"کبھی کبھی ہم بس یہی کچھ چاہتے ہیں"
باب۔۔1
( حدیبیہ کے ببول کے اس درخت کے نام ، جس کے چھتنار سائے تلے عظیم ترین ہستی ﷺنے عظیم ہستیوں سے عہد لیا تھا)
محترم اشفاق احمد صاحب نے اپنے دوست محمد حسین نقش کو ایک خط میں لکھا کہ " میں آجکل تھر میں ہوں " اور یہاں کے مختلف گوشوں کی خاموشی ریکارڈ کر رہا ہوں ، سچ پوچھو ! تو کمرے کے ایک کونے کی خاموشی دوسرے گوشے سے مختلف ہوتی ہے اور آج یہاں کی ایک بہت سادہ اور چھوٹی سی مسجد کی خاموشی محسوس کرنے جا رہا ہوں !!
کیسے کیسے منفرد لوگ اپنے انوکھے اور ارفع خیالات لکھتے رہے اور آنے والی نسلوں کے لئے عجب سنگِ میل چھوڑ گئے ۔
جانے کب ' کس دورمیں جنگل کی محبت دل و دماغ میں جا گزیں ہوئی کہ پتہ بھی نہ چلا ۔ جب کبھی سیر کا موقع ملا ، نظریں درختوں کے جُھنڈ ، درختوں کی چوٹیوں اور درختوں کی چھاؤں کو تلاشتیں ۔ جب کبھی اپنے ہرے بھرے گاؤں جانا ہوتا تو لڑکپن کے اس دور میں یہ سفر کچھ ایسا خوشگوار دورانیہ نہ ہوتا لیکن کچھ دیر بعد جب کھیتوں ، کھلیانوں کی طرف جاتے ، ایک چکر گھنے درختوں میں گھِرے قبرستان کا لگتا ، تو وہاں جاکر جیسے سکون مل جاتا ، اس شہِرِخاموش میں سوئے لوگوں پر رشک آتا کہ کیسے پُر سکون ماحول میں " مزے " کر رہے ہیں لیکن ظاہر ہے اس سوچ میں بتدریج تبدیلی آتی چلی گئی ۔ اگر کسی خوشی یا غمی کے موقع پر کچھ دن رہنا ہوتا ، تو قریبی چھوٹی پہاڑی پر ضرور چکر لگتا، وہاں اگرچہ درختوں کا کوئی خاندان نہ تھا اور نہ ہے لیکن جھاڑیوں کی ایک فٹ سے پانچ فٹ تک کی ایسی اقسام ہوتیں جن کی جڑوں میں رہتی ننھی مُنی مخلوق کو والد صاحب یا اگر بڑے چچا ساتھ ہوتے تو بے دھڑک اُٹھا لیتے ۔ ان کے نام اردو ، انگریزی میں بتاتے ۔ ایک کمبل کیڑا ہوتا جس کے وجود سے کبھی دوستی نہ ہو سکی اور اگر ہلکی بارش ہو چکی ہوتی تو ہر سائز کی بیر بہوٹیوں کے خاندان کے خاندان انہی جھاڑیوں کی جڑوں میں آباد ہوتے ، ان کی سرخ مخملی جسامت اتنی پُر کشش لگتی کہ چند منٹوں میں انھیں مُٹھی میں لینے پر کوئی خوف محسوس نہ ہوتا ۔
یہ پودوں ، درختوں اور فطرت کے نظاروں سے عشق کی ابتداتھی ۔ اس عشق کو قدرت ودیعت تو کرتی ہی ہے لیکن اکثر یہ لڑی وراثت میں بھی ہوتی ہے ۔ بندہ گنجان شہر میں ہو یا بھرے پُرے گھرمیں رہ کر بھی اپنے دل و دماغ کی دنیا میں ایک گھنے درختوں والے جنگل میں رہ رہا ہوتا ہے ، وہیں ایک پیارا سا کمرہ ہوتا ہے اور جب اس کا دل چاہتا ہے ، کمرے میں جا کر اس کی کھڑکی سے جنگل کا نظارہ کرتا ہے اور حال احوال بھی پوچھا جاتا ہے ۔درخت اسے مختلف کہانیاں سناتے ہیں اور یوں کچھ دیر کو ہی سہی لیکن فطرت اپنی باہوں میں لے کر اس کی روح پُر سکون کر دیتی ہے۔
اسی بچپن اور لڑکپن کے دور میں مری جانا ہوتا ، زندگی کے بے فکر ترین ڈھائی ماہ وہاں گزرتے ،یہاں کم آبادی ، کم شور ، زیادہ درخت ، زیادہ نظارے ،زیادہ سکون ہوتا ، اور دور بین لگا کردور اور نزدیک کے پہاڑوں سے دوستیاں کی جاتیں ۔ بلیک بورڈ پر چاک سے کھچی لکیروں جیسے راستے اور ان پر چلتی چیونٹیوں جیسی گاڑیاں اور لوگ وہ نظارے ہوتے جنھیں اندھیرا چھا جانے تک دیکھتے رہنے سے کبھی اکتاہٹ نہ ہوئی ۔آہ انسان !انسانوں اور عمارتوں کے جنگل میں رہ کر بھی اکیلا ہو سکتا ہے اور کبھی بےآباد جنگل میں رہ کر بھی اکلاپے کا شکار نہیں ہو سکتا ۔
مری کے گھر کے ساتھ ہی گھنے درختوں سے گھِرا باغیچہ تھا ،جہاں پہلے ہی دن پہنچ کر لمبے لمبے سانس لیے جاتے ،سفر کی تھکان اور سر چکرانے کی کیفیت سے ایسے نجات مل جاتی جیسے ایک مدت سےہم تو یہیں تھے ۔ درخت اپنی مانوسیت ظاہر کرنے میں ذرا بخل نہ کرتے ، " تم لوگ پہنچ گئے ! ابھی دس ماہ پہلے ہی تو گئے تھے ، ہم پھر سے تمہارے منتظر تھے " اور یوں ہمیں تجدیدِمحبت کی کبھی ضرورت نہ پڑتی ۔چند دن گھر کی سیٹنگ اور والدہ کی طرف سے ملے روٹین کو سن کر، اپنا کر ہم دونوں اوپر تلے کی بہنوں کا اگلا اہم اور خفیہ کام شروع ہو جاتا ،یعنی اپنی عمر کے لحاظ سے کھُرپے ، بیلچے اور کلہاڑی لے کراِسی لان کے گھنے درختوں کی کسی ایک صاف جگہ پر کھدائی کرنا کہ ایک دن ہمیں کوئی خزانہ ضرور ملے گا اور ہم بہت امیر ہو جائیں گے ۔ یہ چھوٹا سا معصوم خیال اس دور کے پڑھے جانے والے ادب سے ماخوذ ہوتا ۔ اگرچہ اس کھدائی کی نوبت کہیں ہفتے میں ایک دو دن ہی آتی ۔درخت ہمیں مسکرا مسکرا کر کبھی ہلکورے لیتی ہوا کے ساتھ جھوم کر محبت بھری نظروں سے دیکھتے ۔مجھے نہیں یاد اس ماحول نے ہمیں خوف زدہ کیا ہو یا کبھی اکتاہٹ محسوس ہونے دی ہو کہ وہاں آس پاس کوئی گھر بھی نہیں تھا ۔
والدین کا تعلق زمینوں سے بہت گہرا تھا ،اس وقت کے شہری رہن سہن کے باوجود وہ سبزے ، درخت اور عام چھوٹے پودوں کی محبت میں غرق تھے، ہمیں درختوں کی میٹھی ٹھنڈک کی اہمیت بتا اور سکھادی گئی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اس شہری صحن والے گھر میں بھی سفیدے کا ایک خوب صورت درخت لگایا گیا تھا ،جگہ کی کمی تھی لیکن سفیدے کی دوستی کے لیے چنبیلی اور انگور کی بیلیں گھر کی دوسری منزل تک پہنچی ہوئی تھیں ۔
ایسا محسوس ہوتا ، جیسے رات ہوتے ہی سرگوشیوں میں تینوں چوٹیوں کی آپس میں بات چیت شروع ہو جاتی ، شاید وہ اپنی خفیہ باتیں گھر میں موجود ستر ، اسّی گملوں کے پودوں سے چھُپانا چاہ رہی ہوتیں ۔سخت آندھی کے دن سفیدے کے درخت کا بےاختیار ہو کر جھومنا ڈرانے لگتا ، ایسے موقع پر اس کے تنے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے شانت ہونے کا کہتی اور اکثر محسوس ہوتا کہ وہ پُر سکون ہو گیا ہے۔اب یا تو وہ میری بات سمجھ جاتا تھا یا میَں اس کی وارفتگی کو جان جاتی تھی لیکن ایک خاموشی کی زبان ہم دونوں کے درمیان تھی ضرور !! ایسے ہی نظاروں نے یہ پیغام دیا کہ " یہ جو تم درختوں سے اتنی محبت کرتی ہو ، کبھی غور کیا ، یہ بھی تمہارے آتے ہی کیوں یکدم کھِل اٹھتے ہیں ، شاید وہ بھی تمہیں پہچان چکے ہیں ، ان کے پاس بھی ہاتھی جیسی ذہانت کا وہ ذخیرہ ہے جو سال ہا سال کے بعد بھی اپنے ذہن کے کمپیوٹر میں محفوظ اس شخص کی محبت یا نفرت کو یاد کے فرنٹ فٹ بورڈ میں لے آتی ہے ، بس درخت بھی اپنے ہم نفسوں کو ہواؤں کےذریعےپیغام دے چکے ہوتے ہیں ،ہمیں سراہنے اور چاہنے والا آیا چاہتا ہے ، اسے خوش آمدید کہنا۔ تب احساس ہونے لگا ، جنگل تو کچھ کہنے ، کچھ سننے کو بےتاب ہوتے ہیں ۔کبھی غور تو کرو ، وہ تو کسی کسی کو یہ شرف دوستی دیتے ہیں ۔اب یہ دوستی نبھاتی رہنا کہ " جنگل کچھ کہتے ہیں " سنو تو سہی کیا بتا رہے ہیں ، کیسی کہانیاں سنا رہے ہیں ! بالکل ایسے ہی جیسے خاموشی کچھ کہہ رہی ہوتی ہے لیکن اس کی آواز کون سُن پاتا ہے ؟ اشفاق احمد صاحب جیسا " احساسات کا گُرو " یا محمد حُسین نقش جیسا گم نام ، عاشقِِ فطرت جس نے باطن کی آنکھ کو ایسی ہی خاموشی اور فطرت کے حُسن میں سَمو دیا ہو ۔کون سن سکتا ہے خاموشی کی آواز کو ، تب وہی درختوں کی آواز بھی سُن لیتا ہے ۔
( منیرہ قریشی 10 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں