پیر، 18 مارچ، 2024

جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپورتاژ۔4)

"ایپنگ فارسٹ کے مکین"
باب۔۔4
جنگل محض درختوں کا محدود یا وسیع ذخیرہ ہی نہیں ہوتا ، یہ وہ سانس لیتی حسّاس مخلوق ہے جو اظہار اور رویہ دکھاتے ہیں۔ جہاندیدہ درختوں کے جھنڈ سر جوڑے اپنے دیکھے ، سنے تجربات آپس میں بانٹتے رہتے ہیں ۔
خوف آدم وحوا  کے بیری کے درخت کا پھل کھانے کے بعد شروع ہوا کہ احتیاط ہی احتیاط میں درختوں سے دوستی کم ہوتی چلی گئی لیکن اللہ نے اپنی کائنات کو کُن فیکون کے جن مظاہر سے سجایا،اُن میں سے انسان کے بعد  اگر کسی مظہر کو چہیتا  بنایا  ہو گا  تو وہ درخت ہی ہیں ۔اسی لیےسدرۃ المنتہیٰ  کے  نام سے   ایک ایسا درخت بنایا  جو چھٹے آسمان سے ساتویں آسمان تک بلند ہے  اور اُسی کی  جڑوں سےچار دریا جاری کیے جن میں دو دنیا میں جاری ساری ہیں،"نیل اور فرات"۔دو دریا جنت کے لیے جاری ہیں  "سیہان اور جیہان"۔
اسی طرح دُنیا میں اپنے عکس کے لیے حضرت موسی علیہ السلام کو  متوجہ کرنے کے لیے درخت کو چُنا  جو سراپا نور و شعلہ تھا۔ اسی سے رب  نے اُن سے کلام کیا اور اپنا پہلااندازِ وحی   عطا کیا۔ درخت ہی تو ہیں جنہیں انسانوں کی طرح سننے  اور حساسیت کی صفات  عطا کیں ۔یہ  درخت ہی تو ہیں جو دنیا میں  پھیلی  سورج کی تپش  سے محفوظ  رکھنے کا کڑا فریضہ انجام دے رہے ہیں  ۔یہ درخت ہی ہیں جنہیں کائنات کا حسن قرار دیا گیا ہے۔
کچھ ایسے ہی جنگل میں جانا ہوا ،جس کی عمر وہاں کے باسیوں کے مطابق دس ہزار سال سے زیادہ تو ہو سکتی ہے کم نہیں ۔ مغربی ماحول ، تہذیب وتمدّن اور کم آبادی نے اس کو ایک فائدہ ضرور دیا تھا کہ صاحب اختیار طبقے نے اسے قدرتی حسن میں ہی رہنے دیا۔ شاید اِسی لئے ہیبت اور کچھ اس کی قدامت نے اسے احترام دِلائے رکھا ۔ اس جنگل کے ایک داخلی راستے سے اندر جانے لگے تو وہاں پہلا حفاظتی دستہ خاموشی کا تھا جس نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا ۔ چند قدم کے بعد ہی خوب گھنے درختوں پر مزید خاموشی چھا گئی ۔ سوچا شاید ہم عصر کے وقت آئے ہیں اور مغرب تک اس جنگل کا داخلی دروازہ بند کر دیئے جانے کا نوٹس لگا ہوا تھا ، اسی لئے نہ تو یہاں سیاح نظر آئے ، نہ کوئی کھوجی طبیعت کے لوگ اور نہ زمینی چھپی مخلوق ۔ ہاں البتہ آٹھ دس مقامی لوگ ، اپنے گروپ میں سے کسی کی سالگرہ منانے رُکے ہوئے تھے ۔ آدھے گھنٹے تک ان کی آوازیں بھی معدوم ہو گئیں ۔ لندن کی گنُجان آبادی سے ہٹ کر اس جنگل کی فضا میں دوستانہ گرمجوشی محسوس ہوئی ۔ ہم مطمئن ہو کر آگے بڑھے ، مزید آگے ، بوڑھے درختوں نے اپنے بہت چوڑے تنوّں کے ساتھ " جی آیاں نوں " والی مسکراہٹ پہنچائی ۔ چند درختوں کی کمر خمیدہ تھی ، وہیں درمیان میں ایک چھوٹی سی پُرسکون جھیل تھی جس کے ایک کنارے سے پانی مزید ابھرنے کی قُل قُل کی آواز سے شاملِ جھیل ہو رہا تھا ۔ جھیل کنارے نہایت چھوٹی لیکن عجیب و غریب پانی کی مخلوق بَسی ہوئی تھی ، جانے کب سے ؟ اِکا دُکا نظاروں کو کیمرے کی آنکھ سے دل میں اتارا پھر مزید اندرونِ جنگل جاتی پگڈنڈی کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ اچانک سفاری سوٹ پہنے ، لانگ بوٹ کے ساتھ، برف سے سفید بالوں والے سر پر پگڑی باندھے ، سفید خوب گھنی مونچھوں ، سفید بھنوؤں اور کنپٹیوں سے نیچے آتی سفید داڑھی کے ساتھ سات آٹھ فٹ اونچی با رُعب شخصیت نے راستہ روک لیا جس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چھڑی بھی تھی ۔ میَں جیسے ساکت ہو کر رہ گئی اور پھر میرے منہ سے صرف اتنا نکلا ۔" آپ کون ؟
اس شاندار بزرگ شخصیت نے مسکرا کر ، مشفقانہ انداز سے کہا " میں تو سینکڑوں سالوں سے یہیں ہوں ،مگر تمہارے جیسی جانچتی ، محبت کی نظر ڈالتی روحیں کبھی کبھار آتی ہیں ۔ مجھے ہی ( Epping forest ) کہتے ہیں ۔ تمہاری درختوں کی محبت اور انھیں جاننے کی اُلفت سے ہم آگاہ ہیں ۔
خوش آمدید ، خوش آمدید ، اے چند گھنٹوں کی مہمان !! اس کے بارعب لیکن دھیمے لہجے نے مجھے شانت کر دیا ۔ ایپنگ فارسٹ نے خود ہی میری سوچ پڑھ لی "تم یقیناً میری پگڑی پر حیران ہو رہی ہوگی، ہم درختوں کے لئے ہر مُلک ، مُلکِ ما است ہوتا ہے ۔ ہم اپنے دور دراز کے ہم نفسوں کے پہناوے پہنتے اور خوش ہوتے رہتے ہیں ، یہ پہناوے ان دور کے ملکوں سے آتے جاتے پرندوں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں ۔ جوں ہی کوئی ہم سے ملنے آتا ہے ، ہم اسی کے دیس جیسا کچھ بھی پہن لیتے ہیں ، ہمارا یہ خوش آمدید کہنے کا انداز ہے " ۔ " تم جب وطن کو لوٹو گی اور جس بھی جنگل جاؤ گی ان سب کو ہم سے اس ملاقات کا تاثر بتانا ، باقی ہماری پیغام رسانی تو ان پیاری ہواؤں کے ذریعے ہوتی رہتی ہے "۔
" ابھی مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے "۔ ایپنگ فارسٹ نے گھنی بھنوؤں کے ساتھ اُوپر کی جانب آنکھوں کو گھمایا ۔ "اور ہم بھلے کتنے ہی شفیق لگیں، جنگل کا اندھیرا تم انسانوں کو کچھ نا کچھ پریشان کر دیتا ہے تب تم لوگوں کی پریشانی ہم سے دیکھی نہیں جاتی ۔ مجرمانہ ذہنیت کے انسان ہمارے انہی گھنے سایوں کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اپنے ہی ہم جنسوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے ہیں ۔ ہم یہ سب سنتے اور کڑھتے رہتے ہیں ۔ کیا کبھی ہماری آپس میں چھینا جھپٹی دیکھی ؟ ہم تو کسی کا پھل نہیں چُراتے ۔ نہ کسی سے حسد کرتے ہیں ۔ ہاں البتہ کوئی غم زدہ ہو تو ہم اس کے ساتھ غمگین ضرور ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ کبھی کبھی تو حسّاس درخت ، اپنے پیارے کے غم میں موت کو گلے لگا لیتا ہے ۔تم نے فلسطینی شاعر محمود درویش کا نام تو سنا ہو گا ، اس نے تم لوگوں کو پیغام دیا ہے کہ
' کوئی درخت کسی دوسرے کا مذاق نہیں اُڑاتا ،
کوئی درخت ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتا ،
جب درخت کشتی بن جاتے ہیں تو وہ تیرنا سیکھ جاتے ہیں ،
جب وہ دروازے بن جاتے ہیں تو وہ رازوں کو چھپانے والے بن جاتےہیں ،
جب وہ درخت کرسی بن جاتے ہیں تو وہ اُس آسمان کو نہیں بھولتے جو کبھی ان پر تنا ہوتا تھا ۔
اور جب درخت میز بن جاتے ہیں تو ایک شاعر کو سکھاتے ہیں کبھی لکڑہارا نہیں بننا "
ایپنک فارسٹ کے بُزرگ جنگل نے محبت سے کہا " ہڑپہ ،موہنجو داڑو کی قدیم سر زمین سے آنے والے مہمانو ! اب لوٹ جاؤ کہ داخلی دروازہ تمہارا منتظر ہے ،ہم سب کے خالق نے چاہا تو پھر ملیں گے " ۔
آنے جانے والوں کے لئے بنے نہایت چھوٹے سے پھاٹک کو پار کرنے سے پہلے اِرادی طور پر اس پُراسرار ، قدیم اور دلچسپ جنگل پر الوداعی نظر ڈالی ، یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ بزرگ جنگل ، سینہ تانے ہمیں الوداعی ہاتھ ہلا رہا تھا ۔دس ہزار سال کے اس جنگل سے جانے کب ملاقات ہو ، نہ ہو۔

( منیرہ قریشی ، 18 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں