ہفتہ، 13 مئی، 2017

"اماں جی"

"اماں جی "
ہر انسان کو اپنے ماں باپ بہت ارفعٰ لگتے ہیں لیکن ،،، میں اگر اپنی امی پر کچھ لکھ پائی تو بہت ہی لمبا مضمون بن جائے گا ! اللہ مجھے ہمت دے ! ان کو نہ صرف پامسٹری میں دلچسپی تھی بلکہ بے شمار لوگ ان سے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے آتے تھے ، ان کی ہسٹری کی کتابوں میں اتنی دلچسپی تھی کہ ان کی نالج سے میں بی ۔اے میں ہسٹری کے اکثر اسباق میں ان سے مدد لیتی تھی ! بہترین Aesthetic sense رکھتی تھیں ، کیا سوئی سلائی تھی ،، کیا کھانوں کا ذائقہ ، اور پھر پکی پنجابی خاتون ہونے پر بھی نہایت سُتھری اردو ،،، کہ ہمارے کالج کی پرنسپل مسز مسعود زیدی نے ایک بار پوچھ ہی لیا کہ " مسز ظفر آپ یوپی سے تعلق رکھتی ہیں یا سی۔ پی سائڈ سے !!! آج 42 سال کی جدائی میں بھی اماں جی کی یاد ہر روز آتی  ہے۔
اماں جی  نےکُل 53 سال کی عمرمیں زندگی کے تمام سرد گرم چکھ لیے اور 30 سال کی بیماری نے بھی حوصلہ مند رکھا ، صرف اپنے شوہر اور بچوں کے عشق میں اللہ کی شکر گزاری کرتے کرتے وقت گزار گئیں۔
وقتِ آخرقلم بند کیا ھے )
پی ۔ او ۔ ایف ہسپتال 
کمرہ نمبر تین ، 
بائیں ہاتھ کا بستر
جس پرایک پُرسکون وجود
آخری نیند میں ، محوِ خواب ہے  
یہ وجُود ،،،،،۔
جو چند حوادثِ زمانہ،کا 
حوصلے اور عزم کا شاہد ھے 
ہاں یہ ہماری ماں ھے 
کاش ایک بار اپنی آنکھیں کچھ دیر کو وا کر دے
ایک بار ،،،،۔
اپنی ادھوری خوشیوں کو دیکھ تو لو !
اے ھماری عظیم ماں !
تیرا فانی جسم ، لحد میں روپوش ہوا
تیری تُربت کے باہر!
بھاگ رہا ھے وقت ،،،،۔
ھم سب کے آگے آگے 
دنیا ویسی ہی مصروف ھے
اور تیری تُربت کے باہر!
فروری کی چمکیلی دھوپ میں نرگس کے پھول
شہرِ خاموشاں کو ڈھانپے ہوۓ ہیں ایسے
تیرے آنے پرتیرے قدموں پر بچھ سے گئے ہوں جیسے !!
( یہ اماں جی کی جدائی کے دنوں میں ہی لکھی ، شاید بےربط لگے لیکن ماں کے لئے ایک بیٹی کے جذبات کا اظہار ہے )
لوگ اپنے آئیڈیل گھر سے باہر ڈھونڈتے ہیں میری آئیڈیل میری اماں جی تھیں ! بچپن میں اکثر صبح کی آنکھ ان کے قدرِ اُونچی آواز میں " درودپاک ﷺ " سے کُھلتی ! ایک دن میں نے پوچھ لیا آپ روز اتنا درود پاک کیوں پڑھتی ہیں (بچپنے کا بچگانہ سوال ) کہنے لگیں " میری خواہش ھے کہ نبیﷺ مجھے خواب میں آئیں ! اور د مِ آخر ان کا آخری ایک گھنٹہ بےچینی کا تھا کہ سر دائیں طرف گھماتیں تو کہتیں " سبحان اللہ " اور سر بائیں طرف گھماتیں تو کہتیں " صدقے یا رسول اللہ " اور اس دوران ان کی آنکھیں مسلسل بند تھیں ! اس وقت ھم نے ان کے اس آخری وقت کی کیفیت کو نارمل لیا لیکن بعد میں جب بےشمار واقعات اور حالات سنے اور دین کی مزید معلومات ہوئیں تو پتہ چلا کہ وہ وقت کس قدر کڑا  ہوتا ہے کہ منہ سے اللہ کی مرضی سے ہی کچھ نکلتا  ہے بس اس کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوتا ! تب میں نے اللہ کا مزید شکر ادا کیا کہ اللہ نے وقتِ آخر اپنا نام اور اپنے حبیب کا نام ہی ان کے نصیب میں لکھا ، اللہ ان کی مغفرت کرے اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے آمین ثم آمین۔
" کچھ لوگ عجیب ہوتے ہیں"
(اپنی اماں جی کے لیے چند الفاظ ، لیکن یہ ایک اچھے انسان کوخراجِ تحسین ہے)
زمزمہ سی محبت تھی تیری
جانے کتنے فیض یاب ہوۓ تجھ سے 
فہم و اد راک کے خمیر میں گُندھا تھا تیرا وجود !
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،،
کڑوے پانی کو کیسےمیٹھا ہے بنانا وہ جانتی تھی 
کانٹوں سے بہ سلامتی کیسے ہے نکلنا،وہ سکھاتی تھی 
آنسوؤں کو اعتماد میں ھے بدلنا، وہ بتاتی تھی
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،،،۔
تقدیر کے ساتھ تدبیر کا ٹانکا کہاں  ہے لگانا ،وہ سعی کرلیتی
سوچ کے بھنور سے کیسے  ہےبچنا ، وہ ہا تھ پکڑ لیتی 
اور اگلا حیران رہ جاتا 
یہ کون مِلا تھا زندگی کے صحرا میں 
یہ کس نے ریت کو نخلستان سُجھا ڈالا
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں ،،،،،، 
اپنی ذات کو وقف کر کے 
دوسروں کے اندھیروں کو ، روشن کر کے
اللہ سے دوستی نبھائی، خدمتِ خلق کر کے 
حالانکہ عاشقِ رسُولؐ تھی وہ زمزمہ سی ہستی 
یادوں میں زندہ لوگ ایسے ہی ھوتے ہیں !۔
کچھ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں !!!۔
( منیرہ قریشی 13 مئی 2017ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں