اتوار، 17 مارچ، 2024

"جنگل کچھ کہتے ہیں " ( رپور تاژ۔3)

"نتھیا گلی کا سِحر"
باب۔۔3
پُلوں کے نیچے سے پانی گزرتا چلا گیا ۔ لوحِ محفوظ میں جو لکھا ہو وہ اپنے وقت پر ہی سامنے آتا ہے ۔ چاہے کسی سے ملاقات ہو چاہے کسی واقعہ کا پیش آنا ہو یا کسی کام کا یکدم ہو جانا ہو ۔
کچھ ایسے ہی بباطن کی اس انوکھے ذوق اور چھٹی حِس میں سے اس سمت کی عجب حساسیت تھی جو ساتھ ساتھ تھی ۔درختوں کی موجودگی مجھےبےچین کر دیتی تھی ، کیوں کہ وہ کچھ باتیں کرتے ، اشارے کنائے سے متوجہ کرتے محسوس ہوتے تھے ، ایسی پیام رسانی کوئی اور کیوں محسوس نہیں کرتا، اس بات پرمیں حیران رہتی تھی۔درختوں کی موجودگی سے لوگوں کی گفتگو پر متوجہ ہونے کے لئے مجھے کچھ مائل ہونا پڑتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔یہ سب گُفت و شنید مجھے اپنے سفر کا حاصل وصول محسوس ہوتی تھی اور ہے !
مری میں نتھیا گلی ، ایک شام کو پہنچے ، ایک اونچی پہاڑی پر بنے ریسٹ ہاؤس میں ایک رات کا قیام تھا ۔ شام تھی اور وہ بھی پہاڑ کی شام ، اونچے لمبے چیڑ اور کچھ مختلف النوع درختوں سے گھِرا، آس پاس کی خاموش فضا میں لپٹا ماحول تھا، ہم دُنیاوی مصروفیات کو اوّلیت دیتے ، محض یہاں کی ٹھنڈک سے محظوظ ہوتے ہوئے ، کمروں کے آرام و سکون کو جانچتے رہے ، جانے کب کی رہتی ایک جوان لڑکی کی آتما سے بھی کچھ لمحوں کی رونمائی ہوئی ۔ پھر رات بھر کے لئے غائب بھی ہوئی ، صبح خیزی کے ذہنی الارم نے جگایا ، اس رب کائنات کے آگے سر بسجود ہونے کے لیے ٹیرس کو پسند کیا جس کے ساتھ لگے چند چیڑ کے درخت اپنے تنوں سے جیسے ٹیرس کو سہارا دے رہے تھے ۔حمد و ثنا کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ، لیکن یہ کیا،صبح کی نو خیز کرنیں ابھی درختوں کی اونچی چوٹیوں کو چُھو ہی رہی تھیں ، سارا ماحول مصورِ کائنات نے گویا پینسل اسکیچ سے آؤٹ لائن دے کر اس کے خدوخال کو نمایاں کر دیا تھا ، خالق نے عجب نظارے سے آگاہی دی ۔
سیدھے ، اونچے سرسبز درختوں نے بیک وقت رُخ موڑا ، واضح مسکراہٹ کے ساتھ ہلکا سا ہلکورا لیا اور اپنا پیغام مجھ تک ٹیلی پیتھی کر دیا " جس رب نے تمہیں بنایا ، اسی نے ہمیں بنایا ، گہرے لمبے سانس لو ، اس شفاف ہوا کا ذریعہ ہمیں بنایا گیا ہے ۔اپنے جسم کے ہر مسّام تک آکسیجن پہنچاؤ کہ ہم تک تمہارا آنا سالوں کا پروگرام ہوتا ہے اور پھر بتدریج نرم کرنوں نے سہج سہج کر پہاڑی سے اور درختوں کی چوٹیوں سے اُترنا شروع کر دیا ۔ وہی آسمان جو رات بھر سیاہ لحاف اوڑھے ڈراتا رہا تھا کہ کھڑکیوں سے جھانکنا بھی دو بھر تھا ، اس نوخیز سَحَر نے آتے ہی رات کا سِحَردھو ڈالا ۔ سبز ، گھنے درختوں کی سائیں سائیں ، اور گہری سبز گھاس کا ہلکورے لیتی کرنوں کو خود میں جذب ہوتے دیکھنا ، جنتِ ارضی کا دل فریب نظارہ تھا جس نے کتنی ہی دیر مبہوت کئے رکھا ۔ آنکھیں اس رب کی خلاّقی پر بھیگ گئیں ۔ اُف ،اتنی پاکیزگی !! اتنی کومَلتا ، شکریہ اے مالک ! صبح ِسبز کا اور یوں جھومتی کائنات دکھانے کا ۔
درختوں نے بھی بھرپور جلوے دِکھائے ۔ ناشتہ تیار ہے کا بلاوا آیا تو سبھی گروپ ارکان ، میدانوں کی گرمی اور شہری شور و غُل سے اظہارِ ناراضگی کر رہے تھے ۔ موسم و ماحول نے بھر پور ناشتے کی اشتہا دی ،اور جیسے ہی غسل خانے میں ہاتھ دھوئے گئے ،گروپ کی نوجوان بیٹی کو آئینے میں وہی جوان لڑکی پیچھےمسکراتی نظر آئی ، لمحے بھر کے لئے اس کا دل لرزا ، لیکن جوں ہی وہ مُڑی ، جوان روح غائب تھی۔ جانے کتنی صدیوں پرانی تھی یا چند سال پہلے کی بھٹکی ہوئی تھی ۔ لیکن ہم بھی یہاں مسافر تھے ، اس نے بھی مُروّت دکھائی اور ایک یاد گار رات کی جھلک درختوں ، کرنوں اور پہاڑیوں کے سنگ گزار کر اس ذی روح کی چند منٹوں کی رات اور چند سیکنڈوں کی دن کی سنگت کے بعد واپسی کی راہ لی۔ آتے وقت چند لمحوں کے لئے اپنے پسندیدہ ٹیرس کے ساتھ جُڑے ہوئے درختوں کا شکریہ ادا کرنے گئی ، انھوں نے محبت کی نگاہ ڈالی اور کہا " ہو سکے تو دوبارہ آنا ، تب یہ مسافر روح شاید تمہیں اپنی کہانی کہہ ڈالے !!
( منیرہ قریشی ، 13 مارچ 2024ء واہ کینٹ ) (جاری )


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں