" ٹینڈل ہل پارک " کی اُداسی
باب۔۔7
مانچسٹر کے گلابی موسم کی چمکیلی خوبصورت صبح تھی اور پچھلے لان سے ملحقہ چھدرے جنگل کو صبح کا سلام کرنے پہنچ گئی کہ اب اپنی گاڑھی ہوتی دوستی میں مزا آنے لگا تھا ۔ پہلے سلام اور پھر کلام ہوتا ۔ وہ مجھ سے محبت بھری سر گوشی میں پوچھتا ! " رات کیسی گزری ؟ کیسے خواب دیکھے ؟ کچھ نیا لکھا ؟" میَں مُسکرا کر جواب کی بجائے اِسی سے سوال کرتی، تم سناؤ ! کیا رات کو لومڑیاں آئی تھیں ، اپنا وہ کھاجا کھانے ، جو میں نے تمہاری جڑوں کے پاس رکھ دیا تھا ؟ تو پتوں بھری ٹہنیوں نے قدرِ جھک کر اشارہ کیا " دیکھو تو وہ گتے کی پلیٹ خالی ہے ، بلکہ میٹھی گوگیاں جو تم اپنے وطن سے لائی تھیں ، اسے دو آنے والے ہرن ماں بیٹا چٹ کر گئے ، وہ اس نئے ذائقے سے نہال ہو رہے تھے ، اگر اور ہیں تو وقفے سے ڈال دینا ، اس کاسنی پھولوں والے پودوں کے درمیان وہ کبھی کبھار چکر لگانے آ جاتے ہیں اور یوں ہماری رات اُن سے گپ شپ میں گزر جاتی ہے " ۔ نوجوان تندرست درخت نے رات کی ساری رُودار سنا ڈالی اور مزید کہا " اگر آج باہر جانا ہوا تو پُر جوش میزبان سے کہنا تمہیں 'ٹینڈل ہل پارک ' لے جائے ، وہ ہم سے کہیں زیادہ پُرانا جنگل تھا ، جسے کوئینز پارک کی طرح لوگوں کے لئے تیار کر دیا گیا ہے ، تم جاؤ گی تو وہ خود اپنی کہانی سنا دے گا" ۔
اس پُر سکون صبح ٹینس کی بال جتنی بڑی سٹرا بیریز کا ناشتہ ہوا تو " ٹینڈل ہل پارک " کا ذکر کیا گیا ، تو محبتی میزبان جو خود بھی سیلانی روح ہے ، نےفوراً کہا " چلیں آج شام کی چائے اسی پارک میں جا کر پئیں گے ۔ دل پہلے ہی پُر جوش تھا ،میں نے جنگلوں کو نہیں ، انھوں نے مجھے چُن لیا تھا ، تبھی تو ایک غیر اہم یہ چھدرا جنگل اپنے ایک بزرگ سے ملنے کا مشورہ دے رہا تھا ، میں کچھ دیر کے لئے خود پر نازاں ہوئی کہ مجھے ان جنگلوں نے اپنی دوستی کے قابل جانا ہے ، اے خالق تیرا شکر ، تیرا کرم ! ورنہ اگر یہ مجھے ڈراتے تو میں کیا کر سکتی تھی ۔ میں کبھی ان کی باتیں نہ سمجھ پاتی اور کبھی ان کی صُحبت میں اتنی خوشی محسوس نہ کر سکتی ۔
سہ پہر تک چائے کا کچھ سامان لے کر شاندار گھروں کی درمیانی سڑک سے گزرے ۔ جہاں اس سڑک کا اختتام تھا وہیں گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ بنی ہوئی تھی ، ایک برائے نام سا گیٹ تھا جس پر تکلفاً ایک تالا لٹک رہا تھا ، البتہ ایک چھوٹا گیٹ ہر آنے جانے کو خوش آمدید کہہ رہا تھا جِسے کوئی لمحہ بھر کو بھی نہیں دیکھ رہا تھا کہ ہر داخل ہونے والے کی نظروں کو نہایت ترتیب سے بنا راستہ اپنی گرفت میں لے رہا تھا۔ شروع کے فرلانگ بھر راستے کو خوبصورت سبز گھاس اور بنچوں سے آراستہ کیا گیا تھا ۔ اسی کے نزدیک ایک کینٹین بھی بنائی گئی تھی ، جہاں زیادہ تر مائیں اپنے بچوں کے ساتھ براجمان تھیں کہ ان کے بچوں کی پسندیدہ خوراک مل رہی تھی ،ایک بنچ پر چائے کے لوازمات رکھ کر آس پاس پھیلے درختوں کی طرف نظر ڈالی ، دل کی دھڑکن پھر تیز ہوئی کہ یہاں جنگل گھنا تو رکھا گیا تھا لیکن کہیں کہیں راستہ بھی بنا دیا تھا ، قریب ترین گھنے درختوں کی اُوپری شاخوں سے گتھے ذخیرے تک پہنچنے کے لئے ڈھلوان راستہ طے کر کے جانا پڑا ۔ وہاں پہنچی تو اس روشن سہ پہر میں بھی یہاں ٹھنڈک اور نیم اندھیرا تھا ، نہ صرف سانس درست کرنے تھے بلکہ جنگل کے اس احاطے کو اپنی آمد کا اندراج بھی کروانا تھا ، یہاں کوئی بنچ نہیں تھا کہ کچھ دیر وہیں بیٹھ جاتی لا محالہ انہی درختوں میں ایک کے تنے کا سہارا لیا اور جیسے کسی نے میری کلائی پکڑ لی ،مجھے اس گرفت میں دوستانہ احساس بھی ہو گیا ، خوش آمدید ، جنگلوں کی محبت کی اسیر ! ہمیں چھدرے جنگل نے کہلوا دیا تھا ، اپنی چاہتوں کا یقین دِلانے مشرق سے مہمان آئے ہیں ، تم اچھے وقتوں میں آئی ہو ، ورنہ ہم تو تین چار میل کے دائرے میں پھیلا وہ جنگل تھے کہ رات تو رات ، دن کو بھی یہاں سے کوئی گزرنا پسند نہیں کرتا تھا ، دیکھو تو یہ سامنے چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ابھی بھی گھنے درختوں سے لدی ہوئی ہیں جہاں جنگلی حیات آرام سے رہ رہی ہے ۔ 1861ء تک اس جنگل نے باغیوں کو محفوظ پناہ گاہیں بھی مہیا کیں ، جو اس دَور کے بادشاہوں کی نیندیں حرام کئے رہتے ، آخر کار یہ دورانیہ گزرا اور فیصلہ ہوا باغیوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کا واحد حل یہی ہے کہ جنگل چھدرا کر دیا جائے ، لیکن زمینی سطح اسی طرح اونچی نیچی ، بلکہ مزید نیچی ڈھلانیں موجود رہیں ، جہاں لمبے لمبے درخت گہرائی سے اٹھتے چلے آتے ہیں اور ان کی چوٹیاں لوگوں کے قدمو ں کو چھوتی ہیں ۔ " تم دیکھ رہی ہو نا، کچھ جگہوں پر ہم درختوں کو کچھ زیادہ ہی کاٹ ڈالا گیا ہے ، اب ہم اپنے کمزور ذخیرے پر اُداس اُداس رہتے ہیں ، تم نے اس اداسی کو محسوس کیا ؟ اس وقت مجھے احساس ہوا ، اس پرانے جنگل لیکن نئے پارک میں کوئی گرم جوشی کیوں نہیں محسوس ہوئی ، اس کے کافی پھیلے رقبے تک گھومنے پر علم ہوا کہ بہت سے نئے درختوں کے گرد جنگلا لگاہوا تھا ، ہر درخت پر کسی بیٹے ، بیٹی ، پوتے پوتی نے اپنے بزرگوں کے نام لکھ کر ان کی یاد میں یہ درخت لگائے تھے ، اوہ !! تو یہ بات تھی کہ تیزی میں کانٹ چھانٹ نے جنگل کو نیم برہنہ کر ڈالا تھا ، اور انسانوں کے اس سلُوک نے اس کی خوش مزاجی مدھم کر دی تھی ، اب نئی نسل مداوا کرنے میں کوشاں تھی " جتنا اس گھنے لیکن کاٹے گئے جنگل نے اپنے محسوسات شیئر کئے ، اس نے مجھے خاموش کر دیا تھا ۔ لیکن دُکھی نہیں کیا تھا کہ اب چند عشروں میں یہ جنگل اپنا دبدبہ پھر حاصل کر لے گا کہ ہر وہ قوم جو اس شعور سے آگاہ ہو جائے کہ " ہم درختوں سے ہی قدرت کے یہ نظارے مکمل ہوتے ہیں اور قدرت کہیں بھی ہو وہ سبز رنگ سے عاری ہو ہی نہیں سکتی ۔ سارا ماحول قدرت سے میل کھاتا ہوا ہو ،یہ تبھی ہو گا کہ جب سبز کا ہر شیڈ آس پاس ، ہر کونے سے جھلک دکھا رہا ہو "۔
( منیرہ قریشی ، 28 مارچ 2024ء واہ کینٹ )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں