جمعرات، 9 اگست، 2018

ترکیہء جدید ' (3)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر "
' ترکیہء جدید  (3)۔
ہمارے قیامِ ترکی کے لیۓ ، لبنیٰ کے داماد عمر ، کی واقفیت اور ترکی میں اس کے قیام سے لی گئ معلومات ، ہمارے کام آنے لگیں ،، اس نے کچھ عرصہ استنبول سے باہر ایک بلڈنگ کا پروجیکٹ مکمل کیا تھا ،، اب وہاں کے ٹرانسپورٹ انچارج کو اس نے فون پر نہ صرف وین کا آرڈر دے دیا ، بلکہ، ایسا ڈرائیور ساتھ دیا ، جسے سبھی راستوں سے خوب آگاہی تھی ، لیکن وہ انگریزی سے مکمل طور پر نا بلد تھا ( ہاۓ بیچارہ"  ۔۔ انگریزی بغیر ہی زندہ تھا۔ ) وہ درمیانی عمر کا خوش شکل ٹرکش تھا ،، جس کا نام مہمندایجوت تھا ،، مؤدب اور تمیز دار تھا، اب آپسی کمیونیکیشن کیسے ہو ؟ زرک نے فورا" اسی جدید موبائل کی سہولت کا ستعمال کیا کہ وہ انگریزی میں لکھتا ،، اور زبان کے بٹن کے تحت ترکی زبان لکھی آ گئ اور وہ جملے ، ایجوت پڑھ لیتا ،، اس طرح وہ اسی جگہ پہنچا نے لگا ،،، وہ انگریزی پڑھنے ، یا بولنے سے یکسر نا واقف تھا ۔ ہم نزدیکی پارک گئیں ، جو 15، منٹ کی ڈرائیو پر تھا ،، یہ خوب صورت ،،پارک ترکی سے پہلا " تعارف " بن گیا ، اور ساتھ ہی باسفورس کا پہلا نظارہ بھی یہیں ہوا ۔ یہ پہلے نظارے نہ تھے ،، کسی سر زمین سے محبت کی ابتدا بھی تھے ۔ بہت کھلا راستہ ، پیورز سے آراستہ ، کچھ اونچائ لیۓ ہوۓ تھا ۔ اور اس پاتھ کے اردگرد خوب کھلے سر سبز لان ، خوب صورت کیاریاں، باترتیب درخت ،، اور ماحول پر صفائ کا مکمل تائثر ۔ یہیں کچھ چڑھائ ہی چڑھی تھی کہ چند صاف ستھری دکانیں نظر آئیں ،، جن میں سے ایک آئس کریم کی دکان تھی ، جو موسیٰ ، حمزہ اور زرک کے لیۓ فوری دلچسپی کا باعث بنی ، نشل نے انھیں " کان آئسکریم " کے لیۓ دکان کے پاس کھڑا کیا ،، اور پھر ہم نے ترکی کے آئس کریم والوں کا مخصوص اور میوزیکل انداز دیکھا ، جو نہ صرف دیکھنے والے کے چہرے پر مسکراہٹ لے آتا ہے ، بلکہ بچے تو جیسے نہال ہو جاتے ہیں ، ، یہ صرف آئس کریم بیچنے کا انداز ہی نہ تھا ساتھ ہلکی پھللکی جادو گری بھی دکھائ جا رہی ہوتی ہے یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے ،، بعد میں استنبول کے علاوہ دوسرے شہروں میں جانے کا تجربہ ہوا تو یہ ہی انداز ہر جگہ تھا ۔ دکانداری میں خوش مزاجی اور خوش مذاقی کتنی فائدہ مند ہوتی ہے ، ہمیں وہاں جا کر علم ہوا کہ بچے بار بار آئس کریم لینا کیوں پسند کر رہۓتھے ۔
، اب بڑوں کی دلچسپی کی چیز بھی نظر آگئی ،،، جی ہاں ، ایک خوبصورت ، صاف ستھری ، " ریڑھی " جہاں بہت سلیقے سے اُبلتی چھَلیاں ( بھُٹے ) بِک رہیں تھیں ، اس مستطیل ( ریکٹ اینگل) ریڑھی میں تین سٹیل کے " لگن " رکھے ہوۓ تھے ، درمیان کے لگن کے نیچے آگ لگی ہوئ تھی جس میں پانی تھا اور چھلیاں اُبل رہیں تھیں ،دائیں طرف کے لگن میں ابل چکی چھلیاں رکھی ہوئ تھیں ِ، جبکہ بائیں لگن میں کچی چھلیاں پڑیں تھیں ،، چھلی بیچنے والا ، ٹرکش نوجوان ، ویسے ہی خوش شکل تھا ، اوپر سے اس کا صاف ستھرا لباس ، اور انداز نے ہمیں بے فکری سے کھانے پر آمادہ کیا اور ترکی میں ہماری پہلی خریداری خوراک چھلی تھی ،، چھلی والے نے ایپرن باندھا ہوا تھا ، ہاتھوں پر گلوز ، سرَ پر سفید کیپ ، یا پی کیپ بھی پہنی ہوتی ، اتنا تفصلی حلیہ اس لیۓ بتایا کہ ، پاکستانی چھَلی فروش ، شاید صبح ہاتھ دھوتے ہیں ،، اور پھر شاید رات کو دھوتے ہوں ، انھوں نے ایک ایک ہفتہ پہلے کے کپڑے پہنے ہوتےہیں ، اور ہاتھوں میں گلوز کا رواج تو اچھی بیکریوں میں بھی کم ہی ہوتا ہے ۔ ( یہ اور بات کہ ہم گندگی کے امیون ہو چکے ہیں ، اس لیۓ کوئی مسئلہ  نہیں ہوتا ) ، ابلتی چھلی کو چمٹے سے پکڑ کر ایک سلیقے سے کٹے سخت کاغذ پر رکھا گیا ، چونکہ ہم نے اوپر مصالحہ نہیں لگوانا تھا ،، ایسے ہی کھانا شروع کی ، یہ بہت لذیذ میٹھی مکئی تھی ،،، اور جب تک ہم ترکی رہیں ، دن میں دو دفعہ بھی چھلی مل جاتی تو انکار کوئی نہ کرتا ۔ دین اسلام کا اہم پیغام " صفائ نصف ایمان ہے " کو اپنانے سے ،دیکھنے والے کو کتنا اچھا لگتا ہے ،، اس کا ہم برِ صغیر کے لوگوں کو بہت احساس ہے ۔ ،،، یہاں اچھی خاصی واک ہو گئ ،، دو جگہ پر دور بینیں نصب تھیں ، جو کوئنز ڈالنے سے آن ہوتیں ، اور ہر بندہ صرف ایک منٹ کے لیۓ سامنے بہتے باسفورس کے دوسرے کنارے کا نظارہ کر سکتا تھا ۔ نئے شادی شدہ ایک جوڑے کی مووی بھی بن رہی تھی ، دلہن سفید لباس میں سَر سے پاؤں تک بہت ساتر لباس میں تھی ،، اب یہاں دو گھنٹے گزر چکے تو واپس ہوٹل پہنچنا تھا ، تاکہ انگلینڈ کی پارٹی کو وصول کر لیں ،، جو پہنچنے والی تھیں ، کہ یہاں شام کے چار ، ساڑھے چار ہو چکے تھے ۔ شام پانچ تک ایمن ثمن اور مائرہ پہنچیں ،، سب نے پُر جوش استقبال کیا ،، سبھی کزنز کافی عرصے بعد اکٹھی ہوئ تھیں ،، اب اطمینان سے چاۓ پی گئ ، اور جو لوازمات لاۓ گۓ تھے ، ان کا لطف اُٹھایا گیا ۔ ہر فیملی کو ایک بیڈ روم ، ایک لاؤنج ایک کچنٹ اور ایک باتھ روم ملا تھا ، ،، اس طرح یا تو ہمارے کمرے میں ،، یا جوجی اور بچیوں والے کمرے میں مشترکہ ڈیرہ ڈالا جاتا ،، دو تین لڑکیاں ناشتہ تیار کرتیں اور یوں ہم روزانہ خوب ہلے گلے میں ناشتے کرتے ،، اور پھر رات کا کھا کر واپس کمرے میں آتے ، کیوں کہ ایک دن ہی میں ہمیں ان کے صبح کے ناشتوں سے اندازہ ہو گیا ، کہ سواۓ بے شمار سیریل کے ڈبل روٹی اور تلے ، ابلے انڈوں کے کوئ خاص چیز نہیں ،،، تو ڈبل روٹی ، اُبلے انڈے اپنی مرضی سے کیوں نہ کھاۓ جائیں ۔ کیوں کہ بچوں کا تیار ہونے میں وقت لگتا ، اور ان میں سے کچھ پہلے ، کچھ بعد میں تیار ہوتے ۔ اب کمرے میں ناشتے کا تجربہ ذیادہ بہتر رہا ۔
خیر اسی شام جب ایمن ثمن پہنچیں ، اسی وقت ہم دوبارہ ان کے ساتھ وین میں بیٹھیں ، اور کہیں نزدیکی شاپنگ مال گئیں ،، تاکہ کھانے پینے کی کچھ چیزیں خرید لیں ، اور مزید کچھ کرنسی کی تبدیلی کروا لی جاۓ ۔ اور یہ بتانا چاہوں گی کہ یہاں ڈالرز ، یا پاؤنڈ کی کرنسی لمٹیڈ ہی بدلائ جا سکتی تھی ،، دکاندار ایک خاص رقم کے بعد وہ صاف انکار کر رہے تھے ، کہ ہم نہ لیں گے نہ لیرے دیں گے ،، قانون کے مطابق چل رہے تھے ۔ اسی مال سے خواتین نے کچھ شاپنگ کی اور یہیں ایک ریسٹورنٹ سے کھانا کھا لیا گیا ۔ کچھ فون کی سِم کا بھی مسئلہ حل کیا گیا ۔ وغیرہ گویا ہم اپنے چند روزانہ قیام کے مین مئلوں سے نبٹ لیں۔
( منیرہ قریشی 9 اگست 2018ء واہ کینٹ ( ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں