پیر، 20 اگست، 2018

ترکیہ جدید(6)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
۔" بُرصہ " کی کیبل کار رائیڈ ،،، اور جنگل اور پگڈنڈی ،،، اور یہاں کچھ بہادر لوگوں نے فارم ہاؤس بناۓ ہوۓ ہیں ،، حالانکہ معلومات کے مطابق
 یہاں ، بھیڑئۓ اور ریچھ کافی مل جاتے ہیں !۔
 ترکیہء جدید(6)۔
اورآج چوتھے دن ہم ترکی کے ایک اور صوبے " بُرسہ یا ' بُر صہ" کی سیر کو نکلے ، یہ استنبول سے دو گھنٹے کی کار کے سفر کی دوری پر تھا ، صبح ذرا زیادہ جلدی تیار ہوۓ ، لبنیٰ ہماری پروگرام انچارج تھی ، ایک تو وہ بہت پہلے ترکی آ چکی تھی ، دوسرے ، اس کا داماد حال ہی میں ترکی کے ایک اور صوبے میں ایک بلڈنگ بنا نے کا پروجیکٹ مکمل کرکے ، جا چکا تھا ، لیکن اب یہاں پرخلوص دوستیوں کا باغ چھوڑ گیا تھا ، انہی دوستوں میں سے ایک ابرہیم تھا ، جس نے یہ وین اور ڈرائیور کا انتظام  کر  دیا تھا ( مفت نہیں ،بلکہ ڈالرز میں  ادائیگی کا کہا گیا تھا ) ۔ ابرہیم ہی روزانہ ایک فون لبنیٰ کو کرکے تجویز دیتا ، اور لبنیٰ کی تفصیلی وضاحت سے ہم سب " ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے " ،، کے جملے بول دیتیں ۔ مقصد اچھی جگہوں کی سیر تھا  جو کہ وہ پورا ہورہا تھا ۔
بُرصہ ، پہنچنے تک چاۓ کی سخت طلب ہو چکی تھی ، ہمیں بتایا جا چکا تھا کہ یہ علاقہ مری کے بھور بن یا پتریاٹہ جیسا ہے ، اس لیۓ اپنے ساتھ ایک آدھ سویٹر رکھ لیں ، ہم نے وہاں پہنچتے ہی جب ارد گرد نگاہ ڈالی تو لگا کہ بھوربن ہی پہنچ گئے ہوں ، فرق صرف صفائی اور آرگنائز بلڈنگز اور گھروں کا تھا ۔ اور یہ سب قانون کی پاس داری اور عمل درآمد سے ہی ممکن ہوسکتا ہے ۔
چاۓ کے لیۓ ایک اوپن ایئر ریسٹورنٹ کا انتخاب ہوا تاکہ آس پاس کے نظارے بھی اوجھل نہ ہوں ۔
بڑوں نے چاۓ اور بچوں نے جوس سے اپنی اپنی تواضع کی ، چاۓ کے بعد گروپ کے ہمت والے افراد ارد گرد پھرنے لگے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ۔ میَں ، جوجی اور لبنیٰ کچھ دیر تو بیٹھی رہیں ، کچھ آرام ہو گیا تو ہم بھی ریسٹورنٹ کے سامنے ایک تین فٹ اونچی دیوار کی چہاردیواری کی طرف چل پڑیں ،،، جس کے پتھر کے آرچ والے گیٹ پر " پارک " کا لفظ تو فوراً پڑھا گیا لیکن ترکی میں لکھا "ارتغل " کا لفظ پڑھنے میں مشکل ہوئی ،،، ہم تو محض پارک کے لفظ سے یہ سوچ کر اندر داخل ہوئیں کہ ،، پارک کی سجاوٹ دیکھیں گے ،،،، لیکن اندر تو ایک شہرِ خاموشاں تھا ،،، یعنی اکا دکا قبریں تھیں ، جن کے سرہانے اور پائینتی لوح تھیں ،، اندر داخل ہوتے ہی چند قدم پر جو پہلی قبر تھی اس کے سرہانے " حلیمہ حاتون " لکھا ہوا تھا ،،، نیچے کی تحریر بالکل سمجھ نہ آئی ،،، چند دوسری قبروں پر بھی گئیں لیکن ، ان پر لکھے نام اجنبی لگے ،، تو جو تختی پڑھی جا سکی ، لبنیٰ کہنے لگی نام سے تو مسلمان لگ رہی ہے چلیں فاتحہ پڑھ لیتے ہیں ۔ اور ہم فاتحہ کے بعد باہر آگئیں ، اور گروپ کے ممبران سے بھی اس کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ ہم تو خود اس قبرستان یا اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں تھیں ۔ ،،،، جی ہاں یہ اگست ستمبر 2017ء کا سال تھا ،،، جب پاکستان کے لیۓ " ارتغل " قطعی اجنبی تھا ۔،،، اور شاید خود ترکی والوں نے بھی اس وقت تک اس کے قبرستان کو وہ تاریخی " گیٹ اَپ " نہیں دیا تھا کہ عام سیاح واقف ہوتے ۔اور ہم وہ سیاح تھیں ،، جو ترکی کی تاریخ کو سلطنتِ عثمانیہ سے شروع کر کے ، یہیں تک اور پھر تاریخ خلافت تک پڑھا ہوا تھا ، اور بس اسی لیۓ ایمانداری کی بات ہے کہ اس شہر کی تاریخی حیثیت سے واقفیت ہی نہیں تھی ۔
2020ء تک اب ارتغل ہر پاکستانی کے گھر پہنچ چکا ہے ، ترکی نے اپنی شاندار تاریخ کے صفحات میں سے وہ تاریخی شخصیت نکال کر دنیا کے سامنے لا رکھی ۔ جس کے بارے میں دشمن کہتے ہیں ،،، " ایسی کوئی شخصیت تھی ہی نہیں " ،،، اور ہمدرد کہتے ہیں ،" ارتغل غازی کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں محض ڈیڑھ صفحے پر مشتمل ہے " ،،، لیکن ایک گمنام یا ،، کم نام والا ہیرو تھا، ڈرامہ لکھنے والے نے " تاریخی ہیرو" بنا کر استعارہ سے ستارہ بنا دیا ۔ اور ایک جرات مند، صاحب ایمان ،اور بلند حوصلہ شخصیت کو ایسے اوصاف کے ساتھ سامنے لایا ،،، جو آج کے وقت کی ضرورت تھی ۔
اب ہم عازمِ " بُرسہ یا بُرصہ " ہوتے ہیں ۔ یہاں پہنچے تو صبح کے ابھی گیارہ بجے تھے اور آج ایک خوبصورت چمکیلا دن تھا ۔ بُرصہ کا پہلا تائثر " سبز رنگ اور سکون " کا تھا ۔ یہاں سارے ماحول پر سبز رنگ کے مختلف شیڈز کا راج تھا ۔ جیسے قدرت کے مقرر شدہ فرشتے نے ہر سبز شیڈ کے سٹروک لگاۓ ہوں ۔اللہ نے دنیا کو رنگوں سے سجایا ، اور پھر ہر رنگ کے شیڈز بھی بناتا چلا گیا ، اب یہاںسبز رنگ کا جوشیڈحاوی تھا ، اسے ہم ہلکا سبز کہہ سکتے ہیں یا" درمیانہ سبز " ۔۔یعنی اس میں گہرا سبز ، یا تیز سبز کا شیڈ کہیں نہیں تھا ۔تو گویا یہ ایک ایک ایسا خطہ تھا جس کے " رنگ ، اگر باتیں کریں یا اپنا عنوان منتخب کریں تو کہیں :" ٹھنڈی سوچ والا سبز خطہ" ،اور خوشگوار ہوائیں ایسے سُبک انداز سے چل رہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں " ٹھنڈے ، سبز ہی سبز علاقے میں خوش آمدید " !!
یہاں کی فضا نے تو جادو سا کر دیا تھا ہم میں سے ہر ایک انتہائی پُر جوش تھا ،،،،،،،،،، یہ میں کہاں سے کہاں نکل گئی ۔ مجھے تو ویسے بھی ہر نئی جگہ کچھ کہتی ، کچھ پیام دیتی محسوس ہوتی ہے ۔۔۔ یہ تو پھر پہاڑی علاقہ تھا جسے سر سبز نہیں " سبز ہی سبز " کہا جا سکتا تھا ۔
یہاں مقامی لوگوں اور سیاحوں کے لیۓ " کیبل کار سروس " بہت کشش رکھتی ہے ،،،،۔ مجھے اپنے ہاں کی کیبل کار کا جھٹکے سے رکنا ، مسافر کا جھٹکوں سے چڑھنا ، اترنے کا تجربہ تھا ،،اور اب میَں ان جھٹکوں کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی ، ( ایکسیڈنٹ کے بعد مجھے تیزی سے موومنٹ کرنا محال ہو چکا تھا ) اس لیۓ میَں نے صاف انکار کر دیا کہ تم لوگ جاؤ میں اسی ریسٹورنت سے باہر کے نظاروں کو انجواۓ کروں گی ، میَں خواہ مخواہ دوسروں کے لیۓ مشکل کیوں پیدا کروں ،، لیکن اس پر میری بیٹی نشل اور ایمن ثمن بالکل راضی نہ ہوئیں ،، میَں نے نشل سے کہا اگر تم نہ گئیں تو موسیٰ نہیں جاۓ گا ، اور یہ تو ہرگز نہ ہوگا ، ایمن ثمن میں سے ایک نےضد کی ،کہ ٹھیک ہے میں تو آپ کے پاس رُکوں گی ،، یہ محبت اور کیئرنگ انداز کہیں کم ہی نظر آتا ہے ، سب نے جا کر ٹکٹ لیۓ اور ہم دونوں نےاب اگلے دو ،تین گھنٹے گزارنے کے لیۓ خود کو تیار کیا ، کہ اتنے میں دوسری " ٹوِن " بھاگتی ہوئی آئی ،، 'خالہ ، میَں نے کیبل کار کے رکنے ، اور اپنی ایک پارٹی کو بٹھانے کا تجربہ کر لیا ہے ، یہاں کسی قسم کے جھٹکے ، یا کوئ اور مسئلہ نہیں ،، آپ بہ آسانی چڑھنا ، اترنا کر لیں گی ، ،، میَں نے اس کے پُر جوش چہرے کو دیکھا ،تو اعتبار آگیا ۔ ثمن اور میِں سیڑھیاں چڑھ کر ٹکٹ گھر تک گئیں ، اور قطار میں جا کھڑی ہوئیں ، خوبصورت خوب کھلی اور صاف کیبل کاریں دو منٹ کے وقفے سے آ جا رہی تھیں ، اور ان کے رکنے کا مناسب وقفہ بھی تھا ، اس لیۓ دل مضبوط کر لیا ، جوں ہی ایک" ٹوِن "ٹکٹ لے آئی ، ہم سامنے آئی کیبل کار میں چڑھیں ، ثمن اور نشل ، موسیٰ نے بہت چوکس ہو کر مجھے اندر داخل کیا ، ایک کیبل کار میں صرف چھے لوگوں کو بیٹھنے کی اجازت تھی ، اور ہم تو اس میں چار تھے ، باقی لوگ پہلے سٹاپ پر پہنچ چکے تھے ،، ایک اطمینان کی کیفیت ہوئی توکھڑکی سے نیچے نظروں نے بتدریج گھنے ہوتے جنگل کا احاطہ کیا ،، تو دل شاد شاد ہونے لگا ،، میَں تو اس کی شکر گزاری کے لیۓ بس لفظ ڈھونڈتی رہی ،، اسی کی ذات ہے " دلوں اور آنکھوں کو ٹھنڈک عطا کرنے والا " ،، درختوں کی ایک قسم تو سَرو یا کرسمس ٹری کی تھی ،اور دوسری قسم ،جو وافر تھی ،کا پتہ نہیں چلا ، لیکن وہ لمبے پتلے پتوں والے ، اور اس قدر اونچائی لیۓ ہوۓ تھے کہ کئی جگہ ان کی چوٹیاں کیبل کار کو چھُو رہی تھیں ، بُلے شاہ کے کلام میں اسد امانت علی نے " اُچیاں ، اور لمبیاں " کی وضاحت جس سُر اور سوز میں کی ہے ، اس کا مطلب بھی سمجھ میں آنے لگا ،،، میَں سکون کی لہروں پر تھی ۔ یہ سبز درخت بھی ہلکے سبز رنگ میں تھے ۔جب 25/30 منٹ کی رائیڈ کے بعد پہلا سٹاپ آیا ، تو یہاں ایک الگ دنیا آباد تھی ۔ زیادہ لوگ یہیں آدھ گھنٹہ رکتے اور پھر اگلے سٹاپ کے لیۓ چل پڑتے ۔ ہمارے باقی ممبران ہمارے ہی منتظر تھے، یہاں ایک چھوٹا بازار تھا جہاں سوینئرز ، سویٹروں ، کیپ شالز ، اور کافی کچھ پہنے جانے والی چیزوں کے سٹالز تھے ،، اس بازار کے حصے سے ہٹ کر بچوں کے لیۓ جھولے اور اُن کی دلچسپی کا بہت کچھ تھا ، جو یہ چھوٹے دونوں موسیٰ اور نشمیہ کا بیٹا حمزہ ، خوب مزے کرنے لگے ، اور یہیں سبھی لڑکیوں کو مرضی کی چیزیں بھی ملیں، چنانچہ جو شاپنگ کی زیادہ شوقین نہیں تھیں انھوں نے بھی کچھ نا کچھ خرید لیا ، دراصل یہاں کی چیزوں میں زیادہ رنگ ، گھریلو صنعت کا نظر آیا ، جو منفرد اور پُر کشش لگا یہاں سے کافی بھی پی گئی ، اور پھر دوبارہ کیبل کار کی سواری کی گئ ، اور ذرا مزید اونچائی کی جانب سفر کیا ، اس دفعہ کیبل کارکے مسافر بد ل گئے تھے ، ، نیچے گھنے جنگل اور اوپر صاف آسمان ,,اور ہم ان کے درمیان معلق ،،، عجیب تجربہ !! شاید روح بھی نکلتے وقت ایسے معلق ہوتی ہوگی ۔ 
مزید 25 منٹ کی رائیڈ ، مزید اونچائی ، اور پھر سٹاپ اوور،،، اور یہاں چند مشہور ہوٹیلز کی چَین بنی ہوئی تھیں ،، انہی میں ہم استنبول میں جس ہوٹل میں ٹھہری تھیں ، اس کا بھی بہت بڑا ہوٹیل بنا ہوا تھا ۔ کچھ ریسٹورنٹ ، کچھ چیزوں کے سٹال ، اور کچھ دیر ادھر اُدھر کی پیدل مارچ کے بعد واپسی ، اب پھر " ہم تم ہوں گے جنگل ہوگا ، " والا سحر طاری ہوا ،، اور مکمل 40/45 منٹ کی رائیڈ کے بعد زمین کو چھوا ۔ ،،،، ابھی عصر کا وقت تھا ، اس لیۓ وین میں بیٹھتے ہی ابراہیم کی ہدایت کے مطابق ، یہیں " نزدیک " ہی ایک خوبصورت جھیل ہے ، آپ لوگ وہاں سے ہوتے آئیں کہ مچھلی بہت تازہ ملتی ہے ، وغیرہ،، اب سفر جوں شروع ہوا تو ہم پہاڑی راستے کے بجاۓ ایک ویرانے سے گزرتے چلے گۓ ۔اس دوران ایک گھنٹہ گزر گیا ،، دور دور کوئی آبادی نہیں ،، کچھ جگہ سے سڑک بھی کچی ،،، بےآباد خشک ٹیلے ،، کہیں کہیں دور ٹین کی چھتوں والی کوئی ورکشاپس ، اور شاید مزدوروں کی رہائش گاہیں تھیں ۔ لیکن ایک ڈوبتا سورج ، اس سارے منظر کو ہلکے سُرخ رنگ میں رنگ رہاتھا ، اور ہم اس سفر سے ذرا متفکر ہو رہی تھیں کہ کہیں ڈرائیور راستہ بھٹک تو نہیں گیا ۔ اور اب ہم اُس جھیل کی خوبصورتی کیسے انجواۓ کریں گی ،،،؟ 
خیر مغرب ہونے تک ہم جھیل کے علاقے میں داخل ہوۓ ، باوجود کم روشنی کے اس جھیل کے منظر نے ایک اور ہی دل آویزی سے اپنا حسن دکھایا ،،، چاند کی چودھویں تو نہیں تھی  شاید گیارھویں تھی اور چاند کے حسن کا عکس جھیل پر پڑ رہا تھا ، اس کے کنارے بالکل  قدرتی  طریقے سے " اَن گڑھ " ہی انداز کا بنا فرنیچر رکھاہوا تھا ۔ یعنی کٹے درختوں کے بینچ ، میزیں ، اور وہاں بنا ہوا ،ایک ہی ہوٹل وہ بھی لکڑیوں کی گیلیوں سے بنا ہوا تھا ، بجلی کی روشنی ، کم تھی یعنی سارا ماحول روشنیوں میں نہایا نہیں ہوا تھا۔ شاید وہ جھیل ، اور چاند سے لطف لینے کی طرف مائل کرنا چاہتے ہوں ۔اور کچھ دیر بعد ہماری نظریں خوبصورت مرغابیوں پر پڑیں ،، جو ہمارے آنے سے اور ذرا شور سے ڈریں کچھ اُڑیں ، کچھ واپس آ بیٹھیں اور یہ نظارہ بھی خوش کن تھا ۔ مغرب پڑھ کر کھانے کا آرڈر سبھی کی پسند کے مطابق دیا گیا ، جھیل کی تازہ مچھلی تلی ہوئی آئی تو ، پہلے نوالے نے ہی وہ لطف دیا کہ آج تک نہیں بھولا ، ، نشل اور اس کے بچے مچھلی چکھتے بھی نہیں تھے ،لیکن سب کے اصرار پر جب انھوں نے کھایا تو انھوں نے بھی خوب لطف اُٹھایا۔ باقی کیا کچھ تھا ،، اچھا ہی ہوگا ، اور مچھلی کی تازگی اپنی جگہ لیکن پکانے کا طریقہ بھی بہت خوب تھا ،،، یہاں بچوں نے ادھر اُدھر پھر کر اس نیم جنگل ، ایریا کو بہت پسند کیا ،،، اور اب عشا بھی ہو چکی تھی ، بغیر انگریزی جاننےکے ٹرکش لوگوں کا شکریہ ادا کیا ۔ اور واپسی کے لیۓ مزید ڈھائی گھنٹے کے سفر کے بعد اپنے ہوٹل میں پہنچیں تو بہرحال بچے بڑے تھک چکے تھے ، فریش ہو کر سب میرے کمرے میں آکر قہوہ کا دور چلا ، اور کل جمعہ تھا اس لیۓ "حضرت ابو ایوب انصاری ر ض" کے مزار پر زیارت کرنے اور ان کی مسجد میں جمعہ پڑھنے کا پروگرام طے کیا ۔ 
صبح جمعہ کی تیاری کے بعد ایجویت کو حضرت ابو ایوب انصاری ر ض کے مزار چلنے کا کہا ، اور یہ مزار مبارک اس ہوٹل سے آدھ گھنٹے کی ڈرائیو پر تھا ، اس دن کا انتظار ایک مدت سے تھا ،، چند سال پہلے میرے بیٹے ہاشم کے ایک دوست کو اپنی فیملی کے ساتھ ترکی کی سیر کرنے کا موقع ملا ، وہ وہاں سے میرے لیۓ ایک سکارف اور ایک تسبیع تحفہ لایا ، تو میں دیر تک اس سے مزار کے مناظر بارے پوچھتی رہی ،، لیکن ، اس طرح کبھی تسلی نہیں ہو سکتی ۔ خیر آج الحمدُ للہ ،اللہ نے مجھے خود پہنچا دیا ۔ یہاں آکر علم ہوا کہ کبھی یہ مزار آبادی سے بہت دور تھا ،، آج اسی طرح آبادی اور بازاروں میں گھِرا ہوا ہے ، جس طرح حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش ؒکا مزارِ مبارک گنجان آبادی میں گھِر چکا ہے ۔ تو گویا کبھی کبھی ایسی بڑی ہستیوں کی موجودگی شہروں کے اندر بھی ضروری ہوتی ہو گی ، تب ہی ان کی ضو فشانیاں زیادہ پھیلتی ہوں گی ،،، پہلے تو ہم آپؒ کے مزار کی زیارت کے لیۓ داخل ہوئیں ، آپ کے مزار کو بس ایک منٹ کے لیۓ دیکھا جو بظاہر ایک اونچے چبوترے پر تھا اس کے گرد جنگلہ تھا ۔ اور پھر قبر مبارک کے گرد پھولوں کی جھاڑیوں نے اس قبر کو مزید چھُپا لیا تھا ، اور جمعہ تھا رش بھی بہت ذیادہ ، لائن میں کھڑے کھسک کھسک کر قریب سے گزر گئیں ۔ دھکے بھی لگے ،، اور چند منٹ بعد ہم اندر کی مسجد کو دیکھ کر چند تصاویر لے کر باہر آگئیں ، کیوں کہ اندر شاید مردوں کی نماز کی جگہ تھی ۔ خواتین کا کہیں اور انتظام ہو گا ، لیکن ہم بالکل باہر کے چھوٹے سے باغیچے میں آ گئیں ، وہاں ٹرکش خواتین اپنی جاۓ نمازیں لے کر بچھا رہیں تھیں ۔ آج ترکی میں چھٹا دن تھا ، کہیں شاپنگ مالز میں ، کہیں ہوٹیلز ، کہیں پارکوں میں ٹرکش لوگوں کو دیکھنے سے کچھ یہ ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ، یہ قوم آج کل سوچ کے لحاظ سےتین طبقوں میں بٹی ہوئی ہے ، ایک وہ طبقہ جو کمال اتاترک کے دور میں حکم مانتے ہوۓ ، خوب مغربی تہذیب میں  رنگا ہوا ،،، جن کے لباس آج نماز میں بھی چست جینز اور چھوٹی شرٹس اور ننگے کندھوں کے ساتھ آئیں ، اور نماز کے چار فرض پڑھنے کے وقت چادروں سے کندھے اور سر ڈھکا ، اور سلام پھیرتے ہی چل دیں اور چادر طے کر کے پرس میں ،، دوسرا طبقہ وہ نظر آیا جنھوں نے مکمل عبائیہ پہن رکھے تھے، چہرے ڈھکے نہ بھی ہوں ، توجسم مکمل ڈھکا ہوا ،، یہ دونوں طبقے کم از کم استنبول میں بین بین نظر آۓ ، اور کم تھے بہ نسبت ، اس طبقے کے ، جو اگر جینز پہنے ہوۓ ہے تو قمیض مناسب لمبائی میں اور سکارف تو لازماً ً  لیا ہوا تھا ۔ اور یہ طبقہ زیادہ تعداد میں نظر آیا ،،، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ" بیگم اردگان "کے اثرات آہستہ آہستہ پھیل رہۓ ہیں ،، لیکن عورت چاہے ماڈرن ہے یا پردہ دار ، اگر سموکنگ کی عادی ہے تو وہ سرِ عام بھی سگریٹ پینے میں عار نہیں سمجھتیں ، لیکن ہر جگہ بنائی گئی کیاریاں میں سگریٹ کے ٹوٹے بجھاۓ جاتے ، یا ایش ٹریز میں ،، زمین پر نہیں ،،، اور آج مسجد میں ایک کیاری کے چوڑے چبوترے پر میَں ٹرکش خواتین کے ساتھ کندھے ملاۓاذان کی منتظر تھی ، ہماری تو قصر نماز تھی ، اس لیۓ ، نماز فرض پڑھنے کے بعد ، اپنے گروپ کی طرف نظر ڈالی وہ بھی مصروفِ دعا و نفل تھیں ، میِں نے بھی دو نفل پڑھنے کی نیت باندھ لی ،، اور گلے میں ڈالا ہوا، کراس پرس کھسک کر سائیڈ پر ہو گیا ،، میں دعا میں اتنی محو ہوئی کی کچھ لمحوں کے لیے بےجان سی ہو گئی ، اور پھر دعا سے فارغ ہو کر سب اکٹھے ہوۓ ۔ نزدیک ہی بازار تھا ، حضرت ابو ایوب انصاری ر ض کو سلام کہا اور چل پڑیں ، اتنے رش اور دھکم پیل سے نکل کو سیدھے بازار کا رُخ کیا گیا ، نشل کا دل تھا میَں کچھ لوں ، لیکن مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں تھی ، اس لیۓ میَں نے اسے پیسے دینے کے لیۓ پرس کھولا ، تاکہ وہ میرے گھر بیٹھے پوتی اور پوتوں کے لیۓ کچھ لے لے ،، تو دیکھا پرس کی زپ کھلی ہوئی تھی حتیٰ ٹرکش لیرے کو رول بنا کر اندر کی ایک اور زپ والی جیب میں رکھا ہوا تھا ، اور وہ غائب ہو چکا تھا ،،، یہ دل کو افسردہ کر دینے والی واردات تھی ،،چاہے کوئی کتنا خوشحال ہو ۔ لیکن بغیر پوچھے کوئی یوں پیسے نکال لے تو کچھ دیر تک جھنجھلاہٹ طاری ہوئی ،، پھر یکدم یہ سوچ آئی ، اس چوری سے ( ڈیڑھ ہزار لیرا ) سے شاید مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ، چوری کرنے والی خاتون ، جس نے میری نماز میں محویت سے فائدہ اُٹھایا ،،اپنے عمل کو شاید کھوٹا کیا ہو ،، اور ہو سکتا ہے اس کی بہت سی ضروریات بھی پوری ہوئی ہوں ،، میں نے فوراًًنہیں ،،، تین دن بعد اللہ سے کہہ کر معاف کر دیا کہ قیامت کے میدان میں ، مجھے کہاں ڈھونڈتی پھرے گی ،،، ہو سکتا ہے یہ معافی میرے لیۓ بھی باعثِ معافی بن جاۓ ،،، ابھی مائرہ کے اے ٹی ایم سے میرا مسئلہ حل ہو گیا ۔۔۔ لیکن سوچتی رہی ، اور اگر کسی کے لیۓ یہ پیسے عزت بےعزتی ، زندگی موت کا مسئلہ بھی بن سکتے ہوۓ تو ،،،، !!مجھے ہاشم نے بہت کہا تھا کہ میرا اے ٹی ایم لے جائیں ، اتنے پیسے لے جانے کارواج نہیں رہا وغیرہ، لیکن میرا نان ٹیکنیکل دماغ اس پر راضی نہ ہوا ، اللہ کا شکر زیادہ رقم کمرے کی الماری میں رکھ آئی تھی جو باقی دنوں میں کام آئی ۔ ( اور آج بھی اے ٹی ایم کے بغیر ہوں ،  ،،، یہاں کے بازار میں میری بیٹی اور بھانجیوں کی دلچسپی کی کچھ اشیا تھیں ،، اس کے بعد اگلا قدم ہمارا " مشہورِ زمانہ سپائسی بازار" کی طرف کا تھا ،، جو ہمارے ہاں کے انارکلی یا موتی بازار کی طرح کا کورڈ بازار ہے ،، مجھے اس کے اندر جانے کا تفاق نہیں ہوا ، یہ بیان بچیوں کے اور جوجی کے کہنے کے مطابق لکھ رہی ہوں ،، میَں اتنی تھک چکی تھی کہ ایک جگہ کرسیاں رکھی تھیں ، اندر کے دکاندار سے اجازت لے کر بچوں کو ساتھ بٹھا لیا۔ ان کی ماؤں کے آنے تک پھر بازار میں پھرتی مخلوق کے چہرے پڑھنے لگی ۔ جب سب واپس آئیں تو پتہ چلا ، جو مشہوری تھی ، وہ مزا نہ مل سکا ، بس کچھ خاص نہ لگا ، اور ہم واپس وین میں بیٹھے ، اور ڈرائیور سے ایسی جگہ جانے کو کہا،، جہاں " مر مرہ" کا حسن بھی ہو اور کوئ یتاریخی عمارت بھی ، ، اور وہ ہمیں " خُریم کے محل " تک لے آیا ،، جو مرمرہ کے کنارے بھی تھا ، اور خوبصورت محل کا اندازِ دلبرانہ تاریخ سے معمور بھی مل گیا ،،، !۔
( منیرہ قریشی 20 اگست 2018ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں