پیر، 18 مارچ، 2024

جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپورتاژ)(4)


جنگل کچھ کہتے ہیں" ( رپورتاژ)(4)
جنگل محض درختوں کا محدود یا وسیع ذخیرہ ہی نہیں ہوتا ،،، یہ وہ سانس لیتی حسّاس مخلوق ہے جو اظہار اور رویہ دکھاتے ہیں،، جہاندیدہ ، درختوں کا جھنڈ ، سَر جوڑے اپنے دیکھے ، سنے تجربات کو آپس میں بانٹتے رہتے ہیں ۔
کچھ ایسے ہی جنگل میں جانا ہوا ،،،جس کی عمر وہاں کے باسیوں کے مطابق دس ہزار سال سے زیادہ تو ہو سکتی ہے کم نہیں ۔ مغربی ماحول ، تہذیب وتمدن اور کم آبادی نے اس کو ایک فائدہ ضرور دیا تھا کہ صاحب اختیار طبقے نے اسے قدرتی حسن میں ہی رہنے دیا۔ شاید اسی لئے ہیبت اور کچھ اس کی قدامت نے اسے احترام دلائے رکھا ۔ جب اس جنگل کے ایک داخلی راستے سے اندر جانے لگے تو وہاں پہلا حفاظتی دستہ خاموشی کا تھا جس نے، ہمیں اپنے حصار میں لے لیا ۔ چند قدم کے بعد ہی خوب گھنے درختوں پر مزید خاموشی چھا گئی ۔ سوچا ، شاید ہم عصر کے وقت آئے ہیں اور مغرب تک اس جنگل کا داخلی در بند کر دئیے جانے کا نوٹس لگا ہوا تھا ،، اس لئے نہ تو یہاں کوئی سیاح نظر آئے ۔۔ اور نہ کوئی کھوجی طبیعت کے لوگ ، نہ زمینی چھپی مخلوق ۔ ہاں البتہ آٹھ دس مقامی لوگ ، اپنے گروپ میں سے کسی کی سالگرہ منانے رکے ہوئے تھے ۔ آدھ گھنٹے تک ان کی آوازیں بھی معدوم ہو گئیں ۔ حالانکہ اب جولائی کا آخر تھا اور دن کچھ لمبا ہو چکا تھا ۔ لندن کی گنجان آبادی سے ہٹ کر اس جنگل کی فضا میں دوستانہ گرمجوشی محسوس ہوئی ۔ ہم مطمئن ہو کر آگے بڑھے ،، مزید آگے ،، اور بوڑھے درختوں نے اپنے بہت چوڑے تنوّں کے ساتھ " جی آیاں نوں " والی مسکراہٹ پہنچائی ۔ چند درختوں کی کمر خمیدہ تھی ،، وہیں درمیان میں ایک پُر سکون چھوٹی سی جھِیل تھی ۔۔ جس کے ایک کنارے سے کہیں پانی مزید ابھرنے کی قُل قُل کی آواز سے شاملِ جھیل ہو رہا تھا ۔ جھیل کنارے نہایت چھوٹی لیکن عجیب و غریب پانی کی مخلوق بَسی ہوئی تھی ،، جانے کب سے ؟ اکا دکا نظاروں کو کیمرے کی آنکھ سے دل میں اتارا ،،، اور پھر مزید اندرون جنگل جاتی پگڈنڈی کی راہ کی طرف قدم بڑھائے ۔لیکن ،،، سامنے سفاری سوٹ پہنے ، لانگ بوٹ کے ساتھ،، سَر پر شاندار پگڑی باندھے ۔ برف سا سفید بالوں والا سر ، سفید خوب گھنی مونچھوں ،، سفید بھنوؤں اور کنپٹیوں سے نیچے آتی سفید داڑھی ،،،کے ساتھ سات آٹھ فٹ اونچی با رعب شخصیت نے راستہ روک لیا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی شاندار چھڑی بھی تھی ۔ میَں جیسے ساکت ہو کر رہ گئی ۔ اور پھر میرے منہ سے صرف اتنا نکلا ۔۔" آپ کون "؟؟
اس شاندار بزرگ شخصیت نے مسکرا کر ، مشفقانہ انداز سے کہا " میں تو سینکڑوں سالوں سے یہیں ہوں ،،،مگر تمہارے جیسی جانچتی ، محبت کی نظر ڈالتی روحیں کبھی کبھار آتی ہیں ۔ مجھے ہی Epping forest کہتے ہیں ۔ تمہاری درختوں کی محبت اور انھیں جاننے کی الفت سے ہم آگاہ ہیں ۔
خوش آمدید ، خوش آمدید ، اے چند گھنٹوں کی مہمان !!،،، اس کے بارعب لیکن دھیمے لہجے نے مجھے شانت کر دیا ۔ ایپنگ فارسٹ نے خود ہی میری سوچ پڑھ لی ،،، " تم یقینا" میری پگڑی پر حیران ہو رہی ہوگی ۔ ہم درختوں کے لئے ہر مُلک ، مُلکِ ما است ہوتا ہے ۔ ہم اپنے دور دراز کے ہم نفسوں کے پہناوے پہنتے اور خوش ہوتے رہتے ہیں ،، یہ پہناوے ان دور کے ملکوں سے آتے جاتے رہنے والے پرندوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچتے رہتے ہیں ۔ جوں ہی کوئی ہم سے ملنے آتا ہے ، ہم اسی کے دیس جیسا بھی کچھ پہن لیتے ہیں ،، یہ ویلکم کرنے کا انداز ہے " ۔۔ " تم جب وطن کو لوٹو گی ،،، اور جس بھی جنگل جاؤ گی ،، ان سب کو ہم سے اس ملاقات کا تائثر بتانا ، باقی ہماری پیغام رسانی ،، ان پیاری ہواؤں کے ذریعے ہوتی رہتی ہے "
" ابھی مغرب کا وقت ہوا چاہتا ہے "۔ ایپنگ فارسٹ نے اوپر کی جانب گھنی بھنوؤں کے ساتھ آنکھوں کو گھمایا ۔ "اور ہم بھلے کتنے ہی شفیق لگیں ۔۔ جنگل کا اندھیرا تم انسانوں کو کچھ نا کچھ پریشان کر دیتا ہے ۔ تب تم لوگوں کی پریشانی ہم سے دیکھی نہیں جاتی ۔ مجرمانہ ذہنیت کے انسان ہمارے اسی گھنے سایئوں کا غلط استعمال کرتے ہیں ۔ اور اپنے ہی ہم جنسوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں ۔ ہم یہ سب سنتے اور کڑھتے رہتے ہیں ۔ کیا کبھی ہماری آپس میں چھینا جھپٹی دیکھی ؟ ہم تو کسی کا پھل نہیں چُراتے ۔ نہ کسی سے حسد کرتے ہیں ۔۔۔ ہاں البتہ کوئی غم ذدہ ہو تو ہم اس کے ساتھ غمگین ضرور ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ کبھی کبھی تو حساس درخت ، اپنے پیارے کے غم میں موت کو گلے لگا لیتا ہے ،،، تم نے فلسطینی شاعر محمود درویش کا نام تو سنا ہو گا ،، اس نے تم لوگوں کو پیغام دیا ہے کہ ' کوئی درخت کسی دوسرے کا مذاق نہیں اڑاتا ،
کوئی درخت ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرتا ،،،
جب درخت کشتی بن جاتے ہیں تو وہ تیرنا سیکھ جاتے ہیں ،
جب وہ دروازے بن جاتے ہیں تو وہ رازوں کو چھپانے والے بن جاتےہیں ،
جب وہ درخت کرسی بن جاتے ہیں تو وہ اُس آسمان کو نہیں بھولتے جو کبھی ان پر تنّا ہوتا تھا ۔
اور جب درخت میز بن جاتے ہیں ، تو ایک شاعر کو سکھاتے ہیں کبھی لکڑہارا نہیں بننا "
" ہڑپہ ،مونجو داڑو کی قدیم سر زمین سے آنے والے مہمانو !! اب لوٹ جاؤ ۔۔ کہ داخلی دروازہ تمہارا منتظر ہے ،، ہم سب کے خالق نے چاہا تو پھر ملیں گے "
آنے ، جانے والے کے لئے بنے نہایت معمولی سے پھاٹک کو پار کرنے سے پہلے ، ارادی طور پر اس پُراسرار ، قدیم ، اور دلچسپ جنگل پر الوداعی نظر ڈالی ،،، اور یہ دیکھ کر اچھا لگا ، کہ بزرگ جنگل ، سینہ تانے ہمیں الوداعی ہاتھ ہلا رہا تھا ،۔دس ہزار سال کے اس جنگل سے جانے کب ملاقات ہو ، نہ ہو۔

( منیرہ قریشی ، 18 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری ) ( تصویر 4 ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں