پیر، 17 اپریل، 2017

" درندے "

" درندے "
مردان یونیورسٹی کا طالب علم جو اپنوں کے ہاتھوں اذیت سے شہید کیا گیا "مشال "اور اس جیسے بےبس شہیدوں کے لیے، جن کے لیے ہم کچھ نہ کر سکے )۔
یہ کون ہیں نعرے لگاتے ہوۓ 
ہاتھوں میں ہتھیار لیے
خون سے سُرخ چہرے لیے
پیلے دانت کچکچاتے ہوۓ
منہ سے جھاگ نکالتے ہوۓ
قدموں میں تیزی ہے
ہوش سے کُند جوش ہے
د رندوں سی " مہم جوئی" ہے !
یہ کون سا مرحلہ ہے پیش؟
یہ کون کھڑا ھے چنگیز کے درپیش ؟
آہ ،،،،، سامنے تو اک نہتا ،بےبس ہے !
حیران آنکھیں لیے
دفاعی الفاظ بولتے ہونٹ ،،،
ٹھہرو دوستو،،،،،،!
فیصلے کو ہاتھ میں نہ لو
منصفی کی جلدی تو نہ کرو ،،،!
،،،،،،
نہیں ہم تجھے واجب القتل سمجھتے ہیں
تُو ناپاک ہے
ہم عقلِ کُل ہیں
ہم دین کے اصل رکھوالے ہیں
تُونے دین میں رخنہ ڈالا ہے
ہم پاک ہیں ، ہم پاک ہیں
ہر جملہ ہتھیار ہی ہتھیار تھا
ہر وار درند گی کا شہکار تھا
" مشال " کی بجھتی مشعل نے آخری منظر دیکھا
یہ میرے دوست تو درس گاہوں میں تھے
تو کیا ہم آج بھی غاروں کے مکیں ہیں
تو کیا آج بھی درندوں نے ہمیں چھوڑا نہیں ہے !
( ایسے واقعات سامنے آتے ہیں تو تہذیب ، انسانیت محض بےجان الفاظ نظر آتے ہیں ڈھکوسلا لگتے ہیں۔)
( منیرہ قریشی ، 17 اپریل 2017ء واہ کینٹ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں