ہفتہ، 8 اپریل، 2017

"استغراق "

"استغراق " 
( مجھے اپنی یہ نظم بہت پسند  ہے ، احباب سے غور کی درخواست ہے )
سجنوں اور سپنوں سے دُور
رات کی خامشی میں
یارِراز کے حضور
دل کا ڈھول بج اُٹھا
!آنکھوں کی جلترنگ  ہے
!رقصِ بےا ختیار  ہے
!وجُود سراپا نثار  ہے
او میرے یار
دن کی جلوتوں میں
باغ  ہےچہروں کا
لہجوں کی روش میں
سوچوں کے بھنور میں
وجود تو بےوجود  ہوچلا
یہ پاؤں پھر رقصِِ درویش پر مچل اُٹھے
او میرے یار ،،،،،،،،
میں حصارِ ذات میں ہوں ،
ذرہؑ خاک ہوں ،
کوششِ سیرِ افلا ک ہوں ،
کچھ نا معلوم ہیں گردا گِرد !
یہ کس صورتِ حالات میں  ہوں
او میرے یار ،،،،،،،،،،
( منیرہ قریشی ، مئی 2016 ء واہ کینٹ )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں