" کوشش پبلک سکول ، ایک کوشش" ( حصہ چہارم)۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
۔جُوں جوں وقت گزرتا گیا ، بچوں کی تعداد بڑھنے لگی ، یہاں نرسری تا پنجم کے لیۓ 12 ٹیچرز کا سٹاف تھا، ، ( ایک ایک سیکشن تھا) لیکن ہم ہر بچے کو داخل نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ
۔جُوں جوں وقت گزرتا گیا ، بچوں کی تعداد بڑھنے لگی ، یہاں نرسری تا پنجم کے لیۓ 12 ٹیچرز کا سٹاف تھا، ، ( ایک ایک سیکشن تھا) لیکن ہم ہر بچے کو داخل نہیں کر سکتے تھے کیوں کہ
۔ ،1) ،،کچھ بچے بہت دور سے آتے تھے ، شام ہو جانے پر انھیں لانے ، لے جانے کے پرابلمز آۓ دن پیش آتے ،، کہ بچہ رات سات بجے تک ہمارے سکول بیٹھے ہیں ،، گھر والوں نے جو فون نمبرز دیۓ ہوۓ تھے ان پر فون کرو کوئی جواب نہیں ، چناچہ بہت دُور کے بچوں کو انکار کر دیا ،،،والدین کا رویہ خاصا غیرسنجیدہ تھا ،،آج بھی ہے ( سواۓ چند کے ) یعنی وقت پر لینے نہ آنا ۔
۔2) سکول کے شروع دور میں ہمارے پاس وہ بچے آۓ جوبہت سےمسائل سے گِھرے گھروں سے آتے تھے ،، یعنی والدہ کسی بنگلے میں کام کر رہی ہے ، ان 250 بچوں میں سے 70 فیصد بچوں کے باپ ، نشئی ، یا ہڈحرام تھے ،، کوئی کام کاج نہیں ،، ایسی خواتین کی ہم قدر کرتی ہیں ، اور ان کے بچے جتنی بھی عمر کے تھے ، انھیں داخل کر لیتی تھیں ۔ کچھ بچے پڑھنے میں دلچسپی لیتے تھے ،،لیکن وہ جب سکول آتے ، تو تھکے تھکے سے لگتے ،،، کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ ، لڑکیاں تو ماں کے ساتھ صبح کچن میں کام کرواتیں ۔ اور لڑکے گھروں کے اوپر کے کام ،، مالی کا کام کر رہۓ ہوتے ،، یا ، کُوڑے کی "ویل بیرو " گلی کے فلیتھ ڈپو میں ڈالنے کی ڈیوٹی کرتے ،، آدھا ادھورا ناشتہ یا کھانا کھاتے اور دوپہر پونے دو بجے سکول پہنچ جاتے ، اب کچھ نا کچھ تھکاوٹ چڑھنی ہی تھی جو پہلے دو پیریڈ کے بعد ان کے چہروں پر نظر آنے لگتی ۔
۔3) اگر کوئی بچہ اپنی بنگلے والی بیگم صاحبہ کے ساتھ سکول آتا ،، تو وہ بہت شان سے پہلے " اپنا"تعارف کراتیں پھر بچے کے داخلے کی بات کرتیں ،، بتا یا جاتا ،، جی فِیس بھی نہیں ہے اور تمام کاپیاں کتابیں ہم ہی دیں گے ،، بس آپ اسے چھٹیاں نہ کروانا اور وقت پر سکول بھیج دیا کریں ، اس وقت یہ " بیگمات" ،،، جی بالکل ، کیوں نہیں ،، ضرور ضرور،،،، کے جملےبولتیں ،، لیکن ذیادہ تر خواتین ، جوخوشحال گھروں کی تعلیم یافتہ ہیں ۔ انھیں پسند نہیں تھا کہ ان کا کام رُکے ،،،، اس لیۓ ایسے بچے دیر سے آ رہے ہیں ،، تب ہم یہ ہی کر سکتی تھیں کہ بچے کی اس مجبوری پر سختی نہ کرتیں ۔ اور بہت سی بیگمات " اس انتہائی چھوٹی سی نیکی " کو بھی نہ کر پاتیں ۔ جو ایک افسوسناک بات رہی۔
۔4) انہی بنگلوں میں کہیں دوسرے شہر سے آۓ بچے ہیں ، جو وہیں رہتے ہیں، ان کے چھوٹے بچوں کی لُک آفٹر کرتے ہیں ،، یا گھر کے دوسرے چھوٹے ، چھوٹے کام کرتے ہیں جیسے گھر کے لوگوں کے جوتے پالش کر کے سونا ، ان کے کپڑے استری کرنا وغیرہ ، گھر میں پالتو جانور ہے تو اس کی دیکھ بھال بھی اسی پر تھی،، مجھے ان کے کام کرنے پر اعتراض نہیں تھا ،، نہ ہے ،،، کہ یہ اُن بچوں اور ان کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بچہ اس غریبی میں " کماؤ یونٹ" بنا ہوتاہے ،، میَں انھیں اکثر یہ ہی کہتی "جنھوں نے پڑھنا ہے وہ سٹریٹ لائٹ میں بھی پڑھ لیتے ہیں ،، کم از کم آپ اپنے گھر میں بلب اور پنکھے کے نیچے بیٹھتے ہیں ،،، بس یہ ہی کافی ہے " باقی پڑھائی جیسی بھی ہے یہیں سے حاصل کرو ،، کسی ٹیوشن کے لیۓ نہیں جانا " ،،، مقصد انھیں محرومی کی دلدل سے نکالتے رہنا ہے ۔
۔5) کچھ بچے ایسے داخل ہوۓ جنھوں نے سکول کی شکل پہلی دفعہ دیکھی تھی ،،، میں نے پہلےبھی ذکر کردیا تھا کہ پہلے سات آٹھ مہینے تک وہ ایسا رویہ اپناۓ رکھتے جیسے میلے میں آگۓ ہیں ،، اس لیۓ ہنسی مزاق چل رہا ہوتا،، کاپیاں گھر بھول آۓ ہیں تو کوئی شرمندگی نہیں،، نرسری کا کورس ہے یا ، پریپ کا لیول ،،، ان بچوں کی عمریں 10 سے 14 سال تھیں ،، حال یہ تھا کہ اتنی عمر میں آنے کے باوجود دوسرے بچوں کو بھی تنگ کرتے ، نہ خود پڑھتے ،، نہ کلاس میں سنجیدگی سے بیٹھتے ۔۔ بہت سوچ کے بعد " ایڈلٹ کلاس" کے نام سے الگ روم کیا اور ٹیچر اپوئنٹ کی گئی ،، اتفاق سے ایک محنتی اور نرم دل ٹیچر مسز طاہرہ ملیں ،، وہ نوجوان لڑکی گلگت سے تعلق رکھتی تھی ،، اور ایم اے ایجوکیشن کی ڈگری کے ساتھ بہت کم سیلری میں بھی راضی ہو گئی ، کہ گھر بھی نزدیک ہے اور صبح کی ڈیوٹی نہیں ہے ،، اس وقت ( چار سال پہلے ) یہ ایڈلٹ اس کے لیۓ چیلنج بن گئی ،، اس بچی نے جس طرح حوصلے ، مستقل مزاجی ،، اور نرمی سے اس " جنگلی کلاس " کو سُدھایا ،،، یہ اسی کا کمال تھا ،، میَں اسے سیلوٹ کرتی ہوں ،،جب اِنھیں آرگنائز کر لیا گیا تو ان کا ٹیلنٹ بھی اٗبھرنے لگا،،،، میَںہفتے ، میں ایک دفعہ ان کی کلاس میں محض ان کی باتیں سننے اور کچھ عام باتیں شیئر کرنے جاتی تھیں ،،، انہی میں دو تین بچے ایسے تھی ،، جن میں حسّںِ مزاح اچھی بھی تھی، اور کچھ سیکھنے کا شوق بھی نظر آیا ۔اب میَں کبھی کبھار اپنا لیپ ٹاپ لے جاتی ،، پاکستان کے مختلف صوبوں کی تصاویر ، مشہور قلعے ، پارک ، پہاڑوں کی سیر کراتی ،، یقین کیجۓ انھیں ایک ایک منظر غور سے دیکھنا ، اور بار بار دیکھنا پسند آتا ۔
میرا خیال تھا دو تین ہفتوں میں سب بھول جائیں گے ،، لیکن انھوں نے مہینوں بعد بھی میرے سوالوں کے جوب دیۓ الحمدُ للہ !میَں یہ بھی بتا دوں کہ اس ایڈلٹ کلاس کا کورس بالکل ٹپیکل نہیں رکھا گیا ، بلکہ اردو ، انگلش ، اور میتھس تو ضروری تھا ،، باقی صرف جنرل نالج ، یا اسلامیات کے مضامین زبانی ہوتے ہیں ، دعائیں ، نماز سکھائی جاتی ہے ۔ اور یہی بچے جن کے لیۓ میَں نے آرڈر تھا،، انھیں انگلش نہیں پڑھانی ہے لیکن اے بی سی اور پھر تین لیٹر کے الفاظ سے آگے نہیں پڑھانا۔منع کر دیا تو انھوں سال ڈیڑھ کے بعدٹیچر کے ذریعے سفارش کروائی کہ ہم انگریزی کی کتابیں پڑھنا چایتے ہیں ، تب ایک کتاب شروع کروا دی گئی۔
یہ اس لیۓ تھا کہ ان طلباء ( پانچ لڑکے ، تین لڑکیاں ) کو اچھی طرح اردو ، سکھا دی جاۓ کہ آئندہ خط لکھ سکیں کوئی درخواست لکھ سکیں ،، اور گھر چلانے کے قابل حساب آ جاۓ ، انگریزی سیکھنے میں توانائی ضائع نہ کریں ۔ خیر اب وہ لکھ پڑھ لیتے ہیں ، اور کلاس کے لحاظ سے لیول 4 میں آچکے ہیں ،۔ پانچ پوری کروا کے ،، ادھر اُدھر کے سکلز سکھانے والوں سے انھیں سکھانے کی درخواست کریں گے ،، ( اللہ کرے ہماری یہ دعا قبول ہو جاۓ ، آمین )۔
( منیرہ قریشی 6 دسمبر 2019ء واہ کینٹ )( جاری)
۔2) سکول کے شروع دور میں ہمارے پاس وہ بچے آۓ جوبہت سےمسائل سے گِھرے گھروں سے آتے تھے ،، یعنی والدہ کسی بنگلے میں کام کر رہی ہے ، ان 250 بچوں میں سے 70 فیصد بچوں کے باپ ، نشئی ، یا ہڈحرام تھے ،، کوئی کام کاج نہیں ،، ایسی خواتین کی ہم قدر کرتی ہیں ، اور ان کے بچے جتنی بھی عمر کے تھے ، انھیں داخل کر لیتی تھیں ۔ کچھ بچے پڑھنے میں دلچسپی لیتے تھے ،،لیکن وہ جب سکول آتے ، تو تھکے تھکے سے لگتے ،،، کچھ عرصہ بعد پتہ چلا کہ ، لڑکیاں تو ماں کے ساتھ صبح کچن میں کام کرواتیں ۔ اور لڑکے گھروں کے اوپر کے کام ،، مالی کا کام کر رہۓ ہوتے ،، یا ، کُوڑے کی "ویل بیرو " گلی کے فلیتھ ڈپو میں ڈالنے کی ڈیوٹی کرتے ،، آدھا ادھورا ناشتہ یا کھانا کھاتے اور دوپہر پونے دو بجے سکول پہنچ جاتے ، اب کچھ نا کچھ تھکاوٹ چڑھنی ہی تھی جو پہلے دو پیریڈ کے بعد ان کے چہروں پر نظر آنے لگتی ۔
۔3) اگر کوئی بچہ اپنی بنگلے والی بیگم صاحبہ کے ساتھ سکول آتا ،، تو وہ بہت شان سے پہلے " اپنا"تعارف کراتیں پھر بچے کے داخلے کی بات کرتیں ،، بتا یا جاتا ،، جی فِیس بھی نہیں ہے اور تمام کاپیاں کتابیں ہم ہی دیں گے ،، بس آپ اسے چھٹیاں نہ کروانا اور وقت پر سکول بھیج دیا کریں ، اس وقت یہ " بیگمات" ،،، جی بالکل ، کیوں نہیں ،، ضرور ضرور،،،، کے جملےبولتیں ،، لیکن ذیادہ تر خواتین ، جوخوشحال گھروں کی تعلیم یافتہ ہیں ۔ انھیں پسند نہیں تھا کہ ان کا کام رُکے ،،،، اس لیۓ ایسے بچے دیر سے آ رہے ہیں ،، تب ہم یہ ہی کر سکتی تھیں کہ بچے کی اس مجبوری پر سختی نہ کرتیں ۔ اور بہت سی بیگمات " اس انتہائی چھوٹی سی نیکی " کو بھی نہ کر پاتیں ۔ جو ایک افسوسناک بات رہی۔
۔4) انہی بنگلوں میں کہیں دوسرے شہر سے آۓ بچے ہیں ، جو وہیں رہتے ہیں، ان کے چھوٹے بچوں کی لُک آفٹر کرتے ہیں ،، یا گھر کے دوسرے چھوٹے ، چھوٹے کام کرتے ہیں جیسے گھر کے لوگوں کے جوتے پالش کر کے سونا ، ان کے کپڑے استری کرنا وغیرہ ، گھر میں پالتو جانور ہے تو اس کی دیکھ بھال بھی اسی پر تھی،، مجھے ان کے کام کرنے پر اعتراض نہیں تھا ،، نہ ہے ،،، کہ یہ اُن بچوں اور ان کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بچہ اس غریبی میں " کماؤ یونٹ" بنا ہوتاہے ،، میَں انھیں اکثر یہ ہی کہتی "جنھوں نے پڑھنا ہے وہ سٹریٹ لائٹ میں بھی پڑھ لیتے ہیں ،، کم از کم آپ اپنے گھر میں بلب اور پنکھے کے نیچے بیٹھتے ہیں ،،، بس یہ ہی کافی ہے " باقی پڑھائی جیسی بھی ہے یہیں سے حاصل کرو ،، کسی ٹیوشن کے لیۓ نہیں جانا " ،،، مقصد انھیں محرومی کی دلدل سے نکالتے رہنا ہے ۔
۔5) کچھ بچے ایسے داخل ہوۓ جنھوں نے سکول کی شکل پہلی دفعہ دیکھی تھی ،،، میں نے پہلےبھی ذکر کردیا تھا کہ پہلے سات آٹھ مہینے تک وہ ایسا رویہ اپناۓ رکھتے جیسے میلے میں آگۓ ہیں ،، اس لیۓ ہنسی مزاق چل رہا ہوتا،، کاپیاں گھر بھول آۓ ہیں تو کوئی شرمندگی نہیں،، نرسری کا کورس ہے یا ، پریپ کا لیول ،،، ان بچوں کی عمریں 10 سے 14 سال تھیں ،، حال یہ تھا کہ اتنی عمر میں آنے کے باوجود دوسرے بچوں کو بھی تنگ کرتے ، نہ خود پڑھتے ،، نہ کلاس میں سنجیدگی سے بیٹھتے ۔۔ بہت سوچ کے بعد " ایڈلٹ کلاس" کے نام سے الگ روم کیا اور ٹیچر اپوئنٹ کی گئی ،، اتفاق سے ایک محنتی اور نرم دل ٹیچر مسز طاہرہ ملیں ،، وہ نوجوان لڑکی گلگت سے تعلق رکھتی تھی ،، اور ایم اے ایجوکیشن کی ڈگری کے ساتھ بہت کم سیلری میں بھی راضی ہو گئی ، کہ گھر بھی نزدیک ہے اور صبح کی ڈیوٹی نہیں ہے ،، اس وقت ( چار سال پہلے ) یہ ایڈلٹ اس کے لیۓ چیلنج بن گئی ،، اس بچی نے جس طرح حوصلے ، مستقل مزاجی ،، اور نرمی سے اس " جنگلی کلاس " کو سُدھایا ،،، یہ اسی کا کمال تھا ،، میَں اسے سیلوٹ کرتی ہوں ،،جب اِنھیں آرگنائز کر لیا گیا تو ان کا ٹیلنٹ بھی اٗبھرنے لگا،،،، میَںہفتے ، میں ایک دفعہ ان کی کلاس میں محض ان کی باتیں سننے اور کچھ عام باتیں شیئر کرنے جاتی تھیں ،،، انہی میں دو تین بچے ایسے تھی ،، جن میں حسّںِ مزاح اچھی بھی تھی، اور کچھ سیکھنے کا شوق بھی نظر آیا ۔اب میَں کبھی کبھار اپنا لیپ ٹاپ لے جاتی ،، پاکستان کے مختلف صوبوں کی تصاویر ، مشہور قلعے ، پارک ، پہاڑوں کی سیر کراتی ،، یقین کیجۓ انھیں ایک ایک منظر غور سے دیکھنا ، اور بار بار دیکھنا پسند آتا ۔
میرا خیال تھا دو تین ہفتوں میں سب بھول جائیں گے ،، لیکن انھوں نے مہینوں بعد بھی میرے سوالوں کے جوب دیۓ الحمدُ للہ !میَں یہ بھی بتا دوں کہ اس ایڈلٹ کلاس کا کورس بالکل ٹپیکل نہیں رکھا گیا ، بلکہ اردو ، انگلش ، اور میتھس تو ضروری تھا ،، باقی صرف جنرل نالج ، یا اسلامیات کے مضامین زبانی ہوتے ہیں ، دعائیں ، نماز سکھائی جاتی ہے ۔ اور یہی بچے جن کے لیۓ میَں نے آرڈر تھا،، انھیں انگلش نہیں پڑھانی ہے لیکن اے بی سی اور پھر تین لیٹر کے الفاظ سے آگے نہیں پڑھانا۔منع کر دیا تو انھوں سال ڈیڑھ کے بعدٹیچر کے ذریعے سفارش کروائی کہ ہم انگریزی کی کتابیں پڑھنا چایتے ہیں ، تب ایک کتاب شروع کروا دی گئی۔
یہ اس لیۓ تھا کہ ان طلباء ( پانچ لڑکے ، تین لڑکیاں ) کو اچھی طرح اردو ، سکھا دی جاۓ کہ آئندہ خط لکھ سکیں کوئی درخواست لکھ سکیں ،، اور گھر چلانے کے قابل حساب آ جاۓ ، انگریزی سیکھنے میں توانائی ضائع نہ کریں ۔ خیر اب وہ لکھ پڑھ لیتے ہیں ، اور کلاس کے لحاظ سے لیول 4 میں آچکے ہیں ،۔ پانچ پوری کروا کے ،، ادھر اُدھر کے سکلز سکھانے والوں سے انھیں سکھانے کی درخواست کریں گے ،، ( اللہ کرے ہماری یہ دعا قبول ہو جاۓ ، آمین )۔
( منیرہ قریشی 6 دسمبر 2019ء واہ کینٹ )( جاری)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں