"Ash Worth"
"ایش ورتھ سے باتیں"
باب۔۔ 8
ٹینڈل ہل پارک کے نیم برہنہ ، لیکن قدرِ بیزار اور خاموش جنگل نے متاثر تو کیا اور دل بھی اس کی طرف کِھچا ، لیکن جانے کیوں مجھے یہ واضح پیغام ملا " ٹھیک ہے تم آئیں ، ہمارے دکھ کو محسوس کیا ، ہم سے باتیں کیں بلکہ ہماری داستانِ حسرت زیادہ سنی لیکن اب تب آنا جب ہمارےغم میں شریک لوگوں نے اپنے اپنے بزرگوں کو درختوں کے تحائف دے کر ہمیں نئے ساتھی دے دئیے ہوں ، اگر پھر آنا ہوا تو تب تک یہ نوخیز درخت جوان ہو چکے ہوں گے اور یہ سب تمہیں خوش آمدید کہیں گے ۔ ہم تمہیں ویسی گرم جوشی سے نہیں ملے جو تمہارے تصور نے پہلے کے تجربات کے تحت سُجھا دیئے تھے۔ اب کیا کریں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی نے ہمارے لہجے کو بیزار سا کر دیا ہے ۔جنگل کے اس ذخیرے کی بُڑبڑاہٹ چلی جا رہی تھی کہ واپسی کا اشارہ ملا ۔ میں خاموشی سے انھیں الوداع کہے بغیر ہی لوٹ آئی ۔ دل اُداس تو ہوا لیکن اِک گُونا تسلی بھی کہ انھوں نے میری آمد پر اپنے گھنے درختوں کے سائے میں ڈرایا تو نہیں تھا بلکہ اپنا دکھ بانٹا تھا ۔
ابھی دن کا آدھا حصہ ہی گزرا تھا جب واپسی کے سفر میں مہربان میزبان نے گاڑی گھر کی بجائے ایک سِمت موڑ دی اور ساتھ ہی بتا دیا ،یہاں ایک اور گوشہ ہے جسے بہت پہلے دیکھا اور دل میں گھر کر گیا۔ وہ یہاں سے قریب ہی ہے ، دیکھتے ہوئے چلتے ہیں ! مَیں نے دل میں کہا " دیکھنے نہیں ؟بلکہ ملنے چلتے ہیں " کچھ دیر سفر کرنےکے بعد تھوڑا پیدل چلے ، یہ ایسی جگہ تھی جو آس پاس بالکل فلسفیانہ خاموشی میں ڈوبی محسوس ہوئی ، ایک ذیلی سڑک سے اندر پگڈنڈی کی طرف مُڑے ،چند گز گئے ہی تھے ، صاف محسوس ہو گیا یہ حصہ عام لوگوں کی آمد ورفت والا نہیں ، یہاں وہی آتے ہوں گے ، جو ایسے چُھپے گوشوں کی محبت میں غرق ہوں ، چند قدم مزید آگے بڑھے کہ یکدم تیز خوشبوکا جھونکا ہم سے ٹکرایا ، گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا ، کیا واقعی اتنے معطّر و مقَطر عطر سے استقبال ہوا ہے ؟ کیا واقعی ؟ میں حیرت ، انبساط اور خوشی سے سرشار ہو گئی ۔ شکریہ پیارے جنگل ! گھنے درختوں نے جیسے بیک وقت تالیاں بجائیں ۔ ایک بزرگ درخت نے سب کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا،
" کتنے ہی سالوں بعد کسی نے ہمیں کھوج اڈالا ۔ ہم کب سے منتظر تھے،کہ ہمیں کوئی سراہنے والا آئے ۔ یہاں یہ میزبان لڑکی کئی سال پہلے آئی تھی یہ فطرت کی عاشق تو ہے لیکن ابھی ہم سے ہم کلام ہونے کے کُلیے نا آشنا ہے ، ہم اتنے خوش ہیں کہ تم پر خوشبو بھرے پھولوں کے عطر کا چھِڑکاؤ کر دیا ۔ آتی رہا کرو کہ روح کی بالیدگی ذکر و فکر کے علاوہ قدرت کے نظاروں سے بھی ہوتی ہے "
یہیں ایک جگہ سے پانی کے بہاؤ کا مدھم سُر سنائی دیا ، آگے بڑھ کر گہرائی کی طرف جھانکا لیکن وہ پانی ایک شانت پتلے چشمے کی صورت قدرِ گہرائی میں بہہ رہا تھا ، کچھ اُوپر سے جھانکنے پر چشمہ جیسے سُکڑ گیا ، اور مزید کسی گہرائی کی طرف چُھپ گیا اسی کے کنارے رنگین جنگلی پھولوں کے تختے بِچھے ہوئے تھے ۔ قدرت اپنے حُسنِ کرشمہ ساز کو خالص رکھنے میں اسی لئے کامیاب رہتی ہے کہ وہ غیر اہم ، بےگانی نظروں سے خود کو دُور رکھنا پسند کرتی ہے تاکہ صرف ستائشی نظروں پر اپنے جلوے کھولتی ر ہے ۔ ہم پر حُسن کے جادو نے خاموشی طاری کر دی ۔ دل کی ٹِک ٹک مسلسل "سُبحان اللہ ،سُبحان اللہ کا وِرد کرتی چلی گئی ۔ آنکھیں بند کر کے اس کے نظاروں کی تصویر دل میں اُتاری ، لمبے لمبے سانس لئے کہ مدت بعد " رنگین خوشبو دار پھولوں سے لَدی خاموشی" کو دل و دماغ میں جذب ہوتا محسوس کیا تھا ۔ استقبالیہ بھی مہمانِ خصوصی جیسا ملا تھا ۔
اِس جنگل نے اپنا تعارف "ایش ورتھ "کے نام سے کروایا ۔ اور گھنے درختوں کے نیچے اُگے کاسنی اور گلابی پھولوں پر ہاتھ پھیرتے واپسی کی راہ لی کہ جیسے کچھ دیر اور رُکے تو اسی خوبصورتی کا حصہ ہی نہ بن جائیں ۔ لیکن " انسان تو خسارے میں ہوتا ہے " وہ اس مختصر زندگی کے لئے نئی نئی آسانیاں کھوجنے ، اپنانے میں وقت صَرف کرنا پسند کرتا ہے ۔ آہ ، انسان بے شک بڑے گھاٹے کا سودا کرتا ہے َ!!
ہمارے دل کی وہ اداسی دُھل سی گئی جو ڈینڈل ہل کے درختوں کی وجہ سے اثر دکھا رہی تھی۔
( منیرہ قریشی ، 29 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) جاری !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں