جمعرات، 4 اکتوبر، 2018

اِک پرِ خیال (13)۔

"اِک پرِ خیال"
' سیڑھی' (13)۔
ایک محاورہ اکثر سننے میں آتا ہے ' ہر عورت کی کامیابی کے پیچھے ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے " یا ،،، " ہر مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے " ،،، وغیرہ اس محاورے میں ضرور سچائی ہو گی ،، کہ دنیا بنانے والے نے دنیا کو زینہ بہ زینہ ترقی دینے کے لیۓ ، مرد اور عورت دونوں کا حصہ رکھ دیا ، تاکہ کوئی ایک یہ نہ کہہ سکے " صرف میَں ، صرف میَں " !!محض آج کی بھاگتی دوڑتی دنیا کو دیکھ کر خیال آیا ،، کہ کیا اس محاورے کے تحت ہر عورت کے پیچھے مرد اور یا پھر ہر مرد کے پیچھے ،،،عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے !!؟
لیکن جب مشرقی معاشرے پرنظر ڈالی ،، تو احساس ہوا ،، اس محاورے کا معنی کافی حدتک ہمارے ہاں ذرا فرق ہے ۔ اگر کوئی مرد دنیاوی ترقی کے دریا ، کامیابی سے عبور کرتا چلا جاتا ہے ، تو ضروری نہیں اس کامیابی کا سہرا ، وہ اپنی ماں ، بہن ، بیوی یا بیٹی کے سر سجا دے ،، اور برملا اور وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ، اِن میں سے کسی رشتے کا نام لے لے !! ایسا بیان آٹے میں نمک کے برابر ہی نظر آۓ گا ۔ ہاں ، مشرقی مرد اپنی کامیابی میں اپنے والد ، چچا ، ماموں یا دوست کا نام لے کر اس کی اہمیت کا اعتراف کر لے گا ،،،،۔ 
اور اگر ہم گھر سے باہر کام کرتی مشرقی عورت کو دیکھیں ، تو 80 فیصد عورت اپنی کامیابی کو اپنے شوہر ، باپ ، بھائی کے نام موسوم کرنے میں  ذرا   دیر نہیں کرتی ،، حالانکہ اس کی عملی ، یا گھر سے باہر کی کامیابیوں میں ،، اس کی ، ماں ، بہن ، یا کسی بھابھی ، اور نانی ، دادی، ساس کا بھی بھر پور حصہ ہوتا ہے ،،،، اور اِن سب کے علاوہ ،،، ایک عدد وفادار ملازمہ کی خدمات کا حصہ قبولنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
جب ہم مشترکہ خاندانی نظام میں رہ رہۓ ہوتے ہیں ،، یا مضبوط محلہ سسٹم میں ،،، یا ،، ایک عدد وفادار ملازمہ کی دوسراہٹ میں ، یہ طے ہے کہ عورت ، عورت کا ساتھ اچھے سے ہی دیتی ہے ۔ جب وہ دفتر سے تھکی ہاری آۓ ، اور آگے ہنڈیا ،روٹی بنی ہو ، بچوں کے یونیفارم بدلے ہوں ، اور بچوں کی نانی ، دادی اپنی نگرانی میں ان کا ہوم ورک کروا رہی ہو ،، تو اطمینان کا ایک عجب پُرکیف احساس طاری ہو جاتاہے کہ صبح 9 سے 5 تک کی ڈیوٹی دے کر آنے والی کی آدھی تھکن اسی وقت رفع ہو جاتی ہے ،، گھر کے بوڑھے وجود تو ویسے بھی اپنے بچوں کی فکر مندی میں ہلکان ہوۓ رہتے ہیں ۔ ،، لیکن اگر یہ ذمہ داری ایک وفادار ملازمہ ادا کر رہی ہو ،، تو اس کی خدمات کا بھی کھلے دل سے اعتراف کر لینا چاہیۓ ،، کہ یہ اس محنت کی چکی میں چکراتی عورت کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کے دنوں میں ، ایسے سہاروں کے درمیان ہے ، جس نے اسے ذہنی طور پر بےفکر کر رکھا ہے ، یہ ملازمہ جو چند روپوں میں ، دلی خدمت کر رہی ہے یا ، بچوں کی نانی ، دادی ، جو ( اگر کبھی ) اَن پڑھ ہونے کے باوجود اپنی اولاد کے بچوں کو کتابوں اور بستے کی اہمیت سے آگاہ کراۓ رکھتی ہے ، ،، تو اُس کامیاب عورت کی ترقی میں "یہ انسانی سیڑھیاں " کسی صورت نہ بُھلائی جائیں ۔ اپنی دنیاو ی کامیابی کا سہرا دراصل ایسی عورتوں کے سر بھی لگنا چاہیۓ ،، جو پسِ پردہ رہ کر بھی بھاری ذمہ داری ادا کر رہی ہوتی ہیں ، اور اس بارے " کسی ستائش ، کسی صلے کی لالچ نہیں رکھتیں ۔ بلکہ اُن ذمہ داریوں کووہ " اپنی ذمہ داری " سمجھتی ہیں ۔ انہی سیڑھیوں نے مل جُل کر " ایک عورت " کو وکٹری سٹینڈ پر لا کھڑا کیا ہوتا ہے ،، اور انھیں علم ہی ہوتا کہ وہ کتنی قیمتی ، کتنی اہم ہیں ۔ 
اپنے آس پاس دیکھیں ، کیا پتہ ہم ایسی ہی سیڑھیوں پر کھڑے ہیں ، لیکن کہیں صرف " روندنے " کے لیۓ تونہیں کھڑے ،،،، !!
( منیرہ قریشی 4 اکتوبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں