" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ سوم )۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اللہ پاک نے اس کوشش پبلک سکول میں بتدریج برکت ڈالی ،،، اور دو سالوں کے اندر 200 بچے داخل ہوۓ ، ان دو سالوں میں ہم نے بھی بہت سے تجربے کیۓ ، کچھ غلطیوں کے بعد سیکھنے کا عمل جاری رہا ۔ اور ان غلطیوں کے بعد کچھ سموُتھ سلسلہ بھی چلا اور دوسروں کو کچھ بتانے کے قابل بھی ہوۓ ۔ ان میں خاص نکات یہ ہیں !۔
۔(1) پہلا سال جس میں قریبا ً 90 بچے موجود رہے ،،، اور یہ سب 4 سال سے لے کر 10 سال تک کے لڑکے لڑکیاں تھے ۔ 4 تا 6 سال کے بچے تو معاف کیے جا سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی وجہ سے سکول نہیں گۓ ،،، لیکن 7 تا 10 سال کے لیۓ لمحہء فکریہ تھا کہ " کیوں نہیں گۓ ؟؟؟ !
۔(2) ایسے اوور ایج بچوں کے لیۓ ہمیں وہ استانی رکھنی پڑی ،، جس میں " مامتا " کا جذبہ ذیادہ ہو ،،، اور وہ نرم زبان اور ہمدرد رویۓ سے اِن " بے مہار " جانوں کو سکول آنے کی طرف راغب کر سکے ۔ اللہ نے یہاں بھی مدد کی اور ایک ایف اے پاس اس خاتو ن نے کوشش
سکول کو جوائن کیا ،، جس کے تین بچے ہمارے صبح کے مارگلہ سکول میں پڑھ رہے تھے اور وہ بہت لائق بچے تھے ،، اسی سے اندازہ ہوا کہ وہ خاتون بہر حال با شعور ہے جو اپنے بچوں کو اتنا اچھا چلا رہی ہے ،، اسی لیۓ ہم نے پہلے تو اسے دو سال تک نرسری پھر ایک سال پریپ اور پھر جماعت اول کی ٹیچر بنایا ۔ مسز نسرین سہیل نے واقعی بچوں سے بہت محبت اور نرم مزاجی سے ٹیچر کا،، سکول کا ،،اور پابندئ وقت کا عادی کیا ۔ اور چھوٹے بچوں یا نرسری تا اول تک کے بچے کچھ راہ پر آ گۓ ۔ حالانکہ یہی بچے شروع کے چھے سات مہینے ایسا رویہ اپناۓ رہۓ ،جیسے میلے میں آۓ ہوں ۔ غیر سنجیدہ ، کوئی دلچسپی نہیں ، کوئی پرواء نہیں ، چاہے ڈانٹ ہے یا دھمکی ! ( جسمانی سزا کی بالکل اجازت نہ تھی ۔)
۔(3) جماعت دوم تا پنجم تک کے بچوں میں 8 تا 12 سال کے بچے آگۓ ،،لیکن یہ ہمارا پروگرام تھا کہ ہم لڑکیاں تو پھر بھی 12 سال سے اوپر کی رکھیں گے ،، لیکن لڑکے نہیں رکھے جائیں گے،، بلکہ لڑکے 10 سال سے ذرا اوپر ہوۓ تو نہیں رکھیں گے ، کیوں کہ لڑکے قابو کرنے مشکل ہوں گے ۔ لیکن بعد کے تین چار سالوں میں 12 سال تک کے لڑکوں کی ریلیکسیشن کر ڈالی ،، کیوں کہ چند پڑھنے والے لڑکے ایسے تھے ،، جن کو سکول میں رکھنے پر ہمیں کوئی حرج نہ لگا ۔( یعنی جماعت پنجم کے بچے 12 سال 13 سال کے تھے)
۔(4) ابتدائی دو سال ،، صرف جماعت دوم تک کی کلاسسز کا اجرا کیا گیا،، کیوں کہ 10 تا بارہ سال کے وہ طلباء جو کبھی آدھے ادھورے سکول گۓ تھے اور اب ہر لکھی بات بھول چکے تھے ،انھیں تین چار ماہ نرسری لیول اور پھر جب چل جاتے تو پریپ کا کورس کروایا گیا ، اور اس کے بعد کلاس ون انھیں ایک سال چار ماہ تک پڑھایا جاتا رہاتاکہ ان کی بنیادی کمی ذیادہ سے ذیادہ دور ہو سکے ، یاد رہے یہ ون کے طلباء 8 تا 10 سال کے تھے ۔
۔(5) شروع کے چار سال تک تمام سلیبس یعنی ، ہر مضمون کی کاپیاں ، کتابیں ، پنسل ، شاپنر ، اور ربر ،، دیۓ جاتے رہۓ ، تیسرے سال ،،، مجھے اسسٹ کرنے والی مس راضیہ نے کہا " آپ کچھ خرچ والدین پر بھی ڈالیں ، کیوں کہ ہر کلاس سے 10/12 بچے ایسے ہوتے ہیں جو ان چیزوں کو روزانہ کی بنیاد پر لے کر جاتے ہیں ، انھیں ان چیزوں کی قدر نہیں ۔ اور وہ بے دردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ یہ بات مان لی گئی ،، اور یوں تیسرے سال سے پنسل ربر نہیں دیا ۔ تو واقعی ہر کلاس سے صرف ایک دو بچے رہ گۓ جو کبھی پنسل یا شاپر نہ لاتے اور سکول انھیں دے دیتا ،،،،، بہ عینہ کتابوں کاپیوں کا بیڑا غرق ہونے میں کوئی دیر نہ لگتی ، لیکن اس سلسلے میں " والدین " پر یہ ذمہ داریشک سارا آج تک نہیں ڈالی گئی ۔ البتہ تین سال پہلے نئی پرنسپل تعینات کی گئیں ،،، اس نے صورتِ حالات کے تحت یہ تجویز دی کہ پہلی دفعہ بے سلیبس ہر بچے کو دیں ،، لیکن اگر سال کے اندر کتاب ورقہ ورقہ ہو جاۓ تو یا تو اسے سلائی کر لیں یا نئی لینی ہے تو یہ اس بُک شاپ کا پتہ ہے خود لے لیں ،،،، یقین کیجۓ ،،، ہمیں پہلے اکیڈمک سال کے اندر 70 فیصد بچوں کو کتب اور کاپیاں دو بار دینی پڑتیں تھیں،، لیکن اس قدم کے بعد یہ شکایت ایک فیصد رہ گئی ۔
اللہ پاک نے اس کوشش پبلک سکول میں بتدریج برکت ڈالی ،،، اور دو سالوں کے اندر 200 بچے داخل ہوۓ ، ان دو سالوں میں ہم نے بھی بہت سے تجربے کیۓ ، کچھ غلطیوں کے بعد سیکھنے کا عمل جاری رہا ۔ اور ان غلطیوں کے بعد کچھ سموُتھ سلسلہ بھی چلا اور دوسروں کو کچھ بتانے کے قابل بھی ہوۓ ۔ ان میں خاص نکات یہ ہیں !۔
۔(1) پہلا سال جس میں قریبا ً 90 بچے موجود رہے ،،، اور یہ سب 4 سال سے لے کر 10 سال تک کے لڑکے لڑکیاں تھے ۔ 4 تا 6 سال کے بچے تو معاف کیے جا سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی وجہ سے سکول نہیں گۓ ،،، لیکن 7 تا 10 سال کے لیۓ لمحہء فکریہ تھا کہ " کیوں نہیں گۓ ؟؟؟ !
۔(2) ایسے اوور ایج بچوں کے لیۓ ہمیں وہ استانی رکھنی پڑی ،، جس میں " مامتا " کا جذبہ ذیادہ ہو ،،، اور وہ نرم زبان اور ہمدرد رویۓ سے اِن " بے مہار " جانوں کو سکول آنے کی طرف راغب کر سکے ۔ اللہ نے یہاں بھی مدد کی اور ایک ایف اے پاس اس خاتو ن نے کوشش
سکول کو جوائن کیا ،، جس کے تین بچے ہمارے صبح کے مارگلہ سکول میں پڑھ رہے تھے اور وہ بہت لائق بچے تھے ،، اسی سے اندازہ ہوا کہ وہ خاتون بہر حال با شعور ہے جو اپنے بچوں کو اتنا اچھا چلا رہی ہے ،، اسی لیۓ ہم نے پہلے تو اسے دو سال تک نرسری پھر ایک سال پریپ اور پھر جماعت اول کی ٹیچر بنایا ۔ مسز نسرین سہیل نے واقعی بچوں سے بہت محبت اور نرم مزاجی سے ٹیچر کا،، سکول کا ،،اور پابندئ وقت کا عادی کیا ۔ اور چھوٹے بچوں یا نرسری تا اول تک کے بچے کچھ راہ پر آ گۓ ۔ حالانکہ یہی بچے شروع کے چھے سات مہینے ایسا رویہ اپناۓ رہۓ ،جیسے میلے میں آۓ ہوں ۔ غیر سنجیدہ ، کوئی دلچسپی نہیں ، کوئی پرواء نہیں ، چاہے ڈانٹ ہے یا دھمکی ! ( جسمانی سزا کی بالکل اجازت نہ تھی ۔)
۔(3) جماعت دوم تا پنجم تک کے بچوں میں 8 تا 12 سال کے بچے آگۓ ،،لیکن یہ ہمارا پروگرام تھا کہ ہم لڑکیاں تو پھر بھی 12 سال سے اوپر کی رکھیں گے ،، لیکن لڑکے نہیں رکھے جائیں گے،، بلکہ لڑکے 10 سال سے ذرا اوپر ہوۓ تو نہیں رکھیں گے ، کیوں کہ لڑکے قابو کرنے مشکل ہوں گے ۔ لیکن بعد کے تین چار سالوں میں 12 سال تک کے لڑکوں کی ریلیکسیشن کر ڈالی ،، کیوں کہ چند پڑھنے والے لڑکے ایسے تھے ،، جن کو سکول میں رکھنے پر ہمیں کوئی حرج نہ لگا ۔( یعنی جماعت پنجم کے بچے 12 سال 13 سال کے تھے)
۔(4) ابتدائی دو سال ،، صرف جماعت دوم تک کی کلاسسز کا اجرا کیا گیا،، کیوں کہ 10 تا بارہ سال کے وہ طلباء جو کبھی آدھے ادھورے سکول گۓ تھے اور اب ہر لکھی بات بھول چکے تھے ،انھیں تین چار ماہ نرسری لیول اور پھر جب چل جاتے تو پریپ کا کورس کروایا گیا ، اور اس کے بعد کلاس ون انھیں ایک سال چار ماہ تک پڑھایا جاتا رہاتاکہ ان کی بنیادی کمی ذیادہ سے ذیادہ دور ہو سکے ، یاد رہے یہ ون کے طلباء 8 تا 10 سال کے تھے ۔
۔(5) شروع کے چار سال تک تمام سلیبس یعنی ، ہر مضمون کی کاپیاں ، کتابیں ، پنسل ، شاپنر ، اور ربر ،، دیۓ جاتے رہۓ ، تیسرے سال ،،، مجھے اسسٹ کرنے والی مس راضیہ نے کہا " آپ کچھ خرچ والدین پر بھی ڈالیں ، کیوں کہ ہر کلاس سے 10/12 بچے ایسے ہوتے ہیں جو ان چیزوں کو روزانہ کی بنیاد پر لے کر جاتے ہیں ، انھیں ان چیزوں کی قدر نہیں ۔ اور وہ بے دردی سے ضائع کر دیتے ہیں ۔ یہ بات مان لی گئی ،، اور یوں تیسرے سال سے پنسل ربر نہیں دیا ۔ تو واقعی ہر کلاس سے صرف ایک دو بچے رہ گۓ جو کبھی پنسل یا شاپر نہ لاتے اور سکول انھیں دے دیتا ،،،،، بہ عینہ کتابوں کاپیوں کا بیڑا غرق ہونے میں کوئی دیر نہ لگتی ، لیکن اس سلسلے میں " والدین " پر یہ ذمہ داریشک سارا آج تک نہیں ڈالی گئی ۔ البتہ تین سال پہلے نئی پرنسپل تعینات کی گئیں ،،، اس نے صورتِ حالات کے تحت یہ تجویز دی کہ پہلی دفعہ بے سلیبس ہر بچے کو دیں ،، لیکن اگر سال کے اندر کتاب ورقہ ورقہ ہو جاۓ تو یا تو اسے سلائی کر لیں یا نئی لینی ہے تو یہ اس بُک شاپ کا پتہ ہے خود لے لیں ،،،، یقین کیجۓ ،،، ہمیں پہلے اکیڈمک سال کے اندر 70 فیصد بچوں کو کتب اور کاپیاں دو بار دینی پڑتیں تھیں،، لیکن اس قدم کے بعد یہ شکایت ایک فیصد رہ گئی ۔
۔( 6) اپنے طور پر چلاۓ گئے پروجیکٹ میں فنڈز کی کمی سے ہر قدم سوچ سوچ کر اُٹھانا پڑتا ہے ۔ تاکہ کسی کی اُمید پر نہ ہی رہنا پڑے ،،، مزے کی بات کہ چار سال تک ،، اکثر لوگوں نے ہمارے اس کام کی تعریف تو کی ۔ لیکن کسی قسم کی مالی یا اخلاقی مدد آفر نہیں کی ،،، اور اس دوران چار سال تک ہم اِن بچوں کو کسی یونیفارم یا بیگز کی سہولتیں نہیں دے سکتی تھیں ۔ اور پھر ہمارے پرانے پڑوسی انکل رشید جن کے ساتھ ہمارا دلی پیار اور تعلق تھا ،،اور وہ کافی عرصہ سے دوسرے شہر میں رہتے ہیں ۔ انھوں نے کہلوایا ،، ہمیں بھی کوئی نیکی کمانے دو ،، تب میں نے بتایا کہ جن کتب ، کاپیؤں پر ہمیں پہلے سال خرچ کرنا پڑا ،، اسی بُک ڈیلر بھٹی صاحب کو جب علم ہوا کہ یہ فری سکول ہے تو پھر آج 12 سال سے وہ فری آف کاسٹ کتابیں اور نوٹ بکس بھجواتے ہیں ،،، گویا ،، نیت صاف ،منزل آسان ! اور یوں ہمیں آسانیاں ملتی چلی گئیں ۔ انکل رشید کے پوچھنے پر ہم نے انھیں 250 بچوں کا بتایا تو انھوں نے لڑکے لڑکیوں کے لیۓ نہ صرف یونیفارمز بھجواۓ ، بلکہ جوتوں اور سویٹروں کے پیکٹ بھی بھجواۓ ،،، انہی کی بیٹی شاہدہ نعیم نے سبھی بچوں کے لیۓ سکول بیگز بھجوا دیۓ ، اور یوں ہم اس طرف سے بےفکر ہو کر بچوں کی تعلیم اور تربیت پر مکمل متوجہ ہو گئیں ۔ سکول شروع ہوۓ چوتھے سال سے اب تک 250 ، یا 230 اور کبھی 260 تک بچے موجود رہتے ہیں ۔ یہ فِگر اس لیۓ بھی کمی بیشی کا رہتا ہے کہ ہماری اپنی کوشش بھی ہوتی ہے کہ ان میں سے جن بچوں کا داخلہ سرکاری سکولوں میں ہو سکتا ہے ، ہو جاۓ ،،، کبھی تو ہمیں اس میں بہت کامیابی حاصل ہو جاتی ہے ،،، اور کبھی بالکل نہیں ہوتی ۔ البتہ بچہ خود کسی کی کوشش سے سرکاری سکول میں پہنچ جاۓ تو یہ بھی خوشی کی بات ہوتی ہے ۔ کہ ہمارے پاس صرف پانچویں تک کی سہولت " تھی " ،،،،،،،،۔
۔(7) " تھی " اس لیۓ لکھا ہے کہ دو سال پہلے صرف لڑکیوں کے لیۓ چَھٹی ،،،،، آٹھویں اور نویں کی کلاسسز شروع کر دیں ہیں ،،صرف لڑکیوں کے لیۓ اس لیۓ کہ انھیں دور نہ جانا پڑے ، اوروالدین سکول کی دوری کا بہانا بنا کر انھیں روک نہ سکیں ۔ لڑکے تو پھر بھی ذرا دور جا سکتے ہیں ۔ اور دوسرے پھر وہی بات کہ لڑکے قابو کرنا کچھ مشکل ہوتا ہے ۔ اس کے لیۓ فی میل ٹیچرکا ہونا ضروری ہے جو میں ابھی نہیں رکھنا چاہتی ،اور یہ الگ موضوع ہے ۔
( منیرہ قریشی 4 دسمبر 2019ء واہ کینٹ ) ( جاری)
۔(7) " تھی " اس لیۓ لکھا ہے کہ دو سال پہلے صرف لڑکیوں کے لیۓ چَھٹی ،،،،، آٹھویں اور نویں کی کلاسسز شروع کر دیں ہیں ،،صرف لڑکیوں کے لیۓ اس لیۓ کہ انھیں دور نہ جانا پڑے ، اوروالدین سکول کی دوری کا بہانا بنا کر انھیں روک نہ سکیں ۔ لڑکے تو پھر بھی ذرا دور جا سکتے ہیں ۔ اور دوسرے پھر وہی بات کہ لڑکے قابو کرنا کچھ مشکل ہوتا ہے ۔ اس کے لیۓ فی میل ٹیچرکا ہونا ضروری ہے جو میں ابھی نہیں رکھنا چاہتی ،اور یہ الگ موضوع ہے ۔
( منیرہ قریشی 4 دسمبر 2019ء واہ کینٹ ) ( جاری)
Ghazala Siddiqui
جواب دیںحذف کریں12 سال کا یہ سفر کامیابی کے ساتھ طے کرنا اتنا آ سان بھی نہ رہا ہوگا مگر آ پ کی ذاتی مثالی کو شش بہت ہمت افزاء ہے _ جو لوگ ابتداء کر چکے ہیں یا ارادہ کر رہے ہیں۔ انہیں کوشش اسکول میں وقت اور ضروریات کے تحت اختیار کی گئ تعلیمی ترجیحات بہت مدد دے سکتی ہیں _ بہت شکریہ منیرہ آ پا اس قابل قدر شئرنگ کے ل