ہفتہ، 10 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں( سلسلہ ہاۓ سفر)۔" سفرِِحج" (10)۔

 یادوں کی تتلیاں" ( سلسلہ ہاۓ سفر)۔"
سفرِِحج" (10)۔"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
اللہ کے حکم ، اور نبی پاکؐﷺ کے کرم سے ، ہم نے آٹھ دن مدینہ میں خیریت سے گزارے ، اور واپسی کا سفر ، عصر کے وقت شروع ہوا ،، بہترین بسیں ، حاجیوں سے بھرتیں ،، اور چل پڑتیں ۔ نہیں معلوم ، ہم میں سے کون ، دوبارہ اس "دنیا کی جنت" میں آ سکے گا ،، اور کس کا آخری پھیرا ۔
ایک عجیب سی کیفیت تھی ،،بس دل و دماغ پرایک خالی پن تھا ، ،،،،میَں ، جب بھی کوئی نعت سنتی ، یا آپؐﷺ کی محبت میں ڈوبا کوئی شعر پڑھتی ، یا جب آپؐﷺ کی سیرت میں آۓ مشکل لمحوں کو پڑھتی ،اس کو تصور میں لاتی تھی ، تو بہت دیر مجھے نارمل ہونے میں لگتے،، آنسو مجھے ہلکا تو کر دیتے لیکن دل بھاری رہتا ، کہ مَیں کہاں ،،، اور آپؐﷺ کا دیار کہاں ،،، مجھے ایک فیصد بھی یقین نہیں تھا کہ اللہ مجھ پر یہ رحمت کرے گا ، کہ اتنا بڑا انعام ، اتنا بڑا کرم ،،،! 1977ء میں ایک چھوٹی سی نظم لکھی تھی ، ( اس نظم کو صرف میرے احساساتِ محبت کو مدِنظر رکھ کر پڑھیۓ )۔
" مرکزِ محبت"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
جب کبھی مَیں مانگ مانگ کر تھک گئی
اور انتظار کی دھوپ ،سر پہ آچکی
چھاؤں پہاڑ کی چوٹی پہ جا بسی ،،،
میرا دل چاہا ۔۔۔
تُجھ سے گِلوں ، شِکوؤں کی بھر مار کر دوں 
تیرے وجود سے انکاری بنوں 
مگر ، " اُن ؐ " کی محبت نے
تجھ سے میرے معاملے فوراً سنوار دیۓ 
اور مَیں ،،،،،،
جو نہایت حقیر ہوں 
اور بھی حقیر ہو کر
دل اور پیشانی کو ،
جاۓ نماز پر جھکا دیتی ہوں !!!
اور اب جب اللہ نے ہمیں حیران کر دیا ۔ اور مَیں نے دن رات اِن پُرسکون ، معطر فضاؤں میں ، یہ آٹھ دن نہیں ، پندرہ سو سال گزارے ، کیوں کہ مجھ پر بار ، بار یہ احساس حاوی ہو جاتا ،، ان ہی راستوں پر آپؐﷺ کے قدم مبارک پڑے ہوں گے ،،، کیا پتہ ان درختوں ، ان پہاڑوں نے کیسی کیسی ہستیوں کو دیکھا ہو ،،، اور یہاں آپؐ ﷺکی آواز گونجی ہو گی ، اور خاص طور پر مسجدِ قُبا ، سے جبلِ احد سے لے کر مسجدِ نبویﷺ تک ،، کس ، کس ریت کے ذرے کو چوُموں کہ ، میرے نبیؐ ﷺکے پاؤںکو چھُوا ہو گا ،،، میں تو ماضی اور حال کو بیلنس کرنے میں کوشاں رہی۔
اورجب ہم کھجوروں کے اُس باغ کے قریب سے گزرے ، جو حضرت عمر رض نے اپنی زندگی میں بیت المال کو دے دیا تھا ، جس کے درخت آج بھی پھل دے رہے ہیں اور اس مال کو صدقہ کی مد پر خرچ کیا جا رہا ہے ،، تو اِس باغ کے پتے پتے نے آپؐ ﷺکی خوشبو پائی ہو گی ،،،،،،، میں کیا لکھوں کہ میرے پاس نہ الفاظ ہیں ، نہ بیانِ سلیقہ ، کہ اللہ رحیم کی اِس نعمتِ عظمیٰ کا شکریہ ادا کر سکوں ۔
حضور پاکﷺ سے شدت کی محبت کا اظہار ،،، ہم بہنوں ، اور بھائی نے اپنی اماں جی سے سیکھا ، وہ آپؐﷺ کے ذکر پر ہمیشہ آبدیدہ ہو جاتیں ، اور آج ، جب آپؐ ﷺکے شہر میں دن اور راتیں گزار کر ، اپنے اگلے فرض کو مکمل کرنے جا رہے ہیں ، تو سمجھ نہیں آرہا ، میرے اللہ کی محبت نے دل کو گھیرا ہوا ہے ، یا نبیؐ جیﷺ کی محبت نے ،،،،،، ایسے ہی احساس نے ان لفظوں کا لبادہ پہن لیا ہے !۔
" لذتِ عشقِ حقیقی"
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مدت سے 
میرے نہاں خانۂ دل میں 
اِک روزن تھا ،
ٹھنڈی ہوا وہاں سے آتی 
کہ مشامِ جاں معؑطر ہو جاتی
اِس ہوا میں سکون وسکوت تھا عجب
کہ روح شدتِ محبت میں نِچڑ جاتی 
تحیر و تعجب بھی تھا ساتھ ساتھ ،،،
کہ اِک دن اِس خیال نے 
ہچکیاں باندھ دیں نماز میں 
یہ کیسا ہے " واحد " ، جس نے
اپنی " محبت " میں دوؐجا شامل کیا
اب عبد سے عبدؐ کی محبت کا ، لطف لے رہا ہے
عبؐد کی شفاعت کو شرط قرار دے رہا ہے !!
،،،،، اور بسیں بھری گئیں ، اور ہم نبیؐ جیﷺ سے رخصت لے کر چل پڑے ،، اب واپسی کے راستے کو غور سے دیکھنے کا پھر موقع مل گیا تھا ،، جب بسیں ، میقات کے مقام پر پہنچیں ، تو یہاں ہم نے صبح کی نماز ادا کی، اور پھر احرام کے تقاضے پورے کیۓ ! کہ اب ہم پر عمرہ واجب ہو گیا تھا ،،۔
تلبیہ کی گونج پھر سنائی دینے لگی ،،، تھکاوٹ کے باوجود ،،، دل اللہ کی محبت میں سرشار ہونے لگا ،،، اس کا شکر ایک مرتبہ پھر اپنے گھر کے دیدار کے لیۓ میزبانی کر رہا تھا ، یہ کتنی پیاری بات ہے کہ اُس رب نے اپنی شکر گزاری کا سلیقہ سیکھا دیا کہ جب دوسرے شہر سے آؤ تو میرے گھر میں آکر والہانہ محبت کا اظہار کر لو ،، پھر دنیا کے جو کام کرنے ہیں بھلے کرتے پھرو،، اور جب ہم مکہ میں حرمِ پاک میں پہنچے تو ابھی ظہر کا وقت نہیں ہوا تھا ،،، ہم خواتین اب اس سارے عمل سے بخوبی واقف ہو گئی تھیں ،، ہم الگ اور مرد حضرات الگ ہو گۓ ۔ بغیر تھکاوٹ کے تیسرا عمرہ مکمل ہوا ،،الحمدُ للہ ،، الحمدُللہ ،!!!!۔
( منیرہ قریشی ، 10 فروری2018ء واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں