ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

"اک پرِ خیال(15)"

" اِک پرِ خیال" 
' متکبر اور مستقبل ' (15)۔
انسان کی تخلیق میں ہوا ، پانی ، مٹی اور آگ کے مکسچر نے اس کی فطرت میں بھی حیران کن پہلو سمو دیۓ ہیں ، اور اسی لیۓ اکثر دانا لوگ ، کسی غصیلے بندے کو دیکھ کر تبصرہ کر ڈالتے ہیں ، " بھئ بہت آتشی مزاج پایا ہے " ،، اور جب بہت دھیمے اور 
اور صابر شخص سے واسطہ پڑے تو کہا جاتا ہے " کیا عاجزی ہے کتنا ٹھنڈا مزاج پایا ہے ' وغیرہ ،،، کبھی کبھی ایسے مزاج والوں پر کیۓ گۓ تبصروں کو سنتے سنتے ،، کچھ لوگ اپنی فطرت کو انہی الفاظ کے دائرے کا غلام بھی بنا ڈالتے ہیں ،،، گویا " بس جی ہم تو ہیں ہی ایسے " !!۔
انسان ،،بھی کیا عجیب شے ہے جو نہ تو ماضی سے سبق حاصل کرتا ہے نہ ، حال کے تجربات کو درخورِ اعتنا سمجھتا ہے ،،، اور یوں زمانہء مستقبل کا سٹیج اپنے ہاتھوں سے تیار کرتا چلا جاتا ہے،، جس کی نوک پلک ،،، دوسروں کی بھی مدد سے بہتر ہو سکتی ہے ، لیکن ،، نہیں ، انسان اپنے اندر کے خمیر میں کبھی کبھی آگ کی ملاوٹ ، سے خود پرست اور انا کا ایسا غلام بن جاتا ہے ، کہ " صرف میَں " کا ہی راگ ہر محفل میں اس کی ذات کا حصہ ہوتی ہے ،،، اور انہی عناصر کا مکسچر ایسے بھی ہوتے ہیں ، جن پر کسی آندھی طوفان ، یا سنگ باری کا کوئ اثر نہیں ہوتا ۔ وہ خاموشی سے ، صبر کی ٹہنی پکڑے لہراتے رہتے ہیں ، اور شاد رہتے ہیں ۔ 
لیکن یہ بات کافی حد تک ثابت ہوتی نظر آتی ہے ، کہ 90 فیصد انسان ، اپنی زندگی کا آغاز بہرصورت صفر سے کرتے ہیں ، بھَلے ان کے ارد گرد اچھے اذہان ،، مخلص دل ،،، اور پُر خلوص ہاتھ کیوں نہ ہوں ۔ کریں گے وہ اپنا سٹارٹ زیرو سے ۔ 
تو گویا ،، " میَں " کا کڑوا بیج بو دیا گیا ہے ۔ چاہے اسے کچھ تجربات کے بعد واپس ، اسی سٹارٹنگ پوائنٹ پر پھر آنا پڑے ۔ دیکھا جاۓ تو یہ ہم انسانوں کی امیچورٹی کی نشانی بھی ہے ،، اگر شروع میں کچھ مشاورت ہو جاۓ ، تو غلطیوں کا مارجن کم ہو سکتا ہے ۔۔ یا پھر پچھتاوں کا گٹھڑ ذیادہ بڑا نہیں ہو پاتا ، جسے سَر پر رکھے باقی زندگی گزارنا ، اچھا خاصا عذاب و امتحان ہے ،، 
اس " عقلِ کُل " والی فطرت کے اظہار کو مثبت رویۓ میں بدلنا ، یا ، ایسے کو بار بار اللہ کے احکامات کی یاد دہانی کراتے رہنا ،، اسکے گرد کے رشتوں کا فرض بھی ہے اور حق بھی ۔ کیوں کہ نا سمجھی کی عمر میں اس " میَں " کے پودے کا بیج بہت جلد تناور درخت بن جاتا ہے ، یہ آس پاس کے رشتوں کی ٹوکا ٹاکی ، سمجھانا ، اور روکنا ،، اس " انا " کے خاکی وجود کے لیۓ بہت ضروری ہے ،،، اپنی خوبصورتی ، اعلیٰ خاندان کا پس منظر ، اونچا عہدہ ، ذاتی صلاحیتیں ،، بہت انوکھی پسند ، مالی آسودگی مل جُل کر سامنے وہ بندہ تیا رکر دیتی ہیں ، جو بغیر بولے اپنے متکبرانہ رویۓ سے ہی کہہ رہا ہوتا ہے " ہم سا ہو تو سامنے آۓ " ،،، ایسے ہی لوگوں کے منہ پھٹ انداز سے گھبرا کر ارد گرد کے رشتے منہ بند کر لیتے ہیں ۔ کہ یہ تو سمجھنے ، سمجھانے کی لائن پار کر چکا ، اب اللہ ہی اسے سمجھا سکتا ہے ۔اور چاہے دنیا کے کسی خطے سے تعلق ہو یا کسی مذہب سے ، لیکن اس کی خود سری ، اور تکبر اسے لے ڈوبتی ہے ، ہمارے لیۓ تو پیغمبرِ انسانیتﷺ نے دوٹوک انداز سے واضح کر دیا (حدیثِ قُدسی ) " اللہ فرماتا ہے،تکبر میری چادر ہے ، اور عظمت میرا آذار ،،، جو ان پر ہاتھ ڈالے گا یا جو کوئ مجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے گا، میَں اسے آگ میں پھینک دوں گا "جب اتنا واضح سبق اپنے انجام سمیت بتا دیا گیا ہو ،،، تو پھر اسےگردن اکڑا کر نظرانداز کرنا ، دراصل خوداپنی سزا کو فکس کر لینا ہوا ۔۔۔ اب یہ اس غفار اور قہار کی مرضی کہ وہ دنیا میں یہ پکڑ کر لے ، یا ، آخرت میں ،، اور چاہے تو دونوں میں !یہ خوش نصیب لوگ ، اپنی خوش نصیبی کو اپنا حق سمجھتے ہیں ، انھیں لگتا ہے کہ ان کی کامیابی ان کی صلاحیتوں ، ترکیبوں کی وجہ سے ممکن ہو رہی ہے ۔ بزعمِ خود، بھلا مجھ سے یہ نعمتیں کیوں کر چھِن سکتی ہیں ؟ ؟ یہ ہی زعم ، تکبر کی سیڑھی کا پہلا قدم ہوتا ہے ، ہر کسی کو اپنی مرضی کی عینک سے دیکھنا ، اور پھر کسی قابل سمجھنا ، کسی کو اس کی حیثیت سے پرکھنا ، صرف انہی کو ملنا جس سے فائدہ پہنچتا ہو ،، جب کوئی اپنے لیول کا نہیں ، تو کیوں مِلوں ،،، یا اس کی میرے آگے کیا حیثیت ہے ؟؟ اسے میَں رگید سکتا ہوں / سکتی ہوں ۔۔۔۔ اکثر منتظر اور نیچی نظروں کی ضرورت کو نظر انداز کرنا ،، کہ ان جیسوں کے ہاتھ تو پھیلے ہی رہتے ہیں ،،، اور دکھی دلوں کو جوتے کی نوک پر رکھ کر جو منہ میں آۓ ،، بول بک دینا ،،، " بھلا یہ میرا کیا بگاڑ لے گا ! کیا بگاڑ سکتا ہے !! ،،، وہ کانوں میں ڈالے گۓ مرچیلے الفاظ کو سن کر چُپ ہو کر رہ جاتا ہے ،،، تو اِس کے بے آواز آنسوؤں کی " آواز " کو اس کا خالق تو سُن لیتا ہے ،، کیا وہ اپنے بندے کی تذلیل پر کبھی کوئ آرڈر پاس نہیں کرے گا ؟؟؟ نہیں ، وہ دل کی دھڑکن کے ہر اُتار چڑھاؤ کا مکمل ریکارڈ رکھنے والا ، لطیف و خبیر و عزیز ہے ،،، !تکبر کی سیڑھی پر رکھا پہلا قدم ، دراصل ناکامی کا پہلا قدم بھی ہو جاتا ہے ۔ظاہری سکون ہنسی مخول ، طنز ، اور یہ سرگوشیاں ،،یہ سب لوازمات " تکبر کی سخت سطح " کو جمانے کا باعث بنتے چلے جاتے ہیں ،،اور جب سطحء تکبر کو " کریک " کرنے کا وقت آن پہنچتا ہے تو یہ ہی "عقلِ کُل " غلطیوں پر غلطیاں کرتا چلا جاتا ہے ۔ سیدھا کام ، اُلٹ نتیجہ دینے لگتا ہے ۔ اب اپنے بوۓ کڑوے بیجوں کے پھل پک کر تیار ہو گۓ ہیں ، بھوک مال وزر کی ، بھوک خوش آمد کی ، بھوک محفلِ جاں بننے کی ، بھوک تمام تر کامیابیاں سمیٹنے کی ،،،، لیکن اب یہ بھُوک مٹانے کے لیۓ صرف کڑوے الفاظ ہیں ، کڑوے رویۓ ہیں ، اور ترس کھاتی نظریں ہیں ، جن میں ہمدردی کا ایک بھی آنسو نہیں !!اگر تربیت کے ابتدائ دور میں ہی اس ' انا' ، زعم اور تکبر کو اللہ کے خوف سے پنجروں میں بند کر دیا جاۓ تو نہ اسے اپنی حسین صورت ، پر نہ فہم و فراست پر ، نہ اعلیٰ نسبی کے خوب صورت پرندے کواپنے کندھے پر بٹھانے کی عادت ہوتی نہ تکبر میں " خمیر " اُٹھتا ۔ کہ 
؎ اَنا و ضد کے چھڑکاؤ سے 
بے ضمیری کا آغاز ہوا
خمیر اُٹھا ہے تکبر کا 
انجامِ فرعونیت پھر نظر انداز ہوا ،
( منیرہ قریشی 13 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں