ہفتہ، 1 ستمبر، 2018

ترکیہء جدید(9)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
ترکیہء جدید' (9)۔
اور ترکی نے صرف نو دنوں کے قیام میں ہمیں اتنا گرویدہ تو ضرور کر دیا ، کہ دوبارہ آنے کی خواہش ،،،نے اسے چھوڑنے سے پہلے ہی دل کے ایک کونے میں جگہ بنالی ،،کہ جو ذات پہلی دفعہ لائی ،، اسی کا حکم ہوا تو اگلی باری بھی آ جائیں گے،، آج ترکی میں ہمارا نواں اور آخری دن تھا ،، اور آج ہم خالصتاً تفریحی ٹرپ پر جا رہۓ تھے ،، اور یہ بعد میں پتہ چلا یہاں بھی ترکی کے حسن کا اپنا جلوہ نظر آرہا تھا ۔ 
یہ بھی ایک نیم پہاڑی علاقہ تھا ، اس جگہ کا نام " انطالیہ" ہے ،،، جہاں " 'قوآڈ رائیڈ' کا انتظام ہے ،، یہ ہمارے لیۓ تو نئی رائیڈ تھی ہی ، حتیٰ کہ ایمن ثمن ،مائرہ ،،جو کئ ملکوں میں پھر چکی تھیں ،، انھوں نے بھی ایسی رائیڈ پہلی دفعہ ٹرائی کی ۔ یہاں پہنچنے میں شاید ایک گھنٹہ لگا ،، اور پھر خوبصورت سرسبز نیم پہاڑی علاقہ تھا اور اس وقت سب ہی  پُرجوش تھے ،،، ایک جگہ وین رُکی ، اُترے ، سب نےلطیف سی خنکی کو محسوس کیا، میَں تو خود بھی لطیف ہو گئی ،،،، اس سے پہلے کہ اصل رائیڈ کی طرف جاتے،، یہیں ایک اور رائیڈ تھی ،، جو ایک سنگل سوار ایک جالی کی سیٹ میں خود کو فکس کر کے پھر یہ ایک مضبوط تار پر تیزی سے جھولتا ہوا ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتا تھا ۔ یہ رائیڈ مزید محفوظ بنانے کے لیۓ اس کے نیچے بھی جنگلہ لگایا گیا تھا ، یہ بہ مشکل پانچ منٹ کا آنا جانا تھا۔ میری بیٹی نشل نے دونوں بچوں کو تو رائیڈ کروا دی ،، خود جھجک گئی ،،، جبکہ مائرہ ، ٹونزوں اور نشمیہ کے چھوٹے نے رائیڈ انجواۓ کی ،،، اور یہیں حسب معمول چھوٹے چھوٹے سوئینئر ز کے سٹالز نے بھی متوجہ کیا ،،،بائیک رائیڈ کے ٹکٹ گھر یہیں تھا ۔یہ خوب صورت رائیڈ بہت چھوٹی جیپ پر کرنی ہوتی ہے ، اس کے بہت چوڑے ، اور اونچے ٹائر ،، ہر طرح کے اناڑی ڈرائیور کے لیۓ بھی اس کو چلانا دشوار نہیں ہوتا ۔ ایک جیپ پر صرف چار لوگ بیٹھنے کی اجازت تھی ، ہم چھوٹے بڑے سب 12 تھے اس لیۓ تین جیپیں ہائر کی گئیں ۔ ایک جیپ ، کو مائرہ نے ایک نشل نے اور ایک جیپ نشمیہ کے بڑے صاحب ذادے زرک نے چلائی ،،، ہمارے علاوہ تین اور بھی جیپیں تیار ہوئیں ، تب اسی کمپنی کا ایک جوان ہمیں گائیڈ کے طور پر آگے اپنئ بائیک پر چلنا شروع ہوا ،، یہ ایک طرف سے ڈیڑھ ، دو میل کی بہت پُر لطف سیر تھی ۔ سارا راستہ کچھ کچا کچھ پکا تھا ،، جیپیں ذیادہ سپیڈ ویسے بھی نہیں پکڑ رہی تھیں ۔ کہ راستہ بھی کچھ اونچائ کی طرف جا رہاتھا ۔ سڑک کے دونوں جانب گھنی جھاڑیاں ، یا درخت ، تھےکہیں کہیں کھائیاں بھی نظر آئیں ،، یہاں کئی جگہوں پر پتلی پگڈنڈیاں اوپر یا نیچے جاتی نظر آئیں ،،، لیکن اس دوران کوئی  مقامی  بندہ نظر نہیں آیا ،، شاید وہ کوئی اور راستہ آمد و رفت کے لیۓ استعمال کرتے ہوں ۔ آگے جاتا گائیڈ تیزی سے ہم سے چند منٹ پہلےآگے جاکر کھڑا ہو جاتا ،، اور اتنی ہی تیزی سے وہ سگریٹ پی لیتا اور جب سبھی جیپیں اس کی نظر میں آجاتیں ، تب بائیک سٹارٹ کر لیتا ۔ آگے چل پڑتا ۔ ایسا وہ سیاحوں کی حفاظت کے خیال سے اور یہ بھی کہ کوئ جیپ خراب ہو جاۓ تو ، فورا" دیکھا جا سکے ،،، وہ صحیح ڈیوٹی کر رہا تھا ۔ 
جہاں تک ان جیپوں کا سٹاپ اوور تھا ،، وہاں ایک کھلی جگہ پر ایک کیفے ، ایک آدھ فوٹو شوٹ کے نام سے شاپ تھی ،، جس میں بیک وقت دو تین چیزیں بکنے رکھی تھیں ، اور یہ جنرل سٹور کا کام دے رہا تھا ،،، یہاں پہنچنے والے سبھی لوگ ، سیلفیاں اور کیمرے کی دنیاؤں کو آباد کیۓ ہوۓ پوز بنا رہۓ تھے ۔ انھیں کیا معلوم ، ہزاروں سال سے پہلے بھی کچھ نا معلوم لوگوں نے ان خوبصورت نظاروں کو آنکھوں کے کیمروں سے دلوں کے البمز میں سجا لیا ، اور پھر ،،، معدوم " ہو گۓ ،،،آس پاس دور تک نگاہ جا رہی تھی ۔ دور تک گھاٹیاں اور چھوٹی سر سبز پہاڑیاں ،، صاف چمکتا آسمان ،، کائنات پر نیلا اور سبز رنگ حاوی تھا ۔ 
یوں کچھ وقت یہاں گزار کر سبھی "مسافران " واپسی کا رُخ کرتے ۔ اور گائیڈ پھر پہلے کی طرح اپنی ڈیوٹی پر آگے آگے ،، اور جیپیں اسکی نگرانی میں اسی کے پیچھے پیچھے ۔ ،،،،"قواڈ رائیڈ " جنگل" سے گزرنے کے تجربے کا ہلکا ساعکس اور دلآویزتجربہ تھا " ،لیکن ،، اُن کے لیۓ جو درخت ، جنگل اور خاموشی کو دلوں میں بساۓ ہوں ،،، اُن کے لیۓ یہ دل آویز تجربہ ہمیشہ کے لیۓ یادوں میں محفوظ وہ شعاع ہے ، جو کبھی کبھی لمحہ بھر کو چمک کر ،، اُس جنگل کے راستے کو روشن کر جاتی ہے کہ انسان اپنے اندر کو بھی روشن ہوتا دیکھ لیتا ہے ۔ کیوں کہ انسان کا اصل یہی مظاہرِ فطرت ہی تو ہیں۔
لیکن جو لوگ، شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس سے دوری برداشت نہیں کر سکتے ان کے لیۓ یہ تجربے ، یہ نظارے محض اک نظرِ طائرانہ ، ہوتی ہے ، دلبرانہ نہیں !!!وین سے واپسی پر "حسبِ ووٹنگ " پہلے ایک ریسٹورنٹ پہنچے ،، رات ہو چلی تھی، اس ریسٹورنٹ میں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوۓ ۔
اور پھر پہلے اپنے عارضی ٹھکانے پر پہنچے ، میَں جوجی لبنیٰ اور نشمیہ سخت تھکاوٹ سے جلدی لیٹنے چلیں گئیں ۔ لیکن انرجیٹک لوگوں نے خاموشی سے ہوٹل سے باہر کا راستہ لیا ،، یعنی میری بیٹی اور نواسی ، مائرہ اور ٹونزیں ،، اور زرک ،،، یہ نزدیکی شاپنگ سینٹر پر کچھ وقت گزار کر آئیں ، اور بعد میں اس آخری دن اکیلے چل پڑنے کو وہ مسکراہٹوں سے یاد کرتی ہیں ۔
اور ،،،، صبح ناشتہ کمرے میں نہیں ،، ہوٹل کے ریسٹورنٹ جا پہنچے ، سب سے پہلے ترکی سے جانے والے مسافروں میں انگلینڈ کی تینوں بہنیں تھیں ، مائرہ اور ٹونزیں ۔ ان کے بعد میں جوجی ، اورنشل اور اسکے بچے پنڈی ایئر پورٹ کے لیۓ اور لبنیٰ لاہور کے لیۓ الوداع ہوئیں ،،، اور اسی دن کی شام کو نشمیہ اور اسکے بچوں نے قطر جانا تھا ،،،،، اور ترکی ، یا ترکیہ کے سفر کی حد درجہ حسین یادوں کو لے کر اپنے اپنے ٹھکانوں میں واپس آکر ، زندگی کے پھر انہی لگے بندھے دن اور رات گزارنے لگتے ہیں ۔
،،، میَں جب بھی کسی سفر سے واپس پلٹتی ہوں تو مجھے کئی مہینے،، بعض دفعہ کئ سال اُس سفر کے سحر سے نکلنے میں لگتے ہیں ۔ اس سفر کی جزیات ، رہ رہ کر یاد آتی ہیں ،،، آنے والے سفر کی کوئی چاہت نہٰیں ہوتی ،،،،، اور ترکی میں تو حضرت یوشع علیہ السلام کے بغیر چھت کے مزار کی یادیں ،،، انطالیہ کا جنگل ،،، پتھریلے راستوں والے گاؤں کی چھوٹی دکانیں ،، اور حضرت "ابو ایوب انصاری رضی تعالیٰ عنہ" کے مزار کی یاد ،، جس سے ملاقات نامکمل ، ادھوری ،، اور کمزور رہی ،،، جس کا شدید افسوس ہے ۔ اپنی انہی کیفیات کو ان بے ترتیب لفظوں میں " ترتیب " دیا ہے ! گر قبول افتندز ( یہ لفظ صحیح نہیں لکھا جا رہا ) یہ جملے گھر واپس پہنچتے ہی 2 ستمبر 2017ء کو لکھے تھے !۔
" سلسلہ ہاۓ سفر "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
سفر کچھ پُرانے 
یادیں گہری گھنیری
مناظر کچھ دیکھے بھالے
تجربے کچھ نۓ کچھ پرانے 
اجنبی بولیوں میں ہے سناٹا 
آہ ،،مگر سب گھاٹے کا سودا
نا معلوم منزلیں 
راستوں کے آوازے 
نامکمل منصوبے 
جلدی ہے نبٹانا
آگے ہے جانا
منتظر ہیں کچھ نفُوس
منظر ہیں نامانوس
سفر کی تھکن ہے ذادِ راہ
آہ ،، مگر سب گھاٹے کا سودا
آنکھوں میں رنگین سُرمہ
زندگانی کی کَترنیں 
خیالوں سے کاٹوں
مگر سفر ہیں کچھ نۓ 
دلچسپیوں کی شدت ہے 
مُٹھی میں ریت گھڑی
آہ ،، مگر سب گھاٹے کا سودا
آوازہ ہاۓ غیب ہے !!
سفر بخیر ، سفر بخیر ، سفر بخیر !!! ( 2 ستمبر 2017ء)
( منیرہ قریشی ،یکم ستمبر 2018ء واہ کینٹ ) ( خاتمہ بالخیر )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں