منگل، 14 اگست، 2018

ترکیہء جدید" (4)۔

" سلسلہ ہاۓ سفر" 

' ترکیہء جدید" (4)۔
اور اب اگلے ہی دن ہم مشہور و دلنواز " توپ کاپی" میوزیم جانا تھا ، جس کا صرف ذکر ہی کتابوں میں پڑھا تھا۔ اور مزید کچھ اور جگہوں کے لیۓ چلے ، تو پہلے ڈرائیورایجویت ، کو ٹرکش زبان لکھ کر تمام پروگرام بتایا ، اس نے ترکی میں ہی جواب دیا " میں سمجھ گیا " ،،، اور واقعی صرف 20 منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم توپ کاپی میوزیم پہنچیں ،،، یہ جگہ ایسے " قلعے " کی صورت میں ہے جس کی چہار دیواری خوب مضبوط فصیل کی صورت اور اس کے چوڑے راستے بڑے پتھروں کو دبا کر بناۓ گۓ تھے ،، یہاں اوپر نیچے بنے زِگ زیگ کمرے ،، اُن مقدس لوگوں کے استعمال کی چیزوں سے سجے تھے ، جنھیں دیکھ کو ہم میں سے کچھ کے دل ڈولنے لگتے ، کچھ کے ایمان کی پختگی ایک سیڑھی اور چڑھ جاتی ،،،، اور کچھ سرسری نظر ڈال کر ، سیاح کے ہاتھ میں پکڑی لسٹ پر " ٹِک مارک " کر دیتے ،،،، اور کچھ کے لیۓ ایک حسرت ، پلُو میں بندھ جاتی کہ ،،، ذرا ٹھہر گردشِ وقت ، کہ اِن سے آنکھوں کو بھی سیراب کروں اور دل کی دنیا کو بھی آباد کر لوں ،،،،، یہاں آنحضورﷺ کے استعمال کی چند اشیاء ، آپؑ کا موۓ مبارک ، آپؑ کا دندانِ مبارک ، ایسی خوبصورت ڈبیوں میں بند تھے ، جو نظر نہیں آۓ ، حضرت فاطمہ زہرہ رض اور حضرت امام حسن رض و حضرت امام حسین رض ، اور حضرت علی کرم اللہ کے استعمال میں رہے لباس و نعلین ،،، حضرت موسیٰ علیہ کا عصا ،،، اور اب تک ہو گزرے ٹرکش بادشاہان کے زیرِ استعمال نہایت خوب صورت گھڑیاں ، کچھ ہتھیار ، اور کچھ ظروف سلیقے سے بڑے اور مضبوط شیشوں کے پیچھے رکھے گۓ تھے ،، فوٹو لینے کی سختی سے ممانعت تھی ،، اسی لیۓ میرے پاس ان کمروں کی ابھی تک کوئ فوٹو نہیں ملی ۔ ( حالنکہ کئ اور جگہوں پر بھی یہ پابندی نظر آئ ، لیکن چھپ کر یہ غیر قانونی حرکت کر لی گئ جیسے رقصِ درویش دیکھنے کے دوران ) ہمارے بچے ، وہ نئی نسل بن چکی ہے ، جنھیں نہ ماضی سے آگاہ کیا گیا ہے ، نہ انھیں اپنے ماضی سے دلچسپی ہے ،، نہ ہی انھیں دین کا نہ ہی دنیا کا نہ اپنے مقصد کا ادراک ہے ،،، ،، میَں شاید جذباتی اور منفی سوچ کی جانب چلی جاتی ہوں ،،، شاید ان کی عمر بھی ایسی ہے کہ وہ ہر نئی جگہ ، ہر نیا تجربہ اپنی آنکھ سے دیکھتے ہیں ،، اور اسی میں مطمئن ہیں ،، حال ہی میں میرے حلقہء فیس بک میں شامل بیٹی " کومل ذیشان " ترکی گئ تھی اور اس نے جس روحانی آنکھ سے اس میوزیم کا دیدار کیا ، یہ نئی جہت اور سوچ کو سامنے لاتا ہے ،، خاص طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے متعلق اسے جو ادراک ہوا ،، مجھے اس پر رشک آیا ۔ شاید جس دن ہم نے اس میوزیم کاوزٹ کیا ، وہ چھٹی کادن تھا ، یا اس دن سیاح ذیادہ آ گۓ تھے ،، کہ لوگوں سے کندھے ٹکرا رہے تھے ،، اور مجھے خود کو ہر حال میں گرنے سے بچانے کے چکر میں ،رش سے جلدی دور ہونا ہوتا تھا ، ورنہ غیر متوازن ہونے کی صورت میں اچھی بات نہ ہوتی ،، اس کے باوجود ایک چھوٹے کمرے میں دائیں بائیں رکھی ، یاد گار ،چیزوں میں ایک کونے میں لمبائ سےبنے شوکیس میں لگا " عصاۓ موسیٰ " عجیب ہیبت و تقدس دیتا محسوس ہوا،، یہ ہمارے ہاں کے بزرگوں کے ہاتھوں میں پکڑی عام چھڑی جتنی موٹائ اور ذرا اس سے لمبائ لیۓ عصا تھا ،، جو ہاتھ میں پکڑے جانے والے سِرے سے اَن گھڑ موٹا تھا ، سب سے اہم یہ کہ اس کا رنگ کیسا تھا ،،، آپ اسے کسی رنگ سے مشابہہ قرار نہیں دے سکتے ،،، اور اس عصا کے پاس جانے کو دل بار بار ذکر کرتا ہے ،،،( لیکن یہ اب کہاں ممکن) ۔ ایک دفعہ اس کمرے سے رش نے مجھے فوراً دوسرے کمرے میں جانے پر مجبور کیا ،، لیکن میَں دوبارہ پھر لائن میں اسی کمرے میں گھس کر سیدھی اس حیران کن چیز کے پاس جا کر چند منٹ گزار آئی ،،، تو عصاۓ موسیٰ تو یہاں ہے لیکن " یدِ موسیٰ " نہیں ،، جس ہاتھ میں وہ طاقت عطا کی گئی کہ وہ عصا اژدھا بھی بنا اور سمندر بھیپھاڑ ڈالا ،، تو اصل طاقت ، اصل کا اصل تو ، وہ ذاتِ اعلیٰ ہے جو اپنے بندے کے ہاتھ میں پکڑی ایک بے جان چیز کو " حیران کن " بنا دیتی ہے ، مولا کے رنگ نیارے " !توپ کاپی کے باہر خوب چوڑی شاہراہ ہے جس کے دونوں طرف ، ہر طرح کا سامانِ زیست بک رہا تھا ،، یہیں کچھ ہلکا پھلکا کھانا پینا ہوا ،، خاص طور پر ترکی میں جہاں گۓ ، تازہ جوس ، جو صاف مشینوں سے گاہکوں کے سامنے نکا لا جاتا ہے ، اس کا جواب ہی نہیں ۔ یہیں سے کچھ سیوینئرز خریدے گۓ ، اوراگلے پڑاؤ کی طرف چل پڑے ، کہ اب " مِنی ترکیہ" دیکھنا ضروری تھا ۔ یہ بھی ایک احساسِ ذمہ داری کو ظاہر کرتے ، سیاحتی مقام ہوتے ہیں ، جو کرپشن سے دور حکومتیں ، ہی بنا پاتیں ہیں ، کیوں کہ ہر جگہ کے ذمہ داران ، اگر خود کرپٹ ہوتے ہیں تو وہاں  صفائی نظر آتی ہے ، نہ چیزوں کی مرمت کی صورتِ حال ، نہ سلیقے سے باترتیب ، نِک سِک اشیاء سامنے نظر آئیں گی ۔ یہاں قدرے اُنچائ میں ایک چھوٹا سا ایریا آباد کیا گیا ہے جہاں ترکی کی ہر اہم اور مشہور و معروف عما رات ، کے ماڈل انتہائ سلیقے اور باریک بینی سے بناۓ گۓ ہیں ،، قریبا" ہر ماڈل 15/ 20 فٹ لمبا ئ، اور چوڑائ میں جگہ گھیرے ہوۓ تھا ، اس کے علاوہ مشہور ایئر پورٹس ، جہاں کچھ جہاز کھڑے اور کچھ روبوٹ ہوائ جہاز چل بھی رہے تھے ،، نیز ایک جگہ بحری جہاز بھی آنے جانے کا مظاہرہ کر رہے تھے ،، کچھ عمارات، برٹش دور کی تھیں ، جو دیکھتے ہی پہچان لی جاتی ہیں کہ ، انگریز جہاں گۓ اپنی تہذیب ، اپنے طرزِ تعمیر کو ضرور متعارف کروایا ۔۔ یہاں بھی بغیر برآمدوں والی دومنزلہ عمارتیں ، جو ذیادہ سفید پینٹ میں تھیں ، بنائ گئیں تھیں ، اور یہ دفاتر کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں ۔ یہ ایک ایسا وزٹ تھا ، جو ایک دو گھنٹے میں سارے ترکی کا تعارف کرا دیتا ہے ۔
اور اب ہمارا آدھے سے ذیادہ دن گزر چکا تھا ،، نشمیہ ہمارے گروپ کی واحد بندی تھی جسے ہر وقت شاپنگ کی فکر رہتی ،، اور بچہ پارٹی تو ( کہیں جا کر ) ویسے بھی کھانے پینے کی فکر کو اولیت دیتی ہے ۔ شام ہوتے ہی کسی ہوٹل کی تلاش ہوئی ، لبنیٰ کو یاد آیا کہ اس کے داماد نے کہا تھا " میٹر کباب " کا تجربہ ضرور کرنا ، زرک یا ایمن ثمن نے گوگل سے وہ ریستورنت تلاش کیا ، یہ ایک اچھا ، معیاری ، ریسٹورنٹ تھا ،،، لفظ صاف اب استعمال نہیں کروں گی کہ ہم جہاں گئیں ، کھانے پینے کی جگہیں اور کھانے کی اشیاء نہایت صاف ستھری تھیں ، کہ بےفکر ہو کر کھائی جا سکتی ہیں ، اور سب سے بڑھ کر حلال ۔ سب سے پہلے سبھی باری باری واش روم گۓ ، اور جب واپس آۓ تو یہ لمبا ٹیبل ، چار پانچ قسم کے سلاد سے سجا ہوا تھا ،، بھوک تو تھی ہی ، چناچہ آرڈر دینے اور آرڈر کی ڈش آنے تک ہر قسم کے سلاد کو چکھا ، بلکہ خوب کھایا جا چکا تھا ۔ 
ترکوں کی صحت کا راز بھی یہ ہی ہے کہ یہ لوگ سلاد سے خوب پیٹ بھرتے ہیں ، جس کے اوپر یا تو زیتون کا تیل ، معمولی مقدار میں میں ڈالا جاتا ہے ،، یا ،، کچھ تلے بادام اور مزیدار تلی بینز ہوتے ہیں ، یا میونیز !! اور اسکے ساتھ ، روٹی کی پرواہ نہیں کرتے البتہ گوشت کے دو تین ٹکڑے ضرور ہوں ، ہم نے ایک مزدور کی بنیادی خوراک بھی یہ ہی دیکھی ، اور ایک خوشحال بندے کی بھی بنیادی خوراک یہ ہی دیکھی ، ذرا پیسہ ہےتو مچھلی بھی کھائی جاتی ہے ،، یہ ایسی صحت مند خوراک ہے کہ یہاں چہروں سے ہی صحت مندی ، اور اطمینان جھلکتا دکھائی دیتا ہے ۔ کم ازکم سر پر چھابڑی سجاۓ سادہ ترین بندہ بھی پینٹ ، شرٹ میں ہاتھوں پر گلوز پہنے اپنا مال بیچتا نظر آۓ گا ، مغربی لباس ہی اب ان کا قومی لباس بن چکا ہے ۔ 


خیر کچھ دیر بعد ایک لمبی لکڑی کی ٹرے پر وہ ڈش آئی جسے " میٹر کباب " کا نام دیا گیا ہے ،،یہ دراصل ایک میٹر ( میرے خیال میں ایک گز) لمبا اور پانچ چھے انچ چوڑا ٹرے تھا جس پر " خُبس " ٹائپ لمبائی میں بنی روٹی تھی ، اور اس روٹی پر تین چار گول کباب ، تین چار سیخ کباب ، چار پانچ دنبے کی چانپیں اور ان سب کے اوپر سبز مرچیں ، سلاد کی مختلف اشیاء سجائی گئیں تھیں ،، تو گویا کباب اور چانپیں تو وہی تھیں ،، بس ذرا " پریزنٹیشن " سجاوٹ ، کے انوکھے انداز نے اسے منفرد بنا دیا ،، ہم بڑوں کو کچھ مایوسی ہوئی ،، لیکن کھانا تو تھا ہی ، کھانے کا ٹیسٹ ، بہت اچھا تھا لیکن بچوں نے چربی میں پکی چانپوں کو کھانے سے انکار کر دیا ، یہاں ہمارا تجربہ یہ رہا کہ ، شاید یہاں بکرے نہیں پالے جاتے ، دنبوں کے گوشت کے یہ عادی ہیں اس لیۓ ان کے لیۓ نارمل ہے ، بچوں نے کباب تو کھاۓ لیکن چانپوں کو ہمیں پیک کروانا پڑا ،، چونکہ ہم گروپ کے حساب سے تین میٹر کباب منگوا چکی تھیں ۔ لیکن اچھا تجربہ رہا ، اگرچہ کچھ مہنگا ، لگا ،، اس لیۓ ترکی جا نے والوں سے یہ کہوں گی ، کہ ان کے کھانے ضرور ٹراۓ کریں لیکن ، کم مقدار میں منگوائیں ۔ کم مرچ والے کھانے ہیں جو ہر قوم کے لیۓ قابلِ لذتِ دہن ہیں ۔
( منیرہ قریشی 14 اگست 2018ء واہ کینٹ ) ( جاری 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں