بدھ، 8 اگست، 2018

ترکیہء جدید' (2)۔

 سلسلہ ہاۓ سفر "
' ترکیہء جدید' (2)۔
ٹرکش ایئر لائن ، کا طیارہ ٹھیک وقت پر چلا اور ٹھیک ہی وقت پر استنبول ایئر پورٹ پر اترا ،،،اور اس دوران کم ازکم میَں اپنے ساتھ کے رشتوں ، سے بے نیاز ہو گئی ،جہاز کے اندر بیٹھے ، لوگوں پر ایک طائرانہ نظر ڈال کھڑکی سے یوں چِپکی رہی ، جیسے لمحے بھر کے لیۓ بھی اُٹھی تو کوئ اور میری جگہ نہ لے لے ۔ 
جب میَں ٹین ایج میں تھی ، تب سے سفرنامے پڑھنے ، اور کسی کے بیرونی سفر کی تفصیل جاننے کا بہت ہی شوق رہا ۔ خاص طور پر ، سفر نامے کسی ہفتہ وار میگزین میں ہوں ، یا کتاب کی صورت ،، میرے لیۓ اسے پڑھنا ، سبھی کاموں سے ذیادہ اہم ہوتا ۔ اندر کی خانہ بدوشی روح کو انسان نہ خود پہچان پاتا ،، اور نہ والدین جج کر سکتے ہیں ، ، میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والی زندگی کتنی نارمل روٹین کی گزارنی ہو گی کہ سب خواب دھندلا جائیں گے ،، وہ لا اُبالی عمر ، جس میں ہر لڑکی بہت کچھ فینٹیسی کی دنیا میں رہتی اور ان ، خواہشوں پر ایسا یقین رکھتی ہے ، کہ ان میں سے سارے نہیں ، تو آدھے خواب تو ضرور پورے ہوں گے ،، ایسے خوابوں میں میرے ساتھ ، ہماری پڑوسی سہیلی " شاہدہ" بھی شامل ہوتی ، جوجی بہت پریکٹیکل سوچ رکھتی ،، اور تسنیم ، جو ذرا ہم میں ذرا بڑی تھی ، گھر کی بھی بڑی بیٹی تھی ،، نہایت مدبر شخصیت بنی رہتی ، اور اکثر اماں جی کی صحبت میں بیٹھ کر کبھی کوئ سلیقہ شعاری سیکھ رہی ہوتی کبھی کچھ خریداری کا پلین کرتی رہتی ،، باقی عوام ( شاہدہ کی چھوٹی دو جڑواں بہنیں ، میرا بڑا بھانجا ، جو تعلیمی سلسلے میں ہمارے پاس ہی رہ رہا تھا ، اور اس وقت وہ جماعت سوم کا طالب علم تھا ، اور ان تینوں کو کسی کھاتے میں نہیں سمجھا جاتا تھا )،،، 1970 میں تسنیم کی شادی طے پائی ، اور ساتھ ہی وہ اپنے شوہر کے ساتھ لیبیا چلی گئ ، وہیں سے ، کسی سال اس نے مصر دیکھنا ، کسی سال عمرہ کیا، کسی سال کویت ، کی طرف چکر لگایا ،،گویا جو ہمارے ( میرے اور شاہدہ کے زیادہ )دل کے ارمان تھے ، وہ تسنیم پر پورے ہو رہے تھے ، ہمارا خیال تھا ، ہمارے والدین بہت " براڈ مائنڈڈ " ہیں ،، یہ ہمیں سیرکے لیۓ کہیں نا کہیں کسی ملک بھیج ہی دیں گے ،، حالانکہ یہ ایسی انہونی خواہشوں کا پالنا تھا ،، جسے ، کسی حالت میں شادی سے پہلے عملی جامہ پہنایا ہی نہیں جا سکتا تھا،کہ مڈل کلاس کتنی بھی خوشحال ہو ،، ہم کچھ نا کچھ " لوگ کیا کہیں گے " کے جملے کے اسیر ہوتے ہیں ۔
ہمیں والدین نے اپنے "کافی دقیانوسی، روایتی  " خاندان سے ہٹ کر پالا تھا ،،جس نے ہمارا دماغ ذیادہ نہیں تو تھوڑا خراب کر ہی دیاتھا ۔ اور پھر زندگی نے اپنے رنگ دکھاۓ ،، میری زندگی بالکل اسی روٹین میں گزری ، جس ، کا سوچنا ، سوچ کی سرحدوں پر بھی تھا ، لیکن سکول کی جاب ، کے دوران اُن نوجوان بچیوں کو اکثر ،کتابیں پڑھنے پر زور دیتی ، تاکہ یہ عادت ، انھیں خوابوں کی دنیا کی جھلک دکھاتی رہۓ ، اور وہ آنے والی زندگی کے، کینوس پر صرف بھورے ، مٹیالے ، یا کالے ، یا سلیٹی رنگ ہی نہ دیکھیں ،، بلکہ ، گلابی رنگوں کے ہر شیڈ سے آگاہ ہوتی رہیں ،، مسکرانا بھول نہ جائیں ،،، اور ، پھر جوجی اور شاہدہ بھی ، نئی زندگیوں کو انجواۓ کرنے لگیں ، ، خاص طور پر شاہدہ ، تعلیمی میدان میں ایک پُرعزم ، پُرجوش ، طالبِ علم بنی رہی ، اور اسی سلسلے میں اسے پہلا سفر انگلینڈ میں پی ایچ ڈی کی تھیسسز کے لیۓ کرنا پڑا ،، اور یہ سفر کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا ،، اور آج وہ آدھی دنیا دیکھ چکی ہے ، اور اس لحاظ سے وہ بہترین " ہمسفر " ثآبت ہوتی ہے کہ اس کی کمپنی میں باقی لوگ مطمئن بھی رہتے ہیں اور با حوصلہ بھی کہ " میرِ کارواں " باحوصلہ ہو ،، تو سبھی کھلکھلاتے رہتے ہیں ،،، اور اب یہ صلاحیتیں ، ایمن ، ثمن ، میں نظر آئی ہیں ،، بعد میں جوجی کے بچوں کی انگلینڈ میں مستقل رہائش نے اس کے پاؤں میں بھی سفر کا چکر دیا ہوا ہے ،، اور ہر سال کسی نا کسی نئی جگہ کو دیکھنے کا موقع اسے اپنی بیٹیوں کی وجہ سے ملتا چلا جا رہا ہے ،،، اور اب ترکی ،،،، یا ترکیہ ،، اس کی ایئر لائن کی سروس واجبی سی تھی ، ، لیکن پی آئ اے سے ذیادہ برُی شاید ہی کسی ایئر لائن کی سروس ہو ،، جس کا کبھی ایک معیار " تھا "ہم استنبول ایئر پورٹ پر صبح 10 بجے اترے ، بہت بڑا ، اور شاندار ، صاف ستھرا ایئر پورٹ تھا ،، میں سامان کے اُٹھانے ، یا اس کی فکر سے پہلے بھی لا پرواہ تھی ،، اب ایکسیڈنٹ میں ٹانگ کے مسلۓ نے مجھے معقول " بہانہ " دے دیا  ،،، اور سب سے اہم بات میرے ناز اُٹھانے والے موجود بھی تھے ۔ ،،، مجھے اس سفر نے اتنا پُر جوش کیا ہوا تھا کہ جہاز میں مسلسل بیٹھے رہنے سے ، ٹانگوں اور پاؤں کی سوجن ، کے باوجود ، ایئر پورٹ پر چلنے کا وقت آیا ، تو میَں خوب اچھے سے چلنے لگی ،، جوجی اور میری بیٹی نشل کا خیال تھا ، وہیل چیئر لے لیتے ہیں ، لیکن میَں راضی نہ ہوئ ، اور اچھا خاصا میل ، سوا میل کا راستہ ، ان کے ساتھ برابر چلی ۔ آخر میں بورڈنگ پاس دیکھانے کی جگہ آئ ، جہاں لائن اَپ ہو کر کھسکنے والی پوزیشن میں کھڑا ہونا پڑا تو ، کڑا امتحان لگا ،، لیکن لائن کے مطابق رکھنے کے لیۓ جو پائپ لگاۓ گۓ تھے ، انہی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو ہو کر آخر گھنٹے بعد باہر آۓ ،،، ہماری چھوٹی بھانجی نشمیہ اپنے دونوں بیٹوں حمزہ اور زرک ، کے ساتھ ہوٹل ہم سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی ،، ایمن ثمن اور مائرہ نے انگلینڈ سے شام کی فلائیٹ سے پہنچنا تھا ، لیکن ، انھوں نے اپنی طرف سے نہایت ، کنسرن ہو کر ایک وین کی بکنگ آن لائن کروا دی تھی،، جبکہ لبنیٰ کے داماد نے بھی ایک وین کی بکنگ ہمارے سارے قیام کے لیۓ کروا رکھی تھی ۔ اور یہ ہوا،، کہ بندے ہم چھے تھے ، جبکہ دو بہترین وین 15 سیٹرز والی نہ صرف آچکی تھیں ،، بلکہ آن لائن والی کی پے منٹ بھی ہو چکی تھی ۔ اب یہ فیصلہ کیا کہ میَں اور جوجی ، اسی وین میں بیٹھ جاتی ہیں اور ، نشل بچے اور لبنیٰ ، دوسری وین میں بیٹھیں ،، اور السلامُ علیکم کہہ کر ڈرائیور کے ساتھ ہم دونوں بیٹھ گئیں ،، ڈرائیور 45/40 کی عمر کا مسکراتی شکل والا آدمی تھا ،، میَں نے ، بیٹھتے ہی اسے بتایا ہم پاکستان سے آرہی ہیں ، اور ابھی آن لائن بکنگ والی شام کی فلائیٹ سے آئیں گیں ، اور انگلینڈ آنے والیوں کو پھر لینے جاؤ گے ،، جوابا" اس نے بہت ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کی ہاں مجھے علم ہے ۔ تب میَں نے سفر شروع ہوتے ہی ، "تم کتنا پڑھے ہوۓ ہو ، کتنے بچے ہیں ، کس کس کلاس میں ہیں ؟ اور یہاں کا تعلیمی سسٹم کیسا ہے ؟ کیا تمہارے بچے پرائیویٹ سکولوں میں ہیں یا سرکاری ،،،، !!!یہ سوال پوچھنے کی (میَں نے پہلے بھی لکھا ہے) ہم دونوں ایسے عارضی ہم سفروں سے کرنے کی عادی ہو چکی ہیں ، اور جوں ہی اگلا دکھی سٹوری سناتا ہے ہم ، دونوں بہنیں ، آنسو بہانے میں بھی دیر نہیں لگاتیں ،، اور اگر وہ اچھی خبریں دیتا ہے تو ، " اوہ ، شکر الحمدُللہ ، اوہ ، ما شا اللہ ، اللہ مزید ، کامیابی " ،، والے جملوں کی ادائیگی میں بھی دیر نہیں لگاتیں ،،، اور یہاں تو ایسے " مبارک " جملے بولنے کے بے شمار پوائنٹس بن رہۓ تھے ۔ ڈرائیور نے بتایا ،، اس کی چھے بیٹیاں ہیں ، جن میں سے بڑی تین کالج لیول پر جانے والی ہیں ، میرا بھائ سویڈن میں رہتا ہے اسکے بچے نہیں ہیں ، چناچہ یہ بڑی تینوں اس کے پاس جا کر رہ رہی ہیں چھوٹی تینوں یہیں ترکی میں ہیں ، ،، میَں خود میٹرک پاس ہوں ، بیوی ایم اے انگلش ہے اور یونیورسٹی میں لیکچرار ہے ،،، ۔😃😎
یہ سب خبریں اتنی مثبت ملیں کہ واؤ ،، واؤ کرتے منہ تھک گیا جوجی سخت تھکی ہوئی تھی ، وہ نیند کی چھپکی لینے لگی ،، اس لیۓ اسے میرے خوشی کے تاءثرات کا علم نہ ہوا ،، اس نے مزید بتایا تمام سرکاری سکولوں میں چھٹی جماعت تک تعلیم فری ہے ،، اور چھٹی تک صرف ٹرکش زبان میں تعلیم دی جاتی ہے ، ساتویں میں ایک مضمون غیر ملکی زبانوں کا شامل کیا جاتا ہے چاہے کوئ ، انگلش پڑھے یا جرمن ، یا فرانسیسی ، یا عربی ،، لیکن یہ بھی بہت مشکل کتاب نہیں ، دسویں تک یہ زبان محض آپشنل پڑھائ جاتی ہے ،، اور پھر کالج میں ، جس زبان کو مزید پڑھنا ہے یعنی " ایڈوانس " لیول پر تو تب اسے اسی مضمون کی کتب پڑھنی ہوتی ہیں لیکن باقی طریقہء تدریس ترکی زبان میں ہی ہوتا ہے ،، یونیورسٹی لیول پر مضامین کا انتخاب بھی زبان ان کی اپنی ہے البتہ اکسی غیر ملکی زبان کو پڑھنا ہے تو آپشن دی جاتی ہے ۔ کہ اسی مضمون کو پڑھ لیں ، اسی میں ماسٹر کر لیں ، اور میری بیوی نے ماسٹر اسی طرح کیا ہے " ،،،ذیادہ حیرت اس پر بھی تھی ، کہ ٹپیکل سوچ کے تحت اب بیوی ساتواں بچہ پیدا کرنے والی تھی ، کہ شاید بیٹا ہو جاۓ ، !!!! یہاں تک سٹوری پہنچی تو میری ، واؤ ،، کا تائثر ،،، کچھ بدل گیا ،،، اور موضوع بھی بدل گیا ،، اور ترکی کے جدید ترکی بننے پر تبادلہء خیال ہوا ،، کہنے لگا " ملک کو سب سے ذیادہ طیب اردگان نے ، آگے بڑھایا ہے ، ساری قوم اس کی بات کو مانتی ہے وغیرہ ایئر پورٹ جدید ترکی میں شامل ہے ،، اور یہاں سے ہمارے ہوٹل تک ایک گھنٹے سے ذیادہ وقت لگا ،، لیکن اس کے ہائی وے کے کنارے ، نہ صرف نہایت صاف بلکہ ، گھاس کی اور ہیجز کی ، اور پھولوں بھری کیاریوں کی ایسے کٹنگ اور صفائ تھی جیسے آج ہی کی گئ ہو ،، ایک بڑے پل سے گزرے جو قدیم اور جدید ترکی کو الگ کرتا ہے ، سٹرکوں کے کنارے اس گھنٹے ، بھر کی ڈرائیو میں کوئی سکول نظر نہیں آیا ،، پوچھا تو بقول ڈرائیور کے ،، بچوں کے سکول چھوٹی سڑکوں پر بناۓ گۓ ہیں ، یونیورسٹیز ، وہ بھی اِکا دُکا ، سڑکوں کے کنارے نظر آئیں ،، بہ نظرِ غائر ،ایک خوشحال قوم کا تائثر ملا ،،، اور " فسٹ امپریشن از دا لاسٹ امپریشن ، والی بات ہوئی ۔
اور آخر قدیم حصہء ترکی میں اپنے نو دن کے قیام کے ہوٹل پہنچیں ، جس کی داخلے والی سڑک بالکل ایسی موڑ والی تھی جیسے ہمارے " مری " کے پہاڑی علاقے کی ہو ،، یہ تو پہلے دن ہی علم ہوا کہ سارا استنبول نیم پہاڑی زمین پر بنا ہوا ہے ، اور ارد گرد کی چھوٹی پہاڑیاں اسے محفوظ اور حسین بنانے میں بھر پور کردار کرتی ہیں ۔ ،،، ہمارےہوٹل کا نام تھا  "بول"یا اس کا صحیح تلفظ میَں تصحیح کر کے پھر لکھوں گی ،،یہ 20 منزلہ 5 سٹار ہوٹل تھا،اور پہنچتے ہی ،، ہوٹل انتظامیہ نے ہمیں ، ہمارے کمرے 9ویں منزل تک سامان سمیت رہنمائی کر کے پہنچایا ،،میَں اپنے بیٹی اور نواسی نواسے کے ساتھ ،، جوجی کا کمرہ میرے ساتھ اور اس کی تینوں بیٹیاں ،، جبکہ نشمیہ اور لبنیٰ 13 ویں منزل میں دو کمروں کی بکنگ تھی ، پہلے سے موجود نشمیہ اور اس کے خوش مزاج بیٹے ، سب سے ملے ، اور نشمیہ نے اپنی جلد باز طبیعت کے تحت ہمیں فورا" تیار ہونے کا کہا ،، کہ کوئ لمحہ ضائع نہیں ہونا چاہیۓ ۔ چناچہ ، صرف ایک ایک چھوٹی پیالی چاۓ کی عادتا پی گئی ،اور حاضر موجود وین کے ڈرائیور کو کسی نزدیکی پارک لے جانے کا کہا ،،،،،۔
( منیرہ قریشی 8 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں