" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ دوم )۔
اور یوں" مدثر " نام کا بچہ ہمارے اُس خیالی اور خواہشمندپروجیکٹ کی ابتدا بن گیا ،، یعنی وہ دلی خواہش کہ ہم کمزور ، طبقے کے لیۓ بھی اپنی " اوقات " کے مطابق کچھ کریں ۔ اس بچے کے ذریعے ہمیں اُس خیال نے تقویت دی۔
یہاں میں دو اہم باتیں بتانا چاہوں گی کہ اپنے مارگلہ سکول کو شروع کرنے سے پہلے ہی ہم بہنوں کو والدہ کے حکم کے تحت اپنے ملازمین کے بچوں کو سکول کا کام کروانا روزانہ کا کام تھایا ،، پھر چھٹیوں کا ہوم ٹاسک مکمل کروایا جاتا تھا ۔ یہ بھی واضح کر دوں کہ میَں اس وقت نویں میں اور میری چھوٹی بہن آٹھویں جماعت میں تھی ( اپنی والدہ کے حکم پر اُ س وقت یہ کام بہت برا لگتا تھا اب خیال آتا ہے کہ ایسے کام سےغریب بچوں کی ذہنی سطح سمجھنے میں اُن سرونٹس کے بچوں کو پڑھانا مدت بعدکام آ گیا )،، اور یہ جذبہ ہم نے اپنے والدین سے حاصل کیا ،،، ہماری والدہ کبھی کسی سکول نہیں گئیں ، وہ اپنے والد سے ابتدائی چھے سات جماعت کا کورس پڑھ چکی تھیں ،، اللہ نے انھیں بہت ذہانت سے نوازا تھا ، اسی لیۓ وہ تعلیم کی اہمیت سے آگاہ تھیں ،، اباجی نے انھیں مکمل آزادی دے رکھی تھی کہ وہ کسی بھی قسم کا ویلفئر کا کام کرنا چاہیں تو کریں ،، ان کے حلقۃ احباب میں ، جوان ، بوڑھے ، تعلیم یافتہ ، اَن پڑھ ہر طرح کے لوگ تھے ،، جب بھی کوئی غریب یا اَن پڑھ ملاقاتی آتا تو وہ دو باتیں ،، لازما ً پوچھتیں تھیں ،،، بچے سکول جاتے ہیں ؟؟ گھر اپنا ہے یا کراۓ کا ؟؟؟ اگر بچے داخل نہیں تو پہلے ڈانٹ پڑتی اور پھر فوراً ان کے داخلوں کے بندوبست کی فکر شروع ہو جاتی ۔۔ اور اگر گھر نہیں تو اسے کمیٹی ڈالنے اور وہ کمیٹی کے پیسے والدہ کے پاس رکھوانے کا آرڈر ہوتا ۔ اتنے پیسے جمع ہوتے کہ زمین کا سودا ہو سکتا ہے ،، تو یہ کام اباجی کے ایک حوالدار کے سپرد ہوتا ،، اور پھر گھر کی رجسٹری کے وقت اباجی کو مجبور کیا جاتا کہ آپ موجود ہوں گے ،، ایسے ہی تین گھروں ، کا تو مجھے اچھی طرح علم ہے ، نہ جانے اَور کتنے ہوں گے ۔ ( یہ ساری بات اس لیۓ لکھی ہے کہ بچوں کے سامنےوالدین جو اچھے کام کرتے ہیں ،، اس کے اُس بچپنے کے دور میں اگر اہمیت نہیں ہوتی ،، توسمجھ داری کی عمر میں پہنچ کر ضرور اثرات لیتے ، اور وہ بچے کچھ نا کچھ ویسے ہی عمل کرنا پسند کرتے ہیں ،، اور پھر نیکیوں کی جو فصل ہمارے والدین بَو جاتے ہیں ، دراصل اس فصل کا فائدہ ہمیں ضرور پہنچتا ہے ، وہ فائدہ اچھے خیال کی صورت میں ہو ،، یا اچھے اعمال کی صورت میں ہو ،،، لیکن ہم اپنے والدین کے لیۓ یہی کر سکتے ہیں ، کہ جو پروجیکٹ وہ چاہتے تھے کہ آگے بڑھائیں ، ہم انھیں آگے ضرور بڑھائیں )۔
دوسری بات کہ ہم نے اچھے طریقے سے اپنا صبح کا سکول چلا لیا تو " مدثر " جیسے مزید بچوں کو کیوں داخل نہیں کیا ؟
مجھے اپنے وطن سے تو پیار ہے ہی لیکن اپنے علاقے کے علاوہ اگر کہیں رہنے کا موقع ملتا تو وہ " لاہور " ہوتا ،،، اور لاہور میں داتا صاحب ؒ جیسے عظیم ہستیوں کے علاوہ زندہ لوگ بھی ایسے تھے کہ اگر میں وہاں رہ رہی ہوتی تو شاید انہی کے گھروں کے پھیروں میں زندگی گزار دیتی ،،، جناب اشفاق احمدؒ اور بانو قدسیہ صاحبہؒ جیسی ہستیوں سے دو مرتبہ لمبی سٹنگ ہوئی،اور ان کی صحبت سے فیض اُٹھانا ، یہ ہماری خوش قسمتی رہی ۔۔ ایک ملاقات میں ہم نے اُن سے کہا کہ " ہم نے ایک سکول شروع کر رکھا ہے " اب ایسی پوزیشن آ گئی ہے کہ ہر کلاس میں غریب طلباء کو بھی ساتھ رکھیں تو آپ کی اس بارے کیا راۓ ہو گی " ،،، دونوں ذہین دانشوروں نے کہا " الگ سکول بنا سکو تو ٹھیک ،، ورنہ غریب کو احساسِ کمتری میں نہ ڈالو " ، " اگر غریب بچہ اپنے ساتھ بیٹھے خوشحال کلاس فیلو کو تین سو کے لنچ باکس سےسو روپے کا برگر نکال کر کھاتا دیکھے گا ، تو غریب اپنے ہی خول میں سُکڑ سکتا ہے"،،،، ،،، اور یوں ہم نے ایک الگ سکول کا پروجیکٹ آگے آنے والے دور پر چھوڑ دیا ۔ یہ بات ہے 1994/95 کی !!۔
اور اللہ پاک کی مہربانی ، فضل و کرم سے 2005 میں اس پہلے بچے سے "خیال" شروع ہوا۔،، یہ بچہ مدثر ہمارے سکول میں6 سال پڑھا ،، اور کسی ٹیچر کو علم نہیں تھا کہ یہ کس کا بیٹا ہے ،، ورنہ کبھی کبھار ٹیچر بھی تفاوت برتنے لگتی ہے ،، اور خوشی اس بات کی کہ وہ 26 بچوں میں تعلیمی لحاظ سے پہلے دس بچوں میں شامل رہا ۔
اسی دوران ہماری سینئر برانچ میں ایک کمرہ خالی تھا ،، جہاں کبھی مدثر کو الگ بٹھا کر پڑھایا گیا تھا ،، اب مختلف " آیاز اور چوکیداروں " کے 20 بچے پڑھنے لگے ، اب اُن کے لیۓ ایک ٹیچر رکھی گئی ۔ جو ایم اے انگلش تھی ،، اس نے خوب جذبے سے اِن بچوں کی کوچنگ شروع کی ،، لیکن یہ سب وہ بچے تھے ،۔
۔1) جو مختلف عمروں کے تھے ۔
۔2) یہ اپنے اپنے خاندان کے پہلے بچے تھے جو سکول ، جماعت ، کتابوں ، اور قلم سے روشناس ہورہے تھے ۔
۔3) ان میں سے ذیادہ تر بچوں کے والد نشہ کرتے اور نکمے تھے ،، گھر میں اس قسم کے گھٹیا کردار والد کی موجودگی سے گھریلو ماحول کا جو حشر ہوتا ہے ،، اس کی وجہ سے یہ بچے بھی سکول ، اور کتابوں کو " مذاق " ( نان سیریس ) سمجھ رہۓ تھے جو ہمارے لیۓ " جھنجھلاہٹ " کا باعث بن رہا تھا ۔
۔4) تمام کاپی کتابیں ، پنسل وغیرہ سکول دے رہا تھا ۔ اور بچے یہ پنسل ربر روزانہ کی بنیاد پر لیتے ،، کہ پہلے والا گم ہو گیا یا چُورا چُورا ہو چکا ہے۔
۔5) وقت کی پابندی کے لفظ اُن کی لغت میں نہیں تھے ۔
اب وقت آ گیا تھا کہ ایسے بچوں کے لیۓ پراپر ضوابط کے ساتھ سکول شروع کیا جاۓ ،،،ہماری مارگلہ سکول کی پہلی برانچ جسے ہم " مین برانچ " کہتے ہیں ،،میں شام کا سکول شروع کیا گیا ۔ یہ 2007ء کے تعلیمی سیشن کی ابتدا تھی ۔ شام کا وقت سے مراد دوپہر پونے دو بجے سے گرمیوں میں 6 بجے اور سردیوں میں پانچ بجے تک ہے ۔( کیونکہ صبح کا سکول ایک چالیس پر ختم ہو جاتا ہے )۔
۔2007 ء سے 2016 ء تک بطور پرنسپل میَں خود ہی اس سکول کا سلیبس ، اور باقی تمام اُمور انجام دیتی رہی ، اپنی اسسٹنٹ کے طور پر صبح کی اکاؤنٹنٹ کو درخواست کی کہ الگ تنخواہ کے ساتھ تم مجھے شام کو اسسٹ کرو ،، کیوں کہ وہ غیر شادی شدہ تھی اور جدوجہد کے اس دور سے گزر رہی تھی جہاں اسے ڈبل کام کر کے پیسے کمانا پڑ رہے تھے ۔ وہ باشعور لڑکی ، ایف ایس سی ، اور پھر اردو ایم اے کر چکی تھی ۔ اور یوں مس راضیہ ، میری بہن عذرا اورمیرا ساتھ ایسا رہا کہ ہمیں پتہ ہی نہ چلا
اور بچوں کی تعداد پہلے سال میں90 ہو گئی ، جب کہ آج تک اس سکول کا کوئی اشتہار نہیں دیا گیا بلکہ زبانی کلامی سرونٹ کوارٹرز کی عورتوں نے ایک دوسرے کو بتانا ، اور پھر بچے آتے چلے گئے ۔
ہمارے مارگلہ سکول کا نرسری اور پریپ کا کورس بےشمار تجربات اور کاوشوں کے بعد ایسا " سیٹ ہوا " کہ اُس میں بہت ہی کم ردوبدل کی ضرورت پیش آتی ہے ،، ہم نے نرسری اور پریپ کا وہی کورس اس سکول کے لیۓ منتخب کیا ،،،" کہ بچے تو نرسری کی وہ کونپلیں ہوتے ہیں ، جن کےلیۓ احتیاط اور خوراک ایک جیسی ہوتی ہے ،اور ہونی چاہیۓ، چاہے وہ جس بھی سر زمین کے ہوں " ،،،۔
اور یوں ایک " پرانا ، دلی جذبہ ، اور خواہش " کوشش پبلک سکول" کی صورت میں سامنے آ گیا ،،، جو اللہ کہ مہربانی ، اس کے احسان، مدد اور کرم کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا کہ " کوشش " کو کسی بہتر راستے کی طرف رُخ عطا کرنے والی وہی ذات ہے ، ورنہ انسان تو صرف " کوشش " ہی کر سکتا ہے !۔
(منیرہ قریشی 2دسمبر 2019ء واہ کینٹ ) ( جاری )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں