"زمین بوس درخت کی کتھا"
باب۔۔5
چند ماہ اس شہرِدِلرُبا (مانچسٹر) میں رہنے کو ملے کہ اس کے حسین او ر رنگین گوشوں کو دیکھ کر بےاختیار واہ اور آہ کی صدائیں دل سے اُبھرتیں اور محض اس لیے باآوازِبلند کہتے رہے کہ حسن تو اس کے خالق کی تخلیق ہے،ہاں !ان قوموں نے یہ ضرور سیکھ لیا کہ اس حسن کوکیسے محفوظ رکھنا ہے بلکہ مزید کیسے نکھارنا ہے۔یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ تو مشرق کا مخالف رہاہے،ہمیں کئی عشروں سے لُوٹ کراب پھرباعزت بنا،تن کر کھڑا ہے۔اب ایسی بھی کیا تعریفیں کرنا ،بقول احمد فراز
یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی
فرازؔ تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
کچھ ایسی ہی گومگو کیفیت کے ساتھ پورا ملک گھوم لیا۔ دل و دماغ نے عشق کی پہلی منزل کو پار کیا کہ ہر دس میل میں ایک دو وسیع پارک اور ایک آدھ قدرتی انداز میں چھوڑا گیا چھوٹا ، بڑا جنگل ہر طرح سے داستانیں بیان کرنے کو بےتاب نظر آئے ۔
جس خوبصورت مکان نے اور اس سے بڑھ کر خوبصورت مکینوں نے چند ماہ کے دورانیے کو گُل وگلزار بنائے رکھا ۔ لازم تھا کہ اس کے ہر کونے کو سراہا جائے ۔ چناچہ سراہنے والا دل اور آنکھ لے کر سب سے پہلے سبزہ و گل و شجر سے دوستی کا آغاز کیا ۔ گھر کا پچھلا لان یوں کِھل اٹھا ، جیسے پرانی یاری تھی اور جیسے کہہ رہا ہو ،
؎ بہت دنوں کے بعد ملے ہو کیسے ہو ؟
اچھے ہو ؟ یا ہم جیسے ہو ؟؟؟
لان کے کناروں کی گھنی جھاڑیاں ، کچھ چھوٹے قد و قامت کے مختلف رنگ اور قسِم کے درخت اور آخری سِرے کی لکڑی کی باڑ اور پھر اِس باڑ کے ساتھ ٹیک لگائے دو تین بزرگ درخت ، جن کو ان دنوں قدرت نے سبز لبادہ اوڑھا رکھا تھا ۔گھر کے بالکل پڑوس کے لان پر طائرانہ نظر ڈالی ،جہاں زمین پرایک درخت جانے کب سے محوِ استراحت تھا ۔
پوری توجہ اُس وقت باڑ کے باہر تھی ، پار جھانکتے ہی دل کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہو گئیں کہ ایک ہلکا سبز لباس پہنے چھِدرے سے قدرتی جنگل نے قدرِ شرما کر سرد مہر خاموشی سے دیکھا اور جیسے چھوئی مُوئی پودے کی طرح خود اپنے آپ میں بند ہو گیا ۔ اس ادا نے جیسے دل موہ لیا ۔ آج بس اتنا ہی کہ خود کو اتنے غیر متوقع قدرتی نظاروں کے لئے تیار بھی کرنا تھا ۔ چند منٹ کے بعد پلٹ کر پھر پڑوسی لان میں لیٹے عمررسیدہ درخت پر اِک ہلکی سی نظر ڈال کر گھر میں داخل ہو نے اور اپنی جذباتی کیفیت کو ٹھہراؤ میں لانے لگی کہ حُسنِ فطرت بہر حال سُرور طاری کر دیتا ہے ۔ حُسن کا جلوہ دل کی دھڑکنوں کو کچھ دیر کے لئے اتھل پَتھل کر دیتا ہے بھَلے یہ حُسن ، انسانی خد وخال میں ہو ، آبی ، جنگلی ، یا نباتاتی اشکال میں ہو ، چلو اب تو روز کی ملاقاتیں ٹھہریں ۔
اگلے دن پھر لان پار کرکے زندہ بزرگ درختوں اور چھدرے جنگل کو سلام کیا ، سلام کے اس عمل نے جیسے سب کو کئی منٹ کے لئے ساکت کر دیا ۔ میں نے گِرے ہوئے درخت کو کچھ دیر ترحم کی نظر سے دیکھا ۔ کیسا شاندار درخت رہا ہو گا اور جانے کب سے لیٹا ہے کہ چند ٹہنیاں تو سر سبز ہیں باقی ٹہنیاں ننگی تھیں ، ایک افسردہ لمحہ دل پر بادل کی طرح آیا ۔ اور میں نے " پھر ملیں گے" کہہ کر واپسی کی راہ لی ۔
اب لان نے اپنی طرف متوجہ کیا یہاں قدرت نے جو پودے اور چھوٹے درخت زمین کو ہدیہ کیے ہوئے تھے ، اِن سب کی جڑوں میں رہتی رینگتی مخلوق اپنے عجیب رنگ اور جسامت میں متوجہ کرنے لگی ۔ تیسرا دن بھی درختوں کی سنگت میں گزرا لیکن کوئی گرمجوشی نہ تھی ۔ میَں نے السلام علیکم ضرور کہا ۔ آخر کو وہ سانس لیتی محسوسات رکھتی مخلوق تھی ۔آواز اتنی بلند رکھتی کہ چھدرا جنگل اور زمین بوس درخت بھی سُن لے ۔ پھر چوتھے دن کے سلام نے جیسے سارے ماحول میں عجب دل پذیر گنگناہٹ پیدا کی ہوئی تھی اور پتا پتا جھومتا محسوس ہوا، حیرت تو ہوئی کہ بے اختیار بچپن کا اکثر دہرایا ہوا شعر ہونٹوں پر آگیا ۔
؎ ایک ہی رات میں کیا ماجرا ہو گیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا ؟ !!!
لیکن سلام کرتے ہی فضا میں مِٹھاس پھیلی محسوس ہوئی ۔ گویا دوستانہ ہاتھ تھما دیا گیا تھا ۔ میں نے کچھ دل کی باتیں کیں ، پیارے درختو !میں تمہاری زبان سے نا آشنا ہوں ، لیکن یہ بھی پتہ ہے کہ تم صرف محبت کی زبان سمجھتے ہو ، جو آفاقی ہے ، میں نے ابھی ٹھہر ٹھہر کر تم سب سے بہت سی باتیں کرنی ہیں ۔تمہیں اپنے اور دوسرے ملکوں کے اشجار کے بارے میں بتانا ہے ،جن سے میں نے باتیں کیں ۔ یوں ہی باتیں کرتے کرتے زمین پر لیٹے شاندار درخت کی طرف نگاہ چلی گئی ،اور میری چھٹی حس نے یہ آگاہی دی کہ وہ سب سے زیادہ پُر شوق ہو کر میری باتیں سُن رہا ہے لیکن یہ تو مَر چکا ہے ؟میں نے پھر اس کے لئے دُکھ کی لہر محسوس کی ۔ اب میری حیرت کی باری تھی ، یہ تو مجھے جواب دے رہا تھا ، آہ !غور سے دیکھنے پر اُس کی بےچارگی پر بھی رشک آیا ۔ اس آہستہ آہستہ جدائی کے وقت میں بھی وہ آس پاس خوشیاں بانٹ رہا تھا ۔ اسی نے بتایا میں سو سالہ سالگرہ منا چکا تھا کہ ایک برفانی طوفانی موسم میں میری جڑوں نے میرے بھاری بھرکم وجود کابوجھ اُٹھانے سے انکار کر دیا ۔ یہ حکمِ خداوندی ہے جب تک وہ چاہتا ہے ہم عمر پوری کرتے اور سونپی گئی خدمت ادا کر کے زمین پر لیٹ جاتے ہیں ، اس طرح گرنے کے بعد کب کوئی ہمیں مزید کس کام کے لئے لے جائے ہم نہیں جانتے اور نہ ہمیں اس سے غرض ہوتی ہے ۔ کیسا خوبصورت شعر کہا ہے تمہارے برِ صغیر کی اس شاعرہ صفیہ راگ علوی نے ۔۔۔
؎ نہ یہ پوچھو گزر کر حد سے دیوانوں پہ کیا گزری
جنوں سے جا کے یہ پوچھو کہ ویرانوں پہ کیا گزری
ہمیں کس نے بُلایا تھا تیری محفل میں اے دنیا
بُلا کر پھر نہیں دیکھا کہ مہمانوں پہ کیا گزری
میری آنکھیں بھر آئیں ، یہ کیا سن رہی ہوں اور یہ کیا دیکھ رہی ہوں کہ اس زمیں بوس درخت پر تو گلہریوں کا پورا خاندان آباد تھا ، کہیں کہیں مکڑیوں نے اطمینان سے جالوں کے گھر سجا رکھے تھے ۔ نہایت ننھی مُنی چڑیاں ، درخت کے خفیہ دائروں میں سے اپنی من پسند خوراک کھا رہی تھیں ، سورج کی نرم گرم کرنوں نے بھی ابھی تک اس کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا ، ہر بیتتے موسموں میں اس کا ساتھ دے رہی تھیں ۔ اسی لئے یہ درخت فانی ہو جانے کے بعد بھی مخلوقِ خدا کی خدمت میں جُتا ہوا تھا اور وہ مرا نہیں تھا ، وہ تو زندگی کا ثبوت دے رہا تھا ۔ یہ سب مجھے پہلے دن یا دوسرے دن کیوں محسوس نہیں ہواکہ کوئی زیرِ لب کچھ کہہ رہا ہے ، کیوں اس درخت کی آواز کو نظر انداز کیا ۔ آہ ! انسانی فہم کی کوتاہ بینی !
یکدم مجھے سبھی اولیاء کرام کے مزارات یاد آگئے ، وہ بھی تو سانس کے چلنے تک خدمتِ انساں بجا لاتے رہتے ہیں اور جب کُوچ کا حکم ہوا تو لمحے میں پیش ہو گئے ، خالق نے انعام کے طور پر ان کی ڈھیریوں کو لا تعداد لوگوں کے لئے رزق روزی کا ذریعہ بنا دیا ، پہلے بھی چلتے پھرتے تھے ، اب الگ رنگ سے چلو پھرو کہ ایک رنگ میں تو صرف وہی ہے جو لا شریک ہے ، تا ابد ہے ۔ اوّل و آخر ہے اس کی ذات ۔۔۔۔ حضرت میاں محمد بخش نے کتنی گہری بات کتنے سادہ و دل نشیں انداز سے کہہ دی ،
؎ کچا رنگ للاری والا ، چڑھدا لہندا رہندا
عشق تیرے دا رنگ محمد چڑھیا فِر نہ لیندا
( رنگساز کا چڑھایا گیا رنگ کبھی کچا ، کبھی نیم پکا ہوتا ہے لیکن ربِّ کریم کی نظر ِکرم والے پر جو رنگ چڑھتا ہے ، اسے پھر کوئی نہیں اُتار سکتا )
( منیرہ قریشی ، 21 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں