" اِک پَرِخیال"
' پرچہ ۔ پرچی' (24)۔
ایک پرچہ تو وہ ہواجو کسی میگزین یا سہ ماہی یا پندرہ روزہ رسالے کے چھپنے پر کہا جاتا ہے ۔ کہ " پرچہ " چھپ گیا ہے ، یا پرچہ نکالا جاۓ گا۔
ایک "پرچہ"وہ ہوتا ہے جو ایک طالب علم کمرہء امتحان میں لکھتا ہے ۔اور پھر کچھ وقفے کے بعد پرچے کے لکھے کا نتیجہ موصول کرتا ہے ۔
طالب علم کی محنت کے مطابق کبھی نتیجہ اچھا اور کبھی ایک دو مضامین میں سپلیز کی صورت میں آتا ہے ۔ ایسی صورت میں حتمی نتیجہ بہت دیر سے آتا ہے یا مسلسل ناکامی سے بد دل ہو کر طالب علم کسی اور میدان میں قسمت آزمائی کے لیۓ جا چکا ہوتا ہے ۔لیکن زندگی میں وہ اس پرچے اور نتیجے کے دنوں کو کبھی نہیں بھلا پاتا ۔
ایک " پرچہ" وہ ہوتا ہے جو کسی مجرم کے جُرم پر کٹتا ہے ،، یا جُرم سے متاثرہ شخص " پرچہ " کٹواتا ہے ۔ اور یوں سلسلہء سوال جواب شروع ہوتے ہیں ،، وکلاء پیشیاں بھگتتے ،، بھگواتے ہیں اور پھر ایک دن تمام حقائق کو سامنے رکھ کر نتیجہ سنایا جاتا ہے ،،، کئی مرتبہ یہ فیصلہ مجرم کو چُھوٹ کا یا نرمی کا ہوا تو مجرم کی مسکراہٹ چہرے سے نہیں جاتی ۔ اور کبھی کبھی جُرم کی نوعیت ایسی پیچیدہ ہوتی ہے کہ تحقیقی دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور ، ، فیصلے کا نتیجہ مزید غوروغوض کے لیۓ کچھ عرصہ کے لیۓ محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ مجرم یا ملزم اس دوران گومگو کی کیفیت میں رہتا ہے ۔ ،،،،،،،، بہ عینہ ایسے ہی پرچے ہمارے ہاتھوں ، اپنے ایمان کی کمزوری سے ، اپنی حماقتوں ، اپنی جلد بازی سے، اپنی گھٹیا حرکتوں سے ،،، ترتیب پاتے ہیں ۔ اور پھر سال ہا سال کے چھوٹے ، چھوٹے ٹسٹ مارجن پر پاس ہونے کے نمبر تو ملتے جاتے ہیں ،،، اور ہم بےخبر ، بےنیاز ہو جاتے ہیں کیوں کہ ہم اپنے جرائم کو جرم سمجھنے سے انکاری ہوتے ہیں ،،، اور یوں حتمی نتیجے سے غافل ہو جاتے ہیں ۔ ،،،، تب ڈھیل کی رسی ختم ہوتے ہی ، قدرت کے نا دیدہ ہاتھوں سے ایف آئی آر کا " پرچہ " کٹ جاتا ہے !!سال ہا سال جو مہلت ملتی رہی تھی اور فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ " سفارش کی چھوٹی چھوٹی پرچیاں " ہوتی ہیں ، جن پر لکھا ہوتا ہے ،،، سجدے ۔ خیرات ۔ درود ،،یا کوئی دعا ، یا کوئی نیکی،،، اور یوں یہ پرچیاں آڑے آتی چلی جاتی ہیں ۔ لیکن جب ایک دن اٹوٹ رشتے تسلسل سے ذلت کا کورس شروع کرتے ہیں۔جب الفاظ کے گُرز جوڑ ، توڑ اور پھوڑ کا عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ جب "مال منال " کے دلدلی میدان سے گزرنا از بس ضروری ہوتا ہے ۔ جسم بیماروں کی لیب بن جاتا ہے ، کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا ، لفظوں کےمرہم ، ہٹا دیۓ جاتے ہیں ۔
چہرے پر بہت حیرانی اور سوالیہ نشان کا تائثر جیسے چھَپ سا گیا ہے ۔ "" میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا ، کوئ گناہ نہیں کیا " "تو پھر یہ سب کیا ؟؟؟ یہ سب کیا ، کیوں کیوں !!تب ایک دن " ذہن میں ایک چمکارا سا چمک اُٹھتا ہے " یہ روز کی بنیاد پر سزاؤں کا ہونا ،،، یہ روز کی ایف آئی آر پرچے کا کٹنا ،،،،،فطرت کی طرف سے نئے انداز کی سزائیں ہوتے چلے جانا !!! ۔ روز کا نیا درد ، روز سہنا ، ؟؟؟ ۔
آہ ،، آج پردہ ہٹ گیا ہے ، یہ اور یہ ،،، اور "وہ "بھی غلطیاں کی تھیں ، بلکہ دلوں پر گھاؤ لگایا تھا ، ہاں فطرت کے خلاف ، اپنی مرضی سے جینے کی کوشش کی تھی ،، اور خود کو حسد ، لالچ ، گھٹیا چالوں کے حوالے کیا تھا تو اب کیا کروں ، کہ ان دنیاوی سزاؤں میں پھر " پرچیاں " آڑے آجائیں ۔
یہ ہی وقت ہے جب حکیم کی کتابِ حکمت کھولی جاۓ اور پڑھتے جائیں ،، پڑھتے جائیں ۔۔اور جہاں ،، کسی آیت پر دل بھر آۓ ، آنکھیں چہرہ اور صفحہ دھو ڈالیں ۔ تو یہ ہی " اسمِ اعظم " ہے جسے اِس خاکی کی بہتری کے لیۓ عطا ہو گیا ،،،، ،،،،،
تو اب صرِف ایک اَن دیکھی چادر آنسوؤں کی بچھا لی جاۓ ، اور اس میں صبر ، تحمل ، برداشت ، شُکر ، اور مسلسل شگرگزاری کے سجدوں کو ، ڈالتے جائیں ، اور یوں شاید یہ ندامت کے آنسوؤں سے بھاری گھٹڑ ،، قابلِ قبول ہو جاۓ ،، اور شاید ایف آئی آر کا اگلا " حتمی پرچہ " نہ کٹے ! اور گٹھڑ کی " سفارشی پرچیاں " کام آجائیں ۔
( منیرہ قریشی 21 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )
ایک پرچہ تو وہ ہواجو کسی میگزین یا سہ ماہی یا پندرہ روزہ رسالے کے چھپنے پر کہا جاتا ہے ۔ کہ " پرچہ " چھپ گیا ہے ، یا پرچہ نکالا جاۓ گا۔
ایک "پرچہ"وہ ہوتا ہے جو ایک طالب علم کمرہء امتحان میں لکھتا ہے ۔اور پھر کچھ وقفے کے بعد پرچے کے لکھے کا نتیجہ موصول کرتا ہے ۔
طالب علم کی محنت کے مطابق کبھی نتیجہ اچھا اور کبھی ایک دو مضامین میں سپلیز کی صورت میں آتا ہے ۔ ایسی صورت میں حتمی نتیجہ بہت دیر سے آتا ہے یا مسلسل ناکامی سے بد دل ہو کر طالب علم کسی اور میدان میں قسمت آزمائی کے لیۓ جا چکا ہوتا ہے ۔لیکن زندگی میں وہ اس پرچے اور نتیجے کے دنوں کو کبھی نہیں بھلا پاتا ۔
ایک " پرچہ" وہ ہوتا ہے جو کسی مجرم کے جُرم پر کٹتا ہے ،، یا جُرم سے متاثرہ شخص " پرچہ " کٹواتا ہے ۔ اور یوں سلسلہء سوال جواب شروع ہوتے ہیں ،، وکلاء پیشیاں بھگتتے ،، بھگواتے ہیں اور پھر ایک دن تمام حقائق کو سامنے رکھ کر نتیجہ سنایا جاتا ہے ،،، کئی مرتبہ یہ فیصلہ مجرم کو چُھوٹ کا یا نرمی کا ہوا تو مجرم کی مسکراہٹ چہرے سے نہیں جاتی ۔ اور کبھی کبھی جُرم کی نوعیت ایسی پیچیدہ ہوتی ہے کہ تحقیقی دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے اور ، ، فیصلے کا نتیجہ مزید غوروغوض کے لیۓ کچھ عرصہ کے لیۓ محفوظ کر لیا جاتا ہے ۔ مجرم یا ملزم اس دوران گومگو کی کیفیت میں رہتا ہے ۔ ،،،،،،،، بہ عینہ ایسے ہی پرچے ہمارے ہاتھوں ، اپنے ایمان کی کمزوری سے ، اپنی حماقتوں ، اپنی جلد بازی سے، اپنی گھٹیا حرکتوں سے ،،، ترتیب پاتے ہیں ۔ اور پھر سال ہا سال کے چھوٹے ، چھوٹے ٹسٹ مارجن پر پاس ہونے کے نمبر تو ملتے جاتے ہیں ،،، اور ہم بےخبر ، بےنیاز ہو جاتے ہیں کیوں کہ ہم اپنے جرائم کو جرم سمجھنے سے انکاری ہوتے ہیں ،،، اور یوں حتمی نتیجے سے غافل ہو جاتے ہیں ۔ ،،،، تب ڈھیل کی رسی ختم ہوتے ہی ، قدرت کے نا دیدہ ہاتھوں سے ایف آئی آر کا " پرچہ " کٹ جاتا ہے !!سال ہا سال جو مہلت ملتی رہی تھی اور فیصلہ محفوظ کر لیا جاتا ہے تو اس کی وجہ " سفارش کی چھوٹی چھوٹی پرچیاں " ہوتی ہیں ، جن پر لکھا ہوتا ہے ،،، سجدے ۔ خیرات ۔ درود ،،یا کوئی دعا ، یا کوئی نیکی،،، اور یوں یہ پرچیاں آڑے آتی چلی جاتی ہیں ۔ لیکن جب ایک دن اٹوٹ رشتے تسلسل سے ذلت کا کورس شروع کرتے ہیں۔جب الفاظ کے گُرز جوڑ ، توڑ اور پھوڑ کا عمل شروع کر دیتے ہیں ۔ جب "مال منال " کے دلدلی میدان سے گزرنا از بس ضروری ہوتا ہے ۔ جسم بیماروں کی لیب بن جاتا ہے ، کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا ، لفظوں کےمرہم ، ہٹا دیۓ جاتے ہیں ۔
چہرے پر بہت حیرانی اور سوالیہ نشان کا تائثر جیسے چھَپ سا گیا ہے ۔ "" میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا ، کوئ گناہ نہیں کیا " "تو پھر یہ سب کیا ؟؟؟ یہ سب کیا ، کیوں کیوں !!تب ایک دن " ذہن میں ایک چمکارا سا چمک اُٹھتا ہے " یہ روز کی بنیاد پر سزاؤں کا ہونا ،،، یہ روز کی ایف آئی آر پرچے کا کٹنا ،،،،،فطرت کی طرف سے نئے انداز کی سزائیں ہوتے چلے جانا !!! ۔ روز کا نیا درد ، روز سہنا ، ؟؟؟ ۔
آہ ،، آج پردہ ہٹ گیا ہے ، یہ اور یہ ،،، اور "وہ "بھی غلطیاں کی تھیں ، بلکہ دلوں پر گھاؤ لگایا تھا ، ہاں فطرت کے خلاف ، اپنی مرضی سے جینے کی کوشش کی تھی ،، اور خود کو حسد ، لالچ ، گھٹیا چالوں کے حوالے کیا تھا تو اب کیا کروں ، کہ ان دنیاوی سزاؤں میں پھر " پرچیاں " آڑے آجائیں ۔
یہ ہی وقت ہے جب حکیم کی کتابِ حکمت کھولی جاۓ اور پڑھتے جائیں ،، پڑھتے جائیں ۔۔اور جہاں ،، کسی آیت پر دل بھر آۓ ، آنکھیں چہرہ اور صفحہ دھو ڈالیں ۔ تو یہ ہی " اسمِ اعظم " ہے جسے اِس خاکی کی بہتری کے لیۓ عطا ہو گیا ،،،، ،،،،،
تو اب صرِف ایک اَن دیکھی چادر آنسوؤں کی بچھا لی جاۓ ، اور اس میں صبر ، تحمل ، برداشت ، شُکر ، اور مسلسل شگرگزاری کے سجدوں کو ، ڈالتے جائیں ، اور یوں شاید یہ ندامت کے آنسوؤں سے بھاری گھٹڑ ،، قابلِ قبول ہو جاۓ ،، اور شاید ایف آئی آر کا اگلا " حتمی پرچہ " نہ کٹے ! اور گٹھڑ کی " سفارشی پرچیاں " کام آجائیں ۔
( منیرہ قریشی 21 دسمبر 2018ء واہ کینٹ )