بدھ، 13 مارچ، 2024

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔2)


"خیالات و الفاظ کا جنگل"
باب۔۔2
لفظ ' جنگل ' عجیب سا لفظ ہے ، یہ لفظ سنتے یا پڑھتے ہی ذہن میں درختوں کے جُھنڈ کا تصور اُبھرتا ہے ، جہاں چھتنار درختوں کے اندر ، پُراسراریت ، خوف اور چھُپے رازوں کے دفینے ہو سکتے ہیں ۔ گویا قدرت اپنے اسرار عیاں کرنے کے لئے ویرانوں ، صحراؤں اور جنگلوں کو ایک سیڑھی کے طور پر مہیا کرتی ہے کہ " اُٹھو تو سہی ، کھوجو تو سہی ، سوچو تو ذرا ۔ بظاہر یہ بے زبان درخت ، بے آب و گیا ہ ویرانے ، صحرا میں بکھری ریت کچھ کہہ رہی ہے ، لیکن کیا ؟
کبھی کبھی جنگل " گھنّے الفاظ " کی صورت دل و دماغ میں جگہ بنا لیتے ہیں ۔ یہ الفاظ یا تو بلند و بالا درختوں کی مانند ہوتے ہیں یا کبھی چھدّرے درختوں کی طرح !کبھی یہ خیالات خزاں رسیدہ ، پُژمردہ جنگل کی صورت میں اور کبھی پھلوں ، پھولوں یا خوش رنگ پتّوں سے لَدے ، ہاتھ باندھے قطار در قطار خدمت گاروں کی صورت کھڑے نظر آتے ہیں ۔ بس یہ اشرف المخلوق کی کیفیت پر منحصر ہے کہ جنگل کا فُسوں کس رنگ کی پچکاری چھوڑ رہا ہے ، اُداسی کی یا خوشی کی!
الفاظ کے جنگل تو خود قدرت خداوندی کی عجب دَین ہوتے ہیں کہ یہ جنگل " خوش حالی" کے نظاروں کو دکھا رہے ہیں تو ہر دن عید اور ہر شب ، شبِ برات گویا لہجوں کِی جلترنگ اس جنگل کو منگل بنا دیتی ہے ۔ یہ رنگین جنگل اندر کی قناعت سے ضرور مل جاتا ہے ، بس ذرا آنکھوں کی نمی سے خلُوص اور شُکر گزاری کاچھڑکاؤ کرنا پڑتا ہے ۔
کبھی کبھار جنگل کا تصور ، تکلیف دِہ الفاظ ، کانٹے دار جھاڑیوں اور درندوں کی آوازوں کے خوف پر مبنی سفر بن جاتا ہے ، الفاظ کا جنگل ہر شخص اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا رہتا ہے لیکن اسے محسوس نہیں ہونے دیتا کہ ہاں میں تمہارے ساتھ تھا اور ہوں !کبھی یہ جنگل یا صحرا ، چھوٹا اور کبھی دمِ آخر تک ساتھ دیتا رہتا ہے ، لمبا راستہ ، لمبا فاصلہ، لمبی آزمائش۔
ایسے لوگ اگر اصل جنگلی حیات ا و ربے زبانوں کے درمیان زندگی گزارنے کی ٹھان لیں تو ان کی روح تھور زدہ زندگی سے نجات پا سکتی ہے ۔ اسی لئے ایسے ہی گہرے لوگ جب دوسری دنیا میں منتقل ہوتے ہیں تو ان کی آخری آرام گاہ کی طرف آنے والے فوراً محسوس کر لیتے ہیں ، "کیسا سکون ہے یہاں ، کتنی مدھرتا ہے ، جیسے وقت رُک گیا ہو ، جیسے خاموشی کہہ رہی ہو ،
؎ میَں تھکیا ٹُٹیا ہویا راہئ !!
تُو ککراں دی چھاں نی کُڑیئے
( میں زندگی کے سفر سے تھک کر آیا ہوں ، اے میری ساتھی ، تمہارا وجود اس وقت میرے لیے کیکر کی چھاؤں کی طرح ہے )
جنگل تو صاف پیغام دے رہے ہوتے ہیں ،ہم سے دوستی کر کے تو دیکھو ! کبھی گھاٹے کا سودا نہیں ہو گا ۔
قدرت اللہ شہاب صاحب کو اپنے لڑکپن میں ایک خالصہ اسکول امتحان دینے جانا پڑا ، انھیں یہ راستہ ایک چھوٹا لیکن ویران جنگل پار کر کے جانا پڑتا تھا ، شروع کے دو چار دن ان کا پرانا بزرگ ملازم چھوڑنے کا فریضہ ادا کرتا رہا ، پھر اکیلے آنے جانے لگے۔یہی دن تھے جب جنگل نے انھیں ، خوف ، دہشت اور اسرار کے جذبوں سے آزاد کرنے کی تربیت دے ڈالی ۔ جس نے بعد کی زندگی میں بارہا دہشت اور اسرار سے نجات دلا دی اور خاص تجربات کے لئے تیار کر دیا ۔ جئرات ِایمانی ایسے ہی لوگوں کے لئے ہر اَن دیکھی طاقت کے مقابلے کے لئے " گُرز" بن جاتی ہے۔ اُسی جنگل نے انھیں سبق پڑھایا " ڈرو مت ، یہ آوازیں درختوں کی سرگوشیاں ہیں ۔ ہوائیں ان درختوں تک دُور کے جنگلوں کے پیام لے کر آتی ہیں ۔ یہ کھَڑک ،یہ سایہ محض جھاڑیوں میں چُھپی کسی لومڑی ، کسی خرگوش یا کسی رینگتی مخلوق کا ہے ۔ جو تم سے خود ڈر رہی ہے ، شرما رہی ہے۔ یہ جو تم کبھی ساکت و ساکن ماحول سے خوفزدہ ہوجاتے ہو کہ اتنی خاموشی کیوں ، تو جنگل بھی تو کبھی آرام کے لئے آنکھ جھپکا لیتے ہیں "۔
ایسے ہی جنگلوں نے ایسے نفُوس کو اپنی فراست سے قدرت اِلٰہی کے نرالے رُخ دکھا دیے ، شہاب صاحب کی طرح کے نرالے تجربے سے وہ ملائیشین بزرگ بھی بچپن میں گزرا کہ اُسے بھی چند میل کے ایک گھنے جنگل سے گزر کر سکول پہنچنا ہوتا تھا ، وہ دو تین دن مسلسل کلاسز لے کر پھر اسی جنگل کو پار کر کے واپس گاؤں پہنچتا ، ایک چھوٹے بچے کو جنگل سے گزرنے کے لئے کسی بڑے کا ساتھ میسر نہیں تھا اور سب گھر والے جو بدھ مت کے پیرو کار تھے اس فلسفے کے تحت کتنے شانت تھے کہ " جنگل بے ضرر انسان کی خود حفاظت کرتا ہے" اور واقعی جنگل کی اَن دیکھی مخلوق نے اس دس بارہ سالہ بچے کو اکثر بھٹکنے سے بچایا ، اسے اپنی چھَٹی حِس سے کام لینا سکھایا ، جنگل نے اپنی خاموشی سے ڈرایا نہیں بلکہ طبیعت پر خوف اور ڈر کے گڑھے پنجوں سے آزاد کروا دیا اور یوں اپنے ہم عمر ساتھیوں کی نسبت اس میں سکون ،فراست ، بُردباری اور بہادری کی صفات بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ جنگل بھی کبھی کبھی کیسے دانا استاد کا کردار نبھاتا ہے ۔
اس نے اس ملائیشین جوان ہوتے لڑکے کو مستقل مزاجی سے حالات کا مقابلہ کرنے اور صبر سے نتیجہ ملنے کی صلاحتیں پختہ کر کے انسانوں کے رنگین جنگل میں دھکیل دیا ، جاؤ کہ تم وہیں جچتے ہو ،،خوب کماؤ ، کھاؤ اور کھلاؤ ، لیکن باطن کے صبر اور سکون کو نہ بھُلانا ، ہم نے تمہیں کچھ دینے اور سِکھانے میں کمی نہیں کی ، تم بھی انسانوں کے جنگل میں بُخل نہ دکھانا ۔ اپنی اچھی صلاحیتوں اور محنت سے کمائے مال پر سانپ بن کر نہ بیٹھ جانا ۔ ورنہ باطن کا روشن چہرہ مسخ ہو جائے گا ۔
ہر جنگل بانٹو ، بانٹو کا نعرہ لگاتا رہتا ہے ، چاہے یہ محبت کا جذبہ ہے ، یا کچھ سیکھے ہُنر کو بانٹنے کا ، چاہے پُر خلوص مشاورت کا ، چاہے صبر و قناعت اپنانے کا گُر ، بانٹتے رہنا کہ کھڑا پانی بُو چھوڑ دیتا ہے اور بہتا پانی میٹھا اور خوشگوار ہوتا ہے ۔ یہ بزرگ جھونپڑی سے محل تک پہنچے لیکن بانٹتے چلے گئے اور اپنا قیام جنگل کنارے نہایت چھوٹے سے گھر پر رکھا کہ استاد سے دُوری گوارا نہ تھی ۔ وہ جان چکا ہے کہ میری تیسری نسل میرے استاد کا احترام ، مجھ سے سیکھ گئی تو میری کامیابی کا راز جان لے گی ۔

( منیرہ قریشی ، 13 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) ( جاری ) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں