بدھ، 19 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال (5)۔

۔' نیند اور اُمید '۔
بہت سٹریس ہے، کام کے بوجھ نے تھکن سے چُور کر دیا ہے۔ 
اُس کی دل جلی باتوں پر مجھے اس قدر غصہ تھا کہ ، غصے سے، جسم لرز رہا تھا ،
آج محفل میں اتنی گرما گرمی ہوگئ کہ کنپٹیاں ابھی تک تڑخ رہی ہیں ۔
جوں ہی اس نے الزام تراشی شروع کی ،،، تم نے مجھے کیوں روکا ۔۔۔ میں اسے یہ اور یہ جواب دیتی تو ،، چُپ کرا کے رکھ دیتی ، یہ جواب نہ دے سکنے کے غم نے مجھے مزید ڈپریس کر دیا ہے۔
آہ ، غم نے دل پارہ پارہ کر دیا ہے ، آنکھ سراپا آنسو بنی ہوئ ہے ،، نہ بھوک لگ رہی ہے ، نہ پیاس ، ہر ا حساس سے جسم سُن ہو چلا ہے !!پتہ نہیں کب اس کیفیت پر قابو پا سکوں ،، شاید کبھی نہیں ،،، غم بھی توکوئی چھوٹا نہیں ،، کسی اپنے کا یوں ہمیشہ کے لیۓ بچھڑ جانا ، معمولی بات تو نہیں ، جانے کب صبر آۓ !۔اُف اتنی بےعزتی ،، میَں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسے گھٹیا ، گندے الفاظ اپنی زندگی میں سننے پڑیں گے ، میری تو راتوں کی نیندختم ہو گئی ہے۔
قرض کیسے ادا ہو گا ؟ یہ فیسیں ،یہ بلز ،،،، کیسے ادائیگی ہو گی ؟؟فکر سے دماغ نے تو جیسے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ،،،۔
علاج کہاں سے کرائیں ،، ہاتھ اتنا تنگ ہے ،،۔ یہ اولاد تو ہے ہی نِری آزمائش ،، نہ نا لائق ہوتی ،، تو نہ لوگوں کے طنز سننے پڑتے ،،،،،،،،،،اور انسانی جسم ، روح ، اور جذبے اور احساسات ،،،، تفکرات کے بھنور میں یوں گھمن گھیری میں چکرا کر رہ جاتے ہیں ،، لیکن یہ انسان ہی ہے جو پھر بھی زند گی سے چمٹا رہتا ہے ،،، کیوں کہ باطنی طور پر " اُمید " سے اور جسمانی طور پر " نیند " سے توانائی اورہمت، پا لیتا ہے ۔
اُس خالق نے اپنی اِس تخلیق کے اندر " نیند " کا وہ پینڈولم فکس کر رکھا ہے ،،، جو چُور چُور ، اور، ریزہ ریزہ وجود کو پھر سابت کر ڈالتا ہے۔ ،،،، بس اِک ذرا نیند کے پینڈولم نے آنکھیں بند کروائیں ،،، اور چند گھنٹے کی نیند نے ،، پھر ہر کڑوے ، میٹھے ، کھٹے ، کھاری حالات سے نبرد آزما ئی کی طاقت دے ڈالی ۔
جیسے کسی نے جسم میں " ملٹی وٹامنز " کا مرکب انڈیل ڈالا ہو ،،،،،،،،۔
ایک گہری نیند کا جھونکا ،،، باطن کی گرد آلود " اُمید " کی گرد کو اُڑا دیتا ہے !۔
سوچتی ہوں دنیاوی نیند اتنا تازہ دم کر دیتی ہے ،،، تو ہمیشہ کی نیند کیسا مزہ دے ڈالے گی !!۔
شکریہ پیاری نیند ،،،، شکریہ !۔
( منیرہ قریشی 19 ستمبر 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں