پیر، 17 ستمبر، 2018

اِک پرِخیال(3)۔

 ' بُودا جواب '
تو یہ ہے تمہارا کمرہ ،،، تم اکیلی سو لیتی ہو ؟؟ ڈر نہیں لگتا ؟؟ اکیلی کہاں ہوتی ہوں ،، ،، ،، ۔
دائیں جانب کچھ نیکیاں منہ چھُپاۓ بیٹھی ہوتی ہیں ، لیکن کسی کلام کے بغیر ، مجھے ڈسٹرب کیۓ بنا ،،،،۔
اور بائیں جانب کچھ گناہ بیٹھے ہوۓ ہیں ، دانت نکوستے ہوۓ ، متکبر انداز سے کلام کی اجازت مانگتے رہتے ہیں ،،،۔
پائنتی ،، ایک اداس "نفس" ، بیٹھا ہی رہتا ہے ،،، نظر ڈالوں تو ایک آنسو ٹپک کر چہرے پر پھیل جاتا ہے ،، عجب بے بسی اس کے چہرے پر چھائی رہتی ہے ،،،،اور سرہانے دو " ارقم " اب تک کی روداد روزانہ سناتے ہیں ، اور چل چلاؤ کا پروانہ بھی دکھاتے رہتے ہیں ۔ لیکن میَں روز کہتی ہوں ،،،،کچھ وقت اَور دو ابھی بہت کام پڑے ہیں ،، وہ زیرِ لب مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں " ایسے ہی الفاظ بولنے والوں سے یہ اندرونِ قرصِ ارض بھرا پڑا ہے ، یہ سب ہی بڑے مصروف لوگاں تھے "
اپنے کمرے میں اکیلی کہاں ہوتی ہوں ، مجھے تو تنہائی کی سخت ضرورت ہے ! یہ وجود جو موجود رہتے ہیں، یہ مکالمے ،،،، تنہائ کہاں ، ڈر کیسا !! ؟
( منیرہ قریشی 17 ستمبر 2018ء واہ کینٹ
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں