" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش " " ذاتی تجزیہ "
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
ویسے تو یہ ایک " فری سکول کی شروعات اور پھر اس وقت 2019ء تک کی جدوجہد ، خیال جو سوچے تھے ، اس دوران کےاثرات جو بچوں پر دیکھے ،، اور خود پر محسوس ہوۓ" ، اس کا نچوڑ یا میرے نزدیک اسسمنٹ یہ ہے جو میں بلا کم وکاست لکھ رہی ہوں ۔
۔1) ،،، بہت اچھا خوشحال طبقہ ،، بہت پڑھا لکھا طبقہ ،، کم خوشحال طبقہ،، کم پڑھا لکھا طبقہ ،،،، بے حد غریب طبقہ ،، ان سب سے 30 سالہ تعلیمی روابط رہے ، اور یہ دیکھا محسوس کیا ، اور یقین کیا ہے کہ ،،،، پاکستان کا اصل مسلہء غریبی نہیں ، جہالت ہے ۔ اور جہالت صرف " علم " کی کمی سے نہیں ، بلکہ تربیت کی کمی سے ہے ۔
۔2) ،،،ٹیچرز ، وکیل اور ڈاکٹرز ،، کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ،، ٹیچرز کی طرف سے تعمیری تربیت ، اور ڈاکٹرز اور وکیل کی طرف سےمخلص مشورہ ،، زندگی کے آخری سانس تک یہ فرض ادا کیا سکتا ہے۔
۔3) آج کے معاشرے میں موٹیویشنل افراد اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ، لیکن ابھی یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ،، ذیادہ ضرورت تربیتی سینٹرز کی ہے ، اور یہ ہر عمر کے لوگوں کے لیۓ ہو ۔تاکہ ، آداب کا ماحول عام ہو اور،، جنگلی خود سری ، اڑیل پن ختم ہو ۔
۔4) کچھ عرصے کے لیۓ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز ( سیاسی) ختم ہوں۔تاکہ ہماری قوم کے مزاج میں ٹہراؤ آجاۓ ،، بے نتیجہ بحث مباحثہ سے بہتر ہے کہ کہ اچھے موضوعات پر ٹاک شوز شروع ہوں ۔ نیز ان کے ڈراموں میں "معمولی افعال کو معمولی نہ سمجھیں ،، قوم کی تربیت کے پہلو کے تحت ہی انھیں رواج دیں " ،،،، مثلا" ڈراموں میں عام گھرانہ دکھاتے وقت کھانا پلنگ پر کھاتے دکھاتے ہیں ، خاص دھیان رکھیں کہ غریب سے غریب بھی کچن میں بیٹھ کر کھاۓ ، اور کھانے سے پہلے اور بعد میں "کردار ہاتھ ضرور دھوئیں " ۔ تب انتہائی آہستگی سے ہماری قوم اپنے بُھولے ہوۓ آداب کی عادی ہو گی ! کردار ٹیکسی ڈرائیور یا رکشا ڈرائیور ہے ، اترتے وقت سواریاں شکریہ ضرور بولیں !!!وغیرہ،،،۔
۔5) بہت بولنا ،، اوربالکل نہ بولنا ،، شاید دونوں ہی گناہ میں شمار ہوں گے ۔ ہمیں غلط کام پر ٹوکنا چاہیۓ ، اوراس بات کو یوں نہ سمجھیں کہ ،، یہ بندہ ردِعمل میں میری بے عزتی کر سکتا ہے ،،، یا ،،، میرا اس بات سے کیا لینا دینا ، مجھے کیا ؟؟؟؟؟ یہ رویہ مجرمانہ غفلت کا ہو گا !!۔
۔6) ہر لیول کے سکولوں کے سلیبس میں ،، عملی کام کے اسباق ( چیپٹرز ) زیادہ ہوں ۔ اور اسے اساتذہ کی کارکردگی کے لیۓ ضروری خیال کیا جاۓ ،، کیونکہ یہ عملی اقدامات ( پریکٹیکلز ) بچوں کو ضرور یاد رہ جاتے ہیں مثلاًبےکار اشیاء کو کارآمد بنانا ،،، چھوٹے پیمانے پر کسی بزنس کو شروع کرنا ، اور اس کی آمدن کا ریشو ٹیچر کو بتانا ( یہ کام بچےگروپ کی صورت میں انجام دیں )۔ ہر طرح کی ایمرجنسی میں کیا عملی اقدامات کیۓ جائیں ، ٹیچر لازماً ہر بچے سے کروا کر اس کی کارکردگی کا اندراج کرے وغیرہ ! اس لیۓ کہ گھر یا باہر کسی بھی صورتِ حال سے بچے گھبراہٹ کے بغیر نبٹ سکیں ۔ یہ چیز اُن کی خوداعتمادی کو بڑھاۓ گی ۔
۔7) بچوں کو سال میں دو دفعہ ، (اگر گنجائش ہے تو ) ورنہ ایک دفعہ لازماً کسی بھی چھوٹی یا بڑی فیکٹری کا وزٹ کروائیں ،، بچے عملاً جب چاکلیٹ بنانے کی فیکٹری دیکھتے ہیں تب انھیں پتہ چلتا ہے کہ ایک چاکلیٹ جو اُن کے ہاتھ تک پہنچتی ہے کہ کتنے مرحلوں سے ہو کر آتی ہے ۔ ہمارے بچے بہت ذہین ہیں ، اور اس طرح اُن کا وژن دور تک پہنچتا ہے ۔
۔7) بچوں کو سال میں دو دفعہ ، (اگر گنجائش ہے تو ) ورنہ ایک دفعہ لازماً کسی بھی چھوٹی یا بڑی فیکٹری کا وزٹ کروائیں ،، بچے عملاً جب چاکلیٹ بنانے کی فیکٹری دیکھتے ہیں تب انھیں پتہ چلتا ہے کہ ایک چاکلیٹ جو اُن کے ہاتھ تک پہنچتی ہے کہ کتنے مرحلوں سے ہو کر آتی ہے ۔ ہمارے بچے بہت ذہین ہیں ، اور اس طرح اُن کا وژن دور تک پہنچتا ہے ۔
۔" مجھ سے ان اقساط میں جو کمی نظر آئی،اس کے لیۓ معذرت،اور اس تجزیۓ میں آپ نے اختلافِ راۓ کیا ہے تو بسم اللہ ،،، کہ "مثبت اختلافِ " راۓ اس فانی دنیا کا حُسن ہے ۔
آخر میں اس تجزیۓ پر آپ کی آراء کی منتظر رہوں گی !۔
( منیرہ قریشی 10 دسمبر 2019ء واہ کینٹ )
Ghazala Siddiqui
جواب دیںحذف کریںکوشش اسکول کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کے گوناگوں اور معمول کے چیلینجنگ مسائل کا بھاری بوجھ اٹھاتے اپ لوگ نہ تھکے نہ بد دل ہوئے بلکہ بچوں کی تربیت کے لئے کئ اسٹریٹیجیز بدلیں تاکہ کسی طرح ان کی سوچ بہتر لیول کی طرف جائے اور وہ معاشرے میں قابل قبول مہذب افراد میں شامل ہو سکیں _ ان کا آ ج سنورے یا کل ہی سنور جائے یہ کوشش مستحکم ارادوں سے کرتے رہنا اور آ گے بڑھتے رہنا بہت قابل قدر مثال ہے جو کوشش اسکول نے قائم کی _ ستائش کی تمنا یا صلے کی پرواہ کئے بغیر علم کے چراغ لے کے اندھیروں کو روشن کرنے کی اپنی سی کوشش تو کی __
میرا خیال ہے اپ کے ہاتھوں تربیت پائے بچے معاشرے میں کہیں ضرور کچھ اچھا کررہے ہونگے اور کریں گے۔
، یہ آرٹیکل ، غزالہ صدیقی جو خود بھی با شعور ایجوکیشنٹ ہیں کے گروپ " بنیاد" میں اُن کی فرمائش پر لکھا ،،، وہ اسی طرح حوصلہ افزائی کرتی رہیں اور میرے یاداشت کی کتاب پر گزرے لمحے ، ایک فلم کی طرح سین گزارتے چلے گۓ ، اور " بنیاد" سے ان آرٹیکلز کو اس لیۓ شفٹ کیا کہ ایک " کوشش " تھی جسے میرے گروپ کے لوگ کے سامنے بھی آنی چاہیۓ ۔ اور آج بھی اس سکول کو دیکھتی ہوں تو صرف اور صرف اللہ رب ا لرحیم کی کرم نوازی کے علاوہ کوئی اور بات نظر نہیں آتی ! الحمدُ للہ ،
جواب دیںحذف کریںغزالہ صدیقی۔۔۔
جواب دیںحذف کریں12 سال کا یہ سفر کامیابی کے ساتھ طے کرنا اتنا آ سان بھی نہ رہا ہوگا مگر آ پ کی ذاتی مثالی کو شش بہت ہمت افزاء ہے _ جو لوگ ابتداء کر چکے ہیں یا ارادہ کر رہے ہیں۔ انہیں کوشش اسکول میں وقت اور ضروریات کے تحت اختیار کی گئ تعلیمی ترجیحات بہت مدد دے سکتی ہیں _ بہت شکریہ منیرہ آ پا اس قابل قدر شئرنگ کے لئے