریم ہے ۔ اسی رب کی تخلیق یہ حیران کن کائنات ہے جسے دیکھیں تو حیرت اور غور کریں تو دنگ ہو کر رہ جاتے ہیں ،، اور انسان بےاختیار اس پالن ہار کی ذات ٰ و اُولیٰ کے آگے جھک جاتا ہے ، اسی رب کی صفات کا ذکر کر کے انسان نہ صرف اس کی خوشنودی چاہتا ہے بلکہ ، اسی ذکر میں دلوں کو اطمینان ملتا ہے ۔ 
اور جب اس کی صفات پر غور کریں ، اور گننے لگیں تو انسان کہاں یہ ہمت رکھتا کہ وہ " حقِ محبت " ادا کر پاتا ۔اس اللہ سُبحان تعالیٰ نے تو خود ہی کس قدر مکمل الفاظ سے بندے کے رہنمائی فرما دی۔،
" کہہ دو ( اے نبی ﷺ) کہ اگرسمندر میرے رب کی باتوںکے لکھنے کے لیۓ سیاہی ہوتا،تو قبل اس کے کہ میرے رب کی باتیں تمام ہوں ، سمندر ختم ہو جاۓ ، اگرچہ ہم ویسا ہی اور اُس کی مدد کو لائیں " ( سورۃ کہف آخری رکوع)۔
لیکن عُلما نے عام لوگوں کی سہولت کے لیۓ قُرآن مجید میں سے اور اپنے فہم سے بھی مزید اللہ کی صفات کو یکجا کر کے سجا دیا ، تاکہ اپنی استطاعت کے مطابق اُس کے بندے اسے اسکی صفات سے پکاریں اور اپنی محبت کا اظہار کرتے رہیں ۔
قدرت اُللہ شہاب ایک جگہ لکھتے ہیں ، اللہ کی صفات میں لاتعداد صفات کا عکس ، انسانوں میں بھی نظر آتا ہے ،،، لیکن صرف ایک صفت " عاجزی"
ہے ، جو اللہ کی نہیں ،، صرف بندے کی صفت ہے ،، اور اسی صفت کی اللہ رحیم و کریم کو بھی قدر ہے ۔ اگر ہم ایسی صفت رکھنے والوں کی طرف غور کریں ،، تو ان کی ذات دن کے اُجالے کی طرح ہوتی ہے ، ،، 
روشن ، چمکدار ، اور واضع ! جس طرح دن میں ہر منظر واضع اور دور تلک دکھتا ہے ،، تو انسان شانت ہو کر ہر قدم اُٹھاتا ہے ،، وہ فیصلوں ، اور فاصلوں کے خوف سے نکل جاتا ہے ، گویا " عاجزی " بندے کو اپنے رب کے نزدیک تو کر ہی دیتی ہے ،، اس کی یہ صفت دنیاوی " شَر " سے بھی محفوظ کر دیتی ہے ،، یا وہ خود سراپا توکل اور خیر ہو چکا ہوتا ہے ، اس لیۓ " دن کی طرح "ظاہر و باطن سے اُجلا بن چکا ہوتا ہے ۔ دوسروں کو بھی روشن کرنے والا بن چکا ہوتا ہے۔ 
اور جس طرح ہر چیز کا ایک اُلٹ پہلو بھی ہوتا ہے جیسے دن اور رات ، موت و زندگی ۔ اسی طرح عاجزی کا الٹ تکبر بنتا ہے ،،، اور جب یہ صفت کچھ لوگوں کے اندر سرایت کر جاۓ ، تو وہ اندھری رات کی طرح ہوتے ہیں ،، ایسی رات جو خوفزدہ کر دینے والی ، اندیشوں ، الجھنوں ، میں مبتلا کر دینے والی ہو ۔ متکبر لوگ اپنی کانٹوں بھری سوچ ، زہریلے الفاظ ،
اور تیزاب کا چھڑکاؤ کرتے رویۓ اپنا کر ،، ذرا نہیں سوچتے ، اِس وقت ہم وقت کے فرعون بن کر ،، اپنے آئندہ کے راستے کو خود کانٹے دار اور بد بو دار بنا رہے ہیں ، وہ ہر فکر سے آزاد ہو کر اپنی " میَں َ " کے تکبر کا جھنڈا لہرا لہرا کر اعلان فتح کر رہے ہوتے ہیں ۔ 
بھلا کن کے آگے یہ اعلانِ فتح ہے ؟ اپنے چند رشتوں کے آگے ،، اپنے گِرد کے لوگوں کے آگے ، جن سے ملے بغیر اس کے کام پورے نہیں ہو سکتے ۔یہ متکبر اندھیرے پھیلا ہی نہیں رہۓ ، اندھیرا بن چکے ہوتے ہیں ،یہ "تاریک صفت " لوگ خود اپنے دشمن ہوتے ہیں ،، لیکن سمجھنے ،سمجھا نے کے احساس والے دروازے کھڑکیاں بند کر چکے ہوتے ہیں ، اور جب اس صفتِ تکبر پر پچھتاوے یا آزمائش کا جھکڑ چلتا ہے تو ، ، تب اللہ ، کا سچا وعدہ سامنے آچکا ہوتا ہے ! " کہ " ہر تنگی کے بعد آسانی ہے ،،،" تو گویا ہر رات کے بعد صبح ہے ،،، تب یہ لوگ کہاں جائیں گے ، کہ اندھیرا آگے آگےبھاگا پھرے گا ، اور
صبح ، خیر اوراطمینان بن کر اُمیدیں بانٹتی جلوہ گر ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اور یہ طے ہے کہ ،" عاجزی ، اس رب کی محبت کی نظر کا دوسرا روپ ہے " !
( منیرہ قریشی 8 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں