ہفتہ، 30 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ۔9)


" خوشبو جیسی باتیں اور صندل کا جنگل"
باب۔۔9
مانچسٹر کے اس نا معلوم جنگل کی خوشبو کے چھڑکاؤ نے دل موہ لیا تھا ۔ اُس نے گہرائی میں اُگے رنگین جنگلی پھولوں کے تختوں سے ہوا کے جھونکے بھیج کر خوشبو کشید کر کے ہم پر جو مسحور کن عطر بیز سپرے کیا تھا ، وہ احساسِ تفاخر جا ہی نہیں رہا تھا ۔ احساس ہوا کہ درخت اپنے چاہنے والوں سے کس فیاضی سے اظہارِ محبت کرتے ہیں اور ہم انھیں ایک بے جان شےسمجھ کر بے اعتنائی سے گزر جاتے ہیں ۔
 ہم ان خوبصورت ترین نعمت  کی صرف اس بات  پر ہی خالق  کا شکر ادا کرتے  رہیں  کہ اِنھیں کائنات کو آکسیجن دینے کا مفت ذریعہ بنایا۔ان اشجار کو فضا کی گندگی جذب کرنے کی صلاحیت عطا کی۔وہ کائنات کی  ہر سانس لیتی مخلوق کو  صاف ہوا  میسر کرنے  کے کام پر جُتے ہوئے ہیں ،اُس کی خوبصورتی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔ذرا غیرمعمولی پھیلاؤ ہے تو بندہ  درخت کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے۔درختوں کا گھنا ذخیرہ ایک اور ہی حسن کا عکاس ہوتا ہے۔یہی درخت اپنی جڑیں زمین میں پھیلا کر اُسے غیرمعمولی مضبوطی عطا کرتے   ہیں، اس زمین کی مٹی سے خوراک حاصل کرتےہیں   ،چوٹی تک   ہر پتے  کو پہنچاتے  ہیں توآسمان سے آتی نرم کرنیں بھی   مٹی تک پہنچاتے ہیں۔یہی  دائرہ  کائنات کی زندگی کا دائرہ بھی بن جاتا ہے۔فضا میں موسم بھی اسی دوران اپنی کرسی میز لے کر آتا ہے  اور شاملِ انجمن بن جاتا ہے اور ہم کہہ اُٹھتے ہیں "آج موسم کتنا سہانا ہے"۔
قدرت کے خالص نظاروں میں صحرا ، جنگل ، ویرانے میں سبزہ ، پانی، درخت اور جنگلی حیات وہ مندرجات ہوتے ہیں کہ انسان کو زندگی سے عجب دلرُبا پیار ہو جاتا ہے ۔کئی روز تک " ایش ورتھ " کے جنگل کی خوشبو دل و دماغ میں بسی رہی ۔ چند ہفتے مزید گزرے کہ پاک وطن کی مشہور و معروف ادیبہ اور کامیاب ڈرامہ نگار "محترمہ فاطمہ ثریا بجیا " کا ایک انٹرویو دیکھنے کو ملا ،جس میں وہ ریاست میسور کی سیر کااحوال بتا رہی تھیں کہ " جہاں ہم نے بہت سے اہم تاریخی مقامات دیکھے ،ٹیپو سلطان کے خوبصورت، محلات ، جائے شہادت اور عجائب گھردیکھا لیکن آنے سے ایک دن پہلے ہمارے گائیڈ نے پوچھا " کیا آپ صندل کے جنگل کا مشاہدہ کرنا چاہیں گی جو یہاں کی وجۂ شہرت ہے ،میں نے کہا کیوں نہیں اور ذہن نے ایک دم صندل کی خوش کن خوشبو کو جیسے قریب ہی محسوس کر لیا ہو " ۔ اگلے دن گائیڈ کی معیت میں صندل کے جنگل پہنچے ،یہ خوب گھنّا جنگل تھا لیکن یہاں خوشبو ندارد ، یہ کیا ؟ وہیں جنگل کے رکھوالے بیٹھے تھے ، انہی سے پوچھا ،یہ تو صندل کا جنگل ہے ، تو خوشبو کہاں ہے ؟ انھوں نے کہا ، ماں جی آپ نہیں جانتی کہ صندل کا درخت جب تک زندہ ہے تو چھاؤں دیتا ہے ، کٹ جائے تو خوشبو دینے لگتا ہے۔ "یہ درخت نہیں یہ تو ماں ہے ، جو زندہ ہے تو چھاؤں بنی رہتی ہے ، مَر جائے تو اولاد میں اچھی تربیت کی خوشبو چھوڑ جاتی ہے"۔یہ انٹرویو اعلیٰ سوچ اور بہترین الفاظ کی عکاسی تھا ۔
تب خیال آیا ، انٹرویو کے یہ الفاظ درختوں کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے اور دوسرا خیال یہ آیا کہ کچھ درخت بھی " غازی اور شہید ، جیسا کردار، ادا کر جاتے ہیں کہ زندہ ہیں تو چھاؤں ، پھل ، ٹھکانہ ، محافظت اور مَر گئے تو خوشبو کا خزانہ چھوڑ جاتے ہیں تو مَرے کہاں ؟وہ تو شہید ہیں کہ کبھی گھروں میں اس خوشبو دار لکڑی سے کارنس بن گئی ، کبھی کوئی کرسی ، کبھی الہامی کتاب کی رحل اور کبھی ہاتھوں کی انگلیوں میں پھِرتی تسبیح کہ جب طبیعت بوجھل ہوئی ، اسے سونگھ کر بشاشت پا لی ۔
گویا فطرت کی سادگی میں پُر کاری اور جاذبیت کا جزو اِسے مسحور کر نے والی تاثیر دیتا ہے اور اس پر مستزاد خوشبو جو ایک اضافی خوبی ہے۔
ہم انسانوں کو یہی تو ایک واضح پیغام مِل رہا ہوتا ہے کہ کچھ تو ایسا کر جاؤ کہ جانے کے بعد تمہاری باتوں کی ، قربانیوں کی ، ایثار کی خوشبو تا دیر یادوں میں شامل رہے ۔
کیسا خوبصوت شعر جانے کس خوبصورت شاعر کا ہے
؎ چھاؤں دیتے ہیں جو صحرا میں کِسی کو
دل میرا ، ایسے درختوں کو وَلی کہتا ہے

( منیرہ قریشی 31 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں