جمعہ، 5 مئی، 2017

"صبر کی مٹھاس"

"صبر کی مٹھاس" 
جب تک صبر کے میٹھے  ہونے کی سمجھ آتی  ہے ، تب تک قبر کی الاٹمنٹ کے کاغذ نظر کے سامنے پھرنے لگتے ہیں ،لیکن ہم پھر بھی بہت منافقت سے ،،،اپنے نفس کے دانت کچکچانے کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں کاش اس نفس کی طرف پہلے دھیان دے دیتے ، اس اندر کی آواز کو نظرانداز نہ کرتے ۔شروع جوانی میں ٰیہ بات سیکھ لیتے کہ یہ نسخۂ کیمیا ھے ۔60 کے پیٹھے میں سمجھ آیا تو کیا ؟؟ پُلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا  ہوتا ہے !بالوں کی سفیدی اورچہرے کی جھریاں دوسروں کو مجبور کر دیتی ہیں کہ وہ ہماری عزت کریں ۔لوگ ہم سے مشورے مانگتے ہیں ، جیسے ہماری اب تک کی تھوڑی بہت دنیاوی کامیابی ہماری ہی عقل وفہم کی وجہ سے ہو ،، آہ انھیں کیا معلوم کہ  جوانی کے زور میں ہاتھوں میں اور زبان پر کتنے کانٹے دار جھاڑیاں اٹھاۓ گھر سے نکلا جایا جاتا تھا ، اوردوسروں کو اپنی مرضی کی عینک سے دیکھا جاتا  اور بعد میں ہم" ٹھاکر"بنے  نظر  آتے ہیں ! بہت دیر کی مہرباں آتے آتے والا حساب  ہوتا ہے۔ ساٹھ سال اور اس کے بعد کے دور میں کوئی فہم آیا بھی تو  کیا ،،،، وہ دور جو طاقت اور صحت کا گولڈن دور ہوتا ہے ،جب کم وسائل اور کم پیسے کے باوجود بندہ پہاڑ سے نہر نکال سکتا ہے  ،،،لیکن وہ دور چُٹکیوں میں گزر جاتا ہے،، اور ہم اس دور میں اپنی تھوڑی سی خوش حالی کے زعم میں اپنے قریبی رشتوں کو اپنے لہجے کی کڑواہٹ سے ،پتھر کا جواب اینٹ سے دینےکی حرکتوں سے اور سازشی شطرنج کے مہرے چلانے میں اتنے محو ہوچکے ہوتے ہیں کہ اپنے انجام کا کبھی سوچا ہی نہیں !! کہ کبھی یہ رشتے کبھی یہ آس پاس کے لوگ ہم سے اتنے متنفر ہو  سکتے ہیں کہ وہ بہت آہستگی سے ہمیں " اکلاپے " کا تحفہ دے کر جا چکے ہوں گے ،، اورہم مسلسل زبان کے گھوڑے کو
بےلگام رکھنے کی پالیسی پرجمے رہتے ہیں ۔ اپنے طنزیہ جملوں کی کاٹ کو فاتحانہ اندازسے بولنے اور اس کا اثر دوسروں پر ہوتا دیکھنا ،،، کیا آسودگی دے سکتا ہے ! کون سا سکھ مل سکتا ہے ؟ اور کتنے عرصے کا ؟ اور دوسروں کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیلنا ،،، انھیں آنسوؤں کی نمی دے ڈالنا کہاں کی فتح  ہوئی؟ 
رویوں کے تکبر کی گند گی ڈالتے رہنا دراصل خطرناک بیماری ہے۔یک دفعہ یہ احساس جاگ جاۓ کہ ہم نے "صبر"اور توکل سے زندگی کے ہر رشتے کو نبھانا  ہے تو ہم سے زیادہ خوش نصیب کون ہو گا ! کیوں کہ ہم سامنے والے ہاتھ سے کانٹےدار جھاڑیاں لے کر ایک طرف پھینک دیں اور بہ واپسی ایک " کشادہ " مسکراہٹ دے دیں ،،،یا ،، اس کی تنقیدی نظروں کے فوراً بعد ایک گلاس پانی لے کر حا ضر ہو جائیں تو سامنے والا کچھ نہ کچھ سوچے گا ،،، یہ بھی نہ ہو سکے ،،، تو کچھ عرصہ کے لیے خود کو اس کے حلقۂ ملاقات میں سے منفی کر لیں اور اب آپ ،،،،، صبر کی مٹھاس کا مزا لینا شروع کر لیں ،،، ایک لمبے وقفے کے بعد اگلے سے ملیں تو نارمل انداز سے گلے ملیں ۔کیوں کہ اب آپ اس کے  ترکش کے تمام تیروں کے جواب میں صرف ایک " ڈھا ل " پکڑے ہوۓ ہیں جس کا نام ہے " صبر "،،، آپ نے ٹھان لیا کہ میں نے پلٹ کر جواب نہیں دینا ،،، نہ پوچھیۓ اس احساس کا احساس کیسا ہوگا ! کہ جیسےہم کسی پرندے کے پر کی طرح ہلکے پھلکے ہوکر ہوا میں اُڑ رہے ہوں !
یقین  کیجئیے کہ "اس رب کا کرم اور احسان کا عکس ہوگا کہ آپ نے صبر کا بکتربند لبادہ اوڑھ لیا ہے اور خود کوطنزپروف کر لیا ہے ،،،،،کسی دانا کا قول ہے " اپنے موڈ اور غصے سے دوسروں کو تنگ کرنا کم ظرفی کی نشانی  ہے"۔
( یہ محض میرے خیا لات وتجربات پر مبنی تحریر ہے جو 2008 ء میں لکھی سوچا لگے ہاتھوں آپ سب سے شیئر کرلوں ! اس بارے کوئی بحث  نہیں  کہ " خیال اپنا اپنا ، " اور تجربہ بھی اپنا اپنا ،،،)۔
(منیرہ قرشی 2008ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں