اتوار، 8 دسمبر، 2019

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہّ پنجم)

" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہّ پنجم)
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اگر یہاں رُک کر ،،، میَں یہ کہوں کہ کوئی بھی پروجیکٹ یا سوچ عملی طور پر تب ہی اصل خدو خال کے ساتھ سامنے آتی ہے جب ، جذبہ صادق اور مضبوط ہو ،،خاص طور پر وہ کام ،، جسے آپ نے اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیۓ شروع کرنا ہو ۔ کیوں کہ ایسی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں ، جو ہمارے ارادے اور کوشش کو متزلزل کر سکتی ہیں ۔
۔2005 سے شروع ہونے والا سکول پہلے چار سال کتب ، اور ٹیچرز کی سیلریز کا خرچ اُٹھاتا رہا ، ، لیکن جوں جوں بچوں کی تعداد بڑھی ، سٹاف ممبرز کی تعداد بھی بڑھی ،،، اس وقت بہت سے لوگوں نے ہمیں کہا کہ کسی " این جی او" سے اسے منسلک کروا لو ،، فائدے میں رہو گی ،، وغیرہ ،، اور دو تین این جی اوز کے نمائندے ہم سے بات چیت کرنے بھی آۓ لیکن ، ہم نے واضع کر دیا کہ ہم اس پروجیکٹ کو خود ہی چلائیں گی ۔ کیوں کہ ہم اسے اپنے والدین کے لیۓ صدقہ جاریہ کرنا ہے ، یہ انہی کا دکھایا رستہ ہے۔ چاہے جیسے بھی چلانا پڑے ۔
چار سال بعد ہم اس قابل تھیں کہ اپنے صبح کے سکول سے کچھ سرمائیہ کوشش سکول کے نام سے الگ اکاؤنٹ کھولا گیا ۔ تاکہ کبھی ہمیں صبح کے سکول سے لینے میں دقت پیش آۓ تو کوشش سکول کا اپنے اخراجات کے لیۓ پیسے موجود ہوں ۔ ( یہ اس لیۓ لکھ رہی ہوں کہ اگر کوئی سکول شروع کرنا چائیں تو کچھ بنیادی باتوں کا خیال رکھ سکیں ) ہمارا ارادہ اسے رجسٹر کروانے کا بھی تھا لیکن ،، 12 سال سے ہم یہ کام نہیں کر سکیں ، کیوں کہ اس کی فارمیلٹز ذیادہ تھیں ، دوسرے ہم نے سکول پانچویں تک ہی رکھنے کا ارادہ کر رکھا تھا لیکن ،،،پانچویں کے بعد بہت سی بچیوں اور لڑکوں کو سرکاری سکول میں داخل کروانے میں مدد دیتیں تھیں،، ایک تو وہ بچے بہ آسانی اینٹری ٹسٹ کلیئر کر لیتے ، دوسرے ان کی فیسیں پھر بھی ہم دیتی رہتیں ،، کیوں کہ ان میں کافی والدین ایسے بھی ہوتے ہیں ،،، جو اس معمولی فیس کو گنجائش نہ ہونے کا بہانہ بنا کر بچے کو سکول نہیں بھیجتے تھے ۔ جو ہمارے لیۓ شدید دکھ کا باعث بنتا ۔
تو یہاں ٹوٹا وہ سلسلہ جوڑتی ہوں ، جو کوشش سکول کے اُن بچوں کا ہے جو اڈلٹ کلاس میں داخل ہوتے ہیں ،، اس کلاس میں سبھی بچے ڈل نہیں ہیں ،، بلکہ انھیں کسی سکول میں جانے کا موقع کبھی ملا ہی نہیں ،،اس لیۓ انھیں ، نہایت ابتدائی تعلیم سے آشنا کیا گیا ،، اس کے بعد انھیں پریپ یا کلاس وَن کا سلیبس پڑھایا گیااور ،، وہ ٹیچر پُر امید ہوگئی کہ اب یہ پانچویں تک پہنچ جائیں گے ، ( لیکن صرف اردو ، حساب ، اسلامیات ذیادہ فوکس پر ہیں ،، انگریزی بہت ہی آسان ایک کتاب لگوائی گئی ہے )ان بچوں میں سے بیشتر چھُٹیاں بہت کرتے ہیں کہ وہ ،، صاحب جی کے گھر کے کام کرتے ہیں ،،، الیکن میَں نے ارادہ کرلیا کہ بے شک چھُٹیاں کریں ہم انھیں اس وقت تک داخل کیۓ رکھیں گے جب تک پانچ جماعت کا ایک سرٹیفیکیٹ نہ مل جاۓ ، اور اس وقت اڈلٹ کی" پہلی جماعت " پانچویں کے لیول کو پہنچ گئی ہے ، لیکن انگریزی کی ایک آسان کتاب پڑھا رہے ہیں ، کیوں کہ ہمیں ان کا ذہنی لیول ،، ان کی مصروفیت ، ان کو کوئی کوچنگ دینے والا ہے ؟ یہ سب مدِنظر رکھناپڑ رہا ہے ،،، کبھی بھی بھیڑ چال سے سلیبس نہیں بنانا چاہیۓ ، ہمیں ان کو نہ تو علامہ بنانا ہے نہ ہم انھیں کسی کالج ، یونیورسٹی تک پہنچا سکتے ہیں ،، لیکن وہ اپنے سامنے رکھی کتاب سے اردو پڑھ سکتے ہوں ، حساب کر سکتے ہوں ،، اپنے دین کا کچھ پتہ ہو اور انگریزی کی شُد بُد ہو ۔ اس کے بعد اِن کی قسمت !کیوں ہم سے یہ خط اور درخواست کی اہلیت لے چکے ہوتے ہیں ۔ اسی دوران ایسے مزید بچے آۓ کہ ایک اور اڈلٹ کلاس پریپ اور ون کی شروع کرنی پڑگئی ہے ،، ایسے بچے صرف اور صرف والدین کی غیر ذمہ دارانہ روئیے کی وجہ سے سکول سے محروم رہتے ہیں ،، کہ وہ جہالت میں ڈوبے ،زندگی کو نہایت محدود نظر سے دیکھ کر زندگی گزار رہۓ ہوتے ہیں ،، ہر سال ایک بچہ پیدا کر نا جیسے ان کا فرض ہے،، اور سامنے موجود بچوں کی لائن ،، ان کے لیۓ کمائی کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
۔(دل تو چاہتا ہے کہ ان کے ماں باپ کی ٹریننگ کے لیے بھی ایک سکول ہو)۔
ان کی ٹیچرز سےبچوں کی اخلاقی تربیت کا ذیادہ خیال کرنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہوں ،،، اور جو ہو سکے عملی مظاہرہ بھی ہوتا رہتا ہے،،، کہ یہ حقیقت ہے کہ " نثر سے ذیادہ نظم یاد رہ جاتی ہے ، یعنی ڈرامہ ٹائز کیا سین یاد رہ جاتا ہے ،،، مثلاً ہفتے میں ایک دن بہت سے کیلے منگوا کر اسے کھانے کا صحیح طریقہ سکھایا گیا ،، کہ چھلکا پورا نہیں اتارنا ،، کیلا آخر تک ایسے کھاؤ کہ چھلکا کیلا ختم ہونے تک موجود رہے ،،، عادتا کلاس میں اسی جگہ چھلکےپھینک دیۓ گۓ ،، تب یہ ہی چیز مینشن کی گئی کہ آپ نے راستہ چلتے ، یا کہیں بھی کوئی چھلکا نہیں پھینکنا ،، اپنے ساتھ جو لفافہ ہے اس میں ہر طرح کا ریپر پھینکنا ہے ۔ یہ اس لیۓ بتا رہی ہوں کہ انتہائی بنیادی بات بھی کبھی کبھی جہالت کے سبب اہم نہیں لگتی اور ڈسپلے کر دیا جاۓ تو ،، 20 میں سے 10 بچے تو یاد رکھیں گے ۔۔۔ ( اور یاد رکھا )۔
میَں نے ٹیچرز سے کہہ رکھا ہے ،،، کہ کلاس میں جب جاؤ ،، تو جاتے ہی پڑھانا شروع نہ کر دیں ،، کچھ حال گزری رات کا یا گزرے ویک اینڈ کا پوچھیں ،، کیا خواب دیکھا ؟ ،،، کیا کھایا ؟ کہیں گۓ ؟ کوئی گھر مہمان آیا ؟؟/ اب ان عام سے جملوں سے ظاہر ہو گا کہ کون بچہ کتنی جلدی جواب دیتا ہے ،،، اس سے اس کی یاداشت ، اسکی جلدی جواب کی اہلیت ، اور گھر کے کاموں ،یا گھر آۓ گۓ لوگوں سے اس کی دلچسپی ظاہر ہو گی ۔ یا اس کی خود اعتمادی بڑھے گی کہ ،، کیا بولنا ہے۔
اس کے علاوہ ہم نے کلاس تھری تا پنجم کے بچوں کے لیۓ ہفتے میں ایک دن ڈرائنگ ، یا ایکٹیوٹی پیرئڈ رکھا ہے ،،، جس میں ہاتھوں سے کچھ نا کچھ بنوایا جاتا ،،، ایک دفعہ سب بچوں سے جوتوں کا ایک خالی ڈبہ لانے کا کہا گیا، اور بتایا اسے باہر سے اپنی مرضی سے سجاؤ ۔۔ لیکن اس پر " فسٹ ایڈ" کا نشان بنانا ہے اوریہ تھوڑا سا سامان بھی ہم آپ کو دے رہے ہیں ،، اس ڈبے میں ہر بچے کے ڈبے میں ایک چھوٹی قینچی ، ایک گاز کا رول ، ایک روئی کا چھوٹا پیکٹ ، ایک چھوٹی ڈیٹول کی بوتل ، ایک سنی پلاس کا پتہ،رکھی گئی،، تاکہ " تم لوگوں کے گھروں میں کسی کو چوٹ لگے ، تو گھبرانے کے بجاۓ اس میں سے فوری مدد پہنچاؤ ،، ،، آج یہ سکول نے بنا دیا ہے ، آئندہ خود بھی ان چیزوں میں اضافہ کرنا ، مثلا" تھرما میٹر ،، یا مختلف سَردرد ، پیٹ درد کی دوائیاں ۔ اس دن بچوں کی خوشی دیدنی تھی ،،،، میَں نے اپنی میڈ کی چھوٹی بہنوں کو جو اسی سکول جاتی ہیں ،،اپنی طرف سے ایک ڈیجیٹل تھرما میٹر بھی دیا ،، تاکہ کام آۓ ! اور آسانی سے وہ پڑھ سکیں ۔لیکن ،،،، وہ تھرمامیٹر دو دن کے اندر ٹوٹ گیا ، اور انھوں نے اس بات کو ہنس ہنس کر بتایا ،، جی" وہ سب گھر والے ایک دوسرے کا بخار چیک کرتے رہے تو اسی دوران " ،،، اور جب ایک ہفتے کے بعد کلاس تھری تا پنجم کے ٹوٹل 66 بچوں سے کہا گیا ، کہ " فسٹ ایڈ بکس" کل لے کر آئیں تاکہ ہم آپ کو اسکے نمبر دیں گے ،،، تو آپ یقین کیجۓ ،، کسی ایک کے گھر ایک چیز سلامت نہیں تھی" ! سب کے گھر والوں نے اس نئی تربیت کو جہالت کی نظر کر دیا ۔ اور ہر چیز کو یوں چند گھنٹوں یا چند دنوں میں استعمال کیا جیسے کھیلنے کا کھلونا تھا ۔ ٹیچرز کو تو ڈپریشن ہونے لگا !! تسلی دی کہ یہ پہلی کوشش تھی ۔ہم اب دوسری تیکنیک آزماتے ہیں ،، وہ یہ کہ جو بچہ اپنا فسٹ ایڈ بکس بنا کر لاۓ گا ، اسے آنے والے امتحان میں اضافی 10 نمبر ملیں گے ،" ،،، لیکن صرف 8 بچوں نے اس شوق کا مظاہرہ کیا ۔ گویا اگر صدیوں کی نہیں تو عشروں کی جہالت ایک کوشش سے تو نہٰ جاۓ گی۔
کچھ ہفتوں بعد کلاس چہارم اور پنجم کے سبھی طلباء کر ایسے ہی ڈبے لانے کا کہا اور ان کو " سوئینگ بکس" تیار کروا کر دیا گیا ، پہلے کی طرح ایک چھوٹی قینچی ، دو ریلیں کالی اور سفید ، اور کچھ مردانہ بٹن اور کچھ ٹچ بٹن ، ایک سوئی ( نیڈل) ڈالکر دیا گیا۔۔۔ اور شکر کہ یہ ڈبا " گم شُد نہی ہوا ۔۔ بلکہ کافی بچوں نے اس کے مال میں اضافہ بھی کیا ۔ یہ سب اس لیۓ لکھا ہے کہ کسی بھی قسم کی جہالت ہو اسےبہت صبر سے ختم کرنا پڑتا ہے۔
جس دن سے سکول شروع ہوا ہے ،،، شاید ہی کوئی دن جاتا ہو گا کہ اسمبلی میں نہ کہا جاتا ہو " بازار کی بنی چیزیں ، بالکل نہ کھائیں ،،، " لیز چپس ، ٹافیاں بالکل نہ خریں ،، اور کوئی کولڈ ڈرنک نہیں پینی "( چیونگم ہماری صبح یا شام دونوں میں بین ہے ) ،،، اِن بچوں کو ان چیزوں کے بد اثرات بھی بتاۓ جاتے ہیں،، لیکن ساتھ یہ بھی کہ ایک پیکٹ چپس خریدنے کے بجاۓ ایک سیب خرید لو۔۔۔ انہی 10 بارہ روپوں میں دو کیلے خرید لو ،،،، مسلسل کہنے سے صرف 20 فیصد بچوں نے عمل شروع کر لیا ہے ۔
شروع   چند سالوں میں کلاس روم میں داخل ہوتے ہی ناگوار بُو کا سامنا کرنا پڑتا ،، ظاہر ہے ہاجین کے اُصولوں کی عدم موجودگی ،،، ہر مہینے ہر بچے کو ایک صابن لائف بواۓ کا صابن دیا جانے لگا ، یہ کہہ کر کہ " یہ صرف تمہاراصابن ہے ، گرمیوں میں تم روز اسی سے نہا کر آیا کرو " الحمدُ للہ کہ اب صورتِ حال بہت بہتر ہوچکی ہے ،۔
اسی سال ہم نے چھٹی ، آٹھویں اور نویں جماعتیں شروع کی ہیں ، ،، یہ کلاسزز صرف لڑکیوں کی ہیں ۔ لیکن ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بہت سی "مائیں " بےحد شکریۓ کے جملوں کو کہنے آئیں کہ جی ہماری لڑکی دور جانے کے چکر میں گھر بیٹھ رہی تھی ، آپ نے یہیں کلاسسز شروع کر کے ہماری دعائیں لیں ہیں وغیرہ اور ایک ماں تو مٹھائی کا ڈبہ بھی لے کر آئی ،،،،، یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہیں !۔
چھَٹی تا دہم ،، کی جماعتوں میں اس عمر کی لڑکیوں کو مینرز اور اقدار کی سخت ضرورت ہے ،، اور اس تربیت کی ضرورت ، ہر طبقے کے بچوں کو ہے ۔ اس لیۓ " لفظ تعلیم و تربیت کو یوں لکھا جانا چاہیۓ " تربیت اور تعلیم " ،،،، !۔
آخر میں ان جملوں پر اب تک کی " کوشش پبلک سکول " کی کوشش بارے ختم کروں گی کہ ۔۔۔
۔1) " بھلے ایک بچہ پڑھا سکتے ہوں ،، تو ایک ہی پڑھا دیں ، اس کی صرف فیس ہی نہ دیں ، بلکہ اس کے لباس ، جوتے اور اس کی کار کردگی کا بھی جائزہ لیتے رہیۓ ۔ اور اگر صاحبِ حیثیت ہیں تو یہی کام بڑے پیمانے پر کریں ۔
۔2) حکومت کو چاہیے تمام پرائیویٹ سکولوں کو آرڈر دے کہ شام کو اپنی بلڈنگ اسی قسم کے سکولوں کے لیۓ استعمال کریں ، تاکہ ذیادہ سے ذیادہ بچے سکولوں سے استفادہ کر سکیں ۔
۔3) ہم نے یہ صرف نیکی سمجھ کر نہیں کیا ، بلکہ فرض سمجھ کر کیا ہے ۔ کیوں کہ جس کے پاس جو صلاحیت ہو اسے آگے نہ پھیلانا گناہ ہو گا ! اپنی زندگی کو کسی بھی مثبت مقصد سے جڑے رہیۓ !۔
ہم نے اِن 13 سالوں میں بہت سے انسانی کرداروں کو بھی پڑھا ،،، گویا ،،، ہم نے سکھایا ہی نہیں ،،، بہت کچھ سیکھا بھی ،،، الحمدُ للہ !!۔۔۔۔
(منیرہ قریشی 8 دسمبر 2019ء واہ کینٹ ) ( آخری قسط )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں