منگل، 16 اکتوبر، 2018

"اک پرِ خیال(16) "

 اِک پرِ خیال "
' بارش ' (16)۔
بارش کا خیال آتے ہی ، گرج چمک کے ساتھ پانی کی بوچھار ذہن میں در آتی ہے ،، یا پانی کی پھوار ، یا ، پانی کی بوندوں کی رِم جھِم ،،،،، جو خیال بھی آۓ ، وہ پانی کی تیزی یا نرمی کے مطابق واٖضح ہوتا جاتاہے ۔ 
بارش کا تعلق کسی مخصوص موسم سے نہیں جوڑنا چاہیۓ ، اسے آنا ہے تو سخت گرمی میں ، سردی میں ، خزاں یا بہار کسی بھی وقت اپنے رب کے حکم سے آتی ہے ، برستی ہے ،، اور پھر پیچھے کچھ دن کے اثرات چھوڑ جاتی ہے ۔ برسات کے موسم کو بارشوں کی تسلسل سے آمد کی وجہ جوڑتے ہیں ، ورنہ وہ جب چاہۓ ،آۓ ،، جب چاہے نہ آۓ ، لیکن گرمی میں آۓ تو ، ہَوا کی تپش میں کمی کی وجہ بنتی اور لوگوں کی مزاجوں میں ٹھنڈک ڈال کرچلی جاتی ہے ، سردی میں اس کے آنے سے گرم کمروں ، سرد موسم کے  پھل، ، چاۓ کے لوازمات کا اہتمام کا جی چاہتا ہے ،،، اور خزاں ، بہار کے تو اپنے ہی رنگ ، اور مطالبے ہوتے ہیں ۔ ،،، لیکن یہ سب اہتمام ،،، انسانوں کی جیب اور مزاج کے مطابق وقوع پزیر ہوتے ہیں ۔ 
اگر کبھی بارش کی جھڑی لمبا وقت لے گئی تو ، غریب اپنے گھر کی چھت کو بار بار تولتا ہے ، اگلے دن کے خدشات ، اس سے 'باران ' کا لطف چھین لیتے ہیں ،،، لیکن یہی قانونِ قدرت ہے کہ ،، ایک ہی جگہ برستی جھڑیکچھ کے لیۓ دلوں کو گدگدانے کا ،، پکوان کے اہتمام کا باعث ،، اور اسی جگہ کچھ کے لیۓ تفکرات کا دروازہ کھول دیتی ہے۔ 
لیکن یہ طے ہے کہ 90 فیصد بارش روئیدگی ، اور نمو کا باعث بنتا ہے ،، اس کاپانی " مقطر " اور باعث، شفا بھی ہوتا ہے،،،،،،،،،،،،،،،،،،۔
اور ایک" نمکین " بارش بھی برستی ہے ،، جو دو چشموں سے ایسے برستی ہے کہ بندے کو خود بھی نہیں پتا چلتا ، کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ کیوں کہ اس بارش کا سورس ( ذریعہ ) ، متکبر اور متنفر رویوں کے سیاہ بادل ، ہوتے ہیں ، جن کے اندر چبھتے ، نوکیلے لفظوں کی بجلیاں لہرا لہرا جاتی ہیں ، اور نتیجاً دو چشمے پانی سے یوں لبالب بھر جاتے ہیں کہ ،، یہ نمکین بارش ، بندے کے جسم اور روح کی خالی دراڑوں کو بھرتی چلی جاتی ہے ، پانی کی اس کمک سے آتا طوفان ٹل جاتا ہے ،،،، اور کچھ عرصہ کے لیۓ ہی سہی ،،، زندگی اچھی لگنے لگتی ہے ،،، ۔
" آج پھر کبھی کبھار کی طرح 
مجھے احساس ہوا ،،،،
روکھی سوکھی مٹی ہوں ، اُڑا چاہتی ہوں 
کوئ بکھرنے سے روکے اسے 
میری فریاد پر ،،،
اِن آنکھوں نے لبیک کہا !
اور چھِڑکاؤ کے بعد ،،،، 
یہ نم آلود مٹی ، اگلی فصل کے لیۓ تیار تھی !!
تو گویا ،، برستا پانی مقطر ہے ، تو ، باعثِ شفا ہے ہی ، لیکن نمکین بھی باعثِ تقویت بن جاتا ہے۔ 
لیکن ایک اَور بارش ، شفاف ، اور میٹھے پانی سے معمور ، برستی ہے ،، جب خلوت ہویا جلوت ،،، خالق اور تخلیق آمنے سامنے آ بیٹھتے ہیں ،،، محبت پاش جذبوں کے بادل ،، دل کی دھڑکن کی دھمک سے گرج چمک کرتے چلے جاتے ہیں ، اور چشمے ، "میٹھے پانی" سے ایسا جَل تھَل کر ڈالتے ہیں کہ ، خاکی ، ہَوا میں اڑتا چلا جاتا ہے ،،،، ! خالق کے قُرب کے لیۓ ، مخلوق کے پاس یہ بہترین ہتھیار ہوتا ہے ،، اسے بھی تو یہ برستے موتی متوجہ کرتے اور عزیز تر ہو جاتے ہیں !! ۔
؎ تُو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، یہ آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیزتر ہے، نگاہء آئینہ ساز میں ! 
اور سکون و اطمینان کی" بارش" میں بندہ کتنا ہلکا پھُلکا ہو جاتا ہے۔
" اے نفسِ مطمئنہ ! واپس چلو اپنے رَب کی طرف 
راضی اور خوشی کے ساتھ داخل ہو جاؤ ، میرے بندوں 
میں ،،، اور داخل ہو جاؤ میری جنت میں ۔ 
( سورۃ فجر ، آخری آیات )
( منیرہ قریشی 16 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں