جمعرات، 9 اگست، 2018

ترکیہء جدید ' (3)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
' ترکیہء جدید  (3)۔
ہمارے قیامِ ترکی کے لیۓ ، لبنیٰ کے داماد عمر ، کی واقفیت اور ترکی میں اس کے قیام سے لی گئ معلومات ، ہمارے کام آنے لگیں ،، اس نے کچھ عرصہ استنبول سے باہر ایک بلڈنگ کا پروجیکٹ مکمل کیا تھا ،، اب وہاں کے ٹرانسپورٹ انچارج کو اس نے فون پر نہ صرف وین کا آرڈر دے دیا ، بلکہ، ایسا ڈرائیور ساتھ دیا ، جسے سبھی راستوں سے خوب آگاہی تھی ، لیکن وہ انگریزی سے مکمل طور پر نا بلد تھا ( ہاۓ بیچارہ"  ۔۔ انگریزی بغیر ہی زندہ تھا۔ ) وہ درمیانی عمر کا خوش شکل ٹرکش تھا ،، جس کا نام مہمندایجوت تھا ،، مؤدب اور تمیز دار تھا، اب آپسی کمیونیکیشن کیسے ہو ؟ زرک نے فورا" اسی جدید موبائل کی سہولت کا ستعمال کیا کہ وہ انگریزی میں لکھتا ،، اور زبان کے بٹن کے تحت ترکی زبان لکھی آ گئ اور وہ جملے ، ایجوت پڑھ لیتا ،، اس طرح وہ اسی جگہ پہنچا نے لگا ،،، وہ انگریزی پڑھنے ، یا بولنے سے یکسر نا واقف تھا ۔ ہم نزدیکی پارک گئیں ، جو 15، منٹ کی ڈرائیو پر تھا ،، یہ خوب صورت ،،پارک ترکی سے پہلا " تعارف " بن گیا ، اور ساتھ ہی باسفورس کا پہلا نظارہ بھی یہیں ہوا ۔ یہ پہلے نظارے نہ تھے ،، کسی سر زمین سے محبت کی ابتدا بھی تھے ۔ بہت کھلا راستہ ، پیورز سے آراستہ ، کچھ اونچائ لیۓ ہوۓ تھا ۔ اور اس پاتھ کے اردگرد خوب کھلے سر سبز لان ، خوب صورت کیاریاں، باترتیب درخت ،، اور ماحول پر صفائ کا مکمل تائثر ۔ یہیں کچھ چڑھائ ہی چڑھی تھی کہ چند صاف ستھری دکانیں نظر آئیں ،، جن میں سے ایک آئس کریم کی دکان تھی ، جو موسیٰ ، حمزہ اور زرک کے لیۓ فوری دلچسپی کا باعث بنی ، نشل نے انھیں " کان آئسکریم " کے لیۓ دکان کے پاس کھڑا کیا ،، اور پھر ہم نے ترکی کے آئس کریم والوں کا مخصوص اور میوزیکل انداز دیکھا ، جو نہ صرف دیکھنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ لے آتا ہے ، بلکہ بچے تو جیسے نہال ہو جاتے ہیں ، ، یہ صرف آئس کریم بیچنے کا انداز ہی نہ تھا ساتھ ہلکی پھللکی جادو گری بھی دکھائ جا رہی ہوتی ہے یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے ،، بعد میں استنبول کے علاوہ دوسرے شہروں میں جانے کا تجربہ ہوا تو یہ ہی انداز ہر جگہ تھا ۔ دکانداری میں خوش مزاجی اور خوش مذاقی کتنی فائدہ مند ہوتی ہے ، ہمیں وہاں جا کر علم ہوا کہ بچے بار بار آئس کریم لینا کیوں پسند کر رہۓتھے ۔
، اب بڑوں کی دلچسپی کی چیز بھی نظر آگئی ،،، جی ہاں ، ایک خوبصورت ، صاف ستھری ، " ریڑھی " جہاں بہت سلیقے سے اُبلتی چھَلیاں ( بھُٹے ) بِک رہیں تھیں ، اس مستطیل ( ریکٹ اینگل) ریڑھی میں تین سٹیل کے " لگن " رکھے ہوۓ تھے ، درمیان کے لگن کے نیچے آگ لگی ہوئ تھی جس میں پانی تھا اور چھلیاں اُبل رہیں تھیں ،دائیں طرف کے لگن میں ابل چکی چھلیاں رکھی ہوئ تھیں ِ، جبکہ بائیں لگن میں کچی چھلیاں پڑیں تھیں ،، چھلی بیچنے والا ، ٹرکش نوجوان ، ویسے ہی خوش شکل تھا ، اوپر سے اس کا صاف ستھرا لباس ، اور انداز نے ہمیں بے فکری سے کھانے پر آمادہ کیا اور ترکی میں ہماری پہلی خریداری خوراک چھلی تھی ،، چھلی والے نے ایپرن باندھا ہوا تھا ، ہاتھوں پر گلوز ، سرَ پر سفید کیپ ، یا پی کیپ بھی پہنی ہوتی ، اتنا تفصلی حلیہ اس لیۓ بتایا کہ ، پاکستانی چھَلی فروش ، شاید صبح ہاتھ دھوتے ہیں ،، اور پھر شاید رات کو دھوتے ہوں ، انھوں نے ایک ایک ہفتہ پہلے کے کپڑے پہنے ہوتےہیں ، اور ہاتھوں میں گلوز کا رواج تو اچھی بیکریوں میں بھی کم ہی ہوتا ہے ۔ ( یہ اور بات کہ ہم گندگی کے امیون ہو چکے ہیں ، اس لیۓ کوئی مسئلہ  نہیں ہوتا ) ، ابلتی چھلی کو چمٹے سے پکڑ کر ایک سلیقے سے کٹے سخت کاغذ پر رکھا گیا ، چونکہ ہم نے اوپر مصالحہ نہیں لگوانا تھا ،، ایسے ہی کھانا شروع کی ، یہ بہت لذیذ میٹھی مکئی تھی ،،، اور جب تک ہم ترکی رہیں ، دن میں دو دفعہ بھی چھلی مل جاتی تو انکار کوئی نہ کرتا ۔ دین اسلام کا اہم پیغام " صفائ نصف ایمان ہے " کو اپنانے سے ،دیکھنے والے کو کتنا اچھا لگتا ہے ،، اس کا ہم برِ صغیر کے لوگوں کو بہت احساس ہے ۔ ،،، یہاں اچھی خاصی واک ہو گئ ،، دو جگہ پر دور بینیں نصب تھیں ، جو کوئنز ڈالنے سے آن ہوتیں ، اور ہر بندہ صرف ایک منٹ کے لیۓ سامنے بہتے باسفورس کے دوسرے کنارے کا نظارہ کر سکتا تھا ۔ نئے شادی شدہ ایک جوڑے کی مووی بھی بن رہی تھی ، دلہن سفید لباس میں سَر سے پاؤں تک بہت ساتر لباس میں تھی ،، اب یہاں دو گھنٹے گزر چکے تو واپس ہوٹل پہنچنا تھا ، تاکہ انگلینڈ کی پارٹی کو وصول کر لیں ،، جو پہنچنے والی تھیں ، کہ یہاں شام کے چار ، ساڑھے چار ہو چکے تھے ۔ شام پانچ تک ایمن ثمن اور مائرہ پہنچیں ،، سب نے پُر جوش استقبال کیا ،، سبھی کزنز کافی عرصے بعد اکٹھی ہوئ تھیں ،، اب اطمینان سے چاۓ پی گئ ، اور جو لوازمات لاۓ گۓ تھے ، ان کا لطف اُٹھایا گیا ۔ ہر فیملی کو ایک بیڈ روم ، ایک لاؤنج ایک کچنٹ اور ایک باتھ روم ملا تھا ، ،، اس طرح یا تو ہمارے کمرے میں ،، یا جوجی اور بچیوں والے کمرے میں مشترکہ ڈیرہ ڈالا جاتا ،، دو تین لڑکیاں ناشتہ تیار کرتیں اور یوں ہم روزانہ خوب ہلے گلے میں ناشتے کرتے ،، اور پھر رات کا کھا کر واپس کمرے میں آتے ، کیوں کہ ایک دن ہی میں ہمیں ان کے صبح کے ناشتوں سے اندازہ ہو گیا ، کہ سواۓ بے شمار سیریل کے ڈبل روٹی اور تلے ، ابلے انڈوں کے کوئ خاص چیز نہیں ،،، تو ڈبل روٹی ، اُبلے انڈے اپنی مرضی سے کیوں نہ کھاۓ جائیں ۔ کیوں کہ بچوں کا تیار ہونے میں وقت لگتا ، اور ان میں سے کچھ پہلے ، کچھ بعد میں تیار ہوتے ۔ اب کمرے میں ناشتے کا تجربہ ذیادہ بہتر رہا ۔
خیر اسی شام جب ایمن ثمن پہنچیں ، اسی وقت ہم دوبارہ ان کے ساتھ وین میں بیٹھیں ، اور کہیں نزدیکی شاپنگ مال گئیں ،، تاکہ کھانے پینے کی کچھ چیزیں خرید لیں ، اور مزید کچھ کرنسی کی تبدیلی کروا لی جاۓ ۔ اور یہ بتانا چاہوں گی کہ یہاں ڈالرز ، یا پاؤنڈ کی کرنسی لمٹیڈ ہی بدلائ جا سکتی تھی ،، دکاندار ایک خاص رقم کے بعد وہ صاف انکار کر رہے تھے ، کہ ہم نہ لیں گے نہ لیرے دیں گے ،، قانون کے مطابق چل رہے تھے ۔ اسی مال سے خواتین نے کچھ شاپنگ کی اور یہیں ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھا لیا گیا ۔ کچھ فون کی سِم کا بھی مسئلہ حل کیا گیا ۔ وغیرہ گویا ہم اپنے چند روزانہ قیام کے مین مئلوں سے نبٹ لیں۔
( منیرہ قریشی 9 اگست 2018ء واہ کینٹ ( ( جاری )

بدھ، 8 اگست، 2018

ترکیہء جدید' (2)۔

 سلسلہ ہاۓ سفر "
' ترکیہء جدید' (2)۔
ٹرکش ایئر لائن ، کا طیارہ ٹھیک وقت پر چلا اور ٹھیک ہی وقت پر استنبول ایئر پورٹ پر اترا ،،،اور اس دوران کم ازکم میَں اپنے ساتھ کے رشتوں ، سے بے نیاز ہو گئی ،جہاز کے اندر بیٹھے ، لوگوں پر ایک طائرانہ نظر ڈال کھڑکی سے یوں چِپکی رہی ، جیسے لمحے بھر کے لیۓ بھی اُٹھی تو کوئ اور میری جگہ نہ لے لے ۔ 
جب میَں ٹین ایج میں تھی ، تب سے سفرنامے پڑھنے ، اور کسی کے بیرونی سفر کی تفصیل جاننے کا بہت ہی شوق رہا ۔ خاص طور پر ، سفر نامے کسی ہفتہ وار میگزین میں ہوں ، یا کتاب کی صورت ،، میرے لیۓ اسے پڑھنا ، سبھی کاموں سے ذیادہ اہم ہوتا ۔ اندر کی خانہ بدوشی روح کو انسان نہ خود پہچان پاتا ،، اور نہ والدین جج کر سکتے ہیں ، ، میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والی زندگی کتنی نارمل روٹین کی گزارنی ہو گی کہ سب خواب دھندلا جائیں گے ،، وہ لا اُبالی عمر ، جس میں ہر لڑکی بہت کچھ فینٹیسی کی دنیا میں رہتی اور ان ، خواہشوں پر ایسا یقین رکھتی ہے ، کہ ان میں سے سارے نہیں ، تو آدھے خواب تو ضرور پورے ہوں گے ،، ایسے خوابوں میں میرے ساتھ ، ہماری پڑوسی سہیلی " شاہدہ" بھی شامل ہوتی ، جوجی بہت پریکٹیکل سوچ رکھتی ،، اور تسنیم ، جو ذرا ہم میں ذرا بڑی تھی ، گھر کی بھی بڑی بیٹی تھی ،، نہایت مدبر شخصیت بنی رہتی ، اور اکثر اماں جی کی صحبت میں بیٹھ کر کبھی کوئ سلیقہ شعاری سیکھ رہی ہوتی کبھی کچھ خریداری کا پلین کرتی رہتی ،، باقی عوام ( شاہدہ کی چھوٹی دو جڑواں بہنیں ، میرا بڑا بھانجا ، جو تعلیمی سلسلے میں ہمارے پاس ہی رہ رہا تھا ، اور اس وقت وہ جماعت سوم کا طالب علم تھا ، اور ان تینوں کو کسی کھاتے میں نہیں سمجھا جاتا تھا )،،، 1970 میں تسنیم کی شادی طے پائی ، اور ساتھ ہی وہ اپنے شوہر کے ساتھ لیبیا چلی گئ ، وہیں سے ، کسی سال اس نے مصر دیکھنا ، کسی سال عمرہ کیا، کسی سال کویت ، کی طرف چکر لگایا ،،گویا جو ہمارے ( میرے اور شاہدہ کے زیادہ )دل کے ارمان تھے ، وہ تسنیم پر پورے ہو رہے تھے ، ہمارا خیال تھا ، ہمارے والدین بہت " براڈ مائنڈڈ " ہیں ،، یہ ہمیں سیرکے لیۓ کہیں نا کہیں کسی ملک بھیج ہی دیں گے ،، حالانکہ یہ ایسی انہونی خواہشوں کا پالنا تھا ،، جسے ، کسی حالت میں شادی سے پہلے عملی جامہ پہنایا ہی نہیں جا سکتا تھا،کہ مڈل کلاس کتنی بھی خوشحال ہو ،، ہم کچھ نا کچھ " لوگ کیا کہیں گے " کے جملے کے اسیر ہوتے ہیں ۔
ہمیں والدین نے اپنے "کافی دقیانوسی، روایتی  " خاندان سے ہٹ کر پالا تھا ،،جس نے ہمارا دماغ ذیادہ نہیں تو تھوڑا خراب کر ہی دیاتھا ۔ اور پھر زندگی نے اپنے رنگ دکھاۓ ،، میری زندگی بالکل اسی روٹین میں گزری ، جس ، کا سوچنا ، سوچ کی سرحدوں پر بھی تھا ، لیکن سکول کی جاب ، کے دوران اُن نوجوان بچیوں کو اکثر ،کتابیں پڑھنے پر زور دیتی ، تاکہ یہ عادت ، انھیں خوابوں کی دنیا کی جھلک دکھاتی رہۓ ، اور وہ آنے والی زندگی کے، کینوس پر صرف بھورے ، مٹیالے ، یا کالے ، یا سلیٹی رنگ ہی نہ دیکھیں ،، بلکہ ، گلابی رنگوں کے ہر شیڈ سے آگاہ ہوتی رہیں ،، مسکرانا بھول نہ جائیں ،،، اور ، پھر جوجی اور شاہدہ بھی ، نئی زندگیوں کو انجواۓ کرنے لگیں ، ، خاص طور پر شاہدہ ، تعلیمی میدان میں ایک پُرعزم ، پُرجوش ، طالبِ علم بنی رہی ، اور اسی سلسلے میں اسے پہلا سفر انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کی تھیسسز کے لیۓ کرنا پڑا ،، اور یہ سفر کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ،، اور آج وہ آدھی دنیا دیکھ چکی ہے ، اور اس لحاظ سے وہ بہترین " ہمسفر " ثآبت ہوتی ہے کہ اس کی کمپنی میں باقی لوگ مطمئن بھی رہتے ہیں اور با حوصلہ بھی کہ " میرِ کارواں " باحوصلہ ہو ،، تو سبھی کھلکھلاتے رہتے ہیں ،،، اور اب یہ صلاحیتیں ، ایمن ، ثمن ، میں نظر آئی ہیں ،، بعد میں جوجی کے بچوں کی انگلینڈ میں مستقل رہائش نے اس کے پاؤں میں بھی سفر کا چکر دیا ہوا ہے ،، اور ہر سال کسی نا کسی نئی جگہ کو دیکھنے کا موقع اسے اپنی بیٹیوں کی وجہ سے ملتا چلا جا رہا ہے ،،، اور اب ترکی ،،،، یا ترکیہ ،، اس کی ایئر لائن کی سروس واجبی سی تھی ، ، لیکن پی آئ اے سے ذیادہ برُی شاید ہی کسی ایئر لائن کی سروس ہو ،، جس کا کبھی ایک معیار " تھا "ہم استنبول ایئر پورٹ پر صبح 10 بجے اترے ، بہت بڑا ، اور شاندار ، صاف ستھرا ایئر پورٹ تھا ،، میں سامان کے اُٹھانے ، یا اس کی فکر سے پہلے بھی لا پرواہ تھی ،، اب ایکسیڈنٹ میں ٹانگ کے مسلۓ نے مجھے معقول " بہانہ " دے دیا  ،،، اور سب سے اہم بات میرے ناز اُٹھانے والے موجود بھی تھے ۔ ،،، مجھے اس سفر نے اتنا پُر جوش کیا ہوا تھا کہ جہاز میں مسلسل بیٹھے رہنے سے ، ٹانگوں اور پاؤں کی سوجن ، کے باوجود ، ایئر پورٹ پر چلنے کا وقت آیا ، تو میَں خوب اچھے سے چلنے لگی ،، جوجی اور میری بیٹی نشل کا خیال تھا ، وہیل چیئر لے لیتے ہیں ، لیکن میَں راضی نہ ہوئ ، اور اچھا خاصا میل ، سوا میل کا راستہ ، ان کے ساتھ برابر چلی ۔ آخر میں بورڈنگ پاس دیکھانے کی جگہ آئ ، جہاں لائن اَپ ہو کر کھسکنے والی پوزیشن میں کھڑا ہونا پڑا تو ، کڑا امتحان لگا ،، لیکن لائن کے مطابق رکھنے کے لیۓ جو پائپ لگاۓ گۓ تھے ، انہی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو ہو کر آخر گھنٹے بعد باہر آۓ ،،، ہماری چھوٹی بھانجی نشمیہ اپنے دونوں بیٹوں حمزہ اور زرک ، کے ساتھ ہوٹل ہم سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی ،، ایمن ثمن اور مائرہ نے انگلینڈ سے شام کی فلائیٹ سے پہنچنا تھا ، لیکن ، انھوں نے اپنی طرف سے نہایت ، کنسرن ہو کر ایک وین کی بکنگ آن لائن کروا دی تھی،، جبکہ لبنیٰ کے داماد نے بھی ایک وین کی بکنگ ہمارے سارے قیام کے لیۓ کروا رکھی تھی ۔ اور یہ ہوا،، کہ بندے ہم چھے تھے ، جبکہ دو بہترین وین 15 سیٹرز والی نہ صرف آچکی تھیں ،، بلکہ آن لائن والی کی پے منٹ بھی ہو چکی تھی ۔ اب یہ فیصلہ کیا کہ میَں اور جوجی ، اسی وین میں بیٹھ جاتی ہیں اور ، نشل بچے اور لبنیٰ ، دوسری وین میں بیٹھیں ،، اور السلامُ علیکم کہہ کر ڈرائیور کے ساتھ ہم دونوں بیٹھ گئیں ،، ڈرائیور 45/40 کی عمر کا مسکراتی شکل والا آدمی تھا ،، میَں نے ، بیٹھتے ہی اسے بتایا ہم پاکستان سے آرہی ہیں ، اور ابھی آن لائن بکنگ والی شام کی فلائیٹ سے آئیں گیں ، اور انگلینڈ آنے والیوں کو پھر لینے جاؤ گے ،، جوابا" اس نے بہت ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کی ہاں مجھے علم ہے ۔ تب میَں نے سفر شروع ہوتے ہی ، "تم کتنا پڑھے ہوۓ ہو ، کتنے بچے ہیں ، کس کس کلاس میں ہیں ؟ اور یہاں کا تعلیمی سسٹم کیسا ہے ؟ کیا تمہارے بچے پرائیویٹ سکولوں میں ہیں یا سرکاری ،،،، !!!یہ سوال پوچھنے کی (میَں نے پہلے بھی لکھا ہے) ہم دونوں ایسے عارضی ہم سفروں سے کرنے کی عادی ہو چکی ہیں ، اور جوں ہی اگلا دکھی سٹوری سناتا ہے ہم ، دونوں بہنیں ، آنسو بہانے میں بھی دیر نہیں لگاتیں ،، اور اگر وہ اچھی خبریں دیتا ہے تو ، " اوہ ، شکر الحمدُللہ ، اوہ ، ما شا اللہ ، اللہ مزید ، کامیابی " ،، والے جملوں کی ادائیگی میں بھی دیر نہیں لگاتیں ،،، اور یہاں تو ایسے " مبارک " جملے بولنے کے بے شمار پوائنٹس بن رہۓ تھے ۔ ڈرائیور نے بتایا ،، اس کی چھے بیٹیاں ہیں ، جن میں سے بڑی تین کالج لیول پر جانے والی ہیں ، میرا بھائ سویڈن میں رہتا ہے اسکے بچے نہیں ہیں ، چناچہ یہ بڑی تینوں اس کے پاس جا کر رہ رہی ہیں چھوٹی تینوں یہیں ترکی میں ہیں ، ،، میَں خود میٹرک پاس ہوں ، بیوی ایم اے انگلش ہے اور یونیورسٹی میں لیکچرار ہے ،،، ۔😃😎
یہ سب خبریں اتنی مثبت ملیں کہ واؤ ،، واؤ کرتے منہ تھک گیا جوجی سخت تھکی ہوئی تھی ، وہ نیند کی چھپکی لینے لگی ،، اس لیۓ اسے میرے خوشی کے تاءثرات کا علم نہ ہوا ،، اس نے مزید بتایا تمام سرکاری سکولوں میں چھٹی جماعت تک تعلیم فری ہے ،، اور چھٹی تک صرف ٹرکش زبان میں تعلیم دی جاتی ہے ، ساتویں میں ایک مضمون غیر ملکی زبانوں کا شامل کیا جاتا ہے چاہے کوئ ، انگلش پڑھے یا جرمن ، یا فرانسیسی ، یا عربی ،، لیکن یہ بھی بہت مشکل کتاب نہیں ، دسویں تک یہ زبان محض آپشنل پڑھائ جاتی ہے ،، اور پھر کالج میں ، جس زبان کو مزید پڑھنا ہے یعنی " ایڈوانس " لیول پر تو تب اسے اسی مضمون کی کتب پڑھنی ہوتی ہیں لیکن باقی طریقہء تدریس ترکی زبان میں ہی ہوتا ہے ،، یونیورسٹی لیول پر مضامین کا انتخاب بھی زبان ان کی اپنی ہے البتہ اکسی غیر ملکی زبان کو پڑھنا ہے تو آپشن دی جاتی ہے ۔ کہ اسی مضمون کو پڑھ لیں ، اسی میں ماسٹر کر لیں ، اور میری بیوی نے ماسٹر اسی طرح کیا ہے " ،،،ذیادہ حیرت اس پر بھی تھی ، کہ ٹپیکل سوچ کے تحت اب بیوی ساتواں بچہ پیدا کرنے والی تھی ، کہ شاید بیٹا ہو جاۓ ، !!!! یہاں تک سٹوری پہنچی تو میری ، واؤ ،، کا تائثر ،،، کچھ بدل گیا ،،، اور موضوع بھی بدل گیا ،، اور ترکی کے جدید ترکی بننے پر تبادلہء خیال ہوا ،، کہنے لگا " ملک کو سب سے ذیادہ طیب اردگان نے ، آگے بڑھایا ہے ، ساری قوم اس کی بات کو مانتی ہے وغیرہ ایئر پورٹ جدید ترکی میں شامل ہے ،، اور یہاں سے ہمارے ہوٹل تک ایک گھنٹے سے ذیادہ وقت لگا ،، لیکن اس کے ہائی وے کے کنارے ، نہ صرف نہایت صاف بلکہ ، گھاس کی اور ہیجز کی ، اور پھولوں بھری کیاریوں کی ایسے کٹنگ اور صفائ تھی جیسے آج ہی کی گئ ہو ،، ایک بڑے پل سے گزرے جو قدیم اور جدید ترکی کو الگ کرتا ہے ، سٹرکوں کے کنارے اس گھنٹے ، بھر کی ڈرائیو میں کوئی سکول نظر نہیں آیا ،، پوچھا تو بقول ڈرائیور کے ،، بچوں کے سکول چھوٹی سڑکوں پر بناۓ گۓ ہیں ، یونیورسٹیز ، وہ بھی اِکا دُکا ، سڑکوں کے کنارے نظر آئیں ،، بہ نظرِ غائر ،ایک خوشحال قوم کا تائثر ملا ،،، اور " فسٹ امپریشن از دا لاسٹ امپریشن ، والی بات ہوئی ۔
اور آخر قدیم حصہء ترکی میں اپنے نو دن کے قیام کے ہوٹل پہنچیں ، جس کی داخلے والی سڑک بالکل ایسی موڑ والی تھی جیسے ہمارے " مری " کے پہاڑی علاقے کی ہو ،، یہ تو پہلے دن ہی علم ہوا کہ سارا استنبول نیم پہاڑی زمین پر بنا ہوا ہے ، اور ارد گرد کی چھوٹی پہاڑیاں اسے محفوظ اور حسین بنانے میں بھر پور کردار کرتی ہیں ۔ ،،، ہمارےہوٹل کا نام تھا  "بول"یا اس کا صحیح تلفظ میَں تصحیح کر کے پھر لکھوں گی ،،یہ 20 منزلہ 5 سٹار ہوٹل تھا،اور پہنچتے ہی ،، ہوٹل انتظامیہ نے ہمیں ، ہمارے کمرے 9ویں منزل تک سامان سمیت رہنمائی کر کے پہنچایا ،،میَں اپنے بیٹی اور نواسی نواسے کے ساتھ ،، جوجی کا کمرہ میرے ساتھ اور اس کی تینوں بیٹیاں ،، جبکہ نشمیہ اور لبنیٰ 13 ویں منزل میں دو کمروں کی بکنگ تھی ، پہلے سے موجود نشمیہ اور اس کے خوش مزاج بیٹے ، سب سے ملے ، اور نشمیہ نے اپنی جلد باز طبیعت کے تحت ہمیں فورا" تیار ہونے کا کہا ،، کہ کوئ لمحہ ضائع نہیں ہونا چاہیۓ ۔ چناچہ ، صرف ایک ایک چھوٹی پیالی چاۓ کی عادتا پی گئی ،اور حاضر موجود وین کے ڈرائیور کو کسی نزدیکی پارک لے جانے کا کہا ،،،،،۔
( منیرہ قریشی 8 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری 

پیر، 6 اگست، 2018

ترکیہء جدید " (1)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر" 
" ترکیہء جدید " (1)۔
پچھلے سال 2017ء میں انہی دنوں ، ہم ؛ 'ترکی ' کے شہر استنبول میں بہت خوشگوار وقتگزار رہۓ تھے ، ہمارا یہ قیام کُل نو دن کا تھا ،،، اور آج انہی دنوں کی یادوں نے مجھے گھیرا تو ، سوچا آج انہیں احاطہء تحریر میں لے آؤں ، ورنہ یہ یادیں اور یہ الفاظ مجھے تنگ کر ڈالیں گے ۔ 
۔2017ِ کی موسمِ گرما کی لمبی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں ،، بلکہ کچھ گزر چکی تھیں ،، میَں اپنے گھر ہی میں تھی ، جوجی اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے پاس انگلینڈ گئی ہوئی تھی ۔ میری بڑا بیٹا علی، بہو صائمہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ کینیڈا کی سیر پر تھے ،، میری بیٹی اپنے گھر اور چھو ٹابیٹا ہاشم بھی گھر پر تھے ،،،،، اور کسی نزدیکی تفریحی مقام پر جانے کا بھی پروگرام نہ بن پایا تھا ۔ میری نواسی حمنہٰ بہت کم فرمائش کرتی ہے ،، لیکن جب میں نے اسے کہا ، کہیں چلیں ؟؟؟ تو اس نے فوراًکہا " اماں ترکی چلتے ہیں " ! یہ فرمائش کچھ ایسی آسان نہ تھی کہ بس کہی اور پوری کر لی ، یا ، کروا، لی ۔
۔2014ء کے سفرِ انگلینڈ کے بعد اب تیسرا سال ختم ہو رہا تھا ،، میَں نے اپنی زندگی کے چند نہایت خوبصورت ، بے فکری کے دن انگلینڈ میں گزارے تھے۔ اور اس سفر کو اتنا شاندار بنانے والی اللہ کی ذات ہے جس نے مجھے آسانیاں ہی آسانیاں عطا کیں ،، اور ان آسانیوں کو دینے کے لیۓ تین ، خوش مزاج بھانجیاں ، ہمہ وقت ہاتھ باندھے والا حساب کیۓ ہوۓ تھیں ،،، اور اگر میری کوئ بات ،کوئ فرمائش ، کوئ تنقید انھیں بری بھی لگی ہو گی ،، تو انھوں نے لمحہ بھر کے لیۓ بھی اظہار نہیں کیا ۔ 2015ء اپریل کی 24 تاریخ تھی ، اور اللہ ہی کی ذات ہے جو آزمائش میں ڈالتی اور وہی اس سے نکالتی ہے ۔ میرا خاصا سیریس ایکسیڈینٹ ہوا ، کہ ڈرائیور کی اسی وقت  وفات ہو گئی ،، اور میرا باقی جسم تو بالکل ٹھیک رہا ، لیکن دائیں ٹانگ کی تھائی کی ہڈی کے دو ٹکڑے ہوۓ اور ہپ بون کے کئی ٹکڑے ہو گۓ ،، اللہ سبحان تعالیٰ کا کن الفاظ سے شکر ادا کروں ، کہ فوری طور پر میرے بیٹوں اور بھائی بھابی نے اس ہاسُپٹل تک پہنچایا ، جہاں کے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر خالد اسلم ، اپنے شعبے کے " دی بیسٹ " مشہور تھے ،، ان کا غصہ بھی مشہور ہے ۔ لیکن ایک بہت کنسرن ، ہمدرد ، اور بہترین ڈاکٹر ، کی ایسی خوبیوں کے باعث ،، میَں صحت مندی کی طرف ، تیزی سے آئی ۔ اور اس دوران میرے تینوں بچوں کی توجہ اور خدمت نے ،، سب کو حیران کر دیا الحمدُ للہ ۔ اور اب یہ وقت آیا کہ میَں ، واکر یا سٹک کے بغیر ، نارمل چلنے لگ گئی تھی ،، اور مزید ایک سال 2016ءنے ریسٹ دیا ،، اور اب 2017ء تھا ،، اور دل چاہ رہا تھا کہ گھر کی روٹین سے نکلوں ۔اب نواسی حمنہٰ کے منہ سے نکلے الفاظ نے " ترکی " جیسے خوبصورت ملک کے " خوبصورت خواب " یکدم بیدار کر دیۓ ۔ میَں نے ہاشم سے بات کی اس نے فوراً  ویزہ لگوا دیا ،، اور ، ہمارا ٹریولر ایجنٹ بابر نے ٹکٹ کنفرم کیا کہ کس دن کا کرواؤں ، میَں نے کہا بس اگست شروع ہونے والا ہے ، 2، یا3 اگست کی کروا دو ، ویزہ ایک ماہ کا تھا ،،، جوجی کا فون خیریت پوچھنے کے لیۓ آیا ، تو بتایا "میَں ، نشل ، اور اس کے دونوں بچے ، ترکی کا سفر کرنے جا رہۓ ہیں " ،،، یہ سنتے ہی جوجی نے ناراض سا ہو کر کہا " یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم میرے بغیر جاؤ ،، میَں نے تو پہلے ہی سوچا ہوا تھا ،،، اس لیۓ ہر صورت ٹکٹ آگے کرو " ،،، مجھے تھوڑا ہچکچاہٹ ہوئی کہ نشل کے بچوں کی چھٹیاں ختم ہو جائیں گی ، ، لیکن نشل نے کہا " کوی بات نہیں اماں ،، خالہ اور ایمن ثمن ، مائرہ ، کے آنے سے مزہ رہے گا ۔ ظاہر ہے ماہرہ اور نشل نہ صرف خالہ ذاد ، بلکہ بچپن کی جگری دوست بھی تھیں ، لیکن نشل کی جلد شادی نے ، اور مائرہ کے انگلینڈ منتقلی نے ان کے رابطے کو کمزور کر دیا تھا ، اکٹھے کا یہ سفر ان کی بچپن کی یادوں کو ، محبتوں کو ترو تازہ کر سکتا تھا ،، اس لیۓ کچھ دن آگے کیۓ گۓ ، جوجی اگست کے پہلے ہفتے ، پہنچی ، اگلے ہی دن ٹرکش ویزے کے لیۓ اپلاۓ کیا ۔ اب دو ہفتے صبر سے گزارنے تھے ، کہ میری دونوں بھانجیوں کے فون آگۓ ،، بڑی بھانجی لبنیٰ اپنی فیملی کے ساتھ ساؤتھ افریقہ کی سیر پر تھی اور چھوٹی اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ امریکا کی سیر کر رہی تھی ،،، لیکن مجھے صاف کہہ دیا گیا ،کہ آپ کو ہمیں بھی ساتھ رکھنا ہو گا ، بس ہم واپس آرہی ہیں ، گویا ،، یہ تینوں پارٹیاں ، غیر ملکی دوروں پر تھیں ،، اور جنھیں آؤٹنگ کی ضرورت تھی ،، انھیں ٹھہرا دیا گیا تھا ،، اب اُن کا انتظار ہوا ، اور چونکہ لبنیٰ کا ویزہ لاہور سے لگنا تھا ( جہاں اس کا گھر ہے ) ، وہاں ساؤتھ افریقہ سے واپس پہنچی اور ویزہ لگتے ہی ، واہ پہنچ گئ ، چھوٹی بھانجی نشمیہ ، سیدھی قطر اپنے گھر پہنچی اور ترکی کی تیاری پکڑی ، اسے ویزے کی ضرورت نہیں تھی کہ امریکن پانچ سالہ ویزہ لگا ہو تو ترکی کا ویزہ ، انہی کےایئر پورٹ پر لگ جاتا ہے ،،، سُپر پاورز کے رنگ نیارے ،،، کہ اگر امریکا ، یا انگلینڈ ، کا ویزہ ہے اور ، تازہ سفر بھی ہو چکا ہے ،، تو تیسری دنیا ، ، ، کے ایئر پورٹ ، انکو " ویلکم ،، ویلکم '' اے آمدنت باعثِ آبادیء ما ،،،، والا رویہ رکھتے ہیں ۔ اور اپنے جیسے ممالک کے لیۓ " غریب رشتہ دار " والا رویہ ہوتا ہے ،، حالنکہ اصل زرِ مبادلہ امراء سے ہی ملتا ہے ۔ 
خیر قصہ مختصر تو نہیں ہوا ،،لمبا ہو گیا ،، لیکن اگست کا اخیر آگیا اور ہم علی الصبح روانہ ہوئیں ،، نشل ،اور بچوں کو کامران ایئر پورٹ لے کر پہنچا ، ادھر واہ سے ، میَں ، جوجی اور لبنیٰ ، ہاشم کے ساتھ پہنچیں ۔ اور ٹھیک صبح چھے بجے ٹرکش ایئر لائن کا طیارہ اُڑان بھر چکا تھا ،،، میَں نے حسبِ عادت ، کھڑکی پر قبضہ کیا ،، اور اپنے تین سال پہلے کے انگلینڈ کے سفر کی یادوں ،، اور کھڑکی سے اُس ملک کے راستوں کو یاد کیا کہ ، دو نظمیں اسی راستے کو دیکھتے ہوۓ اپنے پرس میں موجود ایک پتلی سے چند صفحوں کی ڈائری پر لکھیں تھیں ،، انہی میں سے دو ،، نظمیں لکھ رہی ہوں ،،، اور اب ،،، ترکی جانے والا " رُوٹ " بالکل فرق تھا ، اور نظارے ، اور سوچ کے پہلو بھی فرق تھے ، پہلے انگلینڈ کے " ہوائی سفر " کے جذبات پڑھیں ۔ پھر ترکی جانے والے راستے کے نظاروں کے تحت الگ ہی سوچ دَر آئی ،۔ 
( یو کے ، کے ہوائ سفر کے دورا ن پہلی نظم )
" تجسس "
راستے کی بستیوں کے لوگ 
ہوائ جہاز دیکھ کر سوچتے ہوں گے 
اِن اُڑن کھٹولوں میں محوِ سفر لوگ ، جانےکیسے ہوں گے !
اور ،،،،،،،،،،،
جہازوں سے جھانکتے نفوس سوچتے ہوں گے 
اِن بستیوں میں بستے لوگ، جانے کیسے ہوں گے !!
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
" کچھ کہتی آنکھیں " ( دوسری نظم )۔
جہاز کی چھوٹی سی کھڑکی سے جھانکتی ،
بے وجہ سوچتی آنکھیں ،،،،
کچھ سہانے سپنے چھُپاۓ آنکھیں 
کچھ جدائ کی نمی پونچھتی آنکھیں
کچھ سِکوں کی عینک پہنے ، بےحس آنکھیں 
شوقِ تجسس سمیٹۓ، کچھ پُر اُمید آنکھیں
اور کھونٹے سے بندھے بیل کی مانند، لا تعلق آنکھیں 
سبھی مگر ،،،، تقدیر کے جال میں پھنسیں آنکھیں !!!! ( 2014ء) ۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
( ترکی کے ہوائی سفر کے دوران کے نظاروں کو دیکھ کر )
" خالق کے رنگ " 
ضدی بادل جمے جمے سے
ہوائیں ، آئیں گی تَو ہلیں گے ،
سلسلہء کوہ وجبل ، متانت لیۓ 
حکمِ ربانی ہوا ، تو ریزہ ریزہ بھی ہوں گے 
اور ، ریگِ صحرا عاجزی و سادگی سے بچھا ہوا
کہ اس کا انبیاء سے جو رہا ہے سلسلہ 
سمندر کی ہیبت کا کیا مقابلہ 
دہشت ، عظمت ، جبروت بلامقابلہ 
بس ،،،،،!
خالق کے رنگ نیارے 
مالک کے رنگ نیارے ( اگست 2017ء ) 
( منیرہ قریشی 6 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

پیر، 30 جولائی، 2018

سفرانگلستان(26)۔

 سفرِ ولایت ، یو کے " (26آخری قسط)۔
لندن میں ٹھہرنے کا ارادہ آٹھ ، نو دن کا ہی تھا اور جن اہم جگہوں کی سیر ممکن تھی ، وہ ہو چکی ،میری دلچسپی تو جیسے ختم ہو گئی،،، مجھے مانچسٹر کے اس خاموش ، ہرے بھرے ، گاؤں کی یاد ایسے ستانے لگی جیسے میَں مدتوں سے وہاں رہ رہی ہوں ۔ اور مجھے " اپنے گھر " جلدی واپس جانا ہو گا ،،، اور یہ احساس صرف اس لیۓ تھا کہ انسان " ارکانِ فطرت " کا حصہ ہوتا ،،، تھا ،،اور ،ہے ! جب وہ ان ارکان فطرت سے دوری پر رہتا ہے ، تو اس کے اندر بےسکونی اور بےچینی کا لیول آہستہ آہستہ اونچا ہونے لگتاہے ، لیکن انسان اپنے اندر کی اس سیلابی کیفیت سے بےخبر رہتا ہے ،، یہ ہی بےخبری اس کے مزاج کو غیرمحسوس طور سے چڑ چڑا بناتی چلی جاتی ہے ،،، اگر ایسے میں ، جنگل ، وادی ، خاموشی ، اور پرندوں کی آوازوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملے تو،،،، انسان کے اندر کے بے سکونی کے چڑھتے دریا کا لیول نیچے ہونے لگتا ہے ۔ اور چڑچڑا پن ، اُڑن چھُو ہو جاتا ہے ،،،( یہ ایسا آزمودہ نسخہ ہے ، کہ تجربہ کر کے دیکھۓ ، سچا ثابت نہ ہوتو پیسے واپس) 😍😃۔۔لندن سے میری دلچسپی جلد ختم ہو گئی ،، لیکن ایک دن مزید رکنا پڑا کہ ٹرین کا ٹکٹ اگلے دن کا تھا ،، اس ایک دن کو پھر " مَڈ شوٹ پارک " اور قریب ہی ایک واکنگ ٹریک کے لیۓ مختص کیا ، میَں نےاور جوجی نے آدھا دن انہی دونوں جگہ گزارا ۔ یہ واکنگ ٹریک ، ایمن ثمن کے گھر سے پانچ منٹ کی پیدل دوری پر تھا اور یہ دریاۓ ٹیمز کے کنارے پر تھا ،، یہاں خوش مزاج ، بوڑھے اور جوان خواتین و حضرات ، ہلکی سی مسکراہٹ دے کراپنا پیدل چلنے کا سٹیمنا بنا رہے تھے ،، اور حسبِ معمول میَں اپنے ملک کی سہولیات ، اور لوگوں کے متفکر، چہروں کا موازنہ اِن سے کرتی جا رہی تھی ،،، ہم تیسری دنیا کے لوگ واک کرتے وقت بھی ، کسی گھریلو مسئلے، یا ، نوکری کے مسائل کو کسی کونے میں پھینک کر نہیں آتے ، بلکہ انھیں بھی " واک " کروانے ساتھ لے آتے ہیں ، یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے چہرے " متفکرخدو خال " کے ٹھپے سمیت ہوتے ہیں ،،، لیکن یہاں کے متفکر یا بےحسی لیۓ چہرے ، صرف اپنی غرض کی دنیا میں گُم نظر آۓٹھنڈک ہو گی ، اور لوگ گھروں میں بند ہو جائیں گے،یہ دن ہم مشکل سے گزارتے ہیں "!! شاید یہ لوگ قریبی رشتوں سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ ان " اداس  ،، ہمیں مانچسٹر کے ایک بازار میں پچھتر ، چھہتر سالہ ایک خوش مزاج برٹش خاتون نے ہمیں مسکرا کر ہیلو کہا ، تو حیرت ہوئی کہ یہ تو خود سے وقت دے رہی ہے ،، میَں نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر کہا " آپ کا یہ گاؤں بہت خوبصورت ہے ، یہاں بہت سکون ہے ،، اس نے اداس لہجے میں کہا " لیکن تنہائی کے چھے مہینے آنے والے ہیں ، اور ہر طرف دھند اور دنوں " کو پہلے ہی سوچ سوچ کر اداس ہو رہے ہوتے ہیں۔ 
شاید اسی امپریشن کے تحت ایک نظم لکھی تھی اگریہیں پڑھ لیں تو بہتر ہو گا ۔۔۔
" یہ گوری قومیں "
جانی انجانی اجنبی دنیائیں 
یہاں عجب نسل بَس رہی ہے
اِن کے ہاتھوں کی ٹھنڈک
اور لبوں کا سکوت ،،،
ایسا، کہ کچھ بھی نہ کہا اور سب کہہ بھی گۓ 
آسیب ذدہ گھروں کے مکیں
چہرے پہ چہرہ سجاۓ 
بے نیازی کی بُکل اوڑھے
قریب سے گزرتی یہ مشینیں
جیسے وقت کے کوڑے کے غلام !!!۔
بہرحال ہم یہاں واکنگ ٹریک اور پارکوں میں جب بھی بیٹھتیں، سامنے گزرتے چہروں کے " صفحے " پڑھتیں ، اندازے لگاتیں ،اور اپنے تئیں بہت عقلمند سمجھتیں ۔ انکے لیۓ دیۓ رویوں پر حیرت ہوتی کہ اپنے والدین کی غلطیوں کو نئی نسل بہ خوشی قبول کر کے " پرائیویسی "کے چکر میں تنہائی خرید رہی ہے ،، لیکن ساتھ رہنے کی " سمجھوتہ گاڑی " نہیں چلانی ۔ جو آسان حل ہو سکتا ہے۔
اگلا دن لندن سے رخصتی کا تھا ،، عام ریلوے سٹیشن پہنچے ، جو ہمارے ملک کےمیں ابھی تک نہیں بنا ، بہت صاف ، اور ٹرین بھی بہت صاف ستھری ، ۔ ہمارا یہ سفر دو گھنٹے اور چند منٹ کا تھا ،، سارا وقت ،اے سی چلتا رہا ، کھڑکی سے باہر کے دو گھنٹے مسلسل کھیتوں ، فیکٹریوں کے شیڈ گزرتے رہے ، غربت کا تصور یہاں کچھ اور ہے ،،، اور ہمارے ہاں کچھ اور ،،، حال یہ ہے کہ ہم جب ٹرین میں سفر کرتے ہیں ، تو کسی شہر کے قریب آنے ، یا شہر کے نکلنے کے منظر شدید گندگی اور بد رنگی سے بھرے ہوۓ ہوتے ہیں ۔ بس درمیان کا کھیتوں کا نظارہ کچھ طراوت بخشتا ہے ۔ ،،، اور اگر کوئی گاؤں ٹرین کی کھڑکی سے نظر آجاتا ہے ، تو سادہ گھروں کے ساتھ، ان کی مفلوک الحالی ، صاف نظرآجاتی ہے ، ایک تو ہمارے سخت گرم موسم ، کہ جس میں بارش بھی نہ ہو، سارا ماحول مٹیالہ نظر آتا ہے ،، اور یہاں میرا یہ حال کہ اس دو گھنٹے میَں کھڑکی سے چپکی بیٹھی رہی اور لمحے بھر کے لیۓ نہ اُکتائی ،، اور یہ بھی کہ ٹرین ایسی سموتھ چلی کہ ، مانچسٹر سٹیشن آیا تو، دل چاہا ، کہ ایک گھنٹہ اوریہ سفر رہتا۔ 
سٹیشن پر مائرہ مسکراتی شکل سے نظرآئی۔ اور کچھ سیڑھیاں اتر ، کچھ چڑھ کر ہم کار تک پہنچیں۔ کیوں کہ اب ہم نیم پہاڑی علاقے میں پہنچی تھیں ۔ اس لیۓ یہاں کچھ ایسی حالت نظر آجاتی ہے۔ اسی دوران مائرہ ہمیں ایک مال میں لے گئی کہ اب آپ صرف شاپنگ کریں ،، جواب تک کافی کم کی گئی تھی ۔ 
سویٹروں کی شاپنگ کے بعد اسی مال کے ایک خوبصورت "لبنانی ریسٹورنٹ ، پو پو " سے ہلکا پھلکا کھانا کھایا ۔ اور اسکے برآمدے میں آکر قہوہ سے لطف اندوز ہونے لگیں ، یہ ریسٹورنٹ دوسری منزل پر تھا ۔ ہم نیچے کے ہال کو دیکھ رہیں تھیں ، اتنے میں آرکسٹرا کی بھرپور آواز نےہمیں متوجہ کیا ،، ایک لڑکے نے اناؤنسمنٹ کی اور مائیک پرچند "جوڑوں" کا نام پکارا ۔۔ اور فلور پر چند بزرگ جوڑے ، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ، آرکسٹرا کے ردھم پر ڈانس کرنے لگے ،، ،۔تب مائرہ نے معلومات لے کربتایا ،، یہ یہاں اس شاپنگ مال کی طرف سے منگل اور بُدھ کو بزرگ جوڑوں کے لیۓ شام6 بجے سے آٹھ بجے تک " مفت تفریح" مہیا کی جاتی ہے ۔ ڈانس سے پہلے اور بعد میں انھیں قہوہ یا چاۓ بھی مفت پیش کی جاتی ہے ۔ اور بزرگوں کے احساسات اور ان کی مصروفیات کا خیال کن معاشروں میں کیا جاتا ہے ،، صرف اسلامی معاشرے میں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ جی ہاں ، ان احساسات کا خیال رکھنا تو اسی دین نے سکھایا لیکن اسے اپنایا ، ان قوموں نے جن پر یہ احکامات نہیں اترے ،،، لیکن آج ان کی ویلفیر سٹیٹ کے بہت سے بنیادی احکامات اِسی دین سے حاصل کیۓ گۓ ہیں ، بزرگ طبقہ سواۓ تنہائی کے کسی ایسے ویسےخدشات کا شکار نہیں ۔ ہم تو اپنے بچوں کے لیۓ پہلے جوانی کی محنت سے کماۓ پیسے کو دانتوں سے پکڑ پکڑکرجمع کرتے اور ایک گھر بناتے ہیں ، پھر اس گھر میں بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں ، اگر بیمار ہوۓ تو ہر حال میں اپنے علاج خود کریں ۔ اور کبھی کبھی ایسی بیماری ، جو لمبی ہو جاۓ تو وہی گھر بکنے پر آجاتا ہے ۔ گویا پینشن والا بزرگ بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے ، کہ وہ چند پیسوں سے ابھی بھی گھرکو مدد دے رہا ہوتا ہے،،، بس یہ توقع کی جاتی ہے کہ بزرگ حضرت ، یا خاتون ،، اپنے تمام اخراجات بھی کم کر لیں ، ہو سکے تو دوائیاں بھی نہ خریدیں ، اور کسی صحت مند غذا کی فرمائشیں نہ کریں ،، اور کہیں جانے کا تو نہ ہی بولیں ،،، بات تو لمبی ہو جاۓ گی ،، لیکن یہ طے ہے کہ بڑھاپے میں سواۓ اللہ اللہ کرنے کے کسی تفریح کا سوچنا بھی گناہ ہو جاتا ہے ،، اور یہ باتیں اگرچہ اب بہت حد تک کم ہو گئی ہیں ، لیکن 50 فیصد آج بھی ایسے خیالات لیۓ زندگی گزار رہے ہیں ،، ۔
مزید تین دن " بےکپ " رہنے کے بعد آج 2 نومبر کی شام ہے ایمن ثمن بھی کل پہنچ چکی ہیں ، بچیوں نے ہمارا سامان نہایت محنت سے پیک کیا ،، اور سات بجے شام ہم ایئر پورٹ پہنچیں ،، لائن میں لگے آدھ گھنٹہ گزرا ،، تو جلدی کرو کا شور بلند ہوا ۔ اور جب ہمارا سامان کا وزن کیا گیا وہ کچھ زیادہ تھا ، ایمن ثمن نے فورا بیلنس کیا ، اور کچھ سامان واپس گاڑی میں لے گئیں ۔ اب خداحافظ کہا گیا ، لائن میں ہم قدرِِ پیچھے چلتی رہیں ، اور جہاں چیکنگ کا وقت آیا ، مائرہ کی طرف سے میری درد کی ٹیوبز آخری وقت پر ملیں جسے میں نے اپنے پرس میں رکھ لیا ، ان کی چیکنگ ہوئی مجھے کلیئر کر دیا ،، لیکن جوجی کے ہاتھ میں پکڑے قرآن اور اس کے لیپ ٹاپ نے اسے لمبی چیکنگ سے گزرنا پڑا ، اور اس دوران اس کا ہینڈ کیری ، اپنا بڑا پرس ، اور ہاتھ میں پکڑے بورڈنگ کارڈ وغیرہ نے مجھے تھکا دیا ،، اور سب سے تکلیف دہ بات وہاں کھڑے پی آئی اے کے پاکستانی اہلکار کہتے رہے ،، " جلدی کریں ، ورنہ ہم جہاز چلوا رہۓ ہیں ، ، ، ایک تو ان جاہل پاکستانیوں نے بےتحاشا شاپنگ ضرور کرنا ہوتی ہے ،،، ایک تو اِن لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کی کیا لے کر جانا ہے ، کیا نہیں ،،"" ،،، سوچیۓ ان غیر اخلاقی ، بےحوصلہ کرنے والے جملوں نے میری کیا حالت کردی کہ، اپنی تمام تر بولڈ نیس کے باوجود میں ٹینشن میں آگئی۔ لیکن بس اتنا کہا " بے شک جہاز چلوا دو ، ، وہ منہ ہی منہ میں بُڑبڑانے لگا ،، اتنے میں جوجی فارغ ہو کر آگئ،، اب ہم نے تمام ہمت جمع کر کے دوڑنا شروع کیا ،، وہ آدمی ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ، اور کچھ نا کچھ کہتا جا رہا تھا ، اور اس دوران ایکسیلیٹر سے مجھے سامان سنبھالنا عذاب لگا ، کہ اچانک میرے ہاتھ سے ہینڈ کیری ایک جوان انگریز ( یا کوئ نیشنل) نے پکڑا اور مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ، میں لیپ ٹاپ اور اپنے بیگ کے ساتھ پوری ہمت سے بھاگتی ہوئ ، جہاز کے دروازے میں داخل ہوئی ،لیکن میرے دل کی دھڑکن اپنے کانوں میں سنائی دے رہی تھی ، جو ایئر ہوسٹس دروازے پر کھڑی تھی ، میں سامان اس کے آگے پھینکا ، اور اسی نے اشارے سے بتایا سب سے پیچھے چلی جائیں ، میَں آخری سیٹ تک کتنی مشکل سے پہنچی ، اور اسکے بعد مجھے جو کھانسی شروع ہوئی ،، تو میری حا لت دیکھ کرایئر ہوسٹس گلاس پانی کا لے آئی ، چند گھونٹ پیۓ ، جہاز چلا ، بتیاں روشن ہوئیں ،، لیکن کھانسی دو گھنٹے تک رُکی ،، اس کے بعد صبح 9 بجے پنڈی ایئر پورٹ تک کا دورانیہ جو گزرا ، میں ایک جملہ نہ بول سکی کہ ہمت بالکل ختم تھی ،،،نقاہت سے ہلنا مشکل تھا ،،تو گویا ، اتنے زبردست خوشیِ پُرلطف اور بہت بےفکری کے سفر کے آخر میں ، جس اذیت ، اور ناگوار صورتِ حال سے گزرنا پڑا ،، وہ ساری رات اور اپنے پاکستانی عملے کا تعاون سے عاری رویہ ، مجھے یاد آتا ہے تو دل اداس ہو جاتا ہے ، وہ دیکھ رہاتھا کہ میَں مشکل سے چل پا رہی تھی بجاۓ مدد کرنے کے طنزیہ باتیں کرتا جا رہا تھا ، اورغیر ملکی نا معلوم مسافر کا شکریہ جس نے بغیر میرے کہے میرا بیگ لے کر پہنچایا ،، گھر آکر اپنے بچوں کو سنایا ، تو وہ بہت خفا ہوۓ کہ آپ نے اسی وقت اس کی شکایت کرنا تھی ،،، وہ کسی صورت جہاز چلانے کے مجاز نہیں تھے ،، اور جب مائرہ کو پتہ چلا ، تو اس نے ہمیں صرف اس کا حلیہ بتانے پر اصرار کیا کہ اس دن اتنے سے اتنے بجے جن کی ڈیوٹی تھے ، میں یہاں سے پتہ کروالیتی ہوں ،، میں نبٹ لوں گی وغیرہ ،وغیرہ ،،، لیکن جب تک ہمارے لوگ سیاسی بھرتیوں سے نااہل اور نان پروفیشنل لوگ ان عہدوں پر آئیں گے، ہمیں ایسے ہی " حراساں " کیا جاتا رہۓ گا ،، جس چیز کی ہمیں سب سے ذیادہ ضرورت ہے وہ " خوش اخلاقی ، اور بھرپور تعاون کی شخصیت بننا ہے ،، ۔
میَں آج اس سفرِِ ولایت کا اختتام کرتی ہوں ، یہ اور پہلے لکھے گۓ سفرنامے ،، میَں نے اپنے شوق ، اور یاداشتوں کو اکٹھا کر لینے کےلیے ، اور خود کی سیٹس فیکشن کے لیۓ لکھے ہیں ، درخواست ہے ، ان سفرناموں سے کسی "معیار" کو نہ ڈھونڈا جاۓ ، نہ ادبی نہ تکنیکی ، نہ کسی قسم کے نثر پارے کے طور پر ،،، یہ اپنی پیاری یادوں کو اپنے پیارے احباب سے شیئر کرنا تھا ،اور بس،،چوں کہ ہر تحریر جب لکھی جاتی ہے اور کسی کے سامنے آ ہی جاتی ہے تو وہ اپنے " قاری " کی منتظر بھی ہو جاتی ہے ،،، ۔
دعاؤں کے ساتھ ! ۔
( منیرہ قریشی 30 جولائی 2018ء واہ کینٹ ) 

" یہ گوری قومیں "

" یہ گوری قومیں "
جانی انجانی اجنبی دنیائیں
یہاں عجب نسل بَس رہی ہے
اِن کے ہاتھوں کی ٹھنڈک
اور لبوں کا سکوت ،،،
ایسا، کہ کچھ بھی نہ کہا اور سب کہہ بھی گۓ
آسیب ذدہ گھروں کے مکیں
چہرے پہ چہرہ سجاۓ
بے نیازی کی بُکل اوڑھے
قریب سے گزرتی یہ مشینیں
جیسے وقت کے کوڑے کے غلام !!!۔

اتوار، 22 جولائی، 2018

سفرِانگلستان (25)۔

"سلسلہ ہاۓ سفر "
' سفرِِ ولایت ، یو کے ' ( 25)۔
اور دل میں میوزیم ، کے باقی حصوں کو دیکھنے کی حسرت لیۓ واپسی اختیار کی ۔ اگلے دن ایمن ثمن نے پھر ہمارے لیۓ ، وہی لندن کے ان گوشوں کو دکھانے کا فیصلہ کیا ،، جو اُن کے مطابق ہر سیاح کو دیکھنا ضروری ہے ، ورنہ لندن ہی نہ دیکھا ،،، جی ہاں وہی " لندن آئی ،، 10 ڈاؤننگ سٹریٹ ،اور کچھ مشہورشاپنگ سینٹر ہیریلڈ اور نواز شریف کے فلیٹس والی سٹریٹس ،، اور کچھ اہم اور پیارے لوگوں سے ملنا بھی ضروری تھا ،، اس لیۓ اب دو دن تھے اور ہمیں مصروف ہی رہنا تھا ،،، اگلے دن ، کی سیر خاصی لمبی پیدل کی جانے والی سیر تھی ،، کیوں کہ جگہیں ایسی تھیں کہ بار بار بس کا سفر کرنا پڑنا تھا ، ، بہر حال اسی میں ایڈونچر تھا ( ہمارے لحاظ سے ) ۔ اور اگلے دن کی سیر کے لیۓ ایک مرتبہ پھر " ٹیوب سٹیشن " پہنچیں ، اور کانوں نے ایک دفعہ پھر اس انگریز بھکاری کی پُرسوز آواز سنی ۔ وہ واقعی ایک خوبصورت آوازتھی ، اور اسے قسمت کہتے ہیں کہ اب تک کسی موسیقار کی توجہ اس کی طرف نہیں گئی تھی کہ ،، ریشماں جیسی قسمت بھی کوئی کوئی لے کر آتا ہے ۔ ایمن ثمن ہمیں سیدھے " ملکہ " کے سلام کے لیۓ لے گئیں ،، یہ ایک خوب وسیع ، پرانے طرزِ تعمیر کی عمارت جس کے باہر خوب چوڑی ڈرائیو وے اور پھر اونچا گیٹ تھا ، اور دیوار !! جس کے باہر " ہم عوام " اسی شہزادے ، شہزادیوں ، کی محبت کی میٹھی 
نشہ آورگولیاں چوستے ہوۓ ،، عمارت کو شوق سے دیکھ رہے تھے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں انسانوں کے ہمیشہ سےتین طبقے نمایاں رہے ہیں ،ایک طبقہء امراء ،، جن کا رہن سہن ایسا شاہانہ ہوتا ، جو عام عوام سوچ بھی نہیں سکتے ، اور کوئی انکے اس شاہانہ طرز کو نہ چیلنج کر سکتا تھا ،، نہ آج تک کیا جاتا ہے !! ( کہ اس بات کوغداری سمجھا جاتا ہے )۔
کہ اپنا ذریعہء آمدن بتاؤبھئ !؟؟ اور یہ ہی مختصر طبقہ حکمران ہوتا ہے ، ملک کے جاندار اور بےجان اشیاء کے مالک و مختار بھی ہوتے ہیں وغیرہ دوسرا طبقہ ، اسی طبقہء امرا و حکما کو مدد دیتا کہ ،، ذہنی قابلیت رکھنے والے یا تھنک ٹینک ، اسی " دوسرے طبقے" سے فراہم ہوتے تھے اور آج بھی ہیں۔ ،،، اور تیسرا طبقہ حکمران کے تالی بجانے پر" کیا حکم ہے میرے آقا !! " والا ہوتا ہے ،،،اور دیکھا جاۓ تو شاہی خاندان تو اب چند ملکوں میں رہ گۓ ہیں ،، تاریخ نے بار ہا، ان بےچارے شاہی خاندانوں کو تخت سے تختے یا فٹ پاتھوں تک پہنچایا ،،، لیکن عبرت کسی نے حاصل نہ کی " شاید ، یہ ہی اگاڑ پچھاڑ لوح محفوظ " میں لکھ دی گئ ہے ، ، ، اور اب جہاں جمہوریت کی کونین والی گولی معہ میٹھی کوٹنگ کے کھلائی جاتی ہے ،، وہاں بھی ایسے ہی تین طبقے ہیں ، وہی " طریقہء حکمرانی ، وہی طریقہء واردات ،، وہی تاریخ کے صفحوں پر کالے ٹھپے ،، " یعنی مدت پوری ، اب نا اہل " ،، وہی تھنک ٹینک کی بادشاہ گری اور وہی ہم عام عوام '' کیا حکم ہے میرے آقا "" ! اور آج ہم بھی عام عوام بنے نہایت آرام سکون سے گیٹ سے ،باہر مختلف تصاویر اتروا رہے تھے ،، کہ شاید اس دوران "ملکہ " کی آمد کا غلغلہ اُٹھے ،، اور رعایا احمقوں اور خوش آمدیوں کی طرح تالیاں بجاۓ ،،، اور بعد میں دیر تک اُن چند لمحوں کو یاد کی جاتا رہے،،، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا ، اور ، عام عوام نےصرف خوبصورت بنے پارک میں کچھ دیر تصاویرلیں ،، اور اگلا " ٹِک مارک " 10 ڈاؤننگ کے سامنے لمحہ بھر رک کر لگایا ، ذرا آگے بڑھیں۔
تو ایک " احاطہ " نظر آیا جو ملکہ کے گرد روایتی لباس والے پولیس کا ٹریننگ سینٹر تھا ،، وہاں بھی وہی روایتی اونچی سیاہ ٹوپی ، اور سرخ کوٹ ، اور سیاہ پینٹ میں ملبوس چند معصوم شکل پولیس کے سپاہی اپنی ڈیوٹی دے رہے تھے ، ایک بچونگڑے سے سپاہی کو جوجی نے پوچھا " کتنے گھنٹے کی ڈیوٹی ہوتی ہے؟ اور کیا تم لوگوں نے اسی طرح ساکت رہنا ہوتا ہے ؟ ،، جواب میں مکمل خاموشی ،،، بلکہ اس نے نظریں ٹیڑھی کر کے بھی ہمیں نہیں دیکھا اور ناک کی سیدھ میں دیکھتا رہا،،،خیر اس بچارے کے ساتھ ہم نے تصاویر لیں ، اور آگے چل پڑیں ،، ٹونزوں کو ہماری ہر " فری ہو جانے والی حرکت " بہت دیسی لگتی تھی ، ، لیکن جیسا میں نے پہلے کسی قسط میں لکھا تھا کہ ہم ایک کان سے سُنتیں اور دوسرے سے نکال دیتیں ،، انھوں نے بتایا یہ بغیر اپنے آفیسرکی اجازت کے جواب بھی نہیں دے سکتے ۔ ،، کچھ دیر اس احاطے میں ٹریننگ لیتے پولیس ٹرینیز کو گھوڑوں کی ہلکی چال سے ٹریننگ لیتے دیکھا،، اور سیدھے پہنچیں "لندن آئی "،، اور بگ بین کے مشہورِ زمانہ چوک پر یہ دونوں آمنے سامنے تھے ، صرف آنکھوں دیکھا حال والا قصہ کیا ،، اور پندرہ بیس منٹ گزار کر اُس بس میں بیٹھیں ، جو سینٹرل لندن کی طرف جا رہی تھی ۔ ایمن نے اپنی تعلیمی درسگاہ یہ کہہ کر وزٹ کروانے سے انکار کر دیا تھا کہ آپ کیمبریج جیسی شاندار اور گرین ایچ جیسی ستھری ، وسیع لان والی یونیورسٹیز کو دیکھ آئی ہیں ،، اب یہ " لندن سکول آف اکنامکس " محض معیار کی وجہ سے بلند ہے ورنہ بلڈنگ وہی جدید طرز کی ، اوپر تلے کی منزلیں ہیں ، ہم نے بھی اصرار نہیں کیا ، کہ تھکن بھی ہم پر سوار تھی ،،لیکن اس کے قریب سے گزریں  تو قریب ہی " ایک اور قدیم اور خاص پس منظر رکھنے والی عمارت نظر آئی ،، جسے دیکھ کر جماعت دہم میں پڑھی ، نظمیں اور مضمون بھی یاد آگۓ ، "ویسٹ منسٹر ایبے"،، جو یہاں کے شاہی خاندان یا اہم خاندانوں کا مشہور چرچ ہے ، جو آج ایک ہزار سال کا ہونے والا ہے لیکن مناسب دیکھ بھال نے اسے قابلِ دید بنا رکھا ہے،، اور ہم نے اگرچہ برٹش حکمرانی کا دور نہیں دیکھا ،، لیکن ہمارے بچپن تک تادیر ، برٹش شخصیات ، عمارات ، اور ڈیفوڈلز کا ذکر ہماری درسی کتب میں رہا ، ، ہمیں ان مشہور جگہوں ، اور شخصیات سے متعلق پڑھنا ، برا نہیں لگتا تھا ، لیکن تصورات میں یہ امیج کسی طرح صحیح بیٹھتا بھی نہ تھا ، اور انتہائی مشکل سے حاصل کیۓ گۓ وطن کی کم اور سابقہ حاکم کے ملک کی ذیادہ معلومات ہوتیں۔ 
لندن کے آخری دن کو ہم نے " بشیر بھائی اور شاہدہ " کے لیۓ وقف رکھا ہوا تھا ،، " محمد بشیر بھائی " واہ فیکٹری کے ان انجینئرز میں سے تھے ، جنھوں نے دیانت داری سے کام کو اپنا " موٹو " بناۓ رکھا ، میرے والد ، کے لیۓ ان کے ذہن میں ہمیشہ بہت اچھا امیج رہا ،، کہ اباجی چیف سیکیورٹی آفیسر ہونے کے ناطے ، نئے افسران ،کی تمام تر تحقیق کی رپورٹ دینے کے پابند تھے ، اور بشیر بھائی اس بات کو بہت  فخر سے بیان کرتے کہ " میجر صاحب " کے  دستخط  سے ہمارے پیپرز فائنل ہوۓ ، یہ کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ وہ اپنی ڈیوٹی دیتے تھے ،، لیکن بشیر بھائی کے دل میں وہ اچھا امیج آج بھی قائم ہے ،، اتفاق سے ان کی اکلوتی بیٹی " مہوش بشیر " میری بیٹی نشل اور بھانجی ماہرہ کی کلاس فیلو رہی ، کانووینٹ میں پڑھتی یہ تین ، اور ایک دو اور بچیاں صائمہ ناز ، ( جو اب انگلینڈ میں ہی ڈاکٹر ہے ) اور ماہم شاہد ،، کا گروپ ایسا تھا ، جو اگر چند دن گزارنے کا پروگرام ترتیب دیتیں تو سبھی بچیوں کے والدین " مہوش " کے گھر رہنے کی اجازت بخوشی دے دیتے ۔ اور وہاں بشیر بھائی اور شاہدہ دلی محبت اور کیئرنگ سے انھیں گھر میں رکھتے ،، یوں لگتا کہ وہ سب وہاں پکنک منانے پہنچی ہیں ۔ بچپن سے لے کر آج تک ان کی دوستی بہت خوبصورتی سے چل رہی ہے ، نشل پاکستان میں ، ماہرہ انگلینڈ میں اور مہوش امریکا میں رہتی ہیں ، ، لیکن یہ فاصلے ان کے آپس کی پیاری دوستی کو مدھم نہیں کر سکے ۔ دعا ہے کہ یہ سب بوڑھی ہو کر بھی ملتی رہیں ، اور اپنے بچپن کے گزارے بےفکری کے دنوں کی کہانیاں اگلی نسل کو سناتی رہیں آمین !۔
بشیر بھائی فیکٹری سے ایم ، ڈی کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوۓ ، اور اکلوتے بیٹے کی محبت میں انگلینڈ کی شہریت لے کر لندن شفٹ ہو گۓ ، یہاں سیٹل ہوۓ قریباً 10 یا 12 سال ہو چکے ہیں ،، لیکن پاکستان سے محبت کا یہ حال ہے کہ صبح کا آغاز اگر نماز سے ہوتا ہے ، تو دوسرا کام وطن کی خبر لینے کے لیۓ خبروں کا ہوتا ہے ، ، ، وہ میرے اس پیج کے بھی مستقل قاری ہیں ، شاہدہ ایک سگھڑ اور با ذوق وہ خاتون ِ خانہ ہے ، جس کی زندگی صرف شوہر اور ان دو بچوں بیٹا اور بیٹی کے گرد گھومتی تھی اور گھوم رہی ہے ،،، اس نے واہ فیکٹری میں ملے خوب بڑے گھر کو نہایت سیلقے اور ذوق سے سجایا ہوا تھا ،،، اور اب جب انگلینڈ کے اس چھوٹے گھر میں گئیں تو ،، یہاں اس کے ذوق اور سگھڑاپے کا الگ روپ نظر آیا ، جو کم گھروں میں ہی نظر آتا ہے ، ، دونوں نے بہت اپنائیت سے استقبال کیا ، گھر میں بنی کھانے کی مزیدار اشیاء شاہدہ کی محبت کا اظہار کر رہیں تھیں ، حالانکہ اب وہ صحت کے لحاظ سے بہت فٹ نہیں رہتی ، لیکن گھر داری ، اس کی" تھیریپی " ہے ، ، میَں تو اس کے سلیقے سے پہلے ہی متاثر تھی ، انگلینڈ کے گھروں کو سجانا اور وہ بھی بغیر ملازمین کے ،، یہ اچھی خاتونِ خانہ کا اظہار تھا ۔ بشیر بھائ نے بھی اپنی مصروفیات فکس کر رکھی ہیں ، لیکن پاکستان کی محبت اور اس کی فکر میں گھُلے نظر آۓ ،، جو ایک محبِ وطن پاکستانی کی خاص صفت ہے ۔ ( مجھے یاد نہیں کہ ان کا علاقہ کون تھا ، وہ اس قسط کو پڑھ کر مجھے یاد دلا دیں ) لیکن جب ہم اس علاقے کی ایک سڑک پر مڑیں ، تو اس سٹریٹ پر بہت سے یہودی خواتین و حضرات ، نظر آۓ ، جو اس وقت سکول سے چھٹی ہونے پر بچوں کو لینے آۓ ہوۓ تھے نیزشام کی آفسسز کی چھٹی ہونے پر گھر جاتے نظر آۓ ،، مجھے مانچسٹر میں بھی یہودی افراد نظر آۓ تھے لیکن یہاں یہ خاصی تعداد میں تھے ، مرد حضرات نے سیاہ کوٹ پینٹ ، ہیٹ ، اور ہمارے مولانا حضرات جیسی لمبی داڑھیاں رکھی ہوئیں تھیں ، لیکن دونوں کانوں کے پاس کے لمبے بالوں کی مینڈھیاں کر کے داڑھی جتنی لمبی چھوڑی ہوئ تھیں ، ان کے بچوں کے سروں پر وہ گول ٹوپی چپکی ہوئ تھی جو بہ مشکل ایک چھوٹی سی "پرچ " جتنی ہوتی ہے ،اور ایسے میٹریل کی تھی جو چِپکی رہتی ہے ، یہودی اپنے بچوں کی گُھٹی میں اپنے عقائد ، اور روایات کو ایسا گھول کر پلا دیتے ہیں کہ ، صدیوں پہلے بھی اور آج بھی ، وہ خود کو خالص اور دوسروں کو " نا خالص " سمجھتے ہیں ، ایسا زعم صرف براۓ زعم نہیں چلا ۔ بلکہ اپنی عرب سر زمین سے لی گئ ذہانت کے بل بوتے پر ، خود کو ہر طرح ان تھک محنت اور ا"پنی قوم "سے وفاداری سے دنیا میں کی گئی" ایجادات" کا لوہا منوا لیا ہے ۔ یہ اور بات کہ ان میں " محبت اور جنگ میں سب جائز ہے " والا فارمولا بہت عمل پیرا رہتا ہے ،، خود کواللہ کی چنیدہ قوم کا زعم ،انھیں متکبر کر دیا ہے ، یہ تکبربِل آخر انھیں کس انجام سے دوچار کرے گا ، یہ تاریخ رقم ہو کر رہۓ گی ، ان شا اللہ !۔
بشیر بھائی اور شاہدہ کی محبت بھری میزبانی کا لطف اُٹھاتے ،، لندن کا یہ علاقہ دیکھتے ، انھیں اللہ حافظ کہا ، اور گھر آکر ٹونزوں نے ہمارے ہینڈ کیری جیسے دو بیگز ، اور ایک عجیب و غریب شکل کا تھیلا تیار کیا ، جو ہم دونوں سے اُٹھایا جانا ممکن ہی نہ تھا ،، ہم دونوں تو بیگم صاحب بن کر اپنے اپنے ہینڈ کیریز کے ساتھ آگے چل پڑیں اور ایمن ثمن نے وہ عجیب سا تھیلا خود اُٹھاۓ رکھا، ریلوے سٹیشن پہنچیں ، یہ ٹیوب سٹیشن نہیں تھا بلکہ نارمل ٹرین تھی ، ٹکٹ چند دن پہلے لے لیۓ گۓ تھے ،، اور اپنی پیاری ، نہایت مہمان نواز اور میری ہر بات اور حرکت کو محبت و احترام سے برداشت کرنے والی ٹونزوں سے رخصت ہوئی ،، تو دل بہت اداس تھا حالانکہ انھوں نے چند دن بعد مانچسٹر آکر ہمیں ائر پورٹ سے رخصت کرنا تھا ،، لیکن مَیں نے واضح کر دیا کہ مجھے لندن سے جدائی کا کوئی افسوس نہیں ،، جس پر انھوں نے لمبا سا کہا " خالاآآآآآا " ، کیؤنکہ وہ لندن 4 سال سے رہ رہی تھیں ، اور اب اس کے پانی اور نمک نے انھیں اپنا اثیر کر لیا تھا ،، سڑک سے مانچسٹر اور لندن کا فاصلہ 4 گھنٹے کا اور ٹرین سے لندن سے مانچسٹر تک کا سفر صرف دو گھنٹے کا تھا ۔ انتہائ آرام دہ سفر ،، بہت صاف ، ستھری سیٹس ، ، میَں نے حسبِ عادت کھڑکی والی سیٹ سنبھالی ،، کہ نئے ملک کے نظارے کھڑکی سے نظارت دیتے چلے جائیں تو اس خوشی کا نہ پوچھیۓ ،، دو گھنٹے کا سفر یوں گزرا کہ دل نے کہا یہ " کیوں۔ گزرا " ۔
(منیرہ قریشی 22 جولائی 201ء واہ کینٹ  ( جاری

منگل، 17 جولائی، 2018

سفرِانگلستان(24)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر " 
 سفرِِ ولایت، یوکے  (24)۔
ہم " کوئین وکٹوریہ اور البرٹ" میوزیم کی طرف چل پڑیں ،، کہ وہ بہت دور نہیں تھا ۔ اس میوزیم کو یہاں "وی اینڈ اے"  بھی کہا جاتا ہے ، لندن کی آبادی 2011ء کے مطابق 80 لاکھ تھی ۔ اور صرف لندن میں 23 میوزیمز ہیں ، جن کو مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے ، کچھ سائنس ، کچھ ہسٹوریکل ، کچھ کو " نیچرل ہسٹری میوزیم " کا نام دیا گیا ہے ، وغیرہ ،، ان میں کچھ بڑے ، کچھ چھوٹے میوزیم ہیں ، اور "وکٹوریہ اور البرٹ " میوزیم کو لندن کاتیسرا بڑا میوزیم مانا جاتا ہے ،، یہاں داخلے کا کوئ ٹکٹ نہیں ۔ اندر داخل ہوتے ہی ،میوزیم کے سجانے ، سنوارنے ، یا یہاں مختلف تہذیبوں کو الگ الگ نمایاں کرنے کا نہایت اعلیٰ انتظام کیا گیا تھا ،، خوب اونچی چھتوں نے اور سفید دیواروں نے دسعت کا انوکھا احساس   دیاہواتھا،،،،،کبھی انگلینڈ نے "برِ اعظموں" پر حکومت کی تھی ،، جوں جوں ، حاکموں کی حکومتی سرحدیں سکڑتی گئیں ،، ان کے اپنے " ذاتی " ( انگلینڈ) گھر کے فراوانی اور آسانی میں کمی کے اندیشے بڑھتے گۓ ،،، ان کے ذہین اذہان نے ہوا کا رُخ دیکھا اور آنے والے وقت کا اندازہ لگا لیا ، اس کےساتھ ہی اپنی پالیسیوں کو بدلایا ۔ ان کے نزدیک تعلیم عام اور آسان کرنا پہلا مقصدتھا جسے انھوں نے " حدف " قرار دیا ۔ اور اس کے ساتھ تحقیقی ، تدریس کے میدان کو بھی فتح کا ٹارگٹ بنایا ،، اس کے لیۓ لائیبریریوں ، میوزیمز ، اور لیبارٹریز کی سہولتوں کو اتنا وافر کیا کہ ، بیرونی ممالک کے طلباء کی توجہ ان کی طرف ہوئی،، اور اس ملک کے لیۓ آج بھی آمدن کا خاصا بڑا ذریعہ ان غیر ملکی طلباء کی آمد ورفت بن گیا ہے ،، لیکن یہاں کے بہت سے میوزیمز میں برٹش ایمپائر" نے اپنی پرانی کالونیوں سے قیمتی اور نہایت تاریخی نوادرات لا کر دھڑلے سے یہاں سجا لیۓ ہیں ۔ یہی حال یہاں کی لائیبریریوں میں موجود قیمتی ، اور نہایت پرانی اور تاریخی کتب کا ہے ،، اور یہی تحقیقی ماحول دیکھ کر طلباء جوق در جوق یہاں کی یونیورسٹیز میں آتے ہیں ، اور کوئ شک نہیں کہ شاد کام ہوتے ہیں ! لیکن ان ہی قیمتی خزانوں کو دیکھ کر حضرتِ علامہؒ نے فر مایا تھا ۔۔۔
ؔ مگر و علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا ء کی
جو دیکھیں اِن کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا 
اور ہمارے لیۓ آج بھی صورتِ حال کچھ بہت ذیادہ تبدیل نہیں ہوئی ،، کیوں کہ ،
 ؔ خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
جب ہم اس زبردست میوزیم میں داخل ہوئیں ، تو دوپہر کے تین بجے تھے ، اور عین اس وقت نکلیں ، جب پانچ بج گۓ اور میوزیم کے بند ہونے کا اشارہ ملا ،، اور اس وقت تک ہم ہندوستان ، کوریا ، اور یونان کے حصے کو دیکھ پائیں ،،، جبکہ چین کی اور مصر کی قدیم ، اور شاندار تاریخی نمونے دیکھنے کی ابتدا ہی کی تھی ، کہ میوزیم بند کیا جانے لگا اورہم حسرت لے کر واپس آگئیں ،، ایک ایک ملک کو الگ سے ، آرام سے دیکھیں تب ہی اس ملک سے متعلق بہت سی معلومات ، آسانی اور دلچسپی ،،
سےسمجھ آتی ہیں ،، میَں اپنا تاثر بیان کر رہی ہوں کہ جب بھی کسی میوزیم میں جاتی تھی ،، اور ،، ہوں ، آنکھیں اس دور کی اشیاء دیکھ رہی ہوتی ہیں لیکن بہ باطن اسی دور میں گم ہو جاتی ہوں ، ،، اور یہاں مجھے خود پر اس وقت کافی قابو پانا پڑا ، جب ہندوستانی کارنر میں ٹیپو سلطان کے لباس ، تلوار ، اور اس کی تصویر کے پاس کچھ وقت گزارنا پڑا ،،، میَں ہرگز یہ جملے لفاظی کے طور پرنہیں لکھ رہی ،، میں واقعی شدید جذباتی ہو گئ تھی ،، لیکن ،،، یہاں کچھ وقت گزار کر اس کے ساتھ ہی ، کوریا کی قدیم تہذیب کے نمونے ہیں ،، جس نے ہمارادھیان بہ خوبی اپنی جانب متوجہ کیا ، اسی کے ساتھ یونان سے لاۓ گۓ آرٹ کے اعلیٰ ترین نمونے سامنے آۓ ، اور روح کا بھٹکنا تو قدرتی ہوا ،، مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی ، اس ساری تہذیبی مناظر کو کہاں کہاں سے دیکھوں ، ، ، ایمن ثمن ہم دونوں کو گھسیٹ کرچین اور مصر کے کارنرز کی طرف لے کر گئیں ،، کہ وقت کم رہ گیا تھا،، جبکہ ہمیں یونانی دیو مالائ تہذیب نے جکڑا ہوا تھا ،، کوئ شک نہیں مصر اور چین کی تہذیبوں کا جادو چلا ،،،تو اب ہم یہاں جا براجمان ہوئیں ۔ اگر ایمن ثمن نہ ہوتیں ، تو ہم دونوں نے رات میوزیم میں ہی گزارنا تھی ،،، اور شاید " دی میوزیم " جیسی فلم کے واقعات ہم پر بھی پیش آجاتے ،، 😝🙂، میَں جس علاقے سے تعلق رکھتی ہوں ، وہ دنیا کی سب سے پرانی تہذیبوں میں سے ایک ہے ، یعنی " ٹکسا شلا " ( اصل تلفظ،، معنی، پتھروں کا شہر )جسے بعد میں " ٹیکسلا " کہا جانے لگا ،، یہاں قدیم تہذیب ، چپے چپے پر بکھری ہوئی ہے ،اس کی دریافت کا سہرا ، ایک برٹش " سَر الیگزنڈر کنگین ہیم " 
کے سر ہے ،، جس نے انیسویں صدی میں ٹیکسلا کے کھنڈرات کو دریافت کیا ،، اور آج اسی کی اَن تھک محنت نے صدیوں پرانی تہذیب ، دنیا کے سامنے رکھی ہے ،، یہاں سے نکلنے والے دفینوں کو ٹیکسلا میوزیم کی صورت میں محفوظ کیا گیا ،، یہاں سے دریافت شدہ بدھا کے بڑے چھوٹے مجسمے اور گندھارا تمدن میں استعمال ہونے والی بہت سی اشیاء کچھ تو میوزیم میں سج گئیں ، اور کچھ " نہایت بے علمی ، بے حسی ، اور بد دیانتی " کے احساس کے تحت ، انہی غیر ملکی میوزیمز کو غیر قانونی طور پر بیچ دی گئیں ،، لینے والوں نے بھی ہاتھوں ہاتھ لیۓ ، اور چند سکوں کے لالچی تو خوش تھے ہی ۔ اور کچھ ہمارے لاعلم حکمران طبقہ بھی لے اُڑا ، کہ یہ بھی فیشن میں داخل ہے ، کہ اپنے گھر کے باہری بر آمدے کو بدھا کے 25000 سال پرانے مجسمے سے آراستہ کیا جاۓ ،،، میری خوبصورت وادی ٹیکسلا کی تاریخی اہمیت تو ہے ہی لیکن خوبصورتی کا بھی جواب نہیں ،، لیکن یہاں ایسا کوئ انتظام نہیں کہ ایک تحقیقی یونیورسٹی ہوتی ،اور ہمارے ملک میں جگہ جگہ بکھری تاریخ کے نودرات کو بے قدر لوگوں کے ہاتھوں میں دیۓ جانے سے روکا جا سکے ،، میَں اپنے بچپن سے ٹیکسلا میوزیم جا رہی ہوں ،، ہر دفعہ اسکے شو کیس میں، کچھ چیزوں کی کمی دیکھتی ہوں ، حالانکہ یہاں مہاتما بُدھ کے عقیدت مند ، دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں ،،اور یہ پاکستانی حکومت کے لیۓ آمدن کا بہترین ذریعہ ہے ۔ ، یہاں کے کھنڈرات ، تیزی سے نابود ہوتے جا رہے ہیں ،، یہاں موجود عملہ اورگائیڈ بہت کم پڑھے لکھے ہیں ، جو چند رٹی رٹائی باتوں کو ، بغیر کسی علمی حوالے کے سیاحوں کے سامنے دہرا دیتے ہیں  اور ایسا بےعلمی کا مظاہرہ ، تقریباً ہمارے ملک کے سبھی کھنڈرات میں نظر آتا ہے ۔ مجھے دوسرے ممالک کے میوزیم اور لائیبریرز دیکھ کر ہمیشہ " ڈیپریشن " ہونے لگتا ہے ،،،،،،،!۔
( منیرہ قریشی 17 جولائی 2018ء واہ کینٹ ( ( جاری )