بدھ، 15 اگست، 2018

ترکیہء جدید' (5)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر"
ترکیہء جدید' (5)۔
ہوٹل کے کمرے بہت آرام دہ تھے ، یا ہمیں تھکن ہی اتنی ہو جاتی تھی کہ وہ مزید آرام دہ لگتے ،، لیکن واقعی وہ صاف ستھرے تھے ، صبح ہمارے کمرے کے چھوڑنے سے پہلے ، کوئی نا کوئی صفائی کا مسکراتا ممبر آتا اور مکمل صفائ ہوجاتی ، لیکن کیا مجال کہ صفائ میں کوتاہی ہوئی ہو ،، اور کیا مجال ہمارا ایک جملے کا بھی آپسی تبادلہء خیال ہوا ہو ، سواۓ ' السلامُ علیکم ' کے ،، ہم سب صبح 8 بجے تک اپنے کمروں سے تیار ہو کر ، یا میرے کمرے میں ، یا ، جوجی کے کمرے میں اکٹھے ہو جاتے ، اور سبھی کے ناشتے یہیں تیار ہوتے ، اور کچھ بچے اپنے ناشتے پیک کر لیتے ، ایجویت بالکل وقت پر پہنچتا رہا ۔ لیکن ہمیں تیار ہوتے ، نیچے وین تک پہنچتے ، 10 بج ہی جاتے ،، آج ہم نے آئیہ صوفیا ، نیلی مسجد ، اور فیری کی سیر کرنی تھی ، فیری کی باری آخر میں تھی ،، پہلے ایجویت ہمیں مزید پرانے ترکیہ میں باۓ روڈ لے کر گیا ،،تھا ، اب اسی نے بتایا اگر " ڈیک" سے جائیں تو کچھ وقت کی بچت ہو جاۓ گی ،، اور یوں ہم سب کے لیۓ یہ پہلا تجربہ تھا۔ چند گاڑیاں پہلے سے باسفورس کنارے اس ڈیک میں کھڑی تھیں ، کنارہ دور سے نظر بھی آرہا تھا لیکن ، اُس طرف سڑک سے جانے پر ایک گھنٹے سے ذیادہ وقت بھی چاہیۓ تھا ، یہاں آدھ گھنٹہ ہی لگنا تھا ،، ڈیک پر' وین 'کی سیٹنگ ہوتے ہی بچے ، بڑے سبھی ڈیک پر آ گۓ کچھ سیڑھیوں سے اوپر جا کر بھی تصاویر بنا رہۓ تھے ۔ اور ڈیک غیر محسوس انداز سے چلتے ہوۓ ، 25 منٹ تک دوسرے کنارے جا لگا ،، اور اب سب سے پیچھے والی گاڑیاں فائدے میں تھیں کہ وہ پہلے نکل گئیں ، ہمارا مزید وقت بچا ۔ اور ہم سیدھے آئیہ صوفیا پہنچیں ،، اور ہم آئیہ صوفیا میں ہی داخل نہیں ہوتے ، تاریخ کے اوراق میں داخل ہو جاتے ہیں ۔ یہ قسطنطنیہ کا ایک شاندار گرجا گھر تھا ، جسے بہت سی پینٹنگز سے سجایا گیا تھا ،،، اس چرچ کے خوب بڑے مین ہال ، کے گرد خوب بڑے بڑے کمرے تھے ۔ جنھیں عین اسی دور جیسے ہی رہنے دیا گیا تھا ۔ وہی لوہے کے پترے چڑھے دروازے ،، رنگین تصاویر سے سجے چھت ، حضرت عیسیٰ علیہالسلام کی اور کچھ ان کے حواریوں کی تصاویر ، یہاں ایک پھرتیلے ، سے دبلے پتلے آدمی کو 70 لیرے میں بطورِ گائیڈ ہائر کیا گیا ۔ تو ایک خوش مزاج گائیڈ ثابت ہوا جو اپنی کمزور انگریزی میں بھی لطیفے سناتا رہا ، اور اپنے گروپ کو ہلکے پھلے انداز میں ، کچھ سچی کچھ گھڑی حکایات سناتا رہا ، اسی نے بتایا ،، یہ چرچ عیسا ئی پیروکاروں کا ایک طرح سے قبلہ تھا بہت اہم حیثیت رکھتا تھا ،، پھر مسلمان فاتح ، آۓ تو اسے مسجد میں بدلنے کی سعی کرنے لگے ،،، لیکن یہ کوشش کئ وجوہات کی بنا پر نا مکمل ہی رہیں یہ ہی وجہ ہے کہ اس کا آدھا حصہ آج بھی چرچ کی صورت اور آدھا مسجد کے آثار لیۓ ہوۓ ہے لیکن ،، کچھ عرصہ ایسا بھی گزرا کہ یہ نہ چرچ ،، نہ ہی مسجد کے طور پر استعمال ہو سکا ، اور اسی دوران دنیا کے کلینڈر میں تاریخ ، اور صدی بدلی ۔ اور مصطفیٰ کمال پاشا ، نے اپنے دورِ حکومت میں ، اس تاریخی عمارت کو " میوزیم " کا درجہ دے دیا ،، اور آج یہ عیسائی ، اور مسلم سبھی کے لیۓ باعثِ دلچسپی ہے ، اور میوزیم کی صورت میں تھیسسز مکمل کرنے والوں کی آماج گاہ ۔ 
کچھ معلومات یہاں سے لیں اور باقی تاریخ کی کتابوں سے لیا ، اور اگلی منزل ، نیلی مسجد (بلیو ماسق) تھی ، یہ مسجد ، بادشاہی مسجد کی طرح وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ہے ،، اس میں داخلے سے پہلے بہت بڑا صحن تھا ،، یہاں ایک فوارے کے گرد بینچ تھے تاکہ لوگ کچھ دیر بیٹھ سکیں نیز یہیں سے ایک طرف جا کر ٖغسل خانے یا لیٹرین بناۓ گۓ تھے ، مسجد میں داخلے سے پہلے جوتوں پر شاپر کے لفافے چڑھاۓ گۓ ، اندر بہت وسیع مسجد کا اپنا وہ صحن تھا جو مکمل طور پر ایک بڑے چھت سے کور کیا گیا تھا ، یہ چھت بہترین اور خوب بڑےفانوس سے اور خوبصورت سنہری تاروں سے سجا ہوا تھا ،، انہی تاروں پر بلب لٹک رہے تھے۔ یقینا" رات کو یہ مسجد خوب روشن بھی ہوتی ہوگی ، اور خوبصورت بھی لگتی ہوگی ،، لیکن ، اس اونچی چھت کے منبر کی طرف کی جگہ بالکنی تھی ، جہاں اونچی کھڑکیاں تھیں جن کے رنگین شیشے عجب بہار دے رہے تھے ۔ لیکن اتفاق سے اِن دنوں یہاں مرمت کا کام ہو رہا تھا ،، جس کی وجہ سے اس مسجد کا وہ حسن ، ظاہر نہیں ہوا ، جو ہمیں کتابوں میں یا ڈیکومنٹری فلم میں نظر آتا رہا ہے ۔ یہاں ظہر کی نماز پڑھنے کے لیۓ ہمیں مزید انتظار کرنا پڑتا ،،اور ابھی دن کے 11 بجے تھے صرف نوافل پڑھے ، اور تھوڑا یہاں وہاں پھرے ،، غیر ملکی مرد وخواتین بلا کسی تفریقِ مذہب و ملت مسجد کے اندر پھر رہۓ تھے اور تصاویر بنا رہے تھے ،،، یہ کسی ملک کی " احترام" پالیسی ۔ " برداشت " پالیسی ظاہر کرتی ہے ،، جو دینِ اسلام کا ایک جزو ہے کہ مسجدِ نبویؑ میں غیر ملکی وفود ملتے اور وہیں سارا دن گزارتے ۔ تو اب ہم اپنی عبادت گاہوں کو محدود نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ 
یہاں سے دل ٹھنڈا کر کے اب ہم" باسفورس ،،یا ،،" مرمرہ " سے باقاعدہملنے پہنچیں ، جماعت پنجم سے ، ہسٹری اور جیوگرافی بطورِ مضامین پڑھے ، اور جوں جوں آگلی کلاسسز میں گئیں ، تو " لفظ باسفورس" ہمیشہ کے لیۓ عجیب ساحرانہ لفظ کے طور پر ذہن میں رَچ گیا ۔ اکثر میَں اور جوجی اباجی کی معیت میں دنیا کا نقشہ لے کر بیٹھتیں ، تو وہ اپنا بتاتے ،، یہ ہے مصر ، یہ سوڈان ، اور یہ عراق، اردن ، یہاں ہے مراکش ،، مجھے ان علاقوں ، اور ان لوگوں میں رہنے کا موقع ملا ،،، وہ اپنی یادوں کو شیئر کرتے لیکن میَں ان انوکھے ناموں کے سحر کو دل میں جگہ دیتی چلی جاتی ، ان میں " خلیج باسفورس " کا نام ، دریاۓ نیل ، ٹمبکٹو ، مڈاخاسکر ،،، جی ہاں ایسے نام دل میں یاد کر لیتی ، کیا پتہ کبھی پہنچ جاؤں ۔ اور ،،، آج اپنی یادوں کے کونے میں لکھے لفظ "باسفورس " کو مسکرا کر " ہیلو " کہا ۔ ہم نے اس سلسلے میں ایک بڑی فیری میں بکنگ کروا لی تھی ،، اور اسے تین بجے دوپہر چلنا تھا ۔ گویا ہمارے پاس تین گھنٹے کھلے تھے ، لہذٰا بچوں کی ایک پسندیدہ جگہ ہے ، کھانا پینا ، یہاں بھی نشمیہ ، اور ایمن ثمن ہی کنسلٹنٹ تھیں ۔ ہم سب تو فالوؤرز تھے ۔ جتنی دیر کھانا پینا ہوا ، فیری پر جانے کا وقت ہو گیا ،، اس دفعہ ایجویت نے غلطی سے ہمیں ایسی جگہ ڈراپ کیا ، جہاں سے خوب ڈھلوان راستہ تھا ، اور پھر کہیں سڑک آئ ، اور فیری تک پہنچتے پہنچتے ، میرے لیۓ تو بے ہوش ہونے والی کیفیت ہوگی ،حالانکہ یہ فرلانگ بھر کا راستہ ، مجھے ایمن اور نشل نے پکڑ کر ، اور بہت احتیاط سے آہستہ آہستہ چلایا ،، اس دوران ہمارے قریب سے ایک عمر رسیدہ دبلا پتلا ، بندہ ہیٹ پہنے گزرا ، مجھے یوں آہستہ روی سے دیکھا تو اس نے رُک کر کہا معمولی انگریزی میں واضع کیا " جلدی کی ضرورت نہیں ، میں ہی فیری کا ڈرائیور ہوں ، آرام سے آئیں " یہ حوصلہ دینے والی بات تھی جو ہر جگہ نظر آنی چاہیۓ ۔ خیر فیری تک پہنچے ، جہاں ہم تینوں کے علاوہ ، باقی گروپ ممبرز پہنچ چکے تھے ، مجھے باسفورس کو خود سے متعارف کرانا تھا لیکن فوری طور پر میں ایک آرام دہ بینچ پر لیٹ کر سانس درست کرنے لگی ، ، جب کچھ بہتر ہوئ تو حسبِ عادت کھڑکی سے ترکی کے قدیم و جدید ، کے نظاروں کو دیکھنے لگی ، یہ دو گھنٹۓ کی رائیڈ ترکی کا مکمل تعارف کرا رہی تھی ۔ یہاں مسجد تو جیسے چپے چپے پر تھیں ، بعض مساجد ، چند مرلے پر بنی ہوں گی ،، اور بعض بڑی بھی ، لیکن ہر مسجد کا بنیادی نقشہ ، نیلی مسجد سے ہی مشابہ تھا ،، کنارے بہت سی جدید قدیم کا امتزاج لیۓ بلڈنگز تھیں ، بعض قلعے نما شاہی دور کی عمارتیں تھیں ،، کچھ عوام الناس کے گھر بھی قطار در قطار تھے ،، لیکن سب صاف ، اور خوش رنگی لیۓ ہوۓ تھے ، تو گویا یہ قوم حُسنِ ذوق سے مالا مال تھی ، خود بھی خوبصورت نقوش والے تھے ، تو تہذیب بھی اعلیٰ ذوقی سے مزین رہی اور ہے ،، !باسفورس سے پرانی محبت نے کچھ الفاظ کے تانے بانے بُن ڈالے ، پڑھ لیں گے تو میرے جذبات کو مزید جان سکیں گے ،،  
" باسفورس کنارے " 
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ترکیہء جدید 
ستھرے مکان ، توانا مقیم 
مطمئن ، آسودہ ، بے فکر
باسفورس کنارے ،،،،،،،،
تہذیبِ نو ، تہذیبِ قدیم 
باہم مل رہی ہیں مثلِ ندیم
تاریخ چپے چپے میں 
صدیاں کچھ پرانی 
صدیاں کچھ نئی
ہم مِل رہے ہیں تم سے مگر آشنا آشنا
باسفورس کنارے ،،،،،،،،،
محلاتِ بادشاہان !
حسین و جمیل
اجنبی نفوس ، اجنبی ساعتیں 
اجنبی وضاحتیں ، اجنبی سماعتیں
صدیوں بعد بھی ملے ، تو جانے مانے سے 
ہر لہجہ ، ہر چہرہ ، ہر سازش لگے افسانے سے 
محبتوں کے ڈھیر ہیں 
رقص میں درویش ہیں
باسفورس کنارے ،،،،،،،،،،،،،،، ( اگست 2017ء استنبول )
( منیرہ قریشی 15 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں