جمعہ، 26 مئی، 2017

"راز"

۔" سچل سرمَست جو مشہور سندھی شاعر تھے کی ایک نظم جس کااردو ترجمہ شیخ ایاز نے کیا اور یہ ہی وہ چھوٹی سی نظم تھی جس نے 32 سال پہلے جو اثرات مرتب  کیے وہ آج بھی اسی گہرائی سے ہیں اسی نظم نے مجھے آزاد نظم کی طرف ایسا مائل کیا کہ آج بھی کچھ کہنے کے" مفہوم" کو زیادہ معتبر سمجھتی ہوں بہ نسبت خود کوشاعری کی پابندیوں میں رکھنا ، سچل سرمست ایک صوفی اور 7 زبانوں میں شاعری کرنے والے ملنگ سے انسان تھے! یہ نظم بھی اللہ کی محبت میں ڈوب کر لکھی گئی  ہے جو دل پر عجیب کیفیت طاری کرتی  ہے ! یا مجھے یوں محسوس  ہوتا ہے ! "۔
" وہ سر تا پا راز ہے"
کبھی سچل ہے کبھی سچل کی ذات ہے !
حباب کو موج نے دریا بنا دیا ہے ،
اس میں شک کی کوئی گُنجائش نہیں
کہ وہ خود اپنے رنگ دیکھنے کے لیے
اب تک لاکھوں بیکھ بنا رہا ہے !!! "
( منیرہ قریشی ، 1982ء )
( اس میں " حباب " سے مراد انسان ہے اور " موج " اللہ کی صفات اور " دریا " ،،، اعلیٰ ارفعٰ درجات ہیں ،،،، اور بیکھ " چہرے یا نفوس 2017ء واہ کینٹ ! اے کاش میں اس نظم کی کیفیات بھی شیئر کر سکتی )۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں