جمعہ، 29 مارچ، 2024

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ) 8 ۔

" جنگل کچھ کہتے ہیں "( رپور تاژ) 8 ،
ٹینڈل ہل پارک ،،، کے نیم برہنہ ، لیکن قدرِ بیزار اور خاموش جنگل نے متاثر تو کیا ،،، اور دل بھی اس کی طرف کِھچا ، لیکن جانے کیوں مجھے یہ واضح پیغام ملا ،،، " ٹھیک ہے تم آئیں ، ہمارے دکھ کو محسوس کیا ۔ ہم سے باتیں کیں ،، بلکہ ہماری داستانِ حسرت زیادہ سنی ۔۔ لیکن اب تب آنا جب ہمارے ہی غم میں شریک لوگوں نے اپنے اپنے بزرگوں کو درختوں کے تحائف دے کر ہمیں نئے ممبران دے دئیے ہیں ،، اگر پھر آنا ہوا تو تب تک یہ نوخیز درخت جوان ہو چکے ہوں گے ، اور یہ سب تمہیں خوش آمدید کہیں گے ۔ ہم تمہیں ویسی گرم جوشی سے نہیں ملے جو تمہارے تصور نے پہلے کے تجربات کے تحت سُجھا دیئے تھے۔ اب کیا کریں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی نے ہمارے لہجے کو بیزار سا کر دیا ہے ۔،،، جنگل کے اس ذخیرے کی بُڑبڑاہٹ چلتی چلی جا رہی تھی کہ واپسی کا اشارہ ملا ۔ میں خاموشی سے انھیں الوداع کہے بغیر ہی چلی آئی ۔ دل اداس تو ہوا لیکن اِک گُونا تسلی بھی کہ انھوں نے میری آمد پر اپنے گھنے درختوں کے سائے میں ڈرایا تو نہیں تھا ۔ بلکہ اپنا دکھ بانٹا تھا ۔
ابھی دن کا آدھا حصہ ہی گزرا تھا جب واپسی کے سفر میں مہربان میزبان نے گاڑی گھر کی بجائے ایک سِمت موڑ دی ،،، اور ساتھ ہی بتا دیا ،،، یہاں ایک اور کارنر ہے جسے بہت پہلے میں نے دیکھا ،،، اور دل میں جگہ کر گیا ،، یہاں سے قریب ہی ہے ،، دیکھتے چلتے ہیں !!! اور مَیں نے دل میں کہا " دیکھنے ،،! ؟بلکہ ملتے چلتے ہیں " ،، کچھ دیر کے سفر کے بعد ایسی جگہ پیدل چل پڑے ، جو آس پاس بالکل فلسفیانہ خاموشی میں گھِری ہوئی تھی ،، ایک ذیلی سڑک سے اندر پگڈنڈی کی طرف مُڑے ،،، چند گز پار کئے ہی تھے ، صاف محسوس ہو گیا ،، یہ حصہ عام لوگوں کی آمد ورفت والا نہیں ، یہاں وہی آتے ہوں گے ، جو ایسے چُھپے گوشوں کی محبت میں غرق ہوں ،، چند قدم مزید آگے بڑھیں ، کہ یکدم ،،، تیز خوشبوکا جھونکا چہرے اورجسم سے ٹکرایا ،،، گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھا ، کیا واقعی اتنی معطّر و مقَطر عطر سے استقبال ہوا ہے ؟؟ کیا واقعی ؟ میں حیرت ، انبساط ، اور خوشی سے سرشار ہو گئی ۔ شکریہ پیارے جنگل !! گھنے درختوں نے جیسے بیک وقت تالیاں بجائیں ۔ ایک بزرگ درخت نے سب کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا،
" کتنے ہی سالوں بعد کسی نے یہاں ہمیں کھوج نکالا ۔ ہم کب سے منتظر تھے،، کہ کوئی ہمیں سراہنے والا آئے ۔ یہ میزبان لڑکی کئی سال پہلے یہاں آئی تھی ۔ یہ فطرت کی عاشق تو ہے لیکن ،، ابھی ہم سے ہم کلام ہونے کے کُلیئے سے نا آشنا ہے ۔۔۔ ہم اتنے خوش ہیں کہ تم پر خوشبو بھرے پھولوں کے عطر کا چھِڑکاؤ کر دیا ۔ آتی رہا کرو ، آتی رہا کرو ۔۔۔کہ روح کی بالیدگی ذکر و فکر کے علاوہ قدرت کے نظاروں سے بھی ہوتی ہے ! "
یہیں ایک جگہ سے پانی کے بہاؤ کا مدھم سُر سنائی دیا ، آگے بڑھ کر گہرائی کی طرف جھانکا لیکن وہ پانی ایک شانت پتلے چشمے کی صورت قدرِ گہرائی میں بہہ رہا تھا ، کچھ اُوپر سے جھانکنے پر چشمہ جیسے سُکڑ گیا ،، اور مزید کسی گہرائی کی طرف چُھپ گیا اسی کے کنارے رنگین جنگلی پھولوں کے تختے بچِھے ہوئے تھے ۔ قدرت اپنے حُسنِ کرشمہ ساز کو خالص رکھنے میں اسی لئے کامیاب رہتی ہے ، کہ وہ غیر اہم ، بیگانی نظروں سے خود کو دُور رکھنا پسند کرتی ہے ۔ تاکہ صرف ستائشی نظروں پر اپنے جلوے کھولتی ہے ۔ ،،، ہم پر حُسن کے جادو نے خاموشی طاری کر دی ۔ دل کی ٹِک ٹک مسلسل "سُبحان اللہ ،سُبحان اللہ ،، کا وِرد کرتی چلی گئی ۔ آنکھیں بند کر کے اس کے نظاروں کی تصویر دل پر اُتاری ، لمبے لمبے سانس لئے کہ مدت بعد ، " رنگین خوشبو دار پھولوں سے لَدی خاموشی" کو دل و دماغ میں ریکارڈ ہوتا محسوس کیا تھا ۔۔ استقبالیہ بھی مہمانِ خصوصی جیسا ملا تھا ۔ اِس جنگل نے اپنا تعارف ASH WORTH کے نام سے کروایا ۔ ،، اور گھنے درختوں کے نیچے اُگے کاسنی اور گلابی پھولوں پر ہاتھ پھیرتے واپسی کی راہ لی ۔۔ کہ جیسے کچھ دیر اور رُکیں ، تو اسی خوبصورتی کا حصہ ہی نہ بن جائیں ۔ لیکن " انسان تو خسارے میں ہوتا ہے " وہ اس مختصر زندگی کے لئے نئی نئی آسانیاں کھوجنے ، اپنانے میں وقت صَرف کرنا پسند کرتا ہے ۔ آہ ،، انسان بے شک بڑے گھاٹے کا سودا کرتا ہے َ!!
ہمارے دل کی وہ اداسی دُھل سی گئی جو ڈینڈل ہل کے درختوں کی وجہ سے اثر دکھا رہی تھی۔
( منیرہ قریشی ، 29 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) جاری !


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں