اتوار، 23 ستمبر، 2018

اِک اپرِخیال(6)۔

' کارکن چیونٹیاں' (6)۔
اللہ کی اس ننھی منی مخلوق کو جب دیکھتی تو کتنی ہی دیر دیکھتی چلی جاتی ،،، لا علمی ، ناسمجھی کا دور تھا ، ان سے متعلق کوئی معلومات نہ تھیں ۔ کبھی کبھی ان کی ترتیب سے چلتی قطار کے آگے پنسل سے لکیر کھینچ دیتی ،، دونوں سائڈ کی چیونٹیاں لمحے بھر کو ٹھٹک کر جائزہ لیتیں ، ، کہ یہ کیسی رکاوٹ ہے ،،، سونگھ کر ، فیلرز ہلا ہلا کر ذرا سی ترتیب بدل کر پھر اپنے راہ چلنے لگتیں ۔ کچھ دیر یہ نظارہ دلچسپ لگتا ۔ بہت بعد میں اس مخلوق سے متعلق حیران کن آگاہی ہوئی ،،، کہ یہ تو ،، اندھی مخلوق ہے ۔ سونگھنے ، محسوس کرنے کی حِس اتنی تیز ہے کہ اپنے سے 5/7 گز دور مطلب کی چیز تک پہنچ ہی جاتی ہے۔اپنی اوقات ِ جسم سے 8 گنا وزن اُٹھا کر بِل میں لے جا رہی ہوتی ہے ۔
اپنے علاقے اور اپنے گھر اور اپنی ذمہ داریوں سے مکمل آگاہ ہوتی ہیں ،یہ مزدور یا کارکن چیونٹیاں ،، بغیر کسی لالچ کے دن رات " کام کام اور کام " کے لیۓ جُتی رہتی ہیں ۔ اپنے گھر کے اندر پہنچ جانے والی چیزوں کو سٹور کرنا ، محفوظ کرنا ،، سردیوں گرمیوں میں کمروں کو ایسے اینگل سے بنانا کی وہ ٹھنڈے یا گرم رہیں ۔ ملکہ کی دیکھ بھال ، انڈوں کو سنوارنا ،،، اور گارڈز چیونٹیاں ،، جو اندر آنے کی اجازت مانگنے والی سے کوڈ دریافت کرتے ہیں ،، کوڈ غلط ، تو آنے والا جان سے گیا ۔
چیونٹیوں سے متعلق ایسی آگاہی کے بعد مجھے " عورت اور چیونٹی " میں بہت مماثلت لگی ۔ ایسی سب خصوصیات تو عورت میں بھی پائ جاتی ہے ، چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتی ہو ۔
والدین ، بہن بھائی ، شوہر ، بچے ،،، عورت ان سب کی "محبت میں اندھی " ہوتی ہے ۔ اپنے آرام کو تج کر ، صحت کو نظرانداز کر کے ، گھر کی صفائی ستھرائی ، گرمیوں ، سردیوں کے پکوان گھر کے افراد کے مزاجوں کے مطابق تیار کراتی ہے ،،،سردیوں گرمیوں کے کپڑوں کو دھوپ لگوانا ، اور سٹور کی اگاڑ پچھاڑ ، فرض بناۓ رکھتی ہے ۔
گھر آنے جانے والے کی منفی ، یا مثبت ، سجن یا دشمن کی نظروں کو پہچان کر ، اس فرد کو " ڈی کوڈ " کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے ،، بھلے اسے اس کوشش میں ناکامی کیوں نہ ہو ، ! وہ گھر کو ، اور اسکے ہر فرد کو ہر نقصان سے بچانے کی سر توڑ جدوجہد کرتی چلی جاتی ہے ۔ اس کے اندر بھی قدرت نے"حساس فیلرز " لگا رکھے ہیں ۔ کمزور ہونے کے باوجود ، باطن کی مضبوطی ، اسے اگلی ناپسندیدہ قوت سے بھِڑ جانے پر آمادہ کر لیتی ہے ۔
،واہ ،، عورت بھی کیا منفرد مخلوق ہے ، چیونٹی ہو ،، یا عورت ،،، ہر لمحہ " آن ڈیوٹی " نظر آتی ہے ۔ سوتے میں بھی عورت کا دماغ اپنوں کی فکر میں متحرک ہوتا ہے ۔ وہ زندگی کے آخری سانس میں ، اپنی آخری بات میں " جُڑے رہنے " کا کہتی چلی جاتی ہے ، ، عورت چاہے کتنی غریب ہو ، متوسط طبقے سے ہو یا خوشحال گھر سے ،، اس کے اوصاف ، چیونٹیوں کی طرح "" شدتِ جذبات لٰۓ ،، واضع ،، فراست ِ فہم لیۓ ،، اور بظاہر موم ، بباطن چٹان ! کوئ صلہ نہیں ، کوئی معاوضہ نہیں ، ،،،،،کیا مماثلتِ مخلوق ہے ، اللہ حیران کر دینے والا ہے !۔
( منیرہ قریشی 23 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

بدھ، 19 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال (5)۔

۔' نیند اور اُمید '۔
بہت سٹریس ہے، کام کے بوجھ نے تھکن سے چُور کر دیا ہے۔ 
اُس کی دل جلی باتوں پر مجھے اس قدر غصہ تھا کہ ، غصے سے، جسم لرز رہا تھا ،
آج محفل میں اتنی گرما گرمی ہوگئ کہ کنپٹیاں ابھی تک تڑخ رہی ہیں ۔
جوں ہی اس نے الزام تراشی شروع کی ،،، تم نے مجھے کیوں روکا ۔۔۔ میں اسے یہ اور یہ جواب دیتی تو ،، چُپ کرا کے رکھ دیتی ، یہ جواب نہ دے سکنے کے غم نے مجھے مزید ڈپریس کر دیا ہے۔
آہ ، غم نے دل پارہ پارہ کر دیا ہے ، آنکھ سراپا آنسو بنی ہوئ ہے ،، نہ بھوک لگ رہی ہے ، نہ پیاس ، ہر ا حساس سے جسم سُن ہو چلا ہے !!پتہ نہیں کب اس کیفیت پر قابو پا سکوں ،، شاید کبھی نہیں ،،، غم بھی توکوئی چھوٹا نہیں ،، کسی اپنے کا یوں ہمیشہ کے لیۓ بچھڑ جانا ، معمولی بات تو نہیں ، جانے کب صبر آۓ !۔اُف اتنی بےعزتی ،، میَں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسے گھٹیا ، گندے الفاظ اپنی زندگی میں سننے پڑیں گے ، میری تو راتوں کی نیندختم ہو گئی ہے۔
قرض کیسے ادا ہو گا ؟ یہ فیسیں ،یہ بلز ،،،، کیسے ادائیگی ہو گی ؟؟فکر سے دماغ نے تو جیسے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ،،،۔
علاج کہاں سے کرائیں ،، ہاتھ اتنا تنگ ہے ،،۔ یہ اولاد تو ہے ہی نِری آزمائش ،، نہ نا لائق ہوتی ،، تو نہ لوگوں کے طنز سننے پڑتے ،،،،،،،،،،اور انسانی جسم ، روح ، اور جذبے اور احساسات ،،،، تفکرات کے بھنور میں یوں گھمن گھیری میں چکرا کر رہ جاتے ہیں ،، لیکن یہ انسان ہی ہے جو پھر بھی زند گی سے چمٹا رہتا ہے ،،، کیوں کہ باطنی طور پر " اُمید " سے اور جسمانی طور پر " نیند " سے توانائی اورہمت، پا لیتا ہے ۔
اُس خالق نے اپنی اِس تخلیق کے اندر " نیند " کا وہ پینڈولم فکس کر رکھا ہے ،،، جو چُور چُور ، اور، ریزہ ریزہ وجود کو پھر سابت کر ڈالتا ہے۔ ،،،، بس اِک ذرا نیند کے پینڈولم نے آنکھیں بند کروائیں ،،، اور چند گھنٹے کی نیند نے ،، پھر ہر کڑوے ، میٹھے ، کھٹے ، کھاری حالات سے نبرد آزما ئی کی طاقت دے ڈالی ۔
جیسے کسی نے جسم میں " ملٹی وٹامنز " کا مرکب انڈیل ڈالا ہو ،،،،،،،،۔
ایک گہری نیند کا جھونکا ،،، باطن کی گرد آلود " اُمید " کی گرد کو اُڑا دیتا ہے !۔
سوچتی ہوں دنیاوی نیند اتنا تازہ دم کر دیتی ہے ،،، تو ہمیشہ کی نیند کیسا مزہ دے ڈالے گی !!۔
شکریہ پیاری نیند ،،،، شکریہ !۔
( منیرہ قریشی 19 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

منگل، 18 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال(4)۔

 ' شرم ، یا ، احساسِ کمتری '
مَیں یہ جملے کسی کو نہیں کہہ سکتی /سکتا ۔ مجھے شرم آتی ہے ۔
مَیں اب وہی جوڑا اِسی گھر کے فنگشن میں پھر پہنوں ،، میری تو بےعزتی ہے ،،میَں کسی کے سامنے نہیں جا ؤں گی/ گا ،، مجھے تو شرم آرہی ہے۔ 
میَں اپنی سہیلیوں/ دوستوں کو اِس ڈرائنگ روم میں بلا سکتی /سکتاہوں ، جس کی ہر چیز بدلاۓ جانے لائق ہے ،،،مجھے تو شرم آرہی ہے ۔
میَں اُس تقریب میں کیوں جاؤں ، وہاں میرا کوئ واقف ہی نہیں ،، مجھے بور نہیں ہونا ، اور مجھے تو ایک دفعہ ہی انھوں نے بلایا ہے ، دوبارہ کہا ہی نہیں ، مجھے تو شرم آۓ گی ۔
آپ کمرے میں ہی رہیۓ گا ، میری سہیلیاں / دوست گھر میں آرہے ہیں ایک تو ہمارے گھر کے لوگ بہت باتیں کرتے ہیں ، مجھے شرم آتی ہے ۔
ہمارے گھر کی گاڑی اتنی پرانی ہے ، کہ بیٹھتے ہوۓ بھی شرم آتی ہے ۔
یہ شرم نہیں ،،، احساسِ کمتری کے بدترین انداز ہیں ۔
سوچ کے تنگ دائروں میں گھومتے لوگ ، بھلے بڑے گھر میں رہیں ، بڑی کار میں گھومیں ،، بہترین لباس پہنیں ،،، وہ کوئ اور ایسی بے کار وجہ تلاش کر لیتے ہیں ،، جس میں یہ جملہ شامل ہو جاۓ ۔" مجھے بہت شرم آرہی ہے "احساسِ کمتری ،، دراصل احساسِ نفاست ، اور احساسِ انفرادیت سمجھ کر "پیش " کیا جاتا ہے ، تاکہ " ہممم " کے لفظ کو مطمئن کرنے کا جواز بن جاۓ ان بے کار سوچوں کے دائروں میں کولہو کے بیل کی طرح گھومتے گھومتے سر کے بالوں کا رنگ سیاہ سے سفید ہو جاتا ہے ،، لیکن شرم کے لیۓ وہی بُودی توجیہات دہرائ جاتی ہیں ،، دوسروں کی طرف حقارت کی انگلی اُٹھاۓ ،،، معاشرے میں " ہم " کے لفظ کی تکرار ،،، بندے کو کتنا " نَکو " بنا دیتی ہے ، کسی کو سمجھ آجاۓ ، تو اس کے لیۓ " شرم " کا مفہوم بدل جاۓ ۔
شرم اُتنی کریں ،،، جتنی آ رہی ہو !!اور شرم کرنی ہے ، تو صرف تمیز و آداب کے "نہ "آنے پر کریں ۔
خود اعتمادی سے جئیں ،،،، ۔
" اپنی " محنت کی کمائی کی ہر چیز پر فخر کریں !!
برینڈز کی عینک اتار پھینکیں ،،، جینا بہت آسان ہو جاۓ گا ،،، آپ ہلکے پھُلکے ہو جائیں گے ،، " پَر " کی طرح !!
( منیرہ قریشی 18 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

پیر، 17 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال(3)۔

 ' بُودا جواب '
تو یہ ہے تمہارا کمرہ ،،، تم اکیلی سو لیتی ہو ؟؟ ڈر نہیں لگتا ؟؟ اکیلی کہاں ہوتی ہوں ،، ،، ،، ۔
دائیں جانب کچھ نیکیاں منہ چھُپاۓ بیٹھی ہوتی ہیں ، لیکن کسی کلام کے بغیر ، مجھے ڈسٹرب کیۓ بنا ،،،،۔
اور بائیں جانب کچھ گناہ بیٹھے ہوۓ ہیں ، دانت نکوستے ہوۓ ، متکبر انداز سے کلام کی اجازت مانگتے رہتے ہیں ،،،۔
پائنتی ،، ایک اداس "نفس" ، بیٹھا ہی رہتا ہے ،،، نظر ڈالوں تو ایک آنسو ٹپک کر چہرے پر پھیل جاتا ہے ،، عجب بے بسی اس کے چہرے پر چھائی رہتی ہے ،،،،اور سرہانے دو " ارقم " اب تک کی روداد روزانہ سناتے ہیں ، اور چل چلاؤ کا پروانہ بھی دکھاتے رہتے ہیں ۔ لیکن میَں روز کہتی ہوں ،،،،کچھ وقت اَور دو ابھی بہت کام پڑے ہیں ،، وہ زیرِ لب مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں " ایسے ہی الفاظ بولنے والوں سے یہ اندرونِ قرصِ ارض بھرا پڑا ہے ، یہ سب ہی بڑے مصروف لوگاں تھے "
اپنے کمرے میں اکیلی کہاں ہوتی ہوں ، مجھے تو تنہائی کی سخت ضرورت ہے ! یہ وجود جو موجود رہتے ہیں، یہ مکالمے ،،،، تنہائ کہاں ، ڈر کیسا !! ؟
( منیرہ قریشی 17 ستمبر 2018ء واہ کینٹ
 

اتوار، 16 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال (2))۔

' ہار اورہتھکڑی'
میَں تقریب میں جانے کے لیۓ نِک سِک سے سج چکی ہوں ، کانوں میں چھوٹے بُندے ، ہاتھوں میں انگوٹھیاں ، ،، لیکن گلے کی زنجیر اور ہاتھ کے بینگل نہیں پہنتی ۔ اور جب بھی کوئ پوچھتا ہے ، یہ دو زیور کیوں پہنتی ہو !! اور وہ دو زیور کیوں نہیں پہنتیں ؟؟؟؟؟ 
میَں جو جواب دیتی ہوں ،، وہ دوسرے کے لیۓ قابلِ قبول نہیں ہوتا ،کہتی ہوں ، بھئ کان اور ہاتھ تو شاید بنے ہی اس لیۓ ہیں ، ، کہ انھیں سجا دیکھنا ، آنکھوں کی مجبوری ہے ، شاید انھیں عادت ہو چکی ہے، کہ کچھ کمی ہے ان انگلیوں میں ! بھلے وہ پیتل کی انگوٹھیاں ہوں!،،اور آئینہ دیکھتے ہی کانوں میں جھولتے بُندے ، تسلی دیتے ہیں ،، ہاں ، اچھی لگ رہی ہو ،، بھلے بُندے پلاسٹک کے ہوں ۔
اور ،،،، عورت کے گلے میں لٹکا ہار ،،، عورت کے گلے میں لٹکا میڈل لگتا ہے ، جیسے "" تم بہت بہادر ہو ! تم سب کام کر سکتی ہو !! تمہیں ہر جذبہء ظاہر و باطن کے محاذ پر قابو پانا آتا ہے !! ،، واہ تم حق دار ہو اس میڈل کی،، لو یہ اور باقی سبھی کام تمہارے ذمے ،،،،،،،،،،،،،،،!!۔
بینگل یا کڑے ،،، خوبصورت ہتھکڑی !! ، ایسی ہتھکڑی جو مرد کی توجہ کی مظہر ہو !۔
ایسی ہتھکڑی جو اس کے سٹیٹس کا سمبل ہو !۔
ایسی ہتھکڑی جو جس عورت نے پہنی ، خوشی سے پہنی ، اور جب ہتھکڑی پہن لی ،، تو دراصل قید کو خوشی سے قبول کیا ، خواہشوں اور جذبوں سمیت !!!۔
( نکتہء نظر اپنا اپنا )
( منیرہ قریشی 16 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 15 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال ( 1 ) ۔۔

' کوڈ '
تمہارا بنک کون سا ہے ؟، اے ٹی ایم کا ،تمہارے لاکر کا ،، ای میل کا ، کمپیوٹر کا ، تمہارے گھر کے تالے کا ،،،،،، ' کیا کوڈ ہے ' ؟؟؟؟؟ 
میَں کیوں بتاؤں !!!۔
یہ کوئی پوچھنے کی باتیں ہیں !! چلو ،، ہم معلوم کر لیں گے ، کر سکتے ہیں ،،اب بہت سے طریقے ایجاد ہو چکے ہیں ،،، تب اندر کی چاروں سمتوں پر خدشات ، گمان ، خوف ، اور بدظنی نے مورچے سنبھال لیۓ ،، اور وہ جم کر ان دروازوں پر بیٹھ گئیں ۔ ،،، یہ منہ چڑاتے بد گمان دروازے ، بند ہیں جس نے پوچھا ، اس کے لیۓ بھی اور جس نے نہیں پوچھا اس کے لیۓبھی۔،،،،، یہ رویہ بے زار کر گیا۔
مگر کیا میرے " خیالوں " کا کوڈ یہ جان پائیں گے !!!۔
شکر ہے ، بس " وہ " میرا یہ کوڈ جانتا ہے ، اور پھر بھی کوئی بلیک میلنگ نہیں ، پھر بھی کوئی دھمکی نہیں ،،، نہ دوسروں پر عیاں ہونے کے خدشات ،، نہ زور نہ زبردستی ،،،،اور ایسا راز دار کہ موقع دیتا چلا جاتا ہے ، خیالوں کے خزانے کو چمکانے کا ،،، خود کو خود سے جانچنے کا ،،،اپنے رازوں کو سنبھالنے کا ،،، حالانکہ وہ میرا ہر "کوڈ" جانتا ہے ! اور وہ یہ بھی جانتا ہے ،، میرے بندے " کوڈ ز " کے حصار میں پھنس چکے ہیں ،، انھیں مارجن دیا جانا چاہیۓ ۔ انھیں موقع دیۓ چلا جاؤں گا ۔
کیسا بہترین راز دار ہے ،، کتنا زبردست پردہ پوش ہے !۔
( منیرہ قریشی 15 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

ہفتہ، 1 ستمبر، 2018

ترکیہء جدید(9)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
ترکیہء جدید' (9)۔
اور ترکی نے صرف نو دنوں کے قیام میں ہمیں اتنا گرویدہ تو ضرور کر دیا ، کہ دوبارہ آنے کی خواہش ،،،نے اسے چھوڑنے سے پہلے ہی دل کے ایک کونے میں جگہ بنالی ،،کہ جو ذات پہلی دفعہ لائی ،، اسی کا حکم ہوا تو اگلی باری بھی آ جائیں گے،، آج ترکی میں ہمارا نواں اور آخری دن تھا ،، اور آج ہم خالصتاً تفریحی ٹرپ پر جا رہۓ تھے ،، اور یہ بعد میں پتہ چلا یہاں بھی ترکی کے حسن کا اپنا جلوہ نظر آرہا تھا ۔ 
یہ بھی ایک نیم پہاڑی علاقہ تھا ، اس جگہ کا نام " انطالیہ" ہے ،،، جہاں " 'قوآڈ رائیڈ' کا انتظام ہے ،، یہ ہمارے لیۓ تو نئی رائیڈ تھی ہی ، حتیٰ کہ ایمن ثمن ،مائرہ ،،جو کئ ملکوں میں پھر چکی تھیں ،، انھوں نے بھی ایسی رائیڈ پہلی دفعہ ٹرائی کی ۔ یہاں پہنچنے میں شاید ایک گھنٹہ لگا ،، اور پھر خوبصورت سرسبز نیم پہاڑی علاقہ تھا اور اس وقت سب ہی  پُرجوش تھے ،،، ایک جگہ وین رُکی ، اُترے ، سب نےلطیف سی خنکی کو محسوس کیا، میَں تو خود بھی لطیف ہو گئی ،،،، اس سے پہلے کہ اصل رائیڈ کی طرف جاتے،، یہیں ایک اور رائیڈ تھی ،، جو ایک سنگل سوار ایک جالی کی سیٹ میں خود کو فکس کر کے پھر یہ ایک مضبوط تار پر تیزی سے جھولتا ہوا ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتا تھا ۔ یہ رائیڈ مزید محفوظ بنانے کے لیۓ اس کے نیچے بھی جنگلہ لگایا گیا تھا ، یہ بہ مشکل پانچ منٹ کا آنا جانا تھا۔ میری بیٹی نشل نے دونوں بچوں کو تو رائیڈ کروا دی ،، خود جھجک گئی ،،، جبکہ مائرہ ، ٹونزوں اور نشمیہ کے چھوٹے نے رائیڈ انجواۓ کی ،،، اور یہیں حسب معمول چھوٹے چھوٹے سوئینئر ز کے سٹالز نے بھی متوجہ کیا ،،،بائیک رائیڈ کے ٹکٹ گھر یہیں تھا ۔یہ خوب صورت رائیڈ بہت چھوٹی جیپ پر کرنی ہوتی ہے ، اس کے بہت چوڑے ، اور اونچے ٹائر ،، ہر طرح کے اناڑی ڈرائیور کے لیۓ بھی اس کو چلانا دشوار نہیں ہوتا ۔ ایک جیپ پر صرف چار لوگ بیٹھنے کی اجازت تھی ، ہم چھوٹے بڑے سب 12 تھے اس لیۓ تین جیپیں ہائر کی گئیں ۔ ایک جیپ ، کو مائرہ نے ایک نشل نے اور ایک جیپ نشمیہ کے بڑے صاحب ذادے زرک نے چلائی ،،، ہمارے علاوہ تین اور بھی جیپیں تیار ہوئیں ، تب اسی کمپنی کا ایک جوان ہمیں گائیڈ کے طور پر آگے اپنئ بائیک پر چلنا شروع ہوا ،، یہ ایک طرف سے ڈیڑھ ، دو میل کی بہت پُر لطف سیر تھی ۔ سارا راستہ کچھ کچا کچھ پکا تھا ،، جیپیں ذیادہ سپیڈ ویسے بھی نہیں پکڑ رہی تھیں ۔ کہ راستہ بھی کچھ اونچائ کی طرف جا رہاتھا ۔ سڑک کے دونوں جانب گھنی جھاڑیاں ، یا درخت ، تھےکہیں کہیں کھائیاں بھی نظر آئیں ،، یہاں کئی جگہوں پر پتلی پگڈنڈیاں اوپر یا نیچے جاتی نظر آئیں ،،، لیکن اس دوران کوئی  مقامی  بندہ نظر نہیں آیا ،، شاید وہ کوئی اور راستہ آمد و رفت کے لیۓ استعمال کرتے ہوں ۔ آگے جاتا گائیڈ تیزی سے ہم سے چند منٹ پہلےآگے جاکر کھڑا ہو جاتا ،، اور اتنی ہی تیزی سے وہ سگریٹ پی لیتا اور جب سبھی جیپیں اس کی نظر میں آجاتیں ، تب بائیک سٹارٹ کر لیتا ۔ آگے چل پڑتا ۔ ایسا وہ سیاحوں کی حفاظت کے خیال سے اور یہ بھی کہ کوئ جیپ خراب ہو جاۓ تو ، فورا" دیکھا جا سکے ،،، وہ صحیح ڈیوٹی کر رہا تھا ۔ 
جہاں تک ان جیپوں کا سٹاپ اوور تھا ،، وہاں ایک کھلی جگہ پر ایک کیفے ، ایک آدھ فوٹو شوٹ کے نام سے شاپ تھی ،، جس میں بیک وقت دو تین چیزیں بکنے رکھی تھیں ، اور یہ جنرل سٹور کا کام دے رہا تھا ،،، یہاں پہنچنے والے سبھی لوگ ، سیلفیاں اور کیمرے کی دنیاؤں کو آباد کیۓ ہوۓ پوز بنا رہۓ تھے ۔ انھیں کیا معلوم ، ہزاروں سال سے پہلے بھی کچھ نا معلوم لوگوں نے ان خوبصورت نظاروں کو آنکھوں کے کیمروں سے دلوں کے البمز میں سجا لیا ، اور پھر ،،، معدوم " ہو گۓ ،،،آس پاس دور تک نگاہ جا رہی تھی ۔ دور تک گھاٹیاں اور چھوٹی سر سبز پہاڑیاں ،، صاف چمکتا آسمان ،، کائنات پر نیلا اور سبز رنگ حاوی تھا ۔ 
یوں کچھ وقت یہاں گزار کر سبھی "مسافران " واپسی کا رُخ کرتے ۔ اور گائیڈ پھر پہلے کی طرح اپنی ڈیوٹی پر آگے آگے ،، اور جیپیں اسکی نگرانی میں اسی کے پیچھے پیچھے ۔ ،،،،"قواڈ رائیڈ " جنگل" سے گزرنے کے تجربے کا ہلکا ساعکس اور دلآویزتجربہ تھا " ،لیکن ،، اُن کے لیۓ جو درخت ، جنگل اور خاموشی کو دلوں میں بساۓ ہوں ،،، اُن کے لیۓ یہ دل آویز تجربہ ہمیشہ کے لیۓ یادوں میں محفوظ وہ شعاع ہے ، جو کبھی کبھی لمحہ بھر کو چمک کر ،، اُس جنگل کے راستے کو روشن کر جاتی ہے کہ انسان اپنے اندر کو بھی روشن ہوتا دیکھ لیتا ہے ۔ کیوں کہ انسان کا اصل یہی مظاہرِ فطرت ہی تو ہیں۔
لیکن جو لوگ، شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس سے دوری برداشت نہیں کر سکتے ان کے لیۓ یہ تجربے ، یہ نظارے محض اک نظرِ طائرانہ ، ہوتی ہے ، دلبرانہ نہیں !!!وین سے واپسی پر "حسبِ ووٹنگ " پہلے ایک ریسٹورنٹ پہنچے ،، رات ہو چلی تھی، اس ریسٹورنٹ میں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوۓ ۔
اور پھر پہلے اپنے عارضی ٹھکانے پر پہنچے ، میَں جوجی لبنیٰ اور نشمیہ سخت تھکاوٹ سے جلدی لیٹنے چلیں گئیں ۔ لیکن انرجیٹک لوگوں نے خاموشی سے ہوٹل سے باہر کا راستہ لیا ،، یعنی میری بیٹی اور نواسی ، مائرہ اور ٹونزیں ،، اور زرک ،،، یہ نزدیکی شاپنگ سینٹر پر کچھ وقت گزار کر آئیں ، اور بعد میں اس آخری دن اکیلے چل پڑنے کو وہ مسکراہٹوں سے یاد کرتی ہیں ۔
اور ،،،، صبح ناشتہ کمرے میں نہیں ،، ہوٹل کے ریسٹورنٹ جا پہنچے ، سب سے پہلے ترکی سے جانے والے مسافروں میں انگلینڈ کی تینوں بہنیں تھیں ، مائرہ اور ٹونزیں ۔ ان کے بعد میں جوجی ، اورنشل اور اسکے بچے پنڈی ایئر پورٹ کے لیۓ اور لبنیٰ لاہور کے لیۓ الوداع ہوئیں ،،، اور اسی دن کی شام کو نشمیہ اور اسکے بچوں نے قطر جانا تھا ،،،،، اور ترکی ، یا ترکیہ کے سفر کی حد درجہ حسین یادوں کو لے کر اپنے اپنے ٹھکانوں میں واپس آکر ، زندگی کے پھر انہی لگے بندھے دن اور رات گزارنے لگتے ہیں ۔
،،، میَں جب بھی کسی سفر سے واپس پلٹتی ہوں تو مجھے کئی مہینے،، بعض دفعہ کئ سال اُس سفر کے سحر سے نکلنے میں لگتے ہیں ۔ اس سفر کی جزیات ، رہ رہ کر یاد آتی ہیں ،،، آنے والے سفر کی کوئی چاہت نہٰیں ہوتی ،،،،، اور ترکی میں تو حضرت یوشع علیہ السلام کے بغیر چھت کے مزار کی یادیں ،،، انطالیہ کا جنگل ،،، پتھریلے راستوں والے گاؤں کی چھوٹی دکانیں ،، اور حضرت "ابو ایوب انصاری رضی تعالیٰ عنہ" کے مزار کی یاد ،، جس سے ملاقات نامکمل ، ادھوری ،، اور کمزور رہی ،،، جس کا شدید افسوس ہے ۔ اپنی انہی کیفیات کو ان بے ترتیب لفظوں میں " ترتیب " دیا ہے ! گر قبول افتندز ( یہ لفظ صحیح نہیں لکھا جا رہا ) یہ جملے گھر واپس پہنچتے ہی 2 ستمبر 2017ء کو لکھے تھے !۔
" سلسلہ ہاۓ سفر "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سفر کچھ پُرانے 
یادیں گہری گھنیری
مناظر کچھ دیکھے بھالے
تجربے کچھ نۓ کچھ پرانے 
اجنبی بولیوں میں ہے سناٹا 
آہ ،،مگر سب گھاٹے کا سودا
نا معلوم منزلیں 
راستوں کے آوازے 
نامکمل منصوبے 
جلدی ہے نبٹانا
آگے ہے جانا
منتظر ہیں کچھ نفُوس
منظر ہیں نامانوس
سفر کی تھکن ہے ذادِ راہ
آہ ،، مگر سب گھاٹے کا سودا
آنکھوں میں رنگین سُرمہ
زندگانی کی کَترنیں 
خیالوں سے کاٹوں
مگر سفر ہیں کچھ نۓ 
دلچسپیوں کی شدت ہے 
مُٹھی میں ریت گھڑی
آہ ،، مگر سب گھاٹے کا سودا
آوازہ ہاۓ غیب ہے !!
سفر بخیر ، سفر بخیر ، سفر بخیر !!! ( 2 ستمبر 2017ء)
( منیرہ قریشی ،یکم ستمبر 2018ء واہ کینٹ ) ( خاتمہ بالخیر )