منگل، 28 اگست، 2018

' ترکیہء جدید' ( 8)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
' ترکیہء جدید' ( 8)۔
لبنیٰ کو گائیڈ کرنے والے ٹرکش ابراہیم نے فون کیا ،، مادام ، آج آپ لوگ حضرت " یوشع علیہ السلام " کے مزار پر ہو آئیں ، اس کے آس پاس کا ویو بھی بہت اچھا لگے گا ۔ ابھی تک لبنیٰ نے خود بھی کبھی نہیں سنا تھا کہ حضرت یوشع علیہ السلام کا مزار یہاں ہے یا ہے تو کہاں ہے ! نہ مجھے کسی ترکی سے ہو کر آنے والے ٹورسٹ نے بھی کبھی ذکر نہیں کیا تھا ۔ حضرتِ ابو ایوب انصاری رضی تعالیٰ عنہ کے ذکرِ مبارک ،، یا ،، مولانا جلال الدین رومیؒ کے ذکرِ خیر کے علاوہ ، ، ، اتنی نامور اور اہم ہستی کا ذکر نہیں سنا تھا ۔سبھی خواتین بہت خوش تھیں ۔ ایجویت بخوبی بات اور ہمارا نیا ٹارگٹ سمجھ گیا ،،، اور اسی نے ٹرکش زبان میں اپنے موبائل میں ریکارڈ کر کے ، اور پھر انگریزی زبان میں بدلا کر معلومات دیں کہ ،،، یہ علاقہ صرف 8/9 سال پہلے عام لوگوں کے لیۓ کھولا گیا ہے ،، ورنہ یہ ایک "ممنوع علاقہ " تھا، آرمی کے انڈر یہ علاقہ پہاڑی ہے ، یہ استنبول سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا ،،( جب میَں لکھتی ہوں ایک گھنٹے ، یا ڈیڑھ گھنٹہ ،، تو یہ 60 میل سے 100 ڈیڑھ سو میل تک کا فاصلہ ہوتا ہے )۔ جب ہم اس علاقے میں داخل ہوۓ تو حسبِ عادت پہلے آئ فون سے کچھ معلومات یوشع علیہ السلام بارے حاصل کیں کہ حضرت یوشع علیہالسلام ،، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خالہ ذاد تھے ،، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نائب یا خدمت گار کے طور پر ساتھ رہتے تھے آپؒ بہت خوبصورت بھی تھے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد ، اِنؒ کو بنی اسرائیل کا سربراہ بنایا گیا،اور بعد میں انہی کے ہاتھوں بیت القدس کی فتح نصیب میں ہوئی ،، انہی کی فوج میں 313 وہ مجاہدین تھے جنھوں نے اللہ کے حکم سے نہر کا پانی نہ پیا،، اور انہی کے ہاتھوں یہ فتح ہوئ تھی ، ، کچھ روایات کے مطابق 127 یا 110 سال کی عمر میں آپؒ نےانتقال فرمایا ،، اب جو مزار انٹر نیٹ میں حضرت یوشع کا بتایا گیا ہے ، وہ اردن کے ایک سرحدی گاؤں میں ہے !! اور ہم ترکی کے اس قصبے میں جس مزار پر فاتحہ خوانی کے لیۓ پہنچیں ہیں اس کا فاصلہ اردن یا بیت المقدس سے کہیں میچ نہیں کر رہا ،،،،،،،،،،،،۔
اب یہ قبرِ مبارک حضرت یوشع علیہ السلام کی کیوں مشہور ہے ،، کیا واقعی ، اللہ پاک کے ہی حکم ہوا تو وہ تبلیغِ دین کے لیۓ اس علاقے میں آگۓ ، یا یہ " انہی کے کسی ساتھی" کی تھی ،، جو تبلیغ کے لیۓ یہاں آۓ ۔ اور ہو سکتا ہے ، کہ وہ حضرت یوشع علیہ السلام کے نام کو اپنے تعارف کے لیۓ استعمال کرتے رہے ہوں ،، تاکہ لوگ ان کے قریب آ جائیں ،، یا جو بھی تھا ، ،،،یہ قبرَ مبارک حضرت یوشع ؒ کے ہی نام سے مشہور ہے ۔ جب ہم اس سر سبز پہاڑی علاقے میں داخل ہوئیں تو بہت خوب صورت علاقہ لگا یہاں کی پہاڑیاں بہت اونچی نہیں ہیں ،کہیں کہیں آرمی پکٹس بنیں ہوئیں تھیں ، اور فوجی فل یونیفارم میں اسلحہ لیۓ الرٹ نظر آۓ ،، تو گویا یہ ابھی بھی آرمی کا ہی علاقہ تھا لیکن صدر طیب اردگوان نے 9/8 سال پہلے اس علاقے کو عام لوگوں کے لیۓ کھولا ،،، تب حضرت یوشع علیہ کے مزار پر لوگوں کی آمد ورفت شروع ہوئ ، ہم نے مزار پر موجود ایک شخص سے جو ذرا انگریزی شُد بُد رکھتا تھا کہ یہ 9 گز کا مزارکس کا ہے اور یہ اتنی لمبی قبر کیوں ہے ،کیا قد بہت محض تکریم کا ایک انداز ہے کہ یہاں اعلیٰ ، یا بہت اہم ہستی مدفون ہے " جو بھی تھا ،،، آج ہم ذہن اور دل میں حضرت یوشع ؒ کی محبت بساۓ ، یہاں موجود تھیں ۔ یہ ایک قصبہ یا گاؤں ہے ،، جس کا بہت مشکل سا نام تھا ،، ( میَں نے اس کا نام لکھا تھا ، لیکن وہ چھوٹی ڈائری بھی واپسی کے سفر میں جہاز میں رہ گئی ) ،،، خیر ،گاڑی ایک جگہ کھڑی کر کے تھوڑی سی چڑھائ چڑھی گئ ،، اور سامنے ایک اداس سا باغیچہ تھا جس کی حدود کے شروع میں ہی ایک جنگلے کے اندر ایک " نو گزی قبر " تھی ۔ ( کومل ذیشان کی معلومات کے مطابق 54 فٹ لمبی تھی ) ،،،، ہر قبر یا قبرستان کی ایک خاص "فضا " یا ،، اثرات محسوس ہوتے ہیں ۔ اور یہاں جو تائثر جو مجھے محسوس ہوا ،، وہ لفظ " سکون " کا مظہرتھا ۔ اور ایسا ہی تائثر جوجی اور لبنیٰ کا بھی 
تھا۔ 
یہ قبر زمین سے تین چار فٹ اونچی تھی ، ہم نے فاتحہ خوانی کی اور دیکھا کہ ارد گرد بیٹھنے کے لیے کوئی بینچ یا جگہ نہیں تھی ،، قبر ایک چہار دیواری میں تھی اسی چہار دیواری کی بہت چھوٹی سی بڑھی ہوئی اینٹوں پر مرد و خواتین بہ مشکل ٹکے ہوۓ ، ہاتھوں میں سورۃ یٰسین والے پارے پکڑے ہوۓ بہت ہلکی آواز میں تلاوت کر رہے تھے ،، پوچھنے پر پتہ چلا ، عام طور پر منت ماننے کے لیۓ آنے والے یا منت پوری ہونے کے بعد آتے ہیں تو یہاں سورۃ یٰسین آکر پڑھتے ہیں !ہم یہاں چند منٹ گزار کر ، اسی مزار کے گرد کچھ جائزہ لینے نکلیں ، یہاں چند چھوٹی اور نارمل سائز کی قبریں تھیں ، جن کے اوپر کچھ نشان بناۓ گۓ تھے ،، ہو سکتا ہے یہ اس علاقے کی کچھ روایات ہوں ، یہ چیز ہے کہ یہاں ہر جگہ نہایت چھوٹی جھاڑیاں تھیں ، جو ذیادہ سبز ، اور چھوٹے بڑے پھولوں کچھ کاسنی کچھ گلابی پھولوں کے ساتھ موجود تھیں ،، جو دوپہر کی چمکیلی دھوپ میں مسکراتی محسوس ہوئیں ۔ یہ قبریں 15/16 ہی تھیں ۔ خود نو گزی قبر پر سکون کا سایہ تنا ہوا محسوس ہوا ،،، اگر یہ حضرت یوشع علیہ السلام کی جاۓ قیام نہیں بھی تھی ،، تب بھی کسی ایسی پاکیزہ ہستی کی آرام گاہ تھی ،، جن کا درجہ بہت بلند ہو گا ، کہ کوئی جھنڈا نہیں ، کوئی دھاگے نہیں ، مزار پر کوئی چھت نہیں ،، بس سورۃ یٰسین کی ہلکی ہلکی تلاوت کےہلکورے ،،، اور رات اس علاقے کی طرف کوئی نہیں آتا ۔ بالکل بند کر دیا جاتا ہے ،،، اور پھر سکون و سکوت !!!،اسی مٹھاس بھری پُر سکون وادی نے پھر چند الفاظ سُجھا دیئۓ ،،، جو دراصل اس صاحبِ مزار کی بے نام سی محبت کے نام ہیں !۔
" مزارِ یوشعؒ " ( یا مزارِ بے نام )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
نو گزی قبر 
آسودگی تمکنت ہے گِردا گِرد
پھولوں کی مہکار ہے
چہروں کی بہار ہے
طائرانِ خوش رنگ ہیں 
یٰسین کی جلترنگ ہے
ساکن ہیں ساکنانِ چمن 
سکون ہی سکون ہے
آنکھ کے تِل سے مگر
اوجھل رہے ، صدیوں تلک
سمیٹ کے بیٹھے رہۓ سکون و تمکنت
رات مگر اِک اور ہی ہیت ،اور ہی صورت میں 
دبدبہ ، رعبِ حُسنِ ہیبت میں
جانے کہاں سے آۓ ، اور بس گۓ
درمیاں اِس وادیء ذی انفُس میں ( 31 اگست 2017ء ترکی )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
یہاں سے واپس آنے کو کو قطعی دل نہیں چاہ رہا تھا ،، میَں نے پچھلے صفحات میں ہی لکھا تھا کہ کچھ جگہیں ،،، جلدی بھگانے والی اور کچھ رُک جانے کی کہنے والی ہوتی ہیں ،،، مجھے یہ جگہ رُک جانے کا کہہ رہی تھی ،، بھلے چند دن ،،، یا چند ماہ یا کچھ سال ،،، !!؟ لیکن دل کو سکون اور ٹھنڈک اور بے فکری کا جو بھر پور احساس جا گزیں یہاں ہوا ،، وہ احساس مکہ و مدینہ میں ہوا تھا ،، مجھے نہیں معلوم ، ایسا کیوں ہوا ،، کاش مزید کچھ علم ہو سکتا ۔ 
یہاں نہ تو بنگلے ، یا فلیٹوں کی قطاریں تھیں ، نہ دور دور تک کوی شاپنگ مالز ، ،، نہ کچھ اور لوازمات و خرافات !!! ، مزار پر گھنٹہ بھر ٹھہر کر ، پھر اترائ کی طرف آ گۓ ، اور یہاں ایک جانب چند ایسے چھوٹے سٹال تھے ، جن میں مصنوعی زیورات ، ہر طرح کے سکارف ،، اور کچھ مزید ہوم میڈ اشیاء تھیں ،،، کچھ کھانے پینے کی سادہ اور لوکل ، چیزیں بک رہیں تھیں ۔ اور ایک بات ان سب میں مشترک تھی کہ،،،، "سب ہی دکان دار خوش مزاج ، دھیمے مزاج ، والے مؤدب افراد تھے "۔
مجھے لگا کہ یہ اس فضا کے اثرات ہیں ، شاید ،،،،،،،،،،،،،،،کچھ دیر خریداری کی گئ اور جب وین کے پاس آۓ تو ابراہیم ( گائیڈ ) کا فون آیا ،، " جب آپ یہاں پہنچ ہی گئیں ہیں تو اس کے قریب ترین گاؤں کو بھی دیکھ آئیں ، آپ کو اچھا لگے گا " ،،، اور ہم اُترائ اترنے لگے اچھے خاصے زِگ زیگ موڑ کاٹ کر ایک مزید خاموش ، سے گاؤں میں داخل ہوۓ ،، یہ ایک ایسا گاؤں تھا ،، جسے مطمئن اور خوشحال لوگوں کا نام دیا جانا چاہیۓ ۔۔۔ گلیاں سڑکیں تنگ لیکن پکی پتھریلی ، انہی کے موڑ کاٹتی ، ارد گرد عام چھوٹی دکانیں ،، اور پھر ایک جگہ مزید اترائی کے بعد دو تین ہوٹیل یا ریسٹورنٹ تھے،،،، اس وقت قہوہ یا کافی پینے کی طلب تھی ،، اس لیۓ پہلے ہوٹل ہی جا پہنچے ،، بچوں نے یہاں مرضی کی کچھ سنیکس وغیرہ خریدے لیکن بڑوں نے کچھ نے قہوہ کچھ نے کافی منگوالی ،، ( یاد رہۓ کہ ترکی میں چاۓ پاکستانی ٹیسٹ سے شاید ہی ملے ) یہاں ہم جس ریسٹونٹ میں بیٹھے ،، اول تو یہاں اکا دکا سیاح تھے ، ماحول پر سکون تھا ،، اور پیش منظر لا جواب ،،، جی ہاں یہ ریسٹونٹ ، مر مرہ کے کنارے کو چھو رہا تھا اور جہاں ہم بیٹھیں اس کے ساتھ دو ڈھائی فٹ چوڑی اتنی نیچی دیوار تھی ، جس پر کرسی پر بیٹھ کرکہنیاں اس دیوار پر رکھی جا سکتی تھیں ۔ اور بیٹھتے ہی تین چار تندرست مرغابیاں پھڑپھڑاتی ہوئی کچھ اسی دیوار پر بیٹھ گئیں اور کچھ تیرنے لگیں ، یہ نیچر کا دل آویز منظر تھا ،،، یہ مرغابیاں ، انسانوں سے مانوس لگ رہیں تھیں ، شاید انھیں یہاں سے چارہ ملتا رہتا تھا ، یا مرمرہ کے اس جگہ پر مچھلیاں بہت ہوں گی ، لیکن یہ نظارہ جلدی جلدی کیمروں میں محفوظ کر لیا گیا ۔ 
اس دوران ابراہیم کا پھر فون آیا ، کہ میرے ایک واقف بندے کی یہاں دکان ہے وہ آپ کو مناسب ریٹس پر چیزیں دے گا اگر آپ خریداری کرنا چاہتی ہیں ،،، خواتین اور شاپنگ سے انکار ،، ممکن نہ تھا ! اسی طرف چل پڑیں ،، لیکن میِں نے پتھروں کی بنی اس تنگ گلی سے گزرتے ہوۓ آس پاس کے منظر کو دیکھا کہ ایک کمزور سی بزرگ خاتون پرانے طرز کے ٹرکش لباس میں ( بند بٹنوں والی پائنچے کی گھیر دارشلوار اور لمبا فراک ، سر ڈھکا ہوا ) ایک دکان کے باہر بنے چبوترے پر بیٹھی تھیں ، اس نے ایک پرات میں گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھے ہوۓ تھے ، اس کے گرد 5/6 آوارہ کتے بیٹھے تھے تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ چند ٹکڑے پھینکتی جا رہی تھی ، میَں عادت سے مجبور ہو کر کھڑی ہو گئ اور پوچھا ، وہ انھیں گوشت کیوں ڈال رہی ہے ، ظاہر ہے وہ تو وضاحت نہ کر سکتی تھی، دکاندار نے واضع کیا کہ " جب کسی کو منت ماننی ہو تو بے زبانوں کو کھانا کھلاتے ہیں " ،،، تو گویا ہمارے ہاں کی طرح پرندوں کو باجرہ ڈالا جاتا ہے تو کچھ ملکوں میں کتوں کو گوشت کھلایا جاتا ہے ، مقصد دعاؤں کی قبولیت کا نداز ہے ۔ 
ابرہیم کے دوست کی دکان ، اچھی نکلی ، دکاندار اور اس کی جواں سال بیوی دونوں اسے چلاتے تھے ، اس گاؤں میں یہ دوسری عورت ہمیں نظر آئ ،، اور اس کا لباس بھی ساتر اور سر سکارف سے ڈھکا ہوا تھا ۔ ابھی تک کوئ اور عورت نظر نہیں آئ تھی ،، دکاندار ، میاں بیوی ، مہذب تھے ، بیوی تو انگلش سے بالکل نا واقف ، لیکن میاں کام چلا لیتا تھا ،، سب کی پسند اور مرضی کی اشیاء وہاں سے مل گئیں ، اور یوں گاہک اور دکاندار دونوں کا فائدہ ہوا ،، باتوں میں دکاندار نے بتایا ہم دونوں اس دفعہ حج کر کے آۓہیں ، الحمدُ للہ کا وہ لفظ بہت بار استعمال کرتے تھے ،، کوئی شک نہیں کہ ترکی کے دیہات ، پرانی تہذیب و تمدن کے ساتھ نئے طرزِ رہائش کا خوبصورت امتزاج ہیں ، یہ دیہات ، میگزین کی تصویروں سے نکلا کوئ 200 سال پرانا تائثر بھی دے رہا تھا ،،، اور سکون ہی نہیں " پُر سکون " ہونے کے اثرات بھی محسوس ہو رہۓ تھے ،،،،، دراصل " توکل ۔ اور تحمل " ہی بندے کی زندگانی کی اصل کامیابی کہی جا سکتی ہے ۔
اور ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا ،، زِگ زیگ چڑھائ ،، اور پھر وہی خوبصورت استنبول میں انٹری ،،، شام ہوا چاہتی تھی ،، ہم مر مرہ کے کنارے تک ایک جگہ سے گزرے تو کچھ دیر یہاں ٹھہرنے کا دل چاہا ،، سڑک کنارے ریسٹونٹس کی قطاریں تھیں ،، ایک جگہ رکیں ،، ریسٹورنٹ چار پانچ سیڑھیاں چڑھ کر بنے ہوۓ تھے ،، تاکہ مرمرہ کا دور تک نظارہ کیا جا سکے ۔ یہ قوم استھیٹک سینس سے مالا مال ہے ،، یونان کے قریب ہونے کا فائدہ رہا ۔ مر مرہ کا جگہ جگہ اپنا نظارہ دینا ،، بھی کمال نظارہ ہوتا ہے ۔ یہاں ہم جس ریسٹورنٹ میں ٹھہریں ، انھوں نے فورا" قہوہ پیش کیا ،، اتفاق سے ہم اور چند ہی اور گاہک تھے ، اس لیۓ بھی خصوصی توجہ ملی ،، اور چونکہ پہلے سبھی باہر سڑک کنارے لگی کرسیوں پر بیٹھ گئیں ،، جہاں "شیشہ پینے "کی سہولت دھری ہوئیں تھیں ۔ منہ میں " نَۓ " لے کر سیلفی بنائ جا رہیں تھیں ،، بلکہ جوانان نے پوچھا بھی کہ ایک دفعہ کا شیشہ پینے کے ریٹس ؟ تو وہ کچھ ذیادہ نکلے ، لہذٰا شغل کے طور پر بھی پیسے خرچنے کو دل نہ مانا ۔ اور کچھ میرے اور لبنیٰ کے کٹڑ جملے بھی سننے پڑے ۔ 
اس دوران کافی یا آئس کریم آنے تک کچھ وقت لگا تو شام کی ٹھنڈک سرایت کرنے لگے ،، تب ملازمین نے سب کو ایک ایک چھوٹا سرخ فلالین کا کمبل دے دیا ، تاکہ کندھوں پر ڈال لیا جاۓ ،، ایک تصویر یہ بھی لی گئ ،، ایک صاحبہ نے تصویر دیکھ کر کہا ، کیا آپ سب نے ایک رنگ کی کیپ شالز خریدیں ؟؟؟
اور مرمرہ کنارے یہ یاد گار شام منا کر واپس استنبول جانے لگے تو ایجوہت سے کہا کہیں استنبول شہر کے اندرکی گلیاں دکھا لاؤ ،،، تو وہ خوشی خوشی ( ہر ڈرائیور ایسا نہیں ہوتا ) ،، استنبول کے اندرون شہر لے گیا ،، بالکل پنڈی شہر لگ رہا تھا ، کئ گلیاں اتنی تنگ، کہ وین بہ مشکل مڑ سکتی تھی ،، یہاں پھرنے کے لیۓ اگر چند مزید دن ملتے تو اندرون گلیاں ضرور پھرتے کہ جو چند لوگ بزرگ نظر آۓ ، انھوں نے ترکی ٹوپی ، اور لمبا کوٹ پہن رکھا تھا ،، تو گویا ابھی تہذیب ِ قدیم کہیں کہیں جلوہ دکھا جاتی ہے ۔ ان ہی گلیوں سے نکلتے ہی فورا" استنبول شہر کا ایک داخلی دروازہ کی ٹوٹی دیوار نظر آئی ،، اور اسی کے کنارے ایک بازار کی سڑک ، یہیں ایک ریسٹورنٹ میں رکنے کا فیصلہ ہوا کہ ،، کچھ ہمیں" لسی "بنتی نظر آگئی ،، جس سے منہ میں پانی آگیا ۔
( منیرہ قریشی 28 اگست 2017ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں