ہفتہ، 3 فروری، 2018

یادوں کی تتلیاں(سلسلہ ہائے سفر)"سفرِحج"۔(6)۔

 یادوں کی تتلیاں " (سلسلہ ہاۓ سفر )۔
" سفرِِ حج" ( 6)۔
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
حرمِ پاک میں دن بہ دن حاجیوں کا رش بڑھتا جا رہا تھا ،، اللہ کی بنائی مخلوق کی رنگا رنگی نے حیرت کے دروازے کھولے ہوۓ تھے ،،،،،،، " رب کی نیرنگیوں " نے مجھ پر ایک عجیب سا " خمار " طاری کیا ہوا تھا۔ کہ ہر لمحہ ہر بندہ ، ہر منظر اتنا اہم لگ رہا تھا ،،، کہ بیان سے باہر ۔ ایک زمانے میں پڑھی اور بہت ہی پسندیدہ " سچل سرمست " کی یہ نظم یاد آگئی ، جو لکھ رہی ہوں۔
"وہ سر تا پا راز ہے ، 
کبھی سچل ہے کبھی سچل کی ذات ہے
حباب کو موج نے دریا بنا دیا ہے
اس میں شک کی کوئ گنجائش نہیں ، 
کہ وہ اپنے رنگ دیکھنے کے لیۓ،،،،
اب تک ، لاکھوں بیکھ بنا رہا ہے !!!""
( اردو ترجمہ شیخ ایاز )
ہر طرح کی قومیتیں نہایت ڈسپلنڈ ، صاف سُتھری ، ایک جیسے کپڑے پہنے، جس والہانہ انداز سے تلبیہ پڑھتے ہوۓ، گروپ کی صورت میں داخل ہورہی تھیں ، کہ رشک آ رہا تھا ، ۔ ایک ہمارے سرکاری کوٹے پر آنے والے حجاج تھے۔خواتین نے پی آئ اے کی طرف سے دیۓ گۓ کاٹن کے ہلکے نیلے رنگ کے ایسے کوٹ دیۓ ہوۓ تھے جو دو دن میں مچڑ چکے تھے اور ذرا ذرا میلے بھی ہو گۓ ،، اور شاید یہ کوٹ بس بانٹ دیۓ گۓ تھے کہ جس کے جو ناپ کا ہے پہن لو ،،، کیوں کہ اُن خواتین کے لیۓ وہ کوٹ ایسے ہی تھے جو لیڈی ڈاکٹرز پہنتی ہیں ۔ قمیضوں سے اونچے ، اور بے ڈھنگے سلے ہوۓ ہوۓ اور سکارف سادہ سفیدتکون کپڑا، جو صحیح سے سر پر ٹِک بھی نہیں رہا تھا ،،، اور رہی سہی کسر ، احساسِ تفاخر سے معمور خواتین نے کر دی تھی کہ بس سر اور کمر تک کا ایک ، اوپری برقع سا پہن رکھا تھا ، جو جارجیٹ کے کپڑے کا تھا ،، جو اس ارفعٰ مقام کے لیۓ مناسب نہیں لگ رہا تھا ۔ وہاں ہر ملک کے حجاج نے پہچان کے لیۓ کوئ نا کوئ نشانی رکھ چھوڑی تھی ، مثلا" خواتین کے سکارف ایک جیسے اور خوب تیز رنگ کے ہوتے تاکہ دور سے پہچان ہو جاۓ،، کسی گروپ نے اپنا جھنڈا ، پکڑا اور پیچھے سارا گروپ چل رہا ہے ۔ ،،،، اِن میں اگر ٹرکش خواتین ہیں تو ان کی ہلکے فیروزی رنگ کی کھلی پینٹ ، اور اوپر اتنا لمبا بند گلے کا کوٹ تھا جو لازما" گھٹنوں تک یا اس سے بھی لمبا تھا ، ان کے خوب صورت لیسیز لگے ، یا کڑھائ والے سکارف ، اور پہلے وہ سر پر باریک ٹوپی پہنے ہوتیں اوپر سلیقے سے یہ سکارف ہوتا ، اور کسی دن اُن کے بال نظر نہیں آۓ ،،، انڈونیشین ، یا ملائیشن خواتین ،، جن کے عبائیہ اور سکارف ، سبھی سفید تھے ، اور ان پر خوب ایمبرائیڈری ہوئ ہوتی ، جو خوب صورت لگ رہی تھی ،،ایکدن بھی کسی ملیشیئن ، یا انڈونیشین یا نیگروخاتون کے عبائیہ کو میلا نہیں دیکھا ، کیوں کہ وہ اپنے ساتھ تین ، چار ، برقعے لائیں تھیں ،، لیکن اول تو ہماری خواتین خود کوئ فہم نہیں رکھتی تھیں کہ وہ خوب صورت عبائیہ اور سکارف لے آتیں ( ہم سمیت ) ،،، اور کسی ٹریننگ ورکشاپ میں ہمیں کسی نے توجہ نہیں دلائی ۔ کہ لمبے قیام کے لیۓ تین چار عبائیہ لے لو ۔ اور مجھے اس کا افسوس ہے ،، ،حج سے واپسی پر جب کسی ایسی خاتون یا خواتین سے ملنا ہوتا جو حج پر جارہی ہوتیں ،، تو میرا پُر زور، کہنا ہوتا کہ ، اپنے حلیۓ ، معزذ ، اور صاف ستھرے بنا کر جائیں ،، ہم آرگنائز ہو کر جائیں ، کیوں کہ وہاں ہم پوری قوم کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں ،۔ ہمیں تحمل اور بردباری کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے ،۔ ایک دن حرم میں نماز کا وقت ہوا ، تو نماز کی تمام جگہیں بالکل بھر گئیں ، اتنے میں ایک تُرک خاتون ، ادھر اُدھر دیکھتی لوگوں کے درمیان ہوتے ہوئے جگہ ڈھونڈتی پھری ، لیکن کوئی جگہ دینے کو تیار نہ ہوا ،، ہر کوئی ویسے بھی تنگ بیٹھا ہوا تھا ، میں نے جوجی اور نگہت سے چند انچ کھسکنے کی درخواست کی ، دونوں نے جگہ بنا دی ، تو میں نے اسے آنے کا اشارہ کیا ، وہ فوراًآگئی ،اوردوسرے لمحے جماعت کھڑی ہو گئی ،، نماز سے فارغ ہوۓ تو، تو تُرک خاتون نے اپنی زبان میں کچھ کہا ، اور پھر جلدی سے ایک جوس کا، ٹن اور ایک بسکٹ کا چھوٹا پیکٹ نکالا اور مجھے پیش کیا ،، میں نےمسکرا کر انکار کر دیا ، تو زبردستی دینے لگی ، تب میں نے گلے کی طرف اشارہ کیا کہ نہیں پینا ،، البتہ بسکٹ لے لیا ، پھر اس نے سہیلیوں کی طرح میرا ہاتھ پکڑا ، اور اُسے جھلا جُھلا کر کوئی "گانا سا " گایا ، آخر میں میرا ہاتھ چوما اور اللہ حافظ کر کے چلی گئی ، ایک نہایت معمولی حرکت ، نے اس کے دل میں  تشکر  کے جذبات بھر دیۓ تھے ، ہم تینوں خواتین جب کسی دوسری قومیت کے خاندان یا عورت سے ملتیں ، اور کوئی علیک سلیک ،یا کوئی ، لین دین ہوتا ، چاہے پانی ہی کیوں نہ ہو ، تو ہم ضرور " پاکستان ، پاکستان " کا تعارف کرواتیں ۔ تاکہ ہماری قوم کا اچھا امیج بن سکے ، ۔
ہم مکہ 12 دسمبر پہنچے تھے ، اور شروع کے دنوں میں پہلا اور پھر دوسرا عمرہ کیا ،، 23 دسمبر تک میَں اور ہاشم ، شدید گلہ خراب ، اور زکام بخار میں مبتلا ہو گۓ ،، ہم دونوں نے ہی ایک دوسرے کو سنبھالا ، باقی افرادِ گروپ اسی روٹین میں طواف کے مزے لوٹتے رہے ۔ میں اسے دواء کے علاوہ ، غرارے کرنے ، اور سٹیم دینے پر مجبور کرتی ، خود بھی بھاپ لیتی رہی تاکہ جلدی ٹھیک ہو جائیں ، ہاشم کو جب بھی بخار ہوتا ہے تیز ، چڑھتا ہے، ،، خیر مَیں تو دو دن بعد بخار سے نکل آئی ،، لیکن ہاشم بدستور بیمار رہا ، 24 دسمبر 2005ٰء کو مغرب کے وقت گھر سے علی کا فون آیا ، کہ " اماں ، اللہ نے ایک بیٹے سے خیریت سے نواز دیا ہے ،، اور اس کانام ،،،،" محمد عمر علی قریشی " رکھا ہے ،،، میں نے اور ہاشم نے مبارک دی ،، لیکن اسے بیمار ہونے کا نہ بتایا ، کہ خواہ مخواہ فکر کرے گا ۔ جب باقی ، افرادِ گروپ رات کو واپس آۓ تو یہ خوش خبری سنائی ۔ سب نے مبارک دی اور مٹھائی کا مطالبہ کیا ، کہ ہاشم ٹھیک ہو جاۓ ، تو خود لے کر آۓ ،، اس وقت ہمیں خیال آیا ،، جب سے ہم آۓ ہیں ، مٹھائ کی کوئی دکان نہیں دیکھی ، آخر لوکل لوگ میٹھے میں کھجور اور حلوے کے علاوہ کیا کھاتے ہوں گے ! 
یہاں یہ بتاتی چلوں کہ ہمارا کزن اور اس کی بیوی ڈاکٹر طلعت نے اس بخار کے دنوں میں مسلسل کمرے میں آکر دوا کا پوچھنا ، اور تسلیاں دینیں ، کہ یہ بخار ، گلے کی خرابیاں ، لازماً  ہونی ہیں ، ، کیونکہ ایک دنیا ایک جگہ اکٹھی ہو گی تو یہ وائرس ضرور حملہ کرے گا ،، ڈاکٹر کا یوں ہمدردانہ انداز سے کمرے میں آکر تسلی دینا ہی تشفی کا باعث بنا، اورآدھی بیماری جیسے ختم ہو گئی تھی ،، شکر کہ چار دن تک ہاشم بھی ٹھیک ہو گیا ، تب حرمِ کعبہ جا کر بچے کی نعمت کی، اور صائمہ کی خیریت کے لیۓ 
شکرگزاری کے نفل پڑھے ،، اور طوا ف کے دوران بھی اس رب کا شکر ادا کیا ،، کیوں کہ صائمہ بغیر کسی مسئلے کے فارغ ہوئی تھی ، اگلے دن میں نے ، خواب دیکھا کہ علی میری گود میں اپنا بیٹا دیتا ہے تو میں دیکھتی ہوں ، کہ وہ خوب صحتمند بچہ ہے ، اور بڑی آنکھوں والا ہے ، بچہ مجھے "ایک" "آنکھ کھول کر دیکھتا ہے ، میں اسے پیار کرتی ہوں " ،،،،،،،،،،،جب ہم حج سے واپس پہنچے اور ، علی نے اپنا بیٹا مجھے پکڑایا ، تو وہ ہو بہو، اُسی شکل کا تھا جو میں نے خواب میں دیکھا تھا ، اور علی نے بتایا ، یہ جب سو کر اُٹھتا ہے تو پہلے ایک آنکھ کھولتا ہے ، بعد میں دوسری !!! اللہ کی شان ۔ 
ایک دن حرمِ کعبہ میں بیٹھیں ، نماز کے انتظارمیں تھیں ، ہمارے ساتھ تین سانولی ، دُبلی خواتین بیٹھی تھیں ، سلام دعا کے بعد ،ایک دوسرے کے ملک کا بتایا ، وہ ہندوستان کے شہر لکھنؤ کی تھیں ، بہت دھیما لہجہ تھا ، ان میں سب سے بڑی ، 44یا45 کی ہوگی ، باقی دونوں نوجوان لڑکیاں ، 20 ، اور 16 کی تھیں ، بڑی خاتون نے بتایا "میرا نام منیرہ ہے ، میں نے بھی خوش ہو کر بتایا ، کہ میرا نام بھی منیرہ ہے ،، ہندوستانی منیرہ نے مزید کہا " یہ چھوٹی میری بیٹی ، اور یہ ( 20، 21 سالہ) میری بہو ہے ، ہم نے اسکا نام آمنہ رکھا ہے ،،، یہ ہندو مذہب سے مسلمان ہوئی ، تو میرے بیٹے سے نکاح کے وقت " حق مہر " میں اس نے لکھوایا ،، " شوہر کو جیسے ہی توفیق ہوئی ، یہ مجھے حج کرواۓ گا " ،،، اور اللہ نے دوسال بعد ہی یہ موقع دیا کہ بیٹا مجھے اور اپنی بہن کو بھی حج کروا رہا ہے " " ہمارا حج تو دراصل اس بہو کی وجہ سے ہو رہا ہے " ،،، میں تو یہ سنتے ہی جذباتی ہو گئ ، اور آمنہ کو گلے لگا کر رونے لگی ،، ! مَیں نے اسے کہا " تم کتنی خوش قسمت ہو کہ اتنی چھوٹی عمر میں دین کے اہم رکن کو پورا کرنے کو " حق مہر " کے لیۓ مانگا ،،حالانکہ یہ عمر ، سونا ، چاندی ، یا دنیا کی سیر کے ارمانوں والی ہوتی ہے، اللہ تمہارے جذبے کو قبول کرے آمین ،، !( میں آج بھی اس کے لیۓ دعا گو ہوں )۔
ایک دن ، جوجی ، نگہت اور مَیں نے جوں ہی طواف شروع کیا ، میں ہمیشہ ان دونوں کے پیچھے ہوتی تھی ، اور ان میں سے جو میرے آگے ہوتا اس کے عبائیہ کا کپڑا مٹھی میں پکڑ لیتی ،، اس دن طواف شروع ہوا تو پہلے چکر کے بعد ، اپنے کندھے پر ایک ہاتھ محسوس ہوا ، مُڑ کر دیکھا تو ایک ، نہایت معمولی خدوخال والی ، گہری سانولی ، 60، 65 سالہ عورت نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ،، میں نے جو لمحہ بھر کے لیۓ اسے دیکھا تو وہ چہرہ ، زندگی کی مشقتوں سے بھر پور ، محسوس ہوا، میں نے چلتے چلتے ہی اس کے ہاتھ کو تھپتھپایا ۔ اور اب ہم چار خواتین نے طواف کے سات چکر مکمل کیۓ ، مَیں نے آخری چکر میں دیکھا اس کے پاؤں کے انگو ٹھے سے خون نکل رہا تھا ، میں نے فورا" جرابیں اتاریں اور اس کے ہاتھ میں پکڑائیں ، اور طواف مکمل کرتے ہی نفل پڑھنے کا اشارہ کیا کہ برآمدے میں چلو ! لیکن وہ کھڑی رہی ، اور برآمدے تک پہنچ کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ اسی طرح کھڑی ہماری طرف دیکھ رہی تھی ،،، مجھے آج بھی اس کا اپنی زبان میں بولتا جملے کا لہجہ یاد ہے جو خاصے کرخت لہجے میں تھا ، نہ معلوم وہ اکیلی کیوں تھی ،، کیا پتہ وہ کچھ اور بھی کہنا چاہ رہی ہو،، لیکن ہم لوگ ہمیشہ جلدی میں رہتے ہیں ۔
ٹھیک پندھرویں دن ، ہماری بسیں ، مغرب کی نمازوں کے بعد آگئیں ، کہ اب مدینہ جانا تھا ،،، برج الاقصیٰ بہت آرام دہ ہوٹل تھا ، لیکن 40 دن تک قیام کرنے والے حاجیوں کا یہاں مستقل قیام نہیں ہونا تھا ۔ 
27 دسمبر مغرب کو سارا سامان ٹوور والوں کے حوالے کر دیا گیا ، صرف 8 دن کا سامان ہم سب نے الگ رکھ لیا تھا ،، میری طبیعت ، سفر کے خیال سے پریشان ہو گئ تھی ، ایک مُٹھی میں نمک اور لیمو پکڑا ،، ایک سکون کی دوا بھی کھا لی ،،، اور اس وقت ،بس میں ایک اور دور کے رشتہ دار کیپٹن آفتاب ، اسکی بیگم ڈاکٹر عظمیٰ اور آفتاب کی بہن ، اپنے 10 ، 11 سالہ بیٹے کے ساتھ ، تھی ،، اِ ن سے ملاقات ہوئ ، اور مزید ایک دوسرے سے تعارف ہوا۔مغرب سے ہی مَیں نے کھانا ، پینا بھی چھوڑ دیا ، تاکہ ، معدہ میں کچھ ہو گا ہی نہیں ، تو اُلٹیاں نہیں ہوں گی، دعا بھی کرتی رہی کہ ٹھیک رہوں ، اپنے ساتھ چار پانچ شاپرز بھی رکھ لیۓ تھے ،، اللہ کا شکر کہ راستے بھر میں ٹھیک رہی ، پوری رات کے سفر میں بسیں دو دفعہ مختلف ڈھابے ٹائپ ہوٹلوں پر رکیں ، لیکن مَیں نے ایک گھونٹ پانی نہ پیا ، کہ کچھ مسئلہ  نہ ہو جاۓ ۔ ،،، بلکہ راستے کے ان سٹاپ پر بنے ہوٹلز کے باتھ رومز بھی تسلی بخش نہ تھے کہ جا، پاتی ۔ جب کہ سب ہی تازہ وُضو کرتے ، مطمئن ہو گئے ۔ 
( منیرہ قریشی ، 3 فروری 2018ء ، واہ کینٹ ) ( جاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں