۔" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش " ( حصہ اول )۔
۔2004ء میں جب اپنے "مارگلہ گرامر سکول" کے لیۓ دن رات ،محنت اور مصروفیت سے بھرپور دن گزر رہے تھے ،،، تَو ریلیکس ہونے کے لیۓ اپنے گھر کے پہلے بچے یعنی اپنی پوتی ملائکہ کو لے کر اکثر لمبی واک یا کسی قریبی پارک کی طرف نکل جاتی ،،،،اکثر لوگوں کے انٹرویوز میں اس سوال کے جواب میں کہ " آپ کو اس کام کا شوق کب ہوا ؟ تو وہ جواب دیتے ہیں کہ " جی بچپن سے شوق تھا " ! یہاں میَں بھی یہ جملہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مجھے ٹیچر بننے کا شوق بچپن سے تھا ۔ اور " بالکل اتفاقاً " میَں ٹیچر بن گئی ، حالانکہ میَں تین بچوں کی ماں اور ٹوٹل گھریلو عورت تھی یہ اللہ کی طرف سے فیصلے ہوتے ہیں ، بس صرف وقت کی گھڑی کی سوئی" کلک " کر کے بجتی ہے، اور وہ واقعہ پیش آجاتا ہے ، جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہوتا ۔ کانووینٹ سکول کی نویں دسویں کی اردو اسلامیات کی ٹیچر کو اچانک ملک سے باہر جانا پڑا ،، اور مجھے ان کی جگہ با اصرار ٹیچر بنایا گیا ،، لیکن میَں نے یہ شرط رکھی کہ " جوں ہی آپ کو کوئی اور ٹرینڈ ٹیچر ملی ، میَں جاب چھوڑ دوں گی " ،،، فروری 88ء میں یہ جاب شروع ہوئی اور مجھے مزا آنے لگا ،، اچھے ہمدرد لوگوں کے درمیان بہت کچھ سیکھنے کے مواقع ملنے لگے ،، اور ساڑھے پانچ سال وہیں گزارنے پر جب چھوڑنا پڑا تو دلی اداسی نے تا دیر پیچھا نہ چھوڑا ۔ لیکن ،،،،،، ایک بات جسے میَں نے اس شعبے میں رہ کر سیکھا اس کا عنوان اگر لکھوں تو یہ ہے " ٹیچر ہر وقت آن جاب رہتی / رہتا ہے" ۔ چاہے وہ سکول سے ریٹائر ہو جاۓ ۔ ٹیچر راہ چلتے لوگوں کو بھی کچھ کہنے ، سکھانے سے رہ نہیں سکتی ، کہ یہ سب وہ اپنا فرض سمجھ کر کے کر رہی ہوتی ہے ، اور یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔
اور یہاں اپنا سکول 1992ء میں شروع کیا تو ایک نیا تجربہ ، نئی تگ و دو شروع ہو گئی ۔اب 2004ء آچکا تھا ۔ کسی بھی ذاتی پروجیکٹ کو شروع کرنے ،، اسے ایک خاص لائن کی طرف لانے میں اس وقت ذیادہ لوڈ پڑتا ہے جب آپ دو خواتین ، بہت ہی کم سرماۓ سے کوئی بڑا پروجیکٹ شروع کر دیں ۔ بے شک ہمارے پیچھے سب سے بڑی سپورٹ ہمارے والد کی تھی ،، جن کی طرف سے ملی جائیداد نے اور حوصلہ افزائی نے ہمیں بنیادیں دے دیں !۔
ایک بات کا شوق اور جذبہ ہم دونوں بہنوں کو سکول شروع کرنے کے اول دن سے تھا کہ ہم کمزور ، طبقے کو بھی ساتھ لے کر چلیں ۔ اس سلسلے میں ہم نے یہ ہی سوچا تھا کہ اپنے گاؤں میں بھی ایک سکول شروع کر لیتے ہیں ، جو اُسی لیول کے سلیبس کے مطابق ہو ، وغیرہ ۔ لیکن ہمارا گاؤں ہمارے گھر سے10/15 میل دور ہے ، اس تک روزانہ پہنچنا اس لیۓ بھی مشکل لگتا تھا کہ اس وقت سکول کی اپنی کوئی وین نہیں تھی ۔ اور اپنا سکول بہت ٹائم لے لیتا تھا ،، ہم نے اس پروجیکٹ کو اگلے کسی اچھےوقت کے لیے چھوڑ دیا لیکن دل میں یہ بات ہر وقت رہتی کہ " یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے مال اور صلاحیتوں میں کمزوروں کو بھی شامل کریں ، ورنہ ہمیں اللہ کی طرف سے پوچھ ہو گی " ( یہ حرف حرف سچائی ہے )۔
اور اب شاید اس نیک نیتی کے جذبے کا وقت آن پہنچا تھا کہ ،،،،،،،،میَں جب بھی کسی پارک ، میں جاتی ہوں ،، وہاں پھرتے بچوں سے کسی نا کسی قسم کی گفتگو کر تی ہوں ( ٹیچر جو ہوئی )۔ ستمبر کے خوشگوار دن تھے ، اور اس دن " ہفتہ" تھا ، چھٹی بھی تھی ، میَں اپنی تین سالہ پوتی ملائکہ کو پارک گھمانے لے گئی ،،صرف چار بچے اس وقت جھولوں پر کھیل رہے تھے ،، سرکاری سکول ہفتے کو کھلے رہتے ہیں ،، بچوں کے حُلیے غریبانہ سے تھے ۔ میَں نے پوچھ لیا ،،" تم لوگ سکول کیوں نہیں گۓ ؟ انھوں نے بتایا ، ہم سکول میں داخل ہی نہیں ہوۓ! کیوں بھئی اچھے خاصے بڑے ہو ،، یہ تین بھائی اور ایک بہن تھی ۔ انھوں نے بتایا ہم کچھ عرصہ پہلے واہ میں آۓ ہیں ،،، پوچھنے پر انھوں نے بتایا ، ہم نزدیک ہی ایک سرونٹ کواٹر میں رہتے ہیں ،، میَں اسی وقت ان کے سرونٹ کوارٹر میں آ ئی ،، ایک تندرست ، خوش مزاج 35،34 سالہ ماں نے استقبال کیا ،، سلام دعا کے بعد میَں نے اسے ڈانٹ کر پو چھا یہ بچے اور گھر میں موجود ایک اور خوش شکل 11 سالہ بیٹی بھی ،، سکول کیوں نہیں داخل کرواۓ ؟ اس نے عاجزی سے کہا کہ " ہم 6 /7 ماہ پہلے اپنے علاقے ضلع اٹک سے یہاں آۓ ہیں ،شوہر کسی صاحب کا ڈرائیور ہے ، صبح کا گیا شام کو آتا ہے ،، اور میَں اَن پڑھ ہوں ، یہ بھی نہیں پتہ سکول کس طرف ہیں ۔ انہی سے ایک کاپی کا ایک صفحہ لیا اور اس پر ایک سفارشی رقعہ لکھ کر اپنی ایک واقف سرکاری سکول کی ٹیچر کو ان بچوں کا ٹسٹ لینے اور انھیں داخلے کی درخواست لکھ دی ، سکول کا راستہ سمجھایا اور اگلے دن پھر آنے کا کہہ کر آگئی ، واقف ٹیچر " مس رضیہ " کو اللہ بہت جزاۓ خیر دے کہ انھوں نے بہت تعاون کیا اور دو لڑکیاں اور ایک لڑکا تو داخل ہو گۓ ،،،لیکن ایک لڑکا " مدثر"۔
وہاں کے سکول کے لیۓ ' اوور ایج ' نکلا ،، اور اسے داخل نہ کیا گیا ۔ اب ہم دونوں بہنوں کے لیۓ وہ ہماری ذمہ داری بن گیا ،، اسے میَں نے اپنی اسی برانچ میں بلانا شروع کر دیا جو ان کے گھر سے چند منٹ دور تھی ، اور اردو ، اور حساب میرے ذمے اور انگلش ،، عذرا کے ذمے ہو گئی ،، چند ہفتے اسے کوچنگ دینے سے اندازہ ہو گیا کہ بچہ ذہین ہے ،،،، اور 6 ماہ کے اندر ہمارے صبح کے سکول کا نرسری کا سارا کورس ختم کر لیا ، ،، اور پھر اسے ہم نے اپنے صبح کے سکول میں پریپ میں داخل کر لیا ،، جس کلاس میں میری پوتی داخل تھی اسی میں مدثر کو بھی موقع دیا گیا ۔ ( جاری )۔
( منیرہ قریشی ، یکم دسمبر 2019ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں