ہفتہ، 30 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ۔9)

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ۔9)
مانچسٹر کے نواح کے اس نا معلوم جنگل کی خوشبو کے چھڑکاؤ نے دل موہ لیا تھا ۔۔ اُس نے گہرائی میں اُگے رنگین جنگلی پھولوں کے تختوں سے ہوا کے جھونکے کو بھیج کر خوشبو کشید کر کے ہم پر جو مسحور کن عطر بیز سپرے کیا تھا ،، وہ احساسِ تفاخر جا ہی نہیں رہا تھا ۔ احساس ہوا ،کہ درخت اپنے چاہنے والوں سے کیسی فیاضی سے اظہارِ محبت کرتے ہیں ۔ اور ہم انھیں ایک بے جان چیز سمجھ کر بے اعتنائی سے گزر جاتے ہیں ۔
قدرت کے خالص نظاروں میں صحرا ، جنگل ، ویرانے میں سبزہ ،، پانی ،، درخت اور جنگلی حیات وہ مندرجات ہوتے ہیں کہ انسان کو زندگی سے عجب دلرُبا پیار ہو جاتا ہے ۔ اور اب کئی دن کے بعد بھی " ایش ورتھ " کے جنگل کی خوشبو دل و دماغ میں بس گئی تھی ۔ چند ہفتے مزید گزرے کہ پاک وطن کی مشہور و معروف ادیبہ اور کامیاب ڈرامہ نگار ،، محترمہ فاطمہ ثریا بجیا " کا ایک انٹرویو دیکھنے کو ملا ،، جس میں وہ ریاست میسور کی سیر کا کچھ احوال بتا رہی تھیں ،، کہ " جہاں ہم نے بہت سے اہم تاریخی مقامات دیکھے ،ٹیپو سلطان کے خوبصورت، محلات ، جائے شہادت اور، میوزیم دیکھا ،، لیکن آنے سے ایک دن پہلے ہمارے گائیڈ نے پوچھا " کیا آپ صندل کے جنگل کا مشاہدہ کرنا چاہییں گی، جو یہاں کی وجۂ شہرت ہے " ،،، میں نے کہا " کیوں نہیں ،، اور ذہن نے ایک دم صندل کی خوش کن خوشبو کو جیسے قریب ہی محسوس کر لیا ہو " ،،، اگلے دن گائیڈ کی معیت میں صندل کے جنگل میں پہنچے ،،، یہ خوب گھنّا جنگل تھا ،،، لیکن یہاں خوشبو ندارد ،، یہ کیا ؟ وہیں جنگل کے دو رکھوالے بیٹھے تھے ، انہی سے پوچھا ،، یہ تو صندل کا جنگل ہے ، تو خوشبو کہاں ہے ؟ انھوں نے کہا ، ماں جی آپ کو نہیں معلوم "" صندل کا درخت جب تک زندہ ہے ، تو چھاؤں دیتا ہے ، مر گیا تو خوشبو دینے لگتا ہے "" یہ درخت نہیں یہ تو ماں ہے ،، جو زندہ ہے تو چھاؤں دیتا ہے ، مَر گیا تو خوشبو چھوڑ جاتا ہے ""
یہ انٹرویو اعلیٰ سوچ ، بہترین الفاظ کی عکاسی تھا ،،
تب یہ خیال آیا ، انٹرویو کے یہ الفاظ درختوں کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے ۔ اور دوسرا خیال یہ آیا کہ کچھ درخت بھی " غازی اور شہید ، جیسا کردار، ادا کر جاتے ہیں ،، کہ زندہ ہیں تو چھاؤں ، پھل ، ٹھکانہ ، محافظت ۔۔۔ اور مَر گئے تو خوشبو کا خزانہ چھوڑ جاتے ہیں تو مَرے کہاں ،، ؟؟وہ تو شہید ہیں کہ کبھی گھروں میں اس خوشبو دار لکڑی سے کارنس بن گئی ، کبھی کوئی کرسی ، کبھی الہامی کتاب کی رہل ، اور کبھی ہاتھوں کی انگلیوں میں پھِرتی تسبیح !! کہ جب طبیعت بوجھل ہوئی ، اسے سونگھ کر بشاشت پا لی ۔
گویا فطرت کی سادگی میں ہی پُر کاری ، اور جاذبیت کا جزوِ اسے مسحور کر دینے والی تاثیر دیتا ،، اور اس پر خوشبوؤں کا اضافی ، استقبال !!!
یہی تو ایک واضح پیغام مِل رہا ہوتا ہے ، ہم انسانوں کو ۔ کچھ تو ایسا کر جاؤ کہ جانے کے بعد تمہاری باتوں کی ، قربانیوں کی ، ایثار کی خوشبو تا دیر
یادوں میں شامل رہے ۔
کیسا خوبصوت شعر جانے کس خوبصورت شاعر کا ہے
؎ چھاؤں دیتے ہیں جو صحرا میں کِسی کو
دل میرا ، ایسے درختوں کو وَلی کہتا ہے

( منیرہ قریشی 31 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں