جمعہ، 24 اگست، 2018

' ترکیہء جدید' (7)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
' ترکیہء جدید' (7)۔
ایجویت ، ہمیں نئے راستوں سے اس خوبصورت محل کے سامنے لے پہنچا ،، جو " خُریم کا محل " سے مشہور ہے ،،، تُرک ڈراموں کا اردو ڈبنگ سے پاکستانی چینل سے نشر ہونا ایسا کوئی خاص، کارنامہ نہیں تھا ، اور پاکستانی ناظرین کا ان کی طرف متوجہ ہونے کی ( میرے خیال سے ) ایک وجہ ، خوبصورت چہرے ، کچھ مغربی کلچر کا مکسچر ، اور ذرا پاکستانی ڈراموں سے ذرا فرق موضوعات ، تھے ،، لیکن جہاں تک تعلق ہے ، موضوعات اور ایکٹنگ کا تعلق ہے ، اس میں ہمارے ڈراموں کا معیار بہت ہی بلند ہے ۔ لیکن " ترکش عثمانی خلفاء کے دور پر مبنی کچھ تاریخی واقعات اور کچھ محلاتی سازشوں پر مبنی ڈراموں " نے ان ناظرین کو بھی متوجہ کیا ، جنھیں ، تاریخ سے کوئی دلچسپی نہ تھی ،، ان ڈراموں میں بھی حسین چہروں ، اور محل کی آرائش ، نے عام عوام کو بھی محلات کے اندر سے رہائش اور آرائش سے بھی بہت آگاہی ملی ۔ اس طرح اگر کبھی ان تاریخی عمارات کو دیکھنے کا موقع مل جاۓ ، تو کتابوں سے ملی معلومات کے علاوہ ، ڈراموں کے سین بھی یاد آنے لگتے ہیں ۔۔  
آج ہم ایسے ہی خوبصورت محل کے سامنے تھیں ، اسکے بہت بڑے ، بہت حسین داخلی دروازے کو دیکھنے کے لیۓ ، اگر ایک نہیں تو آدھ گھنٹہ کہیں نہیں گیا ، ایک تو دروازے کا پھیلاؤ ،،، اور پھر اس پر بنی، باریک پچی کاری ، اور صناعی کا ایسا کام تھا جو بہت پرکشش تھا ، یہ سارا سفید ، یا آف وائٹ ،، یا کہیں کہیں ہلکا گلابی رنگ نظر آتا تھا ۔ اس کے باہر سے اس کی تصویر لی ، ،،، اسکے اندر داخؒل ہوئیں ۔ تو وسیع لان ، اسکی خوبصورت کیاریاں ، فوراے جو پانی کے قطرے پھیلا رہۓ تھے، یہ سب ایسے پُر کشش مناظر تھے کہ ، سبھی ٹیم ممبران کا فوٹو سیشن ، اور سیلفیوں سے دل ہی نہیں بھر رہا تھا ،، یہاں بہت سی قومیتوں کے سیاح تھا ، اور سب اسی کام میں مصروف تھے ، کچھ جگہیں ،، انسان کو بے اختیار اور بے قابو کر دیتی ہیں ،، کچھ جگہیں ساکت و ساکن کرتی ہیں ،، اور کچھ جگہیں، جلد از جلد خود سے بھگانے کا اشارہ دیتی ہیں ، اور کچھ جگہیں ہمیشہ رہ جانے کا بھی بولتی رہتیں ہیں ، ،،، یہ جگہ ویسا ہی باغ تھا ، جیسا محلات کے گرد ہوتا ہے ، نیز خلیج باسفورس یعنی مَرمَر ہ کا چھوٹی چھوٹی لہروں والا سبز پانی اس محل کے قدموں پر اچھل رہا تھا، لیکن ، اس باغ کی ترتیب ، اس کی تاریخ ، یہاں کے جگہ جگہ لگے مجسمے ، فوارے ،، آج کے سیاح کوبے قابو کر رہۓ تھے ،،، آدھ گھنٹہ بعد لبنیٰ کی ڈانٹ سے سب لائن اَپ ہوۓ اور اندر جانے کا ٹکٹ بھی لیۓ ، اور جوتوں پر شاپر بیگ بھی چڑھاۓ گۓ ، جو واپسی پر انہی کو واپس بھی کرنے پڑتے ہیں ۔ ،،، اور سنگِ مر مر کی چند سیڑھیاں چڑھ کر بڑی سِلوں والے بر آمدے سے گزرکر، اب مزید جو سیڑھیاں چڑھیں ان پر سُرخ قالین بچھا تھا ۔ اور یہ سرخ رنگ بعد میں سارے محل کے فرش پر بچھا نظر آیا ۔ اندر سب سے پہلے ایک ایسی لابی بنی ہوئ تھی ،جس کے دائیں جانب خوبصورت ڈرائنگ روم تھا جس کا فرنیچر بھی شاید اسی دور کے صوفے، اور کرسیاں ، اور پردے بھی تھے اونچی کھڑکیوں سے دور تک مَرمَرہ کا نظارہ ہو رہا تھا ،، محل کی چھتیں خوب اونچی تھیں ،، اسی ڈرائنگ روم کے بائیں جانب بھی کوئ دوسرا ڈرائنگ روم تھا ، گویا دونوں سٹنگ رومز کے درمیان بھاری پردے لٹکے ہو ۓتھے ، دراصل محل کا وہ آدھا حصہ مرمتوں کی وجہ سے بند تھا ، گویا سیاحوں نے آدھا محل ہی دیکھنا تھا ،، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، وہاں بھی وہی نقشہ تھا ،، لیکن یہاں دو سیڑھیاں چڑھ کر ایک راہداری آئی اور دائیں جانب ایک اوپن ائیر قسم کا غسل خانہ تھا جہاں انسانی قد سے بھی اونچا جست کی صراحی ، اور مزید غسل کے برتن دھرے تھے ، اورمزید آگے دائیں ، بائیں سونے کے کمرے تھے پھر راہداری ،،، اور یہاں تک میرے چلنے کی ہمت جواب دے گئ ، میَں نے سب سے کہا ، تم لوگ گائیڈ کے ساتھ آگے جاؤ ، میَں کچھ منٹ بعد پہنچ جاؤں گی ،، گائیڈ بھی اپنے باقی گروپ کے ساتھ آگے جا چکا تھا اور اب اس رہداری میں پھر تین سیڑھیاں تھیں ، میَں ان پر سانس درست کرنے بیٹھ گئ ،اور یہ چند لمحے ، مجھ پر صدی گزار گۓ ،،،، یہ ذرا سا خاموش وقفہ ،،، جیسے بہت کچھ کہہ گیا ، ، غیر محسوس روزن سے آتی ہوا نے انھیں ہلکا سا لہرا دیا ،،، اور پھر چند منٹ کے بعد چند سیاح وہاں سے گزرے کچھ نے استفہامیہ انداز سے دیکھا ،، لیکن خاموشی سے گزر گۓ ،،، اسی کیفیت نے چند لفظوں کے تانے بانے بُن لیۓ ،، جو " باسفورس کنارے " کی ہی اگلی کیفیت ہے ،، بس اس محل اور اس کے کرداروں نے کچھ متوجہ کر لیا ۔
" باسفورس کنارے "
محلاتِ باد شاہان ،،،،،
حسین و جمیل
کونے میں کھڑے جوڑ توڑ
صوفوں پر بیٹھی سازشیں 
راہ داریاں سر گوشیاں
پردوں کے پیچھے چغلیاں
باسفورس کنارے !!!
روش روش جمالِ یار
تصویریں اُتر رہی ہیں
کچھ کیمروں میں ، کچھ آنکھوں میں 
لمحوں کے کھیل ہیں 
خوشیوں کے میل ہیں
محبتوں کے ڈھیر ہیں 
رقص میں درویش ہیں 
عجیب و عظیم تھے ، وہ لوگ 
بڑے فیصلے ، کار ہاۓ ارفعٰ
مگر ، اب موجود ہیں یہاں وہاں 
نابلد لوگ،، بےنظارت آنکھیں 
بے وُضو ، بے مراتب آنکھیں 
منہ کھولے ، آنکھ موندھے 
تاریخ انساں سے بے خبر
دلوں پر قبضہء دنیا کس قدر
جلدی چلو ،، جلدی کھاؤ
اگلا نظارہ ، اگلا پڑاؤ
باسفورس مسکراۓ ،،،،
پندھرویں صدی میں اکسویں صدی ہے
مِل رہے ہیں ، وہ ہم سے ، ہم ان سے 
باسفورس کنارے ،،،
باسفورس کنارۓ !!! ( اگست 2017ء استنبول)۔
میَں وہ چند منٹ اس راہداری میں خُریم کے محل کے کرداروں کو مل کر ، اور پھر نظر انداز کر کے آگے بڑھی ، تو چند گز چلنے کے بعد ایک موڑ آیا اور میرا گروپ کچھ اور سیاح اور گائیڈ کچھ بول رہا تھا ،،، اور یہ سب ایک برآمدۓ نما وسیع ڈرائنگ روم میں تھے ،، اور اس وقت ، ہم سب سیڑھیاں ، چڑھتے چڑھتے ،محل کی دوسری منزل پر تھے، یہاں شاہی خاندان ، ہوا ، اور مر مرہ کے دور تک کے نظاروں کو دیکھتا ہو گا ،، لیکن اب ان کمروں ، ان کی چیزوں کو کیسے کیسے دیسوں کے قدم روند رہۓ تھے ،،، تاریخ کا لکھا سبق ،،،،،،،،،،،اب واپسی تھی ،، نیچے اتر کر علم ہوا ،، پورے محل کو دیکھنے کے لیۓ مزید تین گھنٹے چاہییں ، اس کے طے خانے کی طرف جانے کی تو اجازت ہی نہیں ،، لیکن جب ہم محل کے اندرآئیں تو ایک وسیع ڈرائنگ روم میں ایک بالکنی بنی ہوئ تھی ، جس کی اونچی اور چوڑی کھڑکی ایک ہی تھی ،، لیکن اس کے گرد ایسی " آرچز " کی صورت میں پینٹگ کی گئ تھی، کہ محسوس ہو رہا تھا ، ہم کسی گیلری سے گزر جائیں گے ،، تو گویا " 3 ڈی "تصاویر کا آئیڈیا ، نیا نہیں ہے ۔ محل سے باہر آکر ، اس کے وسیع چمن میں مزید آدھ گھنٹہ گزارا گیا ، تاکہ جو گوشے رہ گۓ ہیں وہ بھی دیکھے جائیں ۔ 
آج کے دن کچھ دیر نزدیکی بازار کا چکر لگایا گیا ،، جہاں ابھی ایک اوپن ریستورنٹ میں بیٹھے ہی تھے کہ بادل گھِر آۓ۔ دکان داروں نے اپنی اپنی دکانوں کے آگے لپٹے ہوۓ مضبوط شیڈز کو کھول کر سٹیل کے ڈنڈوں سے اٹکا لیۓ ،، ہمارے چاۓ کا آرڈر لینے والے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہا بھی کہ آپ لوگ شیڈ کے نیچے آ جائیں ، لیکن ہم سب اس پُروا کو انجواۓ کر رہۓ تھے ، بہ مشکل چاۓ آئ ، آخری گھونٹ تک چند قطرے پڑے ، تو ہم چل پڑیں ،، لیکن یہ کیا ،،، یکدم بارش کی بوچھار ایسی آئی کہ ہم ایک قدم نہ اُٹھا سکیں ، خاص طور پر میَں ، جوجی اور حمنہٰ تو ایک چھلی والے کی چھوٹی سی چھت والی ریڑھی کے نیچے کھڑی ہو گئیں ، اس دوران باقی نے ہمت کی اور اس ڈبل روڈ کو پار کر کے سامنے کی دکان یا چھوٹے ہوٹلز کے برآمدے میں جا کھڑی ہوئیں ،، لیکن اس چند منٹ میں وہ سب تو بھیگ گئیں ، لیکن ہم تینوں کا ذیادہ برا حال ہو گیا ، بارش اسطرح موسلادھار ہوئ کہ کھڑا ہونا مشکل ہو گیا ، اور ہم نے اسی شدید بارش میں سڑک پار کی اور اب سڑک پر پانی اس قدربہہ رہا تھا کہ ہمارے پاؤں ڈوب گۓ ، سامنے کے برآمدوں تک پہنچ کر ایک ریستورنت میں جا بیٹھے ، اور خود کو گرم کرنے کے لیۓ قہوے کا آرڈر دیا ، میَں ہمیشہ اپنے پرس میں ایک جوڑا جرابوں کا رکھتی ہوں ، وہ کام آیا ،، اور اپنے کیپ شال کو بھی لپیٹا ،، ( اصل میں مجھے سردی کچھ ذیادہ محسوس ہوتی ہے😌بارش ختم ہوئی ، ہوش بجا ہوۓ ،، تو ڈرائیورایجویت کو بازار میں جانے کا کہا ،، راستے دیکھے ، تو کہیں پانی کھڑا نہ تھا ، حیرت ہوئ اتنا اچھا سسٹم !!!! اس بازار پہنچے جہاں سے مزید تحائف خریدنے تھے ،، یہ بہت پرانا علاقہ لگتا تھا ،چوڑی گلیاں ، اور اس کے کنارے بنے گھر ، چھوٹی اینٹوں سے ہوۓ تھے ،جو سیمنٹ سے کور نہیں کی گئیں تھیں ، یہاں کا ماحوؒ ل پنڈی
کے راجہ بازار کی اندرونی گلیوں جیسا تھا ،، یا ،، لاہور کی بھاٹی گیٹ کی اندر کی گلیوں جیسا ہو ۔۔۔ لیکن میَں نے بچوں کو کہہ کہلا کر وین میں ہی روکے رکھا ، خواتین جلد واپس آگئیں ، پتہ چلا ، کہ یہیں تین گلیاں چھوڑ کر ایک" جگہ ہے جہاں " رقصِ درویش " کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اور یہ ہفتے میں تین دن ہوتا ہے ، اتفاق سے آج ہفتہ ہے ، ہمیں جلدی پہنچنا ہو گا ، تاکہ ٹکٹ مل جائیں ،،، یہ خبر تو ہمارے لیۓ خوش خبری تھی ،،، دراصل زبان کے معاملے میں رکاوٹ سے یہ نقصان ہوا ک کہ کئ جگہوں کی آگاہی نہیں ہو پاتی ،، ہم تو یہ ہی سمجھتی رہیں کہ رقصِ درویش تو صرف " کُونیا " میں ہی دکھایا جاتا ہو گا ،، جو مولانا رومیؒ کے مزار ، اور ابتداۓ رقصِ درویش کی جاۓ وقوع ہے ،یہاں پہنچیں تو پتہ چلا ، ہر اہم شہر میں اس کے پیش کرنے والی کچھ آرگنائزیشنز اہتمام کرتی ہیں ۔ اب شام ہوا چاہتی تھی جب ہم اس چھوٹی سی بلڈنگ میں داخل ہوئیں تو گراؤنڈ فلور پر کاؤنٹر تھا ، جہاں سے ٹکٹ لیۓ گۓ ،، بچے بڑے سب کا ایک ہی پیکج تھا یعنی ، 70 لیرا ،فی ٹورسٹ، ابھی تو ہم اکسائٹڈ تھے ، کہ ایک ایسا مظاہرہ دیکھیں گے جس کی بہت خواہش تھی اور اب اس کا اچانک موقع مل گیا ۔ٹکٹ لے کر اوپر کی منزل پہنچے یہ گول گیلری ٹائپ جگہ تھی ، لوگوں کے لیۓ اچھی انتظار گاہ تھی یہاں بھی مختلف قومیتوں کے خواتین و حضرات موجود تھے ، ہمارے بالکل ساتھ ایشیائی ایک مڈل ایجڈ میاں بیوی ، اور ایک جوان لڑکی اور اسکے ساتھ ایک 10 /11 سالہ بچی بھی تھی ، چند منٹ بعد ہی ہیلو ہاۓ ہو گئ ( حسبِ عادت ) فیملی خوب پڑھی لکھی تھی ، صاحب اور بیگم نے بتایا ہم ، ہندوستان سے آۓ ہیں ، میں ائرفورس کا ریٹائرڈ افسر ہوں ، یہ میری بیٹی اور یہ نواسی ہے ، ہم نے ترکی کی سیر کو بہت انجواۓ کیا ،،، جب ہم نے سوال کیا کہ اس " رقصِ درویش" میں آپ کی دلچسی کیسے ؟ تو موصوف نے کہا " دلچسپی صرف مجھے ہے ، بیوی اور ان بچوں کو نہیں تھی ،،،لیکن میں نے جو تھوڑا سا صوفی ازم کو پڑھا ہے ،، اس نے مجھے دنیا ، اور ساری کائنات کے رقص سے دلچسپی پیدا کی،، میں اکثر یوگا کرتا ہوں ، اس طرح گیان کرنے سے ، یہ دلچسپی یہاں تک لے آئی ! باقی فیملی سے یہ ہی کہا کہ جہاں باقی دن اپنی مرضی سے گزارے ہیں ، ایک میری مرضی کی جگہ دیکھ لو ،،، مزید 20 منٹ کے بعد اعلان ہوا، ایک چھوٹے سے ہال میں داخل ہوئیں ۔ 
اندر نیم اندھیرا تھا ،، سیمی سرکل میں کرسیوں کی تین چار رووز تھیں جن پر لوگ بیٹھتے رہے ، اور مزید 15 منٹ گزر گۓ ،، ماحول پر خاموشی اور احترام کا غلبہ تھا ،، کیوں کہ یہ صوفیانہ انداز پیشکش تھی ، کوئی دنیاوی شغل میلے والا سلسلہ نہ تھا ، فوٹو گرافی منع تھی ،،،لیکن نئی نسل کے لیۓ یہ پابندی جیسے نا پسندیدہ ہوتی ہے ، وہ ہر چیز فوری محفوظ کر لینے کی جلدی میں ہوتے ہیں ،، یہاں بھی کسی نا کسی طرح دو چار تصاویر لے لی گئیں ،، میرا اور جوجی اور لبنیٰ کا قریباً ڈیڑھ گھنٹہ نہایت محویت سے گزرا ،، لیکن احساس ہو گیا کہ بچوں کو ،،یا کسی ایسے فرد کو بالکل نہیں آنا چاہئے ، جنھیں کوئی دلچسپی نہ ہو ۔ اس طرح وہ سو رہۓ تھے ، یا بور شکل لے کر بیٹھے ہوۓ تھے ،،، چار بندوں نے موسیقی کے آلات سنبھال رکھے تھے ،، جنھوں نے سادہ سفید عبائیہ سے پہنے ہوۓ تھے اور تین وہ لوگ جنھوں نے درویش رقص کرنا تھا ان میں ایک ذرا بزرگ سے تھے ، ایک درمیانی عمر کا اور تیسرا جوان لڑکا تھا ،، تینوں تھکے تھکے لگ رہۓ تھے ،، پہلے پورشن میں تلاوت ،، اور پھر ترکی میں کچھ پڑھا گیا ،،، اور پھر آرکسٹرا اور   درویشوں کا کام تھا ، لیکن درویشوں نے پہلے بازو اور لبادے لپیٹ کے جو رقص پیش کیا اس میں ردھم یا سمٹری نہ تھی ،، لیکن ، پھر ، دوسرے کے بعد تینوں کا بھی اور آرکسٹرا کا بھی آپسی تال میل ہوا ،، تو ایک والہانہ پن محسوس ہوا دل یہ ہی چاہتا ہے کہ آپ خود بھی چند منٹ کے لیۓ ہی سہی ،،، لیکن اس کائناتی رقص میں شامل ہو جائیں ۔ ہمارے لیۓ ایک نیا اور اچھا تجربہ رہا ،، مجھے ، لگا کہ اس رقص کی "جاۓ پیدائش" پر جا کرتجربہ شاید بہتر ہو ،،، لیکن درویش کا ہاتھوں کے انداز کے پیغام نے متاثر کیا ،، وہ سیدھے ہاتھ سے اوپر والے سے لے رہا ہے اور اور بائیں ہاتھ سے بانٹ رہا ہو ،،،،،،،،،،،، اور پھر سکون ہی سکون ، آس پاس بھی اور باطن میں بھی ۔
ترکی ،،، خوبصورت ملک ، خوبصورت لوگ ،، خوبصورت تہذیب ،،" کم ازکم " یہاں چار ماہ رہا جاۓ ، تب شاید اس کے مختلف چند شہروں کے گوشوں کو دیکھا ، پرکھا جا سکتا ہے ،،، لیکن انسانی فطرت اسے بطورِ سیاح نچلا نہیں بیٹھنے دیتی ،، آگے چلو ،، آگے بڑھو ،، واپس چلو ، وطن کی یاد ، اہلِ وطن کی یاد ،،، وغیرہ ابنِ بطوطہ کو پڑھا تو پتہ چلا ،،کہ وہ محض 19 سال کی عمر میں گھر سے سیر کے لیۓ نکلا ، اور پاؤں کا چکر اسے عرب ، کچھ حصہ افریقہ کا ،، پھر ہندوستان ، مالدیپ ، ملایا ،، اور پھر ہزاروں میل دور چین ، جہاں چند سال رہا ،، اتنی سیلانی روح کے باوجود 50 سال سے اوپر کی عمر میں واپس طنجہ( مراکش ) پہنچ کر ہی آرام کا دورانیہ شروع کیا ،، یہ اور بات کہ اسے سکون پھر بھی نہیں تھا ، دراصل ،،،،۔
؎ امیر سے ہے تعلق نہ کچھ غریب سے ہے
سکوں اگر ہے میسر ، تو یہ نصیب سے ہے
پیارے ترکی میں اب سیر کے لیۓ دو دن رہ گۓ ہیں ،، تیسرا دن آخری دن ہو گا ،، !!! 
( منیرہ قریشی 24 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں