مانچسٹر میں گھر کے باغیچے کی باڑکے بعد شروع ہونے والے جنگل سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ روز ہی السلام علیکم کہہ کرگفتگو کی ابتدا ہوتی اور اس کی سادگی وپُرکاری سے ساری تھکاوٹ د ُور ہو جاتی ،گویا درختوں اورفطرت کی صُحبت ہی انسانی مزاج کی اصل خوراک ہے۔اس قدرتی یا انسانوں کے نظرانداز شُدہ جنگل کو "چِھدرا جنگل" کا نام بھی دے دیا ،جس نے میرا دل ایسے موہ لیا کہ جوں ہی پہنچتی کچھ نوخیزاور کچھ جہاں دیدہ درختوں کی جانب سے سننے کو ملتا"آؤ نا کچھ باتیں کریں ،یہ جو تم آتے ہیں سلام کرتی ہو،ہمیں سَراہتی آنکھوں سے دیکھتی ہو،حال احوال پوچھتی ہو،رات کیسی گزری،کون کون سے جان دار رات کو بسیرا کرنے آئے؟ایسی محبتیں نہ سینچو، پھر جب تم چلی جاؤ گی تو ہماری اُداسی تادیر چلے گی،کیونکہ تم ہماری حسّاسیت کو جانتی ہو،خوشی ،غم،محبت،نفرت سبھی جذبے ہمیں بھی ودیعت کیے گئے ہیں،تمہیں یاد ہے نا شروع کے چند روز ہم نے تمہیں کوئی تاثر نہیں دیا تھا،ہم کسی دوسری صنف کی محبت یا نفرت سہنے کے لیے بہت جلدی تیار نہیں ہوتے،ہمیں دھیرج اور ٹھہراؤ کے گُن دیے گئے ہیں،لیکن جب ایک بار ہم کسی کی چاہت جانچ لیں،تب اس محبت کا امرت ہماری رگوں سے کوئی نہیں چھین سکتا۔لیکن اگر کوئی نفرت بھرے جملے ہماری جڑوں کے پاس کھڑے ہو کر کہتا رہے تو نہ پوچھو ہم کیسے ٹوٹ جاتے ہیں۔تو ہم بتا رہے تھے کہ شروع کے چند دن ہم نے اپنی خوبصورتی تم سے چُھپا لی تھی،ذرا اب نظر ڈالو!"۔ واقعی تب احساس ہوا کہ کچھ الگ سا ماحول کیوں محسوس ہو رہا ہے۔ آج چھدرے درختوں کی جڑوں کے پاس تین چار انچ لمبی گھاس کے سبھی سِروں پر ہلکے گلابی اور جامنی چھوٹے چھوٹے پھولوں نے قالین سا بچھا دیا تھا۔بُزرگ مسکرائے اور کہا "تمہیں خوش آمدید کہنے کا اِن نوخیز پودوں کا اپنا ہی انداز ہے"۔ مجھے اس استقبال نے جذباتی کر دیا اور میں شکریہ،شکریہ کہتی ہوئی پلٹ آئی۔
اُسی روز ملکہ وکٹوریہ کے نام سے منسوب قریبی پارک جانا ہوا تو پتہ چلا کہ کبھی یہ سارا ایک گھنا جنگل تھا اور ہمارے ہاں کے "کچے کے ڈاکوؤں"کی طرح اُن کے جرائم پیشہ افراد کا محفوظ ٹھکانہ بھی تھا۔گزرتےمسافر اُن کا نشانہ بنتے۔ملکہ وکٹوریہ کے دور میں اِس کی کٹائی ہوئی لیکن فراست کا ثبوت دیتے ہوئے قدرتی پن قائم رکھا گیا تا کہ قریبی رہائشی اس کی خوبصورتی،سکون اور وافر آکسیجن سے مُستفید ہوتے رہیں ۔ سیر کے دوران احساس ہوا کہ کسی نے پُکارا ہے، بالکل وہی مانوس آواز۔ "خوش آمدید ،مہاتما بدھ کے پیروکاروں کے دیس سے آنے والی،ہمیں بھی کچھ وقت دینا،جیسے اپنے گھر سے ملحقہ جنگل کو دے رہی ہو"۔ میں ٹھٹک گئی اِنھیں کیسے پتہ کہ میں کہاں سے آئی ہوں اور کہاں ٹھہری ہوں لیکن پھر یاد آیا کہ درخت کہتے ہیں "ہمیں دنیا کے ہر خِطے کے ساتھیوں کا احوال گرم سرد ہوائیں دیتی رہتی ہیں،اسی لیے ہم اجنبیوں کو پہچان لیتے ہیں"۔ میں مُسکرا کر اس خوب گھیرے والے بزرگ درخت کے تنے پر ہاتھ پھیرنے لگی جو عمر کے لحاظ سے شاید اس پارک کا سب سے عمررسیدہ درخت تھا۔اس کے تنے کا گھیراؤ اور اُن پر بنے انسانی انگلیوں کی طرح کے دائرے،اُس کی شناخت کا مظہر تھے۔ یہاں چارہزار پانچ سو کے قریب درخت تھے اور یہ درخت شاید "ماؤنٹین ایش "تھا جو قریباً سو میٹر اونچا جاتا ہے۔اس کی بزرگی میں دانائی ،دبدبہ اور شفقت کے عناصر واضح تھے۔اس سے گفتگو شروع ہوئی تو احساس ہوا کہ مہینوں بھی کھڑی رہوں تب بھی باتیں ختم نہ ہوں گی ۔اس نے مجھے اپنی تاریخ سے تو آگاہ کرنا ہی تھا کہ کیسے یہ اٹھارہ سے بیس سو ایکڑ پر پھیلا جنگل دراصل ایک لاولد نواب کی جاگیر تھا جو بنا وصیت کیے انتقال کر گیا تو اس کی جائیداد حکومتِ وقت کے پاس چلی گئی۔ ہم سبھی درخت خالق کے حکم سے وجود میں آئے۔ہمارے گھنے سایہ دار وجود تلے کئی اقسام کی جنگلی حیات تو پلتی ہی تھیں لیکن انسان نما شیطان ہمارے لیے ہمیشہ آزمائش بنے رہے،یہاں کے گھَوراندھیروں میں چھپے ڈاکو مسافروں کو لُوٹتے،اُن کو قتل کرتے،ان کی عورتوں اور بچوں کو اغوا کر لیا جاتا (گویا تاریخِ انسانی سبھی خِطوں میں ایک جیسی ہی رہی ہے،ایک طبقہ حاکم اور محفوظ اور دوسرا بدحال ،کمزور ، غیرمحفوظ اور اپنے حال پر بےبس۔ تیسرا مالی اور معاشرتی حالات کے سامنے شرافت کے اصولوں کے منافی ڈٹ جانے والا اور چوتھا سبھی طبقات کی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھانے والا۔ آہ! ایک وہ طبقہ بھی ہے جو علم وہنر سے آراستہ تو ہے لیکن حالات پر سوائے کُڑھنے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ موہنجوداڑو کی سرزمین سے آنے والی!ہم جانتے ہیں تم ہماری خاموشی کو یکدم پہچان لیتی ہو،تم جب تک یہاں ہو پھر ضرور آنا،بہت سی باتیں کرنا ہیں،شکر کیا ہے کہ سماعت اور صبر کے ساتھ کوئی سننے والا آیا ۔ "شکریہ"میں نے اُنہی کی خاموشی کی زبان میں جواب دیا ۔۔''ابھی میں یہیں ہوں تمہارے دیس میں،اب اکژ ملاقاتیں رہیں گی''۔میں جب بھی نئےخِطوں کے درختوں سے ملتی ہوں ،مجھے بچپن میں اپنے گھر کے صحن میں لگے سفیدے کے درخت کی یاد ضرور آتی ہے جس نے اپنے رویے سے مجھے یہ خاموش زبان سکھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شکریہ! سفیدے کے درخت۔
(منیرہ قریشی،22 مارچ 2024،واہ کینٹ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں